خونی سایہ — عمارہ خان (پہلا حصہ)

”ہاں بھئی کیا نام ہے اس نئے لڑکے کا۔” سکندر صاحب کی بلند آواز ایشل کو کمرے سے باہر نکلتے ہی آگئی تھی۔
”ہاں وہی جو ماجد کے ریفرنس سے آیا تھا۔ اُس کو دیکھو کیا مسئلہ ہے کیوں نہیں آرہا دو دن سے اور ہاں وہ فائل کل میری ٹیبل پہ ہونی چاہیے۔ اوکے۔” سکندر صاحب نے بیٹی کی آہٹ پاتے ہی بات سمیٹی اور فون رکھ کے محبت کے ساتھ اسے اپنے پاس بلایا۔
”ہیلو بیٹا … ہاؤ آر یو۔”
ایشل باپ کے دیکھتے ہی بے ساختہ مسکرا دی۔
”فائن پاپا۔آپ کیسے ہیں؟”
”پاپا کی جان کبھی ہمارے پاس بھی بیٹھ جایا کرو۔” سکندر صاحب نے ناچاہتے ہوئے بھی شکوہ کردیا۔
”اتنے دنوں سے اپنی پیاری سی شکل بھی نہیں دکھائی پاپا کو۔ پاپا اتنے اداس ہوگئے تھے۔”
”وہ بس ۔ پیپرز قریب ہیں تو…” ایشل نے شرمندہ ہوتے ہوئے بات ادھوری چھوڑی۔
”یہ پڑھائی شادی کے بعد بھی تو ہوسکتی ہے۔” سکندر صاحب نے موقع کا فائدہ اٹھایا۔
”پاپا… پلیز پھر سے نہیں۔ ہماری بات ہوچکی تھی کہ پیپرز کے بعد۔” ایشل نے پھرتی سے ان کو وعدہ یاد دلایا۔
سکندر صاحب جیسے ہی کچھ کہنے لگے،بجتا ہوا فون انہیں خاموش کراگیا۔ فون کی جانب ناگواری سے دیکھ کے انہوں نے کال کاٹ دی۔
”کیا ہوا پاپا؟” ایشل نے سکندر صاحب کے چہرے کے تاثرات کا معائنہ کیا۔
”کچھ ہوا ہے کیا آفس میں …؟”
”کچھ نہیں۔ آفس کی ڈیلی روٹین ہے۔ اسے چھوڑو۔اچھا تم یہ بتاؤ۔ کب فارغ ہورہی ہو اپنی یونیورسٹی سے؟”
”پاپا…” ایشل نے تنک کے کہا، تو سکندر صاحب نے اسے بہ غور دیکھا۔
”آج کلب میں ذیشان ملا تھا۔”
ایشل نے تیکھے اندازسکندر صاحب کو دیکھا۔
”تو میں کیا کرسکتی ہوں پھر؟”
”تمہیں معلوم ہے۔ وہ مجھے تمہارے حوالے سے پسند ہے بیٹے۔” سکندر صاحب نے تحمل سے ایشل کے تیور برداشت کیے۔
”پاپا پلیز… کیا جلدی ہے ابھی۔ اتنے لوگوں سے آپ ملواچکے مجھے۔”
سکندر صاحب ایک دم مسکراتے ہوئے ایشل کو دیکھنے لگے۔ شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
”ایک ہی بیٹی ہے میری۔ کسی راہ چلتے کو تو نہیں دے سکتا نا۔ دیکھ بھال کے خاندانی لوگوں میں دوں گا تاکہ آگے کی لائف بھی اچھی گزار سکے میری بچی۔”
”وہ …وہ میں … کسی…”ایشل کا لہجہ اس کا ساتھ چھوڑ گیا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

ایشل/ سکندر صاحب نے بھی دنیا دیکھی تھی ، سمجھ گئے جوان بچی کی زبان کہاں لڑکھڑا سکتی ہے۔
”وہ پاپا…وہ میرا مطلب تھا کہ …اگر آپ…”
سکندرصاحب نے گہری سانس لے کے سکون سے صوفے سے ٹیک لگالی۔
”جس بات کو شروع کرنے میں اتنا وقت لگ رہا ہے۔ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں میرے لیے کہ وہ کیسی ہوگی؟”
”آپ ایک بار…”
سکندرصاحب نے ہاتھ اٹھاکے بات ختم کرنے کے انداز میں ایشل کو دیکھا۔
”اسی سنڈے کلب میں ڈنر ہے۔ ساتھ چلنا اور ذیشان سے مل لیناتاکہ کوئی فیصلہ کرنے میں آسانی ہو تم کو ۔”
ایشل جو سکندر صاحب کے ری ایکشن سے پہلے ہی پریشان ہوگئی تھی ، حتمی جواب سن کے حیران رہ گئی۔
”پاپا میری بات تو سن لیں۔”
”اب بات ڈنر کے بعدہوگی۔ پہلے تم میری پسند دیکھ لو۔پھر میں تمہاری پسند دیکھ لوں گا۔”
”اوکے؟” سکندر صاحب نے حتمی لیکن نرمی سے بات ختم کی تو ایشل کے پاس کچھ کہنے کو نہیں بچا۔
”اوکے پاپا۔”
٭…٭…٭
”کیا ہوا میرے بچے۔ اٹھو نا کب تک ایسے لیٹے رہوگے؟” قدسیہ بیگم نے جوان بیٹے کو ایسے لاچار اور نقاہت سے کراہتے ہوئے سنا، تو بے ساختہ اس کے پاس بیٹھ کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگیں۔
”میرے بچے کو پتا نہیں کس کی نظر لگ گئی۔ اتنی اچھی نوکری بھی تو لگ گئی تھی نا۔ جلنے والے سے دیکھا نہ گیا۔” قدسیہ بیگم نے آہستگی سے فلک سے باتیں کرتے ہوئے اُسے پکارا۔ فلک سن رہے ہونا۔
فلک جس کی آنکھوں کے گرد حلقے پڑچکے تھے۔ وہ خالی خالی نگاہوں سے قدسیہ بیگم کو دیکھتا رہا۔
”کچھ چاہیے کیا؟” ماں اپنی مامتا کے ہاتھوں ہی تو مجبور ہوجاتی ہے۔
”کہیں درد ہورہا ہے تو بتاؤ ماں صدقے۔ ابھی دبادیتی ہوں۔”
فلک جو کچھ یاد کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ ہوا کیاہے۔ ایک دم چکرآنے کے سبب دوبارہ غنودگی میں چلا گیا۔
”کیا ہوا اٹھا کیا فلک؟” راشد علی دواؤں کا شاپر پکڑے کمرے میں داخل ہوئے۔
”نہیں بس کراہے ہی جارہا ہے۔” قدسیہ بیگم نے بھرائے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔
”چلو اللہ مالک ہے۔ کم از کم ہوش میں تو آہی گیا۔” راشد علی نے ہاتھ میں پکڑے شاپر سے دوائیاں چیک کرکے فلک کے بستر کے برابر رکھیں۔
”پتا نہیں کس بدذات کی نظر لگ گئی میرے لعل کو۔” قدسیہ بیگم نے فلک کا سر سہلاتے ہوئے دل کی بھڑاس نکالی۔
”غارت ہو وہ مردود کہی کا۔”
راشد علی نے مسکراتے ہوئے اپنی زوجہ کے کوسنے سنے۔
”ایک کپ چائے اگر مل جاتی، تو…”
”آپ کو چائے کی پڑی ہے۔ ادھر میری جان پر بنی ہوئی ہے فلک کے ابا۔ دیکھو تو کیسے پڑا ہوا ہے میرا جوان بچہ۔”
”ہاں ہاں ٹھیک ہے میں خود ہی بنا لیتا ہوں پھر۔” راشد علی نے چپکے سے سر ہلاتے ہوئے باہر کی راہ لی۔
”ایک تو ان کی بے وقت کی فرمائشوں سے میں بہت تنگ ہوں۔” قدسیہ بیگم نے راشد علی کی پشت کو گھورتے ہوئے زیر لب کہا اور سوئے ہوئے فلک شیر کے ماتھے پر بوسہ دے کے راشد کے پیچھے ہی کچن میں چلی گئی۔
ان کے جانے کے بعد فلک کے بیڈ کے نیچے سے کالا بلا نکل کے کمرے کی اکلوتی کھڑی سے باہر نکل گیا۔
٭…٭…٭
”ہوں کیسا رہا۔” عامل نے سامنے بیٹھے کالے بلے کو گھورتے ہوئے پوچھا۔
”اچھا اچھا۔ رکھو اس پر نظر میں دیکھتا ہوں۔ کم بخت نے سارا کھیل ہی بگاڑ دیا میرا۔ سزا تو دینی ہی پڑے گی نا اب…”
بلا سکون سے ایک کونے میں بیٹھ کے اپنے جسم کو چاٹنے لگا۔
”اب دس سال انتظار کرنا ہوگا۔ اس بار تو وہ میرے ہاتھ سے نکل گیا، لیکن خیر بچ کے کہاں جائے گا۔” عامل نے جھگی میں ٹہلتے ہوئے خودکلامی جاری رکھی۔
”اگلی بار بھی مل ہی جائے گا کوئی نا کوئی میرے مطلب کا انسان جو پھر قبرستان میں…” بلند و بالا قہقہے کی گونج جھگی سے باہر دور تلک قبرستان کی ویران فضا تک گئی۔ بلے نے چونک کے عامل کو دیکھا اور بے نیازی سے ایک بار پھر اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔
٭…٭…٭
”اماں… اماں…”فلک کی نقاہت بھری آوازسن کے قدسیہ بیگم نے پھرتی کے ساتھ پانی کا بھرا جگ سائیڈ پر دھرا اور اپنے جگر گوشے کی جانب لپکیں۔
”ماں صدقے… میرا بچہ اٹھ گیا۔”
”اماں سردی لگ رہی ہے۔” فلک نے اُٹھنے کی کوشش کی اور ایک دم ہی تکیے پر سر گرالیا۔
”ہائے میں قربان… مت اٹھ مت اٹھ۔” قدسیہ بیگم نے کمرے کے کونے پر رکھے صندوق کے اوپر سے رضائی اتارتے ہوئے فلک کو دیکھا اور دل برداشتہ ہوتے ہوئے خودکلامی کی۔
”پتا نہیں کس کی نظر کھاگئی میرے گھر کی خوشی کو۔”
”کیا ہوا قدسیہ ۔کیا فلک جاگ گیا۔” راشد علی نے جو باتوں کی آواز سنی تو خود کو کمرے میں جانے سے روک نہیں سکے۔
فلک نے نظریں گھما کے ابا کو دیکھا اور آہستگی سے ان کو مخاطب کیا۔
”ابا…”
”بولو بیٹے۔” راشد علی لپک کے بیٹے کی سمت بڑھے اور اس کے سرہانے بیٹھ کے محبت پاش نظروں سے دیکھنے لگے۔
”کچھ چاہیے تمہیں ۔”
فلک حیرت سے ابا کے پیچھے دیکھ رہا تھا۔ راشد علی اس کی نظریں محسوس کرکے پیچھے پلٹے اور سوالیہ انداز میں فلک کی طرف دیکھنے لگے۔
”کیا ہوا فلک؟”
یہ کون ہے ابا؟ فلک نے ایک بار پھر راشد علی کے پیچھے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
قدسیہ بیگم اور راشد علی نے حیرت سے ایک وسرے کو دیکھاا ور کمرے کی محدود جگہ میں نظریں گھمائیں …
”کون؟”
”یہ جو آپ کے پیچھے کمرے میں داخل ہوا ہے۔”
”میرے پیچھے؟” راشد نے انگلی اپنے سینے پر رکھی۔
”گھر میں تو اور کوئی ہے ہی نہیں۔”
”وہ رہا نا ابا ”۔ فلک نے الجھے ہوئے انداز میں ایک ہی جگہ دیکھتے ہوئے ابا کو ایک سمت اشارہ کیا۔ وہ کھڑا ہوا ہے۔
راشد علی نے حیرت اور پریشانی کے عالم میں قدسیہ بیگم کو دیکھا جو پہلے رونے کے لیے منہ بسور رہی تھیں۔ دونوں نے بہ غور چھوٹے سے کمرے کو اچھی طرح دیکھا۔ قدسیہ بیگم بالآخررونے لگیں۔
” کیا ہوگیا ہے میرے بچے کوفلک کے ابا کچھ کرو نا۔دیکھو کیسی بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے۔ ضرور کسی نے کچھ کرادیا ہے اس پر۔ کسی مولوی کو بلاؤ وہ دم درود کرے۔ یقینا کوئی بلا پیچھے پڑگئی ہے اس کے …”
راشد علی روتی ہوئی قدسیہ بیگم کو دیکھ کے پریشان ہوتے، تو کبھی جوان بیٹے کوتکتے۔ جو ابھی تک ان کے پیچھے کسی کو نظروں میں بھرے ہوئے تھا۔
چھوٹے سے کمرے میں جہاں تین نفوس ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ وہیں بیڈ کے نیچے براجمان کالا بلا، اسی جگہ کونفرت سے گھور رہا تھا جہاں فلک نے اشارہ کرکے پوچھا تھا۔
”کون ہے وہ…”
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

بلا عنوان — ثناء شبیر سندھو

Read Next

کچن میں ایک دن — نایاب علی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!