خونی سایہ — عمارہ خان (دوسرا حصہ)

” تم اس بار بچ گئے لیکن اب کی بار ایسا سخت عمل کروں گاکہ قابو میں آجاوؑگے۔ پھر اس بدتمیزی کی سزا دوں گا میں تمہیں۔ یاد رکھنا۔” عامل نے زیر لب کچھ پڑھتے ہوئے کہا۔
”قسمت بار بارمہربان نہیں ہوتی۔ تمہیں میرے قدموں میں آنا ہی پڑے گا۔” ہلکی سی طنزیہ ہنسی نے عامل کو تلملا دیا۔
”اس بے وقوف عورت اور نادان لڑکے کی بدولت تم آج میرے سامنے کھڑے ہو۔ ورنہ تمہاری اوقات ہی کیا ہے… میں …”
عامل کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی ایک دم جھگی میںتیز ہوا چلنے لگی، جیسے کوئی طوفان آرہا ہو جب کہ باہر کا موسم ساکت تھا، سخت گرمی کے دن تھے، پتے تک نہیں ہل رہے تھے۔ ایسے میں یقینا یہ کسی کالے جادو کی کارستانی تھی جو بند جھگی میں طوفان کے جھکڑ چلنے لگے تھے۔
کالا بلا تیزی سے جھگی سے باہر جانے کا راستہ تلاش کرنے لگا، تو عامل بھی جھگی کو مکمل طور پر بند دیکھ کے گھبرا چکا تھا۔ دیکھتے دیکھتے ہی طوفانی جھکڑ طاقت پکڑنے لگے۔ جس کی بدولت عامل شدید گھبراہٹ کا شکار ہوگیا، لیکن اپنا اندرونی ڈر چھپاتے ہوئے وہ مسلسل کسی رخنے کی تلاش میںلگا رہا، کسی طرح کوئی سوراخ ملے تاکہ وہ باہر نکل سکے۔ یقینا وہ کسی حصار کا شکار ہوچکا تھا اور اس کا واحد حل اس جگہ سے باہر نکلنا تھا ، لیکن جہاں دروازہ تھا وہ جگہ اب بالکل سپاٹ تھی۔ گویا جھگی چاروں طرف سے بند کردی گئی تھی ۔
”تم کہیں بھی چھپ جاؤ ، میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ میں نہیں ڈرتا تم سے۔ سنا تم نے۔ میں نہیں ڈرتا ان اوچھے ہتھکنڈوں سے۔” عامل چاروں طرف بھاگتا ہوا اس ہیولے کو بھی ڈھونڈنے کی کوشش کررہا تھا،جو اب محسوس ہورہا تھا، لیکن نظر آنا بند ہوگیا تھا۔
”ہوں… لگتا ہے کسی بڑے کا غلام بن گیا ہے یہ، اسی لیے مجھ سے انتقام لینے میں کامیاب ہوگیا ہے۔” عامل نے ہار مانتے ہوئے دل ہی دل میں کہا اور سر ہلاتے ہوئے خود کو بچانے کی آخری کوشش کی جاپ پڑھنے کے ذریعے ،لیکن ایک دم ہی جھگی میں اندھیرا چھاگیا۔ ساتھ ہی عامل کے دیرینہ ساتھی یعنی کالے بلے کی کرب میں ڈوبی آواز سنائی دینے لگی جیسے وہ سخت اذیت میں ہو۔ بلے کی شکل میں بھی ایسا ہی ہیولہ تھا جسے سفلی عمل کے ذریعے قابو میں کیا تھا اور آج وہ اپنے انجام کو پہنچ چکا تھا۔ جیسے ہی اس بلے کی اذیت ناک آوازیں کم ہوئیں اسی کے ساتھ جھگی کے اندر چاروں طرف آگ کے گولے دائرے میں گردش کرتے ہوئے عامل کی طرف بڑھنے لگے جو اپنی موت کو سامنے دیکھ کے حواس کھو نے لگاتھا۔
”نہیں نہیں میں نہیں مرسکتا۔ میں نہیں مرسکتا۔ دیکھ لوں گا تم سب کو… دوبارہ آؤں گا میں۔ یاد رکھنا، دوبارہ آؤں گا۔”
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

سوجائیں فلک اتنی رات ہوچکی ہے۔ سارہ نے فلک کو ٹی وی کی جانب ٹکٹکی باندھے دیکھا، تو ٹوکے بنا نہ رہ سکی ۔ رات کے دو بج رہے تھے اور فلک اپنا کام ختم کرنے کے بعد ٹی وی لگائے بیٹھا تھا۔
”بس یہ نیو ز دیکھ لوں۔” فلک نے انتہائی انہماک سے اسکرین کو دیکھتے ہوئے کہا، تو نہ چاہتے ہوئے سارہ سوال پوچھ بیٹھی۔
”کیا کوئی خاص خبر ہے جو ایسے…”
”ہوں… دیکھو ذرا قبرستان کے اندر کسی جھگی کو آگ لگ گئی ہے اور کوئی لاش بھی نہیں ملی جب کہ لوگوںکا کہنا ہے وہاں ایک عامل یا سادھو بابا قسم کا کوئی آدمی تھا جو دن رات اِس جھگی میں رہتاتھااور شاید کوئی گندا عمل کرتا تھا۔” فلک نے تفصیل بتاتے ہوئے اپنا تبصرہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں جانا۔
”توبہ کیسے لوگ ہیں آج کل کی دنیا میں بھی۔”
سارہ نے نیوز سن کے سرسری نگاہ ٹی وی اسکرین پر ڈالی، جہاں پولیس والے اور کچھ صحافی اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے تھے اور دوسری نظر فلک پر ڈالی جس کی ساری توجہ مرے ہوئے انسان کی طرف تھی جب کہ زندہ جیتی جاگتی شخصیت ا س کی توجہ کی مستحق تھی۔
٭…٭…٭
پیسے کمانے کی دھن میں فلک کو احساس نہیں ہوا کب وہ اپنے گھر اور بیوی سے بہت دور جا چکا ہے۔ ان کا نصب العین صرف اور صرف پیسہ کمانا تھا تاکہ کسی زمانے اپنی اوّلین خواہش کی دستبرداری پر صبر کرسکے۔ چھٹی والے دن بھی وہ اس وقت اپنے گروسری اسٹور کے گودام میں کھڑا سامان کا جائزہ لے رہا تھا کہ ایک دم چائے کی طلب نے اسے اسٹورپر رکھے ملازم کو پکارنے پر مجبور کردیا۔
”او چھوٹو… ذرا پٹھان کو بولنا چائے تو بنادے۔” چھوٹو بھاگتا ہوا آیا اور اچھا بھائی جان بول کے واپس چلا گیا۔ کچھ ہی دیر بعد چائے کے دو کپ لاکے سامنے رکھ دیے۔
فلک نے حیرت سے دیکھااور سوالیہ نظروں سے چھوٹو کی جانب دیکھنے لگا۔
چھوٹو نے اشارے سے فلک کے پیچھے اشارہ کیا۔
”بھائی جان وہ نہیں پئیں گے کیا؟”
فلک نے بے ساختہ پلٹ کے پیچھے دیکھا۔
”کون؟”لیکن پیچھے ہی کیا پورے گودام میں فلک کو چھوٹو کے علاوہ کوئی نظر نہیں آیا۔
چھوٹو کو مسکراتے دیکھ کے فلک سمجھا وہ شرارت کررہا ہے۔
”یہ تم اپنے لیے لائے ہو نا۔ شریر بچے۔ فلک نے ہنستے ہوئے چھوٹو کو کہا۔
”کیوں مذاق کررہے ہو بھائی جان۔ وہ دیکھیں نا۔ وہ آپ ہی کو تو دیکھ رہا ہے ، دونوں مل کے ہم کو بے وقوف نہ بناؤ ، ٹائم کھوٹی ہوتا ہے۔”
ٹائم کھوٹی ہوتا ہے سن کے فلک کوکچھ عرصے پہلے وہ گنے کا شربت بیچنے والا بچہ یاد آگیا جس نے بالکل اسی طرح فلک کو یہ ہی جملہ کہا تھا۔
”اچھا تم جاؤ۔” فلک نے کچھ سوچ کے چھوٹو کو جانے کا کہا اور جیب سے سو روپے نکال کے اُسے دیے۔
”باقی تمہارے…” چھوٹے کے جانے کے بعد سکون سے پلٹا اور پرتجسس انداز میں کچھ سننے کی کوشش کرنے لگا۔ یکایک اس کے چہرے پر انجانا سا سکون اتر گیا۔ جیسے جس چیز کی تلاش تھی وہ مل گئی ہو۔
”ہوں… کون ہو تم؟”
”کیا چاہتے ہو؟”
”کیوں مجھے پریشان کر رہے ہو؟”
”سامنے کیوں نہیں آتے آخر؟”
فلک نے بہ غور ان گہری سانسوں کی آواز سنی اور پے در پے سوال پوچھ بیٹھا۔ فلک کے سوال پوچھنے کی دیر تھی کہ اسٹور کے انتہائی دائیں جانب ایک سایہ نمودار ہوگیا۔
فلک نے دھڑکتے دل کے ساتھ اس سائے کو دیکھا ۔ جو دھیرے دھیرے انسانی وجود دھار رہا تھا، لیکن اس کا چہرہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ کالے سیاہ چغے میں اس کے جسمانی خدوخال نمایاں نہیں ہورہے تھے ۔ یک دم بھرائی ہوئی آواز اسٹور میں گونجی۔ اس آواز میں اور عامل کے مرتے وقت جھگی میں دھمکی دیتی ہوئی آواز میں رتی بھر بھی فرق نہیں تھا۔
”توبالآخر تم نے مجھے خود بلاہی لیا۔”
فلک دم سادھے اس سائے کو دیکھ رہا تھا، کچھ دیر بعد اٹکتے ہوئے اُس نے اپنا سوال پھر دہرایا۔
”ک ک ک کون … کون ہو …تم… اور… کیا ہے یہ سب؟”
بھرائی ہوئی آواز نے گویا فلک کی بات سنی ہی نہیں۔
”وقت لگایا بلانے میں، لیکن…”
”کیا مطلب؟” فلک نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
”جب تک تم خود اپنی مرضی سے مجھے نہیں بلاتے ، مجھے نظر آنے کا حکم نہیں تھا۔”
”کس نے حکم دیا تم کو؟” اب کی بار فلک نے گھبراہٹ اور ڈر محسوس نہیں کیا۔ شاید یہ اس ہیولے کی انسانی آواز سننے کا ردعمل تھا۔
”یہ تمہارے جاننے والی چیز نہیں ہے۔”
”لیکن…” فلک کوکچھ دھیان آیا۔
”جب تم مجھے نظر نہیں آسکتے تو باقیوں کو کیسے دکھائی دیتے ہو؟” فلک نے اسے گھورتے ہوئے پوچھا۔
”باقیوں سے میرا کیا واسطہ۔” پرسکون آواز نے فلک کو چونکا دیا۔
”تو مجھ سے کیا واسطہ ہے تمہارا… کیا چاہتے ہو؟”
”میں تو تمہیں کچھ دینا چاہتا ہوں۔” بھاری آواز میں بلا کی ٹھنڈک تھی، جسے محسوس کرکے فلک کے جسم میں نہایت سرد لہر دوڑ گئی ۔
”کیوں، کیا دینا چاہتے ہو مجھے ؟ تم ہو کون؟”
”تم نے مجھ پر ایک احسا ن کیا تھا…اوراُس کا بدلہ چکانا ہم پر فرض ہے۔”
فلک نے حیران ہوکے اپنے سینے پر انگلی رکھی۔
”میں نے… کب اور کیسے؟”
”ہاں، تم نے۔ ایک عامل نے مجھ پر قابو پانے کے لیے جال بچھایا تھا۔ تم انجانے میں ادھر آکے وہ تھالی پلٹنے کی وجہ بن گئے۔”
فلک جو انتہائی مگن ہوکے اس سائے کی بات سن رہا تھا، اسے کچھ یاد آگیا…
”تھالی… قبرستان…پھول… خوشبو…” فلک نے زیرلب دہرایا۔
”ہاں…وہی فلک شیر۔”
”تم …میرا نام بھی جانتے ہو؟” فلک نے اس کے منہ سے اپناپورا نام سن کے ایک بار پھر چونک کے پوچھا۔
”ایشل سکندر کا بھی جانتا ہوں۔” ہیولہ مسکرایا کیوں کہ اس کی آواز سے محسوس ہورہا تھا کہ وہ فلک کی حیرت سے لطف اندوز ہوا ہے۔
”اور کچھ بتاؤں کیا کیا جانتا ہوں۔ تم تسلی کرلو اپنی۔”
”بس بس۔” فلک نے ہیولے کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی اسے ٹوک دیااور ہاتھ بلند کرکے اسے روک دیا۔
”بہت ڈرامہ ہوگیا ہے اب۔” فلک نے ہیولے کو گھورتے ہوئے طنزیہ لہجہ اپنایا۔
”تم یقینا میرے دوستوں کے ساتھ ملے ہوئے ہو۔ اپریل قریب ہے نا۔ ہمم سمجھ گیا کوئی نا کوئی موبائل لیے ادھر کہیں چھپا ویڈیو بنارہا ہوگا۔” فلک ہڑبڑا گیا۔ کیوں کہ وہ ہیولہ اب اپنی جگہ نہیں تھابلکہ اس کے عین پیچھے کھڑا اپنی گردن نفی میں ہلارہا تھا، گویا اسے صدمہ پہنچا ہو۔ فلک کے شک کرنے پر۔
”میں اتنا بے وقوف نہیں ہوں جو تم بولو گے وہ مان لوں گا ۔ یہ کوئی تکنیک ہے ورنہ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔” فلک نے ہاتھ بلند کرتے ہوئے اسے مخاطب کیا۔
”اچھا، چلو بس کرو اب یہ ٹوپی ڈراما…”
ہیولہ سکون سے اپنی جگہ کھڑا رہا اورفلک کے خاموش ہونے پر اسے نرمی سے مخاطب کیا۔
”اپنی جیب میں ہاتھ ڈالو فلک شیر۔”
فلک نے اسے طنزیہ انداز میں دیکھتے ہوئے تمسخر اڑایا۔
”کیا اس میں سے کبوتر نکلے گا۔ یہ تم کون سا کھیل کھیل رہے ہو میر ے ساتھ ، ختم کرو بس۔” لیکن ہیولہ خاموشی سے کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ مجبور ہوکے فلک نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور اسے گھورتا رہا۔ فلک کے تاثرات تیز ی کے ساتھ بدل گئے۔
”ہاتھ باہر نکالو فلک…”
فلک کے ماتھے پر پسینہ پھوٹ گیا ۔ اس نے جیب سے ہاتھ نکالا ، اس کے ہاتھوں میں نوٹوں کی گڈی تھی۔ وہ اس گڈی کو تکتا رہ گیا۔
”کافی ہے اتنا ثبوت یا کچھ اور…”ہیولے کی آواز میں واضح طنز تھا۔
فلک حیرت سے پیسوں کو اور پھر ہیولے کو دیکھ کے بڑبڑایا ۔
”کیا مطلب ہوا اس چیز کا۔ کیا تم…کیا تم …”
”ہاں میں انسان نہیں ہوں۔ تم ٹھیک سمجھے ہو اور اب میں تمہارے احسان کا بدلہ اتارنا چاہتا ہوں۔ تم نے ویسے ہی میرا کافی وقت ضائع کردیا ہے۔ مجھے اپنی دنیا میں جانا ہے، لیکن تمہاری وجہ سے کب سے اس جگہ پاپند ہوکے رہ گیا ہوں۔”
”لیکن کیوں… میں ہی کیوں؟” فلک نے ہکلاتے ہوئے پوچھا۔ وہ ابھی تک بے یقین ہی تھا۔ آج کے سائنسی دور میں ایسی انہونی ہونا، عقل سے مبرا تھی۔
”کون سی دنیا ، کون ہو تم…”
”ہماری دنیا کے بھی کچھ اصول ہیں۔ ہم مجبور ہیں اسے پورا کرنے کے لیے۔”
”ایسا کیسے ممکن ہے… ”فلک ہانپ رہا تھا۔ کوئی جن بھوت مجھ سے بات کررہا ہے اور میں اس کو دیکھ بھی رہا ہوں۔
”اس دنیا میں ہر چیز ممکن ہے فلک شیر۔ مجھے اپنی کوئی ایک خواہش بتاؤ تاکہ تمہارا احسان اتار کے میں اپنی دنیا میں لوٹ سکوں…”
”ایک خواہش… یعنی تم میری …تم … تم وہ پوری کردوگے؟” فلک نے آنکھیں پھاڑتے ہوئے بچگانہ سوال کیا۔
”ہاں فلک شیر۔ کوئی بھی ایک خواہش، لیکن اس کی بھی ایک شرط لاگو ہوگی تم پر۔”
”تم میری خوشی پوری کرسکتے ہو یعنی، کوئی بھی ایک خواہش۔” فلک اپنی ہی سوچ میں گم تھا۔
”ہاں لیکن… ایک معمولی سی پابندی کے ساتھ۔” ہیولے نے اسے تنبیہ کرتے ہوئے احساس دلانا چاہا، لیکن فلک شیر اس وقت اپنے حواس میں ہی کہاں تھا۔ وہ توایک خواہش سن کے ہی ایشل کے تصور میں گم ہوچکا تھا۔
”کیا ایشل مجھے اب مل سکتی ہے ۔ ایسا ہونا ممکن ہے ؟”
”ہاں یہ بھی ممکن ہے۔ ہیولے نے اسے تسلی دی۔جو بولو گے وہ ہوجائے گا۔ لیکن…”
”ایشل میری ہوسکتی ہے ۔” فلک نے ہیولے کی بات کاٹ کے بلند آواز میں سرگوشی کی، جیسے خود کو یقین دلانا چاہتا ہو۔
”وہ میری ہوسکتی ہے ،مگر… کیسے ، کیا کوئی جادو کروگے تم…ایشل مجھے دے دوگے۔”
”ہر چیز ممکن ہے فلک شیر، لیکن…”
”لیکن کیا؟” فلک نے بے ساختہ پوچھا۔
”مجھے کچھ دینا ہوگا کیا۔ کوئی جادو تو نہیں کرواؤگے مجھ سے۔ دیکھو میں قبرستان میں کوئی چلہ نہیں کاٹ سکتا اور نہ ہی کوئی قبر کھود سکتا ہوں۔” گھبرائے ہوئے فلک نے رکے بغیر ہی اپنے دل کی الجھن ایک ساتھ کہہ دی۔
”ایسا کچھ نہیں ہے فلک شیر، لیکن یہ ممکن نہیں کہ ہر چیز مکمل ہو۔ جیسے میں اس عامل کی قید سے بچ گیا، لیکن اب مجبور ہوں تمہاری خواہش پوری کرنے کے لیے ، بالکل اسی طرح…”ہیولے نے لمحہ بھر رک کے فلک کو دیکھا جو ہمہ تن گوش تھا۔
”بالکل اسی طرح میں پھر مجبور ہوں گا ، تمہاری وہی خواہش دس سال بعد پوری کرنے کے لیے۔”
”کک ک کیا مطلب؟” فلک نے نہ سمجھی سے پوچھا۔
”سیدھی سی بات ہے فلک شیر۔ تمہاری جو خواہش ابھی پوری ہوگئی، وہی دس سال بعددوبارہ پوری کرنی ہوگی مجھے۔ اسی لیے بہت سوچ سمجھ کے بولنا۔ ایسا نہ ہو بعد میں ہاتھ ملتے رہ جاؤ۔ ابھی وقت تمہارے ہاتھ میں ہے۔ سوچ لو پھر خواہش کا اظہار کرنا۔”
فلک نے اچنبھے سے ہیولے کو دیکھا جو پوری طرح سنجیدہ تھا۔
”یہ… یہ کیا بات ہوئی بھلا؟”
”اور بس پھر۔ اس کے بعد میرا تمہارا کوئی واسطہ نہیں رہے گا۔” ہیولے نے جیسے فلک کی بات ہی نہیں سنی۔
”تم اپنی دنیا میں… میں اپنی دنیا میں واپس۔”
فلک نے کچھ سوچتے ہوئے سر ہلایا۔
”اچھا میں کل سوچ کے بتاؤں گا۔”
”ہاں ضرور… کمان سے نکلا تیر اور زبان سے نکلی بات واپس نہیں پلٹ سکتی۔ اس کا دھیان رکھنا۔” ہیولہ یک دم غائب ہوگیا ۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

کچن میں ایک دن — نایاب علی

Read Next

خونی سایہ — عمارہ خان (تیسرا اور آخری حصہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!