خونی سایہ — عمارہ خان (پہلا حصہ)

”میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ قسمت ہی خراب ہے میری۔ اس دنیامیں غریب ہونے سے اچھا ہے انسان مر ہی جائے۔”
فلک، ایشل سے ملنے کے بعد مایوسی کا شکار ہوکے پیدل چلا جا رہا تھا۔ کچھ نہیں معلوم کہاں تھا کس علاقے میں تھا۔ بس جہاں ایشل نے ڈراپ کیا وہیں سے چلنا شروع ہوگیا۔ طویل فٹ پاتھ پر جب تک چل سکتا تھا چلا اور پھر وہیں تھک ہار کے مایوس سا بیٹھ گیا۔ جس ٹوٹی ہوئی دیوار سے ٹیک لگا کے بیٹھا تھا وہیں پاس پڑے ہوئے چھوٹے چھوٹے پتھر اٹھا اٹھا کے ہوا میں اچھالنے لگا۔ میں بھی ایسے پتھروں کی طرح ہوں جن کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ را ہ میں پڑے پڑے اپنی زندگی گزار دیتے ہیں۔ نہ جانے کتنا وقت بیت گیا تھا۔ ہلکا سا اندھیرا ارد گرد پھیل چکا تھا، لیکن فلک شیر کو کوئی احسا س نہیں تھا۔
ایک دم ایک بزرگ راہ گیر جو سفید لباس زیب تن کیے ہوئے تھے نمودار ہوئے۔ ہاتھ میں پکڑی ہوئی تسبیح ہلکے ہلکے ہچکولے کھا رہی تھی۔
”بیٹے یہ وقت ایسی جگہوں پر بیٹھنے کا نہیں ہوتا۔” فلک کے عین سامنے آکے انہوں نے نرمی سے اسے مخاطب کیا۔
فلک نے سرسری سی نگاہ ان پر ڈالی ور پتھر اچھالتے ہوئے بے خیالی سا سوال کیا۔
”کون سی جگہ، کیا خاص بات ہے اس جگہ…”
”تم کو نہیں معلوم میرے بچے ۔ تم کہاں بیٹھے ہوئے ہو وہ بھی اس وقت…”
فلک نے بے دھیانی میں انہیں دیکھااور اِدھر اُدھر ماحول کا جائزہ لیا۔
”کیا ہر جگہ امیر لوگوں کی ہی اجارہ داری ہے ، ہم کہیں بیٹھ بھی نہیں سکتے؟”
”یہ قبرستان کا پچھلا حصہ ہے بیٹا ۔ جاؤ گھر جاؤ شاباش۔”
فلک نے مایوسی سے سر ہلاتے ہوئے شکستہ لہجے میں سرگوشی کی۔
”زندہ انسانوں سے، تو یہ مردے ہی بہتر ہیں کم از کم کوئی پریشانی تو نہیں ہے انہیں، سکون سے لیٹے ہوئے ہیں۔”
”مایوسی کفر ہے۔ اللہ سے لو لگاؤ۔ وہ مشکل کشا ہے۔” بزرگ نے جذب کے عالم میں آسمان کی طرف ہاتھ بلند کرکے فلک کو تسلی دی۔ اس سے مانگو وہ دیتا ہے۔
”ساری زندگی ہوگئی اس سے مانگتے ہوئے۔ اس سے اچھا کسی عامل سے کوئی عمل سیکھ لیتا، تو آج یہ دن نہیں دیکھنا پڑتا۔” فلک کے ذہن سے وہ وقت نہیں نکل رہا تھا جب ایشل نے اسے بتایا کہ سکندر کریم اس کے پاپا ہیں۔
”ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے بیٹے۔ اس سے پہلے نہیں اور بعد میں نہیں۔” بزرگ نے تحمل سے فلک کو جواب دیا۔
”ہم غریبوں کا ساراوقت پریشانی کے لیے ہی مقرر ہے شاید۔ پیسہ، سکون، شہرت اور مزے ہر چیز صرف امیروں کے لیے ہی لکھ دی گئی ہے۔” فلک مایوسی سے باہر آنے کو تیار ہی نہیں تھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”ایک خوشی تھی اس تکلیف دہ زندگی میں۔ لگتا ہے وہ بھی اب نہیں ملے گی۔”
”میرا کام سمجھانا تھا، وہ کردیا۔ اب تم جانو تمہاری جلد بازی جانے، لیکن یاد رکھنا ملے گا وہی جو تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے۔”
بالآخر بزرگ نے بات ختم کرنی چاہی اور انتہائی نرمی سے فلک کو سمجھا کے یک دم غائب ہوگئے۔
بزرگ کے غائب ہوتے ہی فلک نے سٹپٹا کے حیران نگاہوں سے آس پاس اُنہیں دیکھنا چاہا، لیکن کسی ذی روح کو نہ پاکے کندھے اُچکا لیے۔ تیزی سے پھیلتے اندھیرے کو دیکھتے ہوئے گہری سانس لی اور گھر جانے کے لیے کھڑا ہوا۔
”ہوں شارٹ کٹ لیتا ہوں۔” قبرستان کی ٹوٹی ہوئی دیوار دیکھ کے فلک کو ایک دم خیال آیا۔
”کچھ پیسے ہی کرائے کی مد میں بچ جائیں گے۔” فلک نے ٹوٹی دیوار کا سوراخ دیکھتے ہوئے سوچا اور قدم بڑھادیے۔
”اس قبرستان کی طرح میرے دل کو بھی ویرانی کھا جائے گی اب شاید۔” فلک نے اردگرد ٹوٹی پھوٹی قبروں کو دیکھتے ہوئے تلخی سے زیرلب کہا۔
”کاش کوئی جادوہی ہاتھ لگ جائے تو پلک جھپکتے میرے مسائل حل ہوجائیں۔ ایشل تمہارے بنا بھی کوئی جینا ہوگا کیا ۔ کاش کچھ ایسا ہوجائے تم میری ہوجاوؑ۔ میں کیسے رہوں گا تم سے بچھڑ کے۔” انہی سوچوں میں گھرا ہوا فلک یکایک ایک دھنسی ہوئی قبر میں جاگرا۔ اسی کے ساتھ زوردار آواز میں بادل گرجے اور کہیں دور بجلی گری۔
٭…٭…٭
عامل اپنی جھگی میں بیٹھا جاپ پڑھ رہا تھا کہ ایک دم اسے جھٹکا سا لگا۔ بے ساختہ اس نے اپنی آنکھیں کھول دیں اور ماتھے پر بل نمودار ہوگئے جیسے کوئی ناگوار احساس ہوا ہو۔ وہ خاموشی کے ساتھ ایک ٹک سامنے گھورنے لگا۔ رفتہ رفتہ اس کے چہرے پر بدحواسی نمودار ہونے لگی۔
”نہیں نہیں…ایسا نہیں ہوسکتا۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔” نفی میں سر ہلاتے ہوئے عامل نے فورا ًہی کچھ پڑھ کے بائیں سمت زمین پر پھونکا، تو سامنے ہی آئینے کی طرح اندھیرا ہوتے قبرستان کا عکس اس میں نظر آنے لگا۔ کوئی ہیولہ تھا جو تھکے تھکے انداز میں قدم بڑھا رہا تھا۔ یکایک وہ ایک جگہ گر گیا اور اس کے پاس ہی وہ تھال تھا جو اس عورت نے کچھ ہی دن پہلے وہاں دبایا تھا۔
”ہوں… جا جاکے اسے روک ورنہ ستم ہوجائے گا۔” عامل نے غصے سے کالے بلے کو مخاطب کیا جو کہیں نہیں تھا۔
”میں کہتا ہوں جا جلدی جا اس لڑکے کو روک دور کردے اس جگہ سے ورنہ…”
میاؤں کی تیز آواز چھوٹی سی جھگی میں گونج کے رہ گئی جب کہ جھگی میں سوائے عامل کے کوئی نہیں تھا۔
”برسوں انتظار کیا ہے اس پل کے لیے ، میں اس عمل کوخراب نہیں ہونے دوں گا۔ کون ہے، تو لڑکے ، تیری ہمت کیسے ہوئی اس جگہ آنے کی۔”
عامل کی آنکھیں غصے سے سرخ ہوچکی تھیں ، وہ بہ مشکل ہی اپنا غصہ برداشت کررہا تھا۔
٭…٭…٭
”کہاں رہ گیا یہ فلک بھی، اتنی رات ہوگئی ہے اور اس کا کوئی اتا پتا ہی نہیں۔” قدسیہ بیگم نے بار بار چمکنے والی بجلی سے خائف ہوکے ایک بار پھر دروازہ کھولا اور دور تک سنسان گلی کو بہ غور دیکھا۔
”آجائے گا، پریشان کیوں ہوتی ہے نیک بخت۔” راشد علی نے انہیں تسلی دی۔
”میرا دل بہت گھبرا رہا ہے۔پتا نہیں کیوں۔” قدسیہ بیگم نے دروازہ بند کیا اور پانی کا گلاس لے کے چارپائی پر بیٹھ گئی۔
”جی بیٹھا جا رہا ہے۔”
”ارے بھئی ، آپ کا بیٹا جوان بندہ ہے اب تو برسرروزگار بھی ہے ۔ ہوگا دوستوں میںوقت گزارنے۔”
”آپ اگر ایک بار جا کے دیکھ آتے تو…”قدسیہ بیگم نے آس بھری نگاہوں سے اپنے مجازی خدا کو دیکھا جیسے وہ باہر جائیں گے اور پندرہ سال پہلے کی طرح کان سے پکڑے فلک کو گھر لے آئیں گے۔
راشد علی نے یہ فرمائش سنتے ہی اپنے کمرے میں جانے کو ترجیح دی۔
”ارے بھئی چھوڑو بھی، اس سمے کہاں ڈھونڈتا پھروں گا میں اسے۔ ذرا حوصلہ رکھو آجائے گا۔ کل آفس بھی تو جانا ہے نا اس نے۔”
”ہاں لیکن پھر بھی اتنی دیر نہیں لگائی اس نے۔ اسی لیے شاید مجھے گھبراہٹ ہورہی ہے۔”
راشد علی نے کمرے کی چوکھٹ پر کھڑے ہوکے اپنی شریک سفر کو دیکھا اور گہری سانس لے کے باہر جانے کی نیت کی۔
‘اوہو اب تم نے مجھے لیٹنے نہیں دینا بس۔ دیکھتا ہوں کہاں رہ گیا آپ کا صاحبزادہ۔”
قدسیہ بیگم کے چہرے پر پھیلتا ہوا سکون راشد کی نظروں سے مخفی نہیں رہا۔
”ایک تو یہ مائیں بھی نا…”
٭…٭…٭
فلک جس جگہ گرا تھا وہیں کچھ ہی دور مٹی میں دبی ہوئی تھالی نظر آرہی تھی۔ وہ حیرت سے اسے الٹ پلٹ کے دیکھنے لگا۔ سامنے ہی گیندے کے سوکھے پھول، ہڈی اور کالے دھاگے میں پروئی ہوئی مرچ کے ساتھ لیموں بھی بکھرے ہوئے تھے ، جو ایک لڑی میں پروئے ہوئے تھے۔ فلک نے حیرانی سے وہ چیزیں دیکھیں، بے خیالی میں ہڈی کے برابر گرہ لگا ہوا دھاگا اٹھا کے اپنی کلائی پر باندھ لیا، ساتھ ہی پھول اٹھا کے سونگھنے لگا۔
ایک دم تیز آواز میں بجلی کڑکی اور تند ہوا چلنے لگی۔ فلک بجلی کی تیز آواز سے ہڑبڑا ساگیا ، اسی کے ساتھ فلک کو احساس ہواوہ کہاں ہے۔ اس نے گھبر اکے چاروں طرف دیکھا۔ اجاڑ قبرستان رات کے اس وقت کافی ہولناک لگ رہا تھا۔ اس جگہ کہیں سے بھی کوئی روشنی نہیں آرہی تھی اسی لیے ٹوٹی پھوٹی قبریں وحشت ناک منظر پیش کررہی تھیں۔
”پھول کو مسل دو اور تھالی کو الٹادو۔”
یکایک تیز لیکن سرگوشی کے انداز میں ایک آواز فلک کو اپنے آس پاس سنائی دی۔ فلک نے گھبرا کے اِدھر اُدھر دیکھاکوئی نہیں ہوتا۔
”پھول کو مسل دو اور تھالی کو الٹادو۔”
فلک نے پریشانی کے عالم میں بلند آواز سے پکارا۔
”کون ہے۔ کون ہے اِدھر۔ سامنے آؤ۔”
”پھول کو مسل دو اور تھالی کو الٹا دو۔”
بھاری آواز میں کوئی مسلسل فلک کو ترغیب دے رہا تھا، لیکن آواز کا منبع کہیں نہیں تھا۔
٭…٭…٭
”نہیں … نہیں… نہیں…یہ نہیں کرنا۔ میرا سارا عمل ضائع ہوجائے گا۔”
جھگی سے باہر تک عامل کی غصے سے بھری چنگاڑتی آواز سنائی دے رہی تھی ۔ وہ کچھ پڑھ کے اس عکس پر پھونکنا شروع کردیتا ہے۔
”کہاں رہ گیا؟ روک اسے ۔” اسی وقت عکس میں فلک کے پیچھے سے کالا بلا نمایاں ہوتا دیکھ کے عامل نے سکھ کا سانس لیا۔
”کچھ بھی ہوجائے یہ تھالی الٹنے نہیں دینا ، ورنہ سزا ملے گی تجھے۔” عامل نے کالے بلے کو دھمکی دیتے ہوئے کہا اور غور سے زمین پر بنے دائرے کو دیکھتا رہا جہاں فلک دھاگے کو باندھ رہا تھا اور پھول اٹھا کے سونگھ رہا تھا۔
”کون ہے تو نامراد کہاں سے آ مرا ادھر؟” عامل نے غصے سے بل کھاتے ہوئے فلک کو للکارا۔ جو ایک د م ہی حیران پریشان ہوکے اِدھر اُدھر دیکھتا رہا تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

بلا عنوان — ثناء شبیر سندھو

Read Next

کچن میں ایک دن — نایاب علی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!