شہر کے پوش علاقے کے جدید شاپنگ مال کی رونق اپنے عروج پر تھی۔ لوگ جوق در جوق اندر داخل ہوتے تھے اور شاپنگ بیگز سے لدے پھندے خراماں خراماں باہر نکل جاتے۔ مال کی صورت حال اور ہجوم دیکھ کے نہیں لگتا تھا کہیں غربت بھی ہے یا کسی قسم کی تنگی بھی ہوتی ہے لوگوں کو۔ ایسی جگہوں پر تو آکر زندگی کا اصل حسن معلوم ہوتا تھا، لیکن اس حسن کو محسوس اور برتنے کے لیے جیب میں کاغذ کے نوٹ ہونا ضروری ہیں جن کے اندر اتنی صلاحیت ہوتی ہے کہ ہر پسند آنے والی چیز خرید سکیں۔
اسی خوب صورت اور مصنوعی روشنیوں سے بھرے ہوئے مال کے اوپری فلور پر بنے ہوئے کیفے میں اس وقت فلک شیر اپنی کلاس فیلو ایشل کے سامنے پریشان بیٹھا ہوا تھا جس کی جیب اس کی قسمت کی طرح خالی ہی تھی۔
”میں اس سے زیادہ پاپا کو نہیں روک سکتی فلک۔ پلیز ڈو سم تھنگ۔” ایشل نے کافی کا سپ لیتے ہوئے ایک بار پھر فلک کو نازک صورت حال کا احساس دلانا چاہا۔
”یار تمہارے سامنے ہی ہے جو بھی ہے۔ لگا ہوا تو ہوں کوششوں میں، لیکن…” فلک نے مایوس ہوتے ہوئے ایشل سے نظریں چرائیں۔
”میں پاپا کو کیا بول کے مزید روکوں؟ یہ بھی تو بتا ؤمجھے۔” ایشل نے غصے کے ساتھ ایک دم ترش لہجے میں بات شروع کی۔
”میرے ایم اے کے پیپرز میں صرف دو ماہ رہ گئے ہیں اور پھر… میں… میں پاپا کے آگے نہیں کھڑی ہوسکتی فلک۔ٹرائی ٹو انڈرسٹینڈ۔اس سے زیادہ وقت نہیں لے سکتی میں ان سے۔ اب تو پڑھائی کا بہانہ بھی ختم ہونے والا ہے۔”
”میں سمجھ سکتا ہوں یار…”
”تو کچھ کرتے کیوں نہیں۔ میں کسی اور سے شادی نہیں کرنا چاہتی فلک…”ایشل روہانسی ہوگئی۔
فلک ہونٹ بھینچ کے خاموش ہوگیا۔ تھا کیا کچھ کہنے کے لیے؟ ہزار بار کی دی ہوئی تسلیاں اس وقت کھوکھلی ہوچکی تھیں۔ ایشل نے فلک کی خاموشی دیکھ کے ایک جھٹکے کے ساتھ کھڑے ہونے کو ترجیح دی۔ وہ بل کے پیسے میز پہ رکھ کے تنک کے فلک شیر پر ایک گھورتی ہوئی نظر ڈالتے ہوئے قدم بڑھاگئی۔
٭…٭…٭
پورے چاند کی روشنی میں قبرستان میں سرشام ہی گہرا سناٹا اُمڈ آیا تھا۔ ہر سمت ویرانی اور ہو کا عالم تھا۔ اسی قبرستان کی ایک سمت وہ کالا بلا خاموشی کے ساتھ زمین سے نکلے ہوئے تھال کو تک رہا تھا جو دو دن پہلے ہی وہ عورت وہاں دبا کے گئی تھی ۔ شاید جلد بازی اورخوف کے عالم میں وہ صحیح سے دبا نہیں اسی لیے ایک طرف سے نمایاں طور پر نظر آرہا تھا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
بلند و بالا عمارت میں اس وقت سکندر کریم سامنے رکھے ہوئے فلک کے پیپرز دیکھ کے مایوسی سے گردن ہلا رہے تھے۔ فلک سر جھکائے بیٹھا اور دل ہی دل میں دعاگو تھا کہ جاب مل جائے۔ ورنہ ایشل کو کھو دے گا۔ بے شک قدرتی طور پر فلک بے حد ذہین تھا لیکن معاشی تنگی نے اسے کہیں کا نہیں چھوڑا تھا۔ راشد علی کی چھوٹی سی کریانے کی دکان میں بیٹھنے سے اچھا تھا وہ کلرک کی ہی نوکری کرلے۔
”دیکھو صاحبزادے۔ سکندر کریم کی آواز نے ایک دم فلک کو اپنے خیالات سے باہر نکالا۔
”ویسے تو مجھے یہ سفارشی لوگ بالکل نہیں پسند، مگر ماجد میرے پرانے ورکرز میں سے ایک ہیں اور پہلی بار کسی کام کے لیے اصرار کیا ہے، تو انکار کرنامجھے مناسب نہیں لگا۔ لیکن…”سکندر صاحب نے بات ادھوری چھوڑی اور فلک کو بہ غور دیکھا۔
”شکریہ سر!میں آپ کو شکایت کا موقع بالکل نہیں دوں گا میرا یقین کیجیے۔” فلک کو نوکری کی آس ہوچلی تھی۔
”لیکن… اب تم ہی ایمان داری سے بتاؤ۔ نہ تمہاری تعلیم پوری ہے نہ ہی کوئی ہنر ہے ہاتھ میں، اگر کوئی کورس بھی کررکھا ہوتا، توکہیں نا کہیں سیٹ نکل ہی آتی تمہاری۔ اب…سکندر صاحب نے بات مکمل کی۔
”اب ایسی صورت حال میں کیا کرسکتا ہوں میں۔”
”سر میرا میتھ بہت اچھا ہے۔ آپ ایک بار آزما کے دیکھ لیں پلیز۔” فلک کسی حال یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا تھا۔
سکندرصاحب نے سر ہلاتے ہوئے کچھ سوچااور کسی فیصلے پر جا پہنچے۔
”اچھا چلو دیکھ لیتے ہیں۔ مجھے ماجد نے تمہارے گھریلو حالات بتائے تھے۔ اگر تم اس نوکری کو ایمان داری کے ساتھ کرلیتے ہو تو پھر تمہاری ادھوری تعلیم کا بھی کچھ کرلیںگے۔”
سکندر صاحب کو سامنے بیٹھا ہوا اسمارٹ اور سوبر لڑکا پسند آیا تھا جو آگے پڑھنے میں دل چسپی رکھتا تھا۔ دیکھنے میں بھی کسی شریف خاندان کا لگتا تھا۔ فلک کو دیکھتے ہوئے انہوں نے انٹرکام اٹھایا اور ماجد کو بلایا۔
”یس سر، آپ نے بلایا تھا۔” ماجد نے بھی کمرے میں جھانکتے ہوئے نظروں ہی نظروں میں حالات کا جائزہ لیا ۔
”آؤ آؤ ماجد۔ ”
ماجد عاجزی کے ساتھ چلتے ہوئے کرسی پر بیٹھ گئے۔ سکندر کریم ، فلک کے پیپرز میز پہ رکھتے ہوئے ماجد کو بھی امتحان میں ڈال دیا۔
”ماجد۔ بھئی تم ہی بتاؤ اسے کہاں کھپاؤں اب…”
ماجد جو سکندر صاحب کا موڈ دیکھ کے سکون بھری کیفیت کا شکار ہوگئے تھے، پرسکون ہوکے اُنہیں اندر کی بات بتائی ۔۔
”سر! وہ الیاس پچھلے دن پریشان تھا اُسے ایک ہیلپر چاہیے تاکہ فائلز اپ ڈیٹ کرسکے۔ اگر آپ کو یہ لڑکا کسی کام کا لگتا ہے تو…”ماجد نے ادھوری بات میں ہی مکمل بات کردی تھی۔ فلک دل ہی دل میں ان کا زیربا ر ہوا۔
”ہمم… الیاس وہ اکاؤنٹس میں۔ اچھا، تو اسے تم ہی لے جاؤ پھر۔ وہ ٹرائل لے لے گا اور اگر کسی کام کا ہوا، تو بے شک اپائمنٹ لیٹر بھی ہاتھ کے ہاتھ ٹائپ کروالینا۔” سکند ر صاحب نے باری باری دونوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
ماجد کرسی سے اُٹھتے ہوئے خوشی سے لبریز لہجے میں سکندر کو دیکھتے ہوئے کہنے لگے۔
”جی سر! آپ کا بہت شکریہ۔آپ نے میرا مان رکھ لیا۔”
سکندر نے سر ہلاتے ہوئے فلک کو دیکھا۔
”دیکھو میاں، ماجد کے کہنے پر تم اس جگہ آ تو چکے ہو، لیکن اپنی جگہ خود بنانا پڑے گی۔”
”آپ بے فکر رہیں سر! میں بہت ایمان داری اور محنت سے کام کروں گا۔” فلک نے سر ہلاتے ہوئے فرماں برداری سے سکندر صاحب کو یقین دلایا۔
”آپ کو کسی بھی قسم کی کوئی شکایت نہیں ملے گی۔”
سکندر نے تعریفی نظروں سے فلک کو دیکھا۔
”چلو دیکھ لیتے ہیں۔ ہم محنت کرنے والوں کی قدر کرتے ہیں۔”
٭…٭…٭
”اب میری عزت رکھ لینابیٹے۔ سکندر صاحب کو سفارش بالکل نہیں پسند بس یہ تو میری بات رکھ لی انہوں نے۔ دل لگا کے کام کروگے، تو تمہاری قدر ہوگی ادھر اور نظروں میں بھی آجاؤگے فوراً۔” سکندر صاحب کے کمرے سے باہر نکلتے ہی ماجد نے فلک کو جتایا۔
”آپ فکر نہ کریں چاچا۔ کبھی کوئی شکایت نہیں ملے گی آپ کو اور یہ احسان میں کبھی نہیں بھولوں گا۔” فلک نے جذبات سے لبریز لہجے میں ماجد کو دیکھا اور ان کا ہاتھ تھام کے اپنی آنکھوں سے لگایا۔
ماجد نے بھی فلک کے کندھے پر تھپکی دیتے ہوئے اسے تسلی دی ۔
”چلو چلو۔ چاچا بھی بولتے ہو اور غیروں جیسی بات بھی کرتے ہو۔”
٭…٭…٭
”بولا تھا نا۔ ڈھلتے چاند کے سمے آنا۔”
عامل بابا کے سامنے ڈری سہمی عورت بیٹھی تھی، جس کا حلیہ اس کے حالات کا عکاس تھا۔ دو پٹی چپل، گھسے ہوئے کپڑے اور ساتھ ہی چھیدوں والی کالی چادر۔
”لیکن… میرا شوہر وہ جلدی مچا رہا ہے بابا جی۔”
”کام کردیا تھا پورا۔” عامل نے ہاتھ بلند کرکے اس عورت کو خاموش کرایا۔
عورت نے جھجکتے ہوئے نظریں نیچے کرلیں۔
”ہاں وہ… بس جتنا دبا سکتی تھی دبا دیا۔ میں بہت ڈر گئی تھی۔”
”بہت خطرناک عمل تھا بی بی۔ اگر کچھ اونچ نیچ ہوگئی تومیرا کوئی ذمہ نہیں۔”
”بس مجھے اولاد چاہیے۔ کسی بھی طرح تاکہ میرا گھر برقرار رہے۔”
”بھروسا رکھ مجھ پر نادان۔ تو بہت ٹھیک جگہ آگئی ہے۔”
”اگر اس نے دوسری شادی کرلی، تو…میں خودکشی کرلوں گی۔”
”جلد بازی نہیں کر… بس ذرا ٹھہر جا۔”
”تمہیں نہیں معلوم روز مار کھاتی ہوں، لیکن سوتن کا دکھ نہیں سہ سکتی میں۔ چھے بیٹیاں پیدا کرچکی ہوں بس ایک بیٹا ہوجائے تو…” عورت نے اپنی میلی اور بوسیدہ ہوتی چادر سے آنسو صاف کیے ، لیکن ان جھریوں کو صاف نہ کرسکی جو حالات کی چکی میں پستے ہوئے چہرے پر ثبت تھیں۔
”ہوجائے گا ہوجائے گا۔” عامل نے پراسرار مسکراہٹ اپنے چہرے پر سجاتے ہوئے خلا میں گھورا۔
”بہت وقت بعد یہ چیز ہوتی ہے۔ دس سال… ہاں پورے دس سال بعد ایسا وقت ملتا ہے ہمیں کہ…”
”ہیں…” ایک دم وہ عورت عامل کی بات سن کے ناسمجھی سے کہہ اٹھی ۔
عامل نے اسے مسکراتے ہوئے دیکھا اور جانے کا اشارہ کیا۔ عورت خاموشی سے باہرنکل گئی۔ اس کے باہر نکلتے ہی کالا بلا اندر آگیا جسے دیکھ کے عامل کے دانت نکل آئے۔
”آؤ آؤ۔ سنا تم نے، میرا عمل شروع ہوگیا۔ بس کچھ ہی دن بعد وہ میرے قابو میں ہوگااور میں دنیا کا طاقت ور انسان بن جاؤں گا۔” عامل کا جناتی قہقہہ سن کے بلے نے بھی بلند آواز میں میاؤں کرکے جیسے عامل کی ہاں میں ہاں ملائی۔
٭…٭…٭
”اوہ اوہ… تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا جاب کا فلک۔” ایشل نے خوشی سے بے قابو ہوتے ہوئے فلک سے سوال پوچھا۔
”میں بہت خوش ہوں اففف فلک۔”
فلک نے مسکراتے ہوئے ایشل کا خوشی سے تمتماتا ہوا چہرہ دیکھا اور کہنے لگا۔
”اگر بتادیتا، تو یہ کیسے دیکھتا۔”
ایشل نے بے تابی اور تیزی سے سوال پہ سوال پوچھا۔
”کہاں ملی جاب؟ کیا اسکوپ ہے؟ کیا سیلری ہے؟”
”ارے ارے۔ صبر صبر بابا۔” فلک بہت دنوں بعد آج خود کو زندہ محسوس کررہا تھا۔
”تم کو اندازہ نہیں فلک۔ پاپا کس قدر پریشر دے رہے ہیں مجھے شادی کا۔ ماما کے بعد وہ بالکل ہی اکیلے رہ گئے نا، توچاہتے ہیں میری ذمہ داری سے فری ہوجائیں کم ازکم۔”
”لیکن… ایشل کوئی بہت اچھی جاب نہیں ہے ۔ اسٹارٹنگ ہی ہے ابھی تو۔” فلک نے جھجک کے ایشل کو دیکھا۔
”کچھ وقت لگے گا سیٹ ہوتے ہوتے بھی۔”
ایشل نے اپنے ساتھ فلک کو بھی تسلی دی ۔
”کوئی بات نہیں یار کچھ نہ ہونے سے ہونا بہتر ہے نا۔ جاب لگ گئی یہ ہی کافی ہے۔ کم از کم اب پاپا سے بات تو کرسکتی ہوں نا۔”
”چلو دیکھ لو۔تم بہتر جانتی ہو اپنے پاپا کو۔” فلک نے پانسا ایشل کی طرف پھینک دیا۔
”بائے دی وے کہاں جاب ہوئی ہے؟” ایشل نے موضوع بدلتے ہوئے پوچھا، تو فلک نے بھی مسکراتے ہوئے فخر سے جواب دیا۔ سکندر انٹرپرائز میں ۔
ایشل جو سکون سے کولڈ ڈرنک کا سپ لے رہی تھی ایک دم رک گئی۔
”کیا کہا؟”
”سکندر انٹر پرائز یار۔ اتنی مشہور تو ہے وہ۔” فلک نے پورا ایڈریس بھی بتادیا۔ لیکن ایشل کا سکتہ نہیں ٹوٹا۔
”اور معلوم ہے اونر نے مجھے خود جاب پر رکھا ہے۔ ہوں کیا بھلا سا نام ہے ان کا۔” فلک نے دو انگلیوں سے ماتھے پر طبلہ بجایا۔
”ارے نام ہی بھول گیا یار۔ تم کو دیکھ کے ویسے بھی کچھ یاد نہیں رہتا۔”
”فلک تمہیں میرا نام یاد ہے۔” ایشل نے آہستگی سے پوچھا۔
”اوہ کم آن میری جان، تمہارا نام، تو میرے دل پہ نقش ہے۔”
”تو بتاؤ ذرا۔” ایشل نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے ایک بار پھر فلک کو حیران کیا۔
”ایشل کریم۔ بولو تو سر نیم بھی بتادوں۔” فلک نے شرارتی انداز میں ایشل کو چھیڑا۔
”وہ میں خود بتادیتی ہوں تمہیں۔ ایشل سکندر کریم۔”
”سکندر کریم۔” فلک نے آہستگی سے نام دہرایا۔
”ہاں وہی سکندر کریم جنہوں نے نے تمہارا انٹرویو لیا وہ میرے پاپا ہیں۔”
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});