فلک جہاں ایک طرف وہ آواز سن کے پریشان ہوچکا تھا وہیں تھالی دیکھ کے بھی حیران تھا۔ اسی وقت اسے اپنے پیچھے سے آہٹ سنائی دی جسے محسوس کرکے وہ بدحواسی کے عالم میں فوراً ہی پلٹا۔ سامنے ہی دو چمکتی ہوئی آنکھیں ، خود پر مرکوز پا کر فلک کے جسم و جاں میں سنسنی دوڑ گئی۔
”ہشش ہشش…”
دھیمی لیکن بدحواسی سے آوازنکالتا فلک دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔ وہ اس ماحول سے خوف کھانے لگا تھا ، لیکن وہ بلا ہشش ہشش کی آواز سن کے ٹس سے مس نہیں ہوا، تو فلک شیر اُسے ڈرانے کے لیے آس پاس کوئی چیز ڈھونڈنے لگا۔
میاؤں …بلے نے فلک کو ادھر ہی جمے دیکھ کے اس پر نظریں جمائے غرانا شروع کردیا جسے سن کے فلک غیرارادی طور پر وہی تھالی اٹھا نے جھکا۔ بلے نے فلک کو تھالی اٹھاتا دیکھ کر اس پر چھلانگ لگادی، لیکن فلک زیادہ پھرتیلا ثابت ہوا۔ اس نے فوراً ہی تھالی گھما کے بلے کو دے ماری۔ غصے سے بھری ہوئی چنگھاڑ کے ساتھ بلے نے ہوا میں ہی ساکت ہوکے اپنا رخ بدل لیا، جسے دیکھ کے فلک ہکا بکا رہ گیا۔ تھالی اپنی طاقت سے گھماتے ہوئے فلک خود پر قابو نہیں پاسکا اور نیچے گرگیا جہاں گیندے کے پھول پڑے تھے۔ فلک ایک بار پھر تیزی سے اٹھا۔ اس کے ہاتھوں تلے گیندے کے پھول مسل گئے۔ بلا تیزی سے ہوا میں ہی گھومتا ہوا فلک کی جانب بڑھا۔ اسی وقت تیز آواز میں بادل گرجے اور بجلی چمک اٹھی۔ فلک نے بجلی کی چمک میں بہ غور بلے کو دیکھا اور اسی تھالی کو ایک بار پھر اس کی اُچھال دیا۔ بلا اس تھالی کو پاس آتا دیکھ کے گھبرا کے پیچھے بھاگا جیسے کسی خطرناک چیز کو دیکھ لیا ہو۔ فلک نے اس عجیب و غریب بلے کو بدحواس ہوتے دیکھ کے قبرستان سے بھاگنے میں ہی عافیت جانی۔
٭…٭…٭
جہاں ایک طرف قبرستان میں یہ لڑائی جار ی تھی، تو دوسری طرف عامل اپنی جھگی میں غصے سے کف اڑاتا ہوا ٹہل رہا تھا۔ گاہ بہ گاہ عکس کی سمت دیکھ کے وہ ہاتھ مسل رہا تھا ساتھ ہی زیرلب فلک کو برا بھلا بھی کہہ کے اپنی دل کی بھڑاس نکال رہا تھا۔
”کون خبیث تھا یہ جس نے میرا عمل خراب کردیا۔ اتنی مشکل سے یہ وقت ہاتھ آیا تھا۔ دس سال… دس سال اس وقت کا انتظار کیا تھا میں نے۔ اچھا نہیں کیا تو نے۔” عامل نے ہاتھ مسلتے ہوئے غائبانہ اسے دھمکی دی۔
”سزا ضرور ملے گی تجھے۔ اب تو دیکھنا میں کیا کرتا ہوں تیرے ساتھ…”
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
چھوٹے سے صحن میں جلے پاؤں کی بلی کے مانند ٹہل ٹہل کے قدسیہ بیگم کے پاؤں شل ہوگئے تھے، لیکن ان کے دل کو کسی طور قرار نہیں مل رہا تھا۔
”ہائے فلک کہاں ہو… آبھی جاؤ ماں پر رحم کرو۔” دعا مانگ مانگ کے بھی ان کی تسلی نہیں ہورہی تھی۔ راشد علی مایوسی سے نفی میں سر ہلاتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے تو قدسیہ بیگم مزید پریشان ہوگئی۔
”کہاں جاسکتا ہے رات گئے فلک… کہیں کسی مشکل میں، تو نہیں پھنس گیا۔” قدسیہ بیگم کے ذہن میں مختلف قسم کے وہم اپنا گھر بنا رہے تھے کہ اچانک زوردار آواز میں بادل گرجے اور ہر سو اندھیرا ہوگیا۔
لو اس لائٹ کو بھی ابھی ہی جانا تھا۔ قدسیہ بیگم نے جھلاتے ہوئے بلند آواز میں واپڈا (لیسکو) کی شان میں قصیدہ پڑھا۔
٭…٭…٭
فلک جو کچھ دیر تک بدحواسی کے عالم میں بھاگے چلا جارہا تھا۔ سانس پھولنے کے سبب اپنی رفتار ہلکی کرنے پر مجبور ہوگیا۔ ڈرتے ڈرتے پلٹ کے دیکھا، لیکن سوائے اندھیرے کے کچھ نہیں تھا۔
”کیا واقعی ابھی جو میرے ساتھ ہوا وہ حقیقت تھی۔” فلک نے بے دھیانی میں ہاتھ میں پکڑے ہوئے گیندے کے پھول مسلتے ہوئے خودکلامی کی۔ اب وہ دھیرے دھیرے چلتے ہوئے مسلسل ان پھولوں کو مسل رہاتھا اور کچھ دیر پہلے کے ہونے والے واقعہ کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اس کی ذہنی رو ایک بار پھر ایشل کی جانب ہوگئی۔
”کیا ہوگا اب، کیا ایشل ہمیشہ کے لیے مجھ سے بچھڑ جائے گی۔” فلک اپنی ہی سوچوں میں گم تھا کہ اچانک اسے محسوس ہوا کوئی اس کے ساتھ چل رہا ہے۔ قدموں کی ہلکی ہلکی آواز آرہی تھی، لیکن کوئی نظر نہیں آرہا تھا ۔اس نے چونک کر پلٹ کے دیکھا، لیکن کوئی نہ تھا۔ اب قدموں کی سرسراہٹ کے ساتھ فضا میں کسی کی گہری گہری سانسوں کی آواز بھی شامل ہوگئی تھی۔ فلک نے گھبرا کے ایک بار پھر چاروں طرف دیکھا، حد نگاہ ویرانی ہی تھی۔ اس نے قبرستان کے دروازے کو دیکھ کے تیزی سے آگے بڑھنا شروع کردیا۔ اسی کے ساتھ فلک کے انتہائی قریب سے کسی کے چلنے کی آواز بھی آنے لگی۔ جیسے کوئی اس کے ساتھ چل رہا ہو۔ فلک نے پریشانی کے ساتھ رک کے بلند آواز میں پوچھا۔
”کک کون…کون ہے ادھر؟”
مدھم سی سانس لینے کی آواز ضرور آئی، لیکن سانس لینے والا دکھائی نہیں دیا۔
”کک کون ہو تم…کیا چاہیے۔” فلک بے ساختہ رک کے اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔
”ہیلو… کوئی ہے ادھر؟” جواب نہ پا کے فلک نے اس بار بھاگتے ہوئے قبرستان سے باہر نکلنا چاہا، لیکن اسی وقت ہر سو اندھیرا چھا گیا۔ یقینا ڈھلتے ہوئے چاند کو بدلیوں نے ڈھانپ لیا تھا۔ اندھیرا ہوتے ہی کہیں قریب سے بلے کی میاؤں سنائی دی۔ فلک کاد ل اچھل کے حلق میں آگیا۔ اچانک بلے کی آواز فلک کے دائیں سمت سے آئی جیسے وہ حملہ کرنے والا ہو۔ فلک بدحواس ہوکے اندھوں کی طرح اپنے ہاتھ دائیں بائیں گھمانے لگا ساتھ ہی ہذیانی طریقے سے چیخنا شروع ہوگیا۔
”کون ہو تم… کیا کررہے ہو یہ۔ کیا ہے یہ سب؟”
بلے کی غراتی ہوئی آواز بھی فلک کی بوکھلاہٹ کی نذر ہوگئی۔
”کک کیا ہورہا ہے یہ؟”
”نہیں…نہیں …نہیں…”
”چھوڑدو مجھے…”
دور کہیں درختوں پر بیٹھے اُونگتے پرندے بھی انسانی چیخ سن کے چونک گئے تھے۔ فلک کو ایسا محسوس ہوا بلے نے اس کے چہرے کو بُری طرح جکڑ لیا ہو اسے سانس لینے میں تکلیف ہورہی تھی۔ یکایک اس نے گہری سانس لینے کی آواز سنی اور اسی کے ساتھ اندھیرے کی نذر ہوتے ہوئے ذہن نے واضح طور پر بلے کو چہرے سے دور ہوتا محسوس کیا۔
٭…٭…٭
”ایک با ر اور دیکھ آتے فلک کے ابا۔ میرا دل ہولے جارہا ہے قسم سے۔” قدسیہ بیگم نے پست آواز میں راشدعلی کو پکارا اور خود گھبرائے ہوئے انداز میں دونوں ہاتھ مسلنے لگیں۔
”ہاں میں بھی سوچ رہا تھا۔ اب تو کافی دیر ہوگئی ہے۔” راشد علی نے پرسوچ انداز میں باہر اندھیرے کو دیکھا۔
”اتنا وقت تو اس نے کبھی نہیں لگایا۔”
میرا جی سخت گھبرارہا ہے ، ایسالگ رہا ہے فلک کسی مشکل میں ہے۔” قدسیہ بیگم کا گلا بند ہوگیا۔
”پتا نہیں کہاں رہ گیا میرا بچہ ؟”
”ارے بھئی کیوں پریشان ہورہی ہو نیک بخت۔آتا ہوگا۔ میں ایک بار پھر دیکھ آتا ہوں۔ پھر ماجد کو بھی فون کرکے پوچھتا ہوں کیا معلوم فیکٹری میں ہی رک گیا ہو کسی کام سے۔” راشد علی نے اپنی چپل کی تلاش میں نظریں گھمائی اور قدسیہ بیگم کو مزید تسلی دی۔
”نئی نئی نوکری ہے نا، کام کرکے ہی مالکوں کی نظر میں آئے گا فلک۔ ”
قدسیہ بیگم نے بھی سمجھتے ہوئے سر ہلایا اور ان کے ساتھ دروازے کی جانب بڑھیں۔
”میں روڈ تک جاتا ہوں اس بار۔” راشد علی دروازہ کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھایا اور پلٹ کے پاس کھڑی قدسیہ بیگم کو تسلی دی۔
قدسیہ بیگم کی پریشانی کم ہوتی دیکھ کے راشد علی نے بھی سکھ کی سانس لی اور دروازہ کھولا۔ پھر بے ساختہ چیخ پڑے۔
”فلک فلک۔ ارے کیا ہوگیا یہ؟”
قدسیہ بیگم نے فلک کا نام سنتے ہی تیزی سے راشد علی کو ایک طرف کیا اور خود باہر نکل گئیں۔ گھر کے دروازے کے عین سامنے پڑے فلک کو دیکھ کے وہ بدحواس ہوگئی۔
”ہائے ہائے، کیا ہوا میرے بچے کو۔ ایسے کیوں پڑا ہے تو۔ ارے دیکھیں نا اسے کیا ہوگیا ہے؟”
راشد علی نے بھی ہر ممکن تیزی سے فلک کو اٹھانا چاہا، لیکن ڈھلتی عمر اور جوان جسم کا مقابلہ کوئی نہیں تھا۔ دونوں نے جان توڑ کوششوں کے بعد بالآخر فلک شیر کوگھسیٹ کے گھر کے اندر کرہی لیا۔
”ہوا کیا اسے؟” قدسیہ بیگم نے اپنی پھولی ہوئی سانسوں کے درمیان فلک کے ہلتے ہوئے ہونٹوں کو بہ غور دیکھتے ہوئے کان اس کے قریب کیے۔
”جاؤ جاؤ… جاؤ ادھر سے…چھوڑ دو مجھے۔”
راشد علی جو ہاپنتے ہوئے چارپائی پر بیٹھ گئے تھے وہ بھی بوکھلا گئے۔
”کیا بول رہا ہے یہ قدسیہ؟”
”پتا نہیں فلک کے ابا ۔ دیکھیں تو ذرا ۔۔کیسی بہکی بہکی باتیں کیے جارہا ہے میرابچہ۔” قدسیہ بیگم روہانسی ہوگئیں۔
”کسی کا سایہ تو نہیں پڑگیا اس پہ؟”
”کون ہو تم …جاؤ ادھر سے جاؤ… میں نے جان بوجھ کے کچھ نہیں کیا۔” فلک نیم بے ہوشی میں مسلسل بڑبڑا رہا تھا۔
”ہٹو اسے تھوڑا آرام تو کرنے دو۔” راشد علی نے پریشان ہوتے ہوئے قدسیہ بیگم کو ایک طرف کیا جو رونے کی بھرپور تیاری کرچکی تھیں۔
”میں کہتا ہوں چھوڑ دو مجھے۔” فلک نے ایک بار پھر اپنے ہاتھ دونوں جانب پھیلاتے ہوئے کسی نادیدہ طاقت سے اپنا آپ چھڑانے کی کوشش کی۔
قدسیہ بیگم اور راشد علی نے ایک دوسرے کو پریشان ہوکر دیکھا۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا چوکھٹ کے عین اوپر ایک کالا سیاہ بلا بہ غور ان تینوں کو دیکھ رہا تھا۔
٭…٭…٭
ایشل جس دن سے فلک سے مل کے آئی تھی ، دنیا چھوڑ بیٹھی تھی۔ وہ یونی ورسٹی جارہی تھی نہ کمرے سے باہر نکلتی تھی۔ بالآخر دو تین دن کے بعد سکندر صاحب نے اس کی غیر موجودگی کو نوٹس کرہی لیا۔
”بی بی جی ۔ صاحب بلارہے ہیں۔” ملازمہ نے دروازے پر ہلکی سی دستک دیتے ہوئے ایشل کو مخاطب کیا۔
”اچھا!” ایشل نے بے زاری سے اپنا حلیہ دیکھا جو مسلے ہوئے کپڑوں اور الجھے ہوئے بالوں کے ساتھ کافی بے چارہ سا لگ رہا تھا۔
ملازمہ جواب سن کے جیسے ہی جانے لگی۔ ایشل بے ساختہ اسے آواز دے بیٹھی۔
”اچھا سنو، وہ پاپا کا موڈ کیساہے؟”
”موڈ کا تو معلوم نہیں بی بی لیکن…” ملازمہ نے جھجک کے بات ادھوری چھوڑی۔
ایشل جو اپنے حلیے کی طرف متوجہ تھی ، ایک دم چونک گئی …
”لیکن کیا؟”
وہ کسی کو فون پر ڈانٹ رہے تھے۔ کوئی فیکٹری کا ورکر ہے جو چھٹیاں کررہا تھا۔
”اچھا چلو جاؤ۔ آتی ہوں میں۔ ایشل نے ہاتھوں سے بال سمیٹے اور دوپٹے کی تلاش میں نظریں گھمائیں۔”
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});