صبح کے ابھرتے سورج کے ساتھ ہی لوگوں کی چہل پہل زندگی کا بھرپور نظارہ پیش کررہی تھی، تو قدسیہ بیگم بھی سکون کی سانس لے رہی تھیں۔ بڑے دنوں بعد ان کا بیٹا کمرے سے باہر نکل کے صحن میں آیا تھا اور بالکل نارمل انداز میں بات کررہا تھا۔ بے شک چہر ے پر چھائی ہوئی زردی بتاتی تھی کسی بیماری سے اٹھا ہے، لیکن وہ جسمانی طور پر مکمل ٹھیک تھا۔
”لو گرم گرم پراٹھا اور اچار۔” قدسیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے بیٹے کا من پسند ناشتا اس کے سامنے رکھا ۔فلک صحن میں بچھی چارپائی پہ نیم دراز تھا۔ ناشتے کی ٹرے دیکھ کے اٹھنے کی کوشش کرنے لگا۔
”مجھے ہوا کیا تھا اماں ؟” فلک نے الجھے ہوئے انداز میں سوال کیا، تو قدسیہ بیگم نے حیران ہوتے ہوئے اسی سے سوال پوچھا۔
”لو یہ کیا بات کہی ۔”
”کیا مطلب اماں؟”
”تم بتاؤ میرے بچے۔ اتنے دنوں سے کیوں تنگ کررکھا تھا ہمیں۔” قدسیہ بیگم نے لاڈ سے بیٹے کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”کہاں گئے تھے تم جو اتنے بوکھلائے ہوئے انداز میں گھر کے باہر پڑے ہوئے تھے اس دن۔”
”دنوں سے ؟” فلک نے نوالہ منہ میں رکھتے ہوئے حیرت سے پوچھا۔
”اور کہاں ملا تھا میں اماں؟”
”ہاں تو اور کیا تین چار دن ہونے کو آرہے ہیں جب تم دروازے پر بے ہوشی کے عالم میں ملے تھے۔ ویسے سچی بتاؤں فلک۔ تم نے مجھے اوراپنے ابا کو ڈرا ہی دیا تھا۔ ہم تو دن رات تمہاری ہی پٹی سے لگے بیٹھے رہے بس۔” قدسیہ بیگم کو وہ دن رات یاد آگئے جب رو رو کے ان کی آنکھیں سوج گئی تھیں اور راشد علی بھی ہر کچھ دیر بعد اپنی دکان سے گھر آ کے بیٹھ جاتے تھے۔
”فلک ناشتا چھوڑ کے حیران ہوکے ان کو دیکھنے لگا، لل لیکن …مجھے تو کچھ یاد نہیں۔ کیا ہوا تھا مجھے اماں…”
اماںفلک کو دیکھ کے اندازہ لگاتی ہیں کہ آیا وہ مذاق تو نہیں کررہا۔
”فلک منگل کے دن تم دروازے پر ملے تھے ہمیں اور…”
فلک بے یقینی سے ماں کو دیکھتارہ گیا۔
”منگل اور آج کیا دن ہے؟ اور یہ کیا ہے۔” فلک نے ایک دم اِدھر اُدھر ہوا میں کچھ سونگھتے ہوئے سوال کیا۔
اماں جو پہلے ہی پریشان ہوچکی تھیں ایک دم فلک کے پاس آن بیٹھیں۔
”کیا ہوا فلک ، کیوں ڈر رہے ہو؟”
”یہ پھولوں کی خوشبو کہاں سے آرہی ہے اماں؟”
”کون سی خوشبو؟”
فلک نے بے دھیانی سے اپنی انگلیاں سونگھیں۔
”میرے ہاتھوں سے آرہی ہیں شاید۔”
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
عامل ایک ٹوٹی ہوئی قبر کے پاس بیٹھا غصے سے بل کھارہا تھا۔ اس نے ہاتھ میں چند گیندے کے پھول پکڑے ہوئے تھے۔
”اب اگلے دس سال تک اس وقت کا انتظار کرنا پڑے گا۔ کیوں ہوا ایسا اور وہ بھی آخری لمحات میں …” کالا بلا ساتھ ہی بیٹھا ہوا تھا۔ عامل اسے گھورتے ہوئے انگلی کھڑی کرکے تاکید کرتا ہے۔
”اسے چھوڑنا نہیں ہے۔ اب وہ اس کے پاس جائے گا۔ اس لڑکے کی خواہش پوری کرنے۔ ہمم… شاید…شاید پھرہمیں کوئی موقع مل جائے۔” عامل کھڑا ہوکے ایک دم غصے سے ٹہلنے لگا، لیکن اس کا طیش کسی صورت کم نہیں ہورہا تھا۔
٭…٭…٭
ایشل غصے سے بھری ہوئی ریستوران آئی تھی، لیکن فلک کو دیکھ کے خود ہی پریشان ہوگئی۔ جس کی شیو بڑھی ہوئی تھی۔ نڈھال اتری ہوئی شکل کے ساتھ وہ برسوں کا مریض لگ رہا تھا۔
”کیا ہوا فلک۔ کیا حال بنارکھاہے یہ؟”ایشل نے بے ساختہ اسے دیکھ کے فکر مندی سے پوچھا۔
”وہ پچھلے دن…” ایک دم سر جھٹک کے مسکراتے ہوئے ایشل کو دیکھا اور اس کے چہرے پر نظریں جما کے دھیرے سیکہا۔
”پریشان تو تم بھی لگ رہی ہو مجھے۔”
”پاپا نے… وہ…”
فلک نے ادھوری بات سن کے ہی پورا مطلب سمجھ لیا۔ گہری سانس لے کے کرسی کی نشست سے ٹیک لگالی اور زخمی مسکراہٹ کے ساتھ ایشل کو دیکھا۔
”بالآخر وہ گھڑی آہی گئی جس کا ہمیں ڈر تھا۔”
ایشل سر ہاتھوں میں لے کر پریشانی کے عالم میں بڑبڑانے لگی۔
”کچھ سمجھ نہیں آرہا کیا بول کے تمہارا تعارف کراؤں اب، پاپا کو ایک دم جلدی ہوگئی ہے میری شادی کی۔”
فلک نے جھجکتے ہوئے ایشل سے زیادہ خود کو تسلی دی۔
”جاب مل تو گئی ہے نا…”
ایشل نے تیزی سے اس کی بات کاٹی۔
”کیوں بھول جاتے ہو میرے ہی پاپا کے آفس میں جاب ملی ہے تم کو۔”
”لیکن…”
”حقیقت کو دیکھو فلک… بات سیدھی سی ہے۔ تم مجھے پانے میں ناکام ہورہے ہو اور تمہاری کمزوری کے باعث مجھے بھی تمہاری جدائی برداشت کرنی پڑے گی۔” ایک دم ہی ایشل کی آواز بھراگئی۔
”تو کیا اب چوری ڈاکے ڈالنے لگ جاؤں یار۔” فلک نے تھکے ہوئے انداز میں پہلی بار ہار مانتے ہوئے کہا۔
”ہر چیز تمہارے سامنے ہی ہے، پھر بھی تم الزام میرے سر دھرنا چاہتی ہو، تو کرلو یہ بھی۔”مجھے کوئی اعتراض نہیں۔
”تو بس پھر… مجھے الزام نہ دینا اگر پاپا میری شادی کہیں طے کردیں گے۔” ایشل کو فلک کا ہار ماننا بالکل نہیں بھایا۔
”تم ایک بار…” فلک نے جھجک کے بات ادھوری چھوڑدی، لیکن ایشل سمجھ چکی تھی۔
”ہاں ایک بار تمہارا تذکرہ تو لازمی کروں گی۔” ایشل نے خود کلامی سی کی۔
”شاید کوئی با ت بن جائے اور ویسے بھی…” ایشل نے فلک کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے با ت مکمل کی۔
”میں کوشش کرکے ہار ماننا قبول کروں گی۔”
”اچھی بات ہے ایشل…میں نا سہی تم ہی سہی۔ ہم ایک دوسرے کو پا لیں گے، تو جیت ہماری ہی ہوگی نا۔” فلک نے بھی ایشل کی ہمت بندھائی۔
”تم اکلوتی بیٹی ہو اور پھر لاڈلی بھی تو ہو۔ کیسے ممکن ہے وہ تمہاری ہی شادی میں تمہاری رضامندی شامل نہ کریں۔”
”لیکن میں پاپا کو تم سے بہتر جانتی ہوں۔ وہ میری ہی محبت کی خاطر تم سے شادی کبھی نہیں کرنے دیں گے۔”
”غربت اپنی جگہ مسلم ہے ایشل ،محبت کی واقعی اس دنیا میں کوئی وقعت نہیں ہے۔” فلک نے بھی حقیت کو ماننے میں کوئی تامل نہیں کیا۔
”تم خود ایمان داری سے بتاوؑ۔ تم پاپا کی جگہ ہوتے تو… اپنی اکلوتی بیٹی کے لیے کیا فیصلہ کرتے؟” فلک کے پاس خاموشی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ ایشل نے بھی خاموشی سے اپنا بیگ اٹھایا اور بل کی رقم میز پر دھری۔
”تمہاری خاموشیکا شکریہ فلک… لیکن میں ایک بار کوشش ضرور کروں گی۔”
٭…٭…٭
فلک ریستوران سے نکل کے شدید مایوسی کے عا لم میں فٹ پاتھ پہ آہستگی سے چلا جارہا تھا، اچانک اسے محسوس ہوا کوئی اس کے ساتھ چل رہا ہے ۔ فلک نے چونک کے دائیں بائیں دیکھا، لیکن کوئی نہ تھا۔ فلک نے سر جھٹک کے ایک با ر پھر قدم بڑھادیے وہ ویسے بھی ذہنی طور پر کافی پریشان تھا۔ کچھ ہی دور چل کے اسے پیاس محسوس ہوئی۔ سڑک پار کرکے اس نے گنے کے جوس کی دکان پر رکنا زیادہ بہتر سمجھا بجائے تیس روپے کی پانی کی بوتل خریدنے کے۔ دکان کے پاس ہی بس اسٹاپ بھی تھا جہاں سے اسے اپنے علاقے کی بس بھی مل جاتی ۔گنے کے ٹھیلے پر رکتے ہی، ایک بچہ دو گلاس بھر کے اس کے سامنے آن کھڑ اہوا۔
”دوسرا گلاس کس کے لیے۔” فلک نے حیران ہوتے ہوئے بچے سے پوچھا۔
”یہ آپ کے ساتھ نہیں ہے کیابھائی جان؟”
فلک نے اِدھر اُدھر دیکھ کے سوالیہ نظروں سے بچے کو دیکھا۔
”کون ، کون ہے میرے علاوہ ادھر یار؟”
”دھندے کے ٹیم کیوں مذاق کرتے ہو بھائی؟”
فلک نے ناراض ہوکے ایک گلاس اس کے ہاتھوں سے لے لیا۔
”کیامیں نے تم سے کہا تھا دو گلاس لاؤ؟” ایک تو غلطی کرتے ہو اوپر سے زبردستی بھی کرتے ہو۔
”ارے صاحب ! یہ بھائی مسلسل آپ کے ساتھ چل رہا تھا، سڑک بھی ساتھ پار کی۔ آپ کے ساتھ ہی ٹھیلے پر کھڑاہوا۔” چھوٹو نے ہاتھ سے پیچھے کی طرف اشارہ کیا اور اپنی دکان کو دیکھا۔ چھوٹو نے لمحہ بھر رک کے فلک کا تاثرات دیکھے جہاں ابھی تک غصہ دھرا ہوا تھا، چھوٹو کو بھی غصہ آگیا۔ اس نے جھلا کے ہاتھ بڑھایا اور بھنا کے بولا۔
”اچھا لاؤ بھائی جان گلاس واپس کردو۔ دس روپے کے گلاس کے لیے دس منٹ کھوٹی کرڈالے میرے۔ استاد الگ جھاڑے گا اب، اتنی دیر لگادی ایک ہی گاہک کے پیچھے۔”
فلک نے خاموشی سے دس روپے دیے اور اس کے جانے کے بعد کن انکھیوں سے اِدھر اُدھر دیکھا۔ ساتھ ہی زیرلب بڑبڑایا۔
”دماغ خراب ہوگیا ۔ اندھا نہ ہوتو۔”
فلک کو ہرگز علم نہیں تھا، اس کے عین پیچھے ایک کالا بلا بیٹھا ہوا تھا جہاں چھوٹو نے اشارہ کیا تھا اور اس بلے کے بالکل برابر ہی ایک سایہ مستقل گردش کررہا تھا۔
٭…٭…٭
فلک جو کسی فائل پر سائن کروانے سکندر صاحب کے آفس کی جانب بڑھ رہا تھا ایک دم رک گیا۔ اندر سے باس کی تیز آواز آرہی تھی۔ یقینا کسی کو ڈانٹ رہے تھے۔ فلک ہچکچا گیا اب اندر جائے یا سائن بعد میں کروالیا جائے ۔گیٹ کے انتہائی قریب کھڑے ہوکے اس نے سن گن لینی چاہی۔
”تم ابھی تک بے بی کے پاس کیوں نہیں گئے۔ وہ پندرہ منٹ سے تمہارا انتظار کررہی ہے؟” سکندر صاحب کی غصے میں گونجی ہوئی آواز ابھری۔
”بے وقوف… نکلتے ہوئے کیوں چیک نہیں کیا تھا۔”
فلک نے اتنا ہی سن کے اندر جانے کا فیصلہ کیا ۔ دروازہ ناک کرکے اندر گیا، سکندصاحب نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا، لیکن فون پر بات جاری رکھی ۔
”اب وہ کب تک بیٹھی رہے گی ادھر؟”
”اوکے… فوراً بتا ؤ مجھے۔” سکندر صاحب فون کاٹ کے فلک کی لائی فائل اٹھاتے ہوئے سرسری انداز میں بولنے لگے۔
”آج کل کے ڈرائیورز… کام چور مجال ہے کوئی کام ڈھنگ کا کریں۔”
”کیا ہوا سر؟” فلک بے ساختہ سوال پوچھ بیٹھا۔
”میری بیٹی کب سے گاڑی کا انتظار کررہی ہے اور وہ بے وقوف گاڑی واش کروانے پہنچا ہوا ہے اب بتاوؑ کون جائے گا اسے لینے۔ وہ کھڑی رہے گی جب تک گاڑی واش نہیں ہوجائے گی۔ سینس لیس۔”
”فیکٹری کے ڈرائیور کو بھیج دیں سر۔” فلک نے مشورہ دیا۔
سکندرصاحب نے جھلا کے اس کی جانب دیکھا۔
”اس کو راستہ سمجھانے میں میرا پورا دن گزر جائے گا۔ اففف…” اسی وقت ان کا موبائل بج اٹھتا ہے۔
”لو یہ دیکھو کال پر کال کررہی ہے وہ۔”
”ویسے ایشل خود بھی آسکتی ہے۔ ٹیکسی لے لے وہ…”فلک فائل سکندر کے سامنے رکھتے ہوئے روانی سے بول اٹھا۔
سکندرصاحب ایک دم حیرت سے فون اٹھاتے اٹھاتے رک گئے۔
” ایشل… تم میری بیٹی کا نام کیسے جانتے ہو؟”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});