خونی سایہ — عمارہ خان (پہلا حصہ)

رات کے وقت قبرستان کی ہولناکی دل دہلا دینے والی ہوتی ہے۔ ہر سو اندھیرا، تو ڈراؤنا سناٹا، دھندلکے میں نظر آتی ٹوٹی پھوٹی قبروں کی ویرانی۔ اسی ویرانی اور سناٹے میں کہیں دور سے کتوں کے بھونکنے اور غرانے کی آوازیں بھی جب شامل ہوجائیں تو مزید دہشت ناک منظر بن جاتا ہے۔
ایسا ہی ایک منظر شہر کے اس پرانے قبرستان میں بھی نمایا ں تھا جہاں دھنسی ہوئی قبروں کے ساتھ جھاڑ جھنکار اور ٹوٹی ہوئی دیوار بتا رہی تھی کہ شاید یہ جگہ قبرستان کا اختتام ہے۔ ممکن ہے سالوں سے کسی انسان نے ادھر پاؤں نہیں دھرا ہو، اسی لیے خستہ حال قبروں کی تعداد کہیں زیادہ تھی۔ قبرستان کی ٹوٹی ہوئی دیوار سے اگر جھانکا جائے تو سامنے ہی فٹ پاتھ تھا اور اس کے ساتھ پکی سڑک گزر رہی تھی، جہاں اسٹریٹ لائٹ کی مدھم روشنی میں نظر آتا تھا۔ قبرستان کے اندر انتہائی کونے میں تین گھنے درختوں کے عین نیچے کسی نے جھگی بنا رکھی تھی۔
اس جھگی میں ایک مضبوط جسامت کا انسان دھوتی باندھے آنکھیں موندے سامنے پڑے تھال میں کچھ پڑھ کے پھونک رہا تھا۔ تھال میں جہاں سیندور، کچھ مخصوص ساخت کی ہڈیاں کالا دھاگا اور ایک پتلا رکھا ہوا تھا وہیں اس کے برابر ایک کالا بلا بیٹھا اپنی دم چاٹ رہا تھا۔
اچانک عامل نے دھیرے سے آنکھ کھولی اور بلے کو دیکھ کے مسکرایا۔
”آگیا، تو… ہوں۔”
بلے نے عامل کو دیکھا اور میاؤں کے ساتھ ہی چھلانگ لگا کے اس کی گود میں آبیٹھا۔ عامل نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے لمحہ بھر کے لیے اسے تھپتھپایا اور حکمیہ انداز میں گویا ہوا۔
”جاجا کے دیکھ کام پورا ہوا یانہیں ۔” بلے نے یہ سن کے عامل کی گود سے چھلانگ ماری اور جھگی سے باہر نکل گیا۔ دوسری طرف عامل ایک بار پھر سکون سے آنکھیں موندے اپنے تھال کی سمت متوجہ ہوگیا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

بلے نے جھگی سے باہر نکل کے آسمان کی طرف دیکھاا ور پھر قبرستان کے دوسرے کونے کی طرف قدم بڑھا دیے۔ اسے علم تھا کہاں جانا ہے اور کیا کرناہے۔ جیسے جیسے بلا آگے بڑھ رہا تھا ویسے ویسے پورے چاند کی تیز روشنی میں نمایا ں ہورہاتھا ۔ اس کے عین سر کے اوپر ایک انجانا سا دھوئیں کا ہالہ بلے کے ساتھ گردش کررہا ہے۔ یکایک ایک جانب سے ہلکی سی آہٹ سنائی دی جسے سن کے بلے کے بڑھتے قدم تھم گئے۔ کوئی تھا جو دبے قدموں چل رہا تھا۔ غراتے ہوئے بلے نے چاند کی جانب دیکھاا ور ساتھ ہی اپنی سمت بدل لی۔ شاید وہ آہٹ اسی مقصد کے لیے ابھری تھی۔
قبرستان کے ایک طرف جہاں یہ جھگی تھی اسی کے انتہائی دائیں جانب عامل کا کالا بلا کسی کی نگرانی پر معمور تھا۔ وہ جس کی نگرانی کررہا تھا وہ ہیولہ اس نیم اندھیرے اور وحشت ناک ویرانی کو محسوس کرتا ہوا، دھیرے دھیرے جھجکتا ہوا چلا جارہا تھا۔ وہ ہیولہ ہر ایک منٹ بعد رک کے دائیں بائیں اس انداز میں سر گھمارہا تھا جیسے اندازہ کرنا چاہ رہا ہو، کوئی اسے دیکھ تو نہیں رہا، لیکن اس وقت آدھی رات کو کون بدبخت قبرستان کے اندر آئے گا۔ سوائے سفلی علم کرنے والوں کے جو اپنی دنیا اور آخرت دونوں تباہ کرنے پر تل جاتے ہیں۔
ہیولے کے رکتے ہی کالے بلے نے بھی اس کے پیچھے رک کے اسے گھورنا شروع کردیا۔ جھجکتا ہوا ڈرتا سہما ہیولہ درختوں کے جھنڈ سے جیسے ہی چاند کی روشنی میں آیا، تونمایاں ہوا وہ کوئی عورت تھی۔ اس نے کالی سیاہ چادر اپنے اردگرد کچھ اس انداز میں لپیٹی ہوئی تھی کہ صرف ایک آنکھ ہی واضح نظر آرہی تھی۔ ایک ہاتھ پوری طرح چادر کے اندر تھا، تو دوسرے ہاتھ میں کوئی چیز دبی ہوئی تھی۔
وہ عورت بلے کی معمولی سی آہٹ پا کے بدک گئی۔ ڈرتے ڈرتے اپنے آس پاس غور سے دیکھنے کے باوجود جب کوئی نظر نہیں آیا، تو سکون کا سانس لیتے ہوئے اس نے ہر ممکن تیزی کے ساتھ قدم بڑھائے اور اپنے مطلب کی جگہ پا کے وہ جھک گئی اور ساتھ ہی ہاتھ میں پکڑی ہوئی چیز اپنی نظروں کے سامنے کی، جو ایک بے ہنگم پتلا تھا جس کے چاروں طرف سوئیاں پیوست تھیں۔ اس عورت نے پتلے کو دیکھ کے جھرجھری سی لی اور ساتھ ہی چادر سے دوسرا ہاتھ نکالا جس میں ایک تھالی تھا۔ تھالی نیچے رکھ کے وہ دونوں ہاتھوں سے پُھرتی کے ساتھ زمین کھودنے لگی۔
یکایک ساکن فضا میں ہوا کی سراسرہٹ ہونے لگی، جیسے طوفان کی آمد آمد ہو۔ اس عورت نے چونک کے قبرستان کے بدلتے ماحول کو دیکھااور جتنا گڑھا کھود چکی تھی اس نے پتلا اس میں دفن کیا اور اس کے بالکل برابر دوسرا گڑھا کھودنے کی تیاری کرنے لگی، لیکن اب اس کے ہاتھوں میں وہ تیزی اور پُھرتی نہیں تھی جو پہلے تھی۔ شاید بدلتے ماحول نے اس پر اثر کیا تھا، اس کے ہاتھ لرز رہے تھے۔ کانپتے ہاتھوں کے ساتھ تھالی زمین پہ رکھ کے اوپر سے مٹی ڈالی اور تیزی کے ساتھ قبرستان سے باہر کی راہ پکڑی۔
عورت کو دور ہوتے دیکھ کے اس کالے بلے نے اپنی جگہ چھوڑی اور عین اسی مقام پر بیٹھ کے روتے ہوئے چہرہ آسمان کی جانب کرلیا۔ اسے اس طرح روتے دیکھ کے لگ رہا تھا، شاید وہ آنے والے وقت کا ماتم کررہا ہو۔
٭…٭…٭
صبح کا سورج نکلتے ہی اس متوسط طبقے کے علاقے میں روزمرہ کی چہل پہل ہونے لگی تھی۔ اسکول جانے والے بچے اُچھلتے کودتے اور کچھ منہ بسورتے بسوں میں سفر کررہے تھے، تو نوکری پیشہ افراد بھی نک سک سے تیار ہوکے کھڑے اپنی اپنی ویگن اور بسوں کے انتظار میں تھے۔ سبزی والے آوازیں لگاتے گلیوں میں گھوم رہے تھے۔ غرض ہر جگہ دن نکلنے کی مخصوص افراتفری مچی ہوئی تھی۔
ایک سفید پوش گھر کے چھوٹے سے صحن میں ادھیڑ عمر جوڑا بیٹھا تھا۔ عورت صحن میں بچھی چارپائی پر سامنے دھرے تسلے میں سے ساگ کے پتے الگ کررہی تھی۔ مرد کے سامنے رکھی ہوئی چھوٹی سی میز پر ناشتے کے جھوٹے برتن پڑے تھے۔
”آپ نے شکیل بھائی سے بات کی اپنے فلک کی نوکری کے لیے۔” ساگ کے پتے کاٹتے ہوئے ادھیڑ عمر عورت نے اپنے مجازی خدا کو مخاطب کیا جو اخبار پڑھنے میں منہمکتھے۔
”ہوں…کی تو تھی قدسیہ بیگم ، لیکن…” گہری سانس لیتے ہوئے انہوں نے اخبار پلٹا۔
”ایک تو میں آپ کے ان وقفوں سے بڑی تنگ ہوں۔ عمر گزر گئی کہتے ہوئے ، ایک ہی باری میں اپنی بات پوری کرلیا کریں۔” قدسیہ بیگم نے چڑتے ہوئے کہا۔
”ارے بھئی انہوں نے کہا ہے سادہ پڑھائی کون پوچھتا ہے آج کل …ادھوری تعلیم کے ساتھ کوئی سیلزمین کی ہی نوکری ملے گی کوئی افسر تو لگنے سے رہا۔” راشد علی نے پُھرتی کے ساتھ بات مکمل کی۔
قدسیہ بیگم نے چھری ہوا میں لہراتے ہوئے اپنے اکلوتے بیٹے کے بارے میں ایسی بات کرنے والے کا غالباً غائبانہ ہی قتل کردیا تھا۔
”اے لو، کیا خوب کہی آپ نے بھی… تیرہ چودہ جماعتیں کیا کم ہوتی ہیں اور کالج جاتا تھا میرا بچہ۔ وہ تو ہمارے حالات اچانک ایسے ہوگئے جو بے چارہ امتحان دینے سے رہ گیا۔ ایسے کیسے سیلز مین کی نوکری کرے گا میرا بیٹا۔ لوگوں کو تو بس باتیں بنانے سے فرصت نہیں ہے۔ انہیں کیا معلوم، آپ کا وہ ایکسیڈنٹ نہ ہوا ہوتا، تو…”قدسیہ بیگم نے ایک دم اپنی بات ادھوری چھو ڑ د ی۔ شرمندگی سے سامنے بیٹھے شوہر کو دیکھا جو افسردگی سے سر ہلارہے تھے۔
”بالکل ٹھیک بول رہی ہو نیک بخت ، اگر وہ حادثہ پیش نہیں آتا، تو ہمارا فلک اس پیسوں سے اپنی فیس بھر لیتا جو مجھ پہ اٹھ گئے۔ ”
”لیکن آپ کا علاج بھی تو ضروری تھا نا۔” اب ایک بیوی نے اپنے شوہر کی دل جوئی کی۔
”پڑھائی کا کیا ہے کبھی بھی مکمل ہوسکتی ہے ۔ اگر خدا نخواستہ آپ کو کچھ ہوجاتا،تو ہم کیا کرتے۔”
”ہاں ہم غریبوں کے ساتھ یہ ہی مسائل لگے ہوتے ہیں ، علاج کرالیں یا پڑھ لیں۔”
”کوئی بات نہیں فلک کے ابا۔ قسمت میں ہوگی کوئی نوکری تو مل ہی جائے گی۔ ”قدسیہ بیگم نے سر جھٹک کے دوبارہ ساگ کی کٹائی کی طرف دھیان لگایا۔
”لیکن اب تو سولہ سولہ جماعت پاس لڑکے بھی طرح طرح کے کورس کرکے نوکریاں تلاش کرتے پھر رہے ہوتے ہیں۔” راشد علی نے حقیقت بیان کرنے میں کوئی تامل نہیں برتا۔
”ان حالات میں فلک کو اچھی نوکری کی امید چھوڑنی ہی پڑے گی۔ جو مل رہا ہے وہ قبول کرلے تو اچھا ہے۔”
”پھر بھی کوئی ڈھنگ کی نوکری ہوتو کرے نا۔” قدسیہ بیگم بہرحال ماں تھیں جس کے لیے دنیا کا بہترین بچہ ان کا بیٹا ہی تھا۔
”کس چیزکی کمی ہے فلک میں جو چھوٹی موٹی نوکری کرے۔”
”اس کے پاس کسی بھی قسم کا تجربہ نہیں ہے قدسیہ۔” راشد علی نے ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے اخبار میں پناہ لینے کی کوشش کی۔
”اے لو میاں یہ اچھی کہی۔ جب کوئی نوکری ہی نہیں ملے گی، تو تجربہ خاک آئے گا۔” قدسیہ بیگم نے چھری ہوا میں لہراتے ہوئے راشد علی کو گویا عقل دینے کی کوشش کی۔
”ایسی باتیں کون سوچتاہے اب۔” راشد علی نے اخبار پڑھتے پڑھتے ایک دم چونک کے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”ارے ہاںوہ ماجد بھائی ایک گارمنٹ فیکٹری کا بتا تو رہے تھے۔ جہاں وہ خود عرصے سے کام کررہے ہیں۔ بول رہے تھے، میری بہت عزت کرتے ہیں سیٹھ صاحب۔ ان سے بات کرکے دیکھتا ہوں۔ اچھا ہوا یاد آگیا۔ آج ہی ان سے پوچھتا ہوں۔ اللہ کرے فلک کہیں کھپ جائے ادھرہی تاکہ…”
”اب میرا پڑھا لکھا بیٹا، کسی گارمنٹ فیکٹری میں کپڑے سیئے گا۔ ایسا بھی کیا برا وقت آنا میاں۔” قدسیہ بیگم نے راشد علی کی بات کاٹتے ہوئے فوراً ہی اُنہیں ٹوک دیا۔
راشد علی نے بے ساختہ ہنستے ہوئے اپنی بیوی کا غصہ ملاحظہ کیا اور تسلی دی ۔
”ارے نیک بخت! فیکٹریوں میں صرف کپڑے ہی نہیں سلتے اور بہت کام بھی ہوتے ہیں۔ شاید اکاؤنٹنٹ کی جاب مل جائے۔”
”اُنہہ جیسے آپ ویسے ہی آپ کے دوست۔” قدسیہ بیگم نے مزید بحث کرنے کے بجائے اپنے کام میں مصروف ہونا زیادہ مناسب جانا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

بلا عنوان — ثناء شبیر سندھو

Read Next

کچن میں ایک دن — نایاب علی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!