خونی سایہ — عمارہ خان (دوسرا حصہ)

رات گئے فلک گنگناتا ہوا گھر داخل ہوا، تو سارہ نے اس کا خوش گوار موڈ دیکھ کر اپنے اندر بھی روشنیاں سی محسوس کیں۔
”کہاں سے آرہے ہیں جناب بڑے خوش ہیں؟” سارہ نے مسکراتے ہوئے فلک کو مخاطب کیا۔
”ہوں…” فلک بے ساختہ چونک گیا۔
”کام سے ہی آرہا ہوں۔”
”لگتا ہے کوئی خاص بات ہے ورنہ کام سے تو روز ہی آتے ہیں، لیکن ایسے ہنستے مسکراتے تو…” سارہ نے جان بوجھ کے بات ادھوری چھوڑی کہیں فلک کا موڈ پھر خراب نہ ہوجائے۔
فلک نے سارہ کو جواب دینے کی خاطر اس کی جانب دیکھا، تو وہ بری طرح چونک گیا۔ سارہ کے پاس ایک کالا بلا بیٹھا ہوا تھا اور جس انداز میں سارہ اُسے سہلارہی تھی لگتا تھا پالتو ہے، لیکن پہلے کبھی دکھائی تو نہیں دیا۔اُس نے دل میں سوچا۔
”آپ آج جلدی آگئے ہیں، تو کہیں باہر چلیں۔” سارہ نے جھجکتے ہوئے کہا۔ قسمت سے تو ایسا موقع ہاتھ آیا تھا کیسے جانے دے سکتی تھی بھلا۔
فلک نے بہ غور بلے کو دیکھتے ہوئے سارہ کو جواب دیا۔
”پھر کبھی سہی بہت تھکن ہورہی ہے۔”
”کھانا کھائیںگے؟” سارہ نے کھڑے ہوتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں کھانا میں کھا کے آیا ہوں۔”
سارہ کو ایک دم مایوسی ہوئی۔
”اچھا میں نے نہیں کھایا ابھی تک۔” نہ چاہتے ہوئے بھی سارہ کا دل اُداس ہوگیا۔
فلک نے سر جھٹکتے ہوئے سارہ کو دیکھا۔
”تم کھالو اور ایسا کرو چائے بنا لاؤ ساتھ پی لیںگے۔”
”ہاں ہاں ابھی لائی۔” سارہ کے لیے اتنی الفت ہی کافی تھی۔ وہ فوراً کچن کی جانب بڑھی۔ یہ محسوس کیے بغیر کہ اس کے جانے سے وہ کالا بلا جس سے وہ کچھ ہی دیر پہلے باتیں کررہی تھی غراکے ایک طرف ہوگیا ہے۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”کل مل سکتی ہو ایشل۔” فلک نے کمرے میں آتے ہی ایشل کو میسج کیا۔
”مشکل ہے فلک۔ کل بہت کام ہے۔” ایشل نے اپنا بیگ پیک کرتے ہوئے جواب ٹائپ کیا۔
”اچھا تو پرسوں…”
”پرسوں میں اسلام آباد جارہی ہوں۔ ان فیکٹ اسی کی تیاری کررہی تھی۔” ایشل نے تھکے ہوئے انداز میں بیگ کو ایک طرف کیا اور بیڈ پر بیٹھ گئی۔
”کب کی فلائٹ ہے۔ میں ائیرپورٹ آجاؤں گا۔ کچھ وقت ساتھ گزار لیں۔” فلک نے بے صبری سے پوچھا، تو ایشل نے مسکراتے ہوئے اپنا عکس ڈریسنگ کے آئینے میں دیکھااور خود پر ناز کرتی ہوئی جواب ٹائپ کرنے لگی۔
”اوکے فلک۔ میں انتظار کروں گی۔” فلک نے بھرپور انداز میں انگڑائی لی اور صوفے پر نیم دراز ہوگیا۔ تصور میں ایشل کو دیکھ کے از خود ہی اُس کے لب مسکرانے لگے۔
”کیا بات ہے آج تو آپ کے چہرے سے مسکراہٹ ہی نہیں جارہی۔” سارہ کی آواز سن کے فلک کے چہرے کے تاثرات جس تیزی سے بدلے اس نے سارہ کے نسوانی پندار کو بھرپور ٹھیس پہنچائی۔
”کچھ نہیں بس ایسے ہی۔” فلک نے سامنے کھڑی سارہ کو دیکھا اور ایک بار پھر چونک گیا۔ سارہ کے ساتھ وہ کالا بلا بھی کمرے میں آچکا تھا۔
”یہ…”فلک نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے بے ساختہ بلے کی جانب اشارہ کیا۔
”اچھا ہے نا۔ معلوم ہے ہم میں بہت دوستی بھی ہوگئی ہے۔” سارہ نے بلے کو پیار بھری نگاہوں سے تکتے ہوئے جواب دیا۔ اب وہ فلک کو کیا بتاتی کہ سارادن ایک وہی تو پاس ہوتا ہے جس سے باتیں کرتی ہے اور وہ خاموشی سے سن بھی لیتا ہے۔
”یہ آیا کہاں سے؟”
”پتا نہیں… میں نے دھیان نہیں دیا۔” سارہ نے سرسری سا جواب دیا۔
”کیوں کیاہوا۔ کوئی مسئلہ ہے؟”
”نہیں بس ایسے ہی۔” فلک نے بلے کو بہ غور دیکھتے ہوئے سارہ کو تسلی دی۔
”ہمارے گھر میں اس سے پہلے کوئی جانور نہیں پلا تو، حیرت سی ہوئی لیکن چلو اچھا ہے اگر تمہارا دل بہل جاتا ہے تو خیر ہے۔”
”مجھے دل بہلانے کے لیے کسی جانور کی نہیں آپ کے وقت کی ضرورت ہے فلک۔” سارہ نے دل ہی دل میں فلک کو جواب دیتے ہوئے ہونٹ بھینچے، لیکن کچھ کہنے سے پرہیز ہی کیا۔ یہ جو دو پل کی رفاقت ملی تھی اس کا لطف خراب کرنا کہاں کی عقل مندی تھی۔
٭…٭…٭
”ہاں ہاں کیوں نہیں آج ڈنر پر ملتے ہیں۔” فلک نے لیپ ٹاپ ایک طرف کرتے ہوئے سکون سے صوفے کی بیک سے ٹیک لگائی اور ایشل سے باتیں جارہی رکھیں۔
”لیکن آج اتوار ہے۔ تم یقینا اپنی فیملی کو وقت دو گے نا۔” ایشل نے شاید اپنی وقعت جاننا چاہی تھی۔ جانے انجانے وہ اپنا موازنہ فلک کی بیوی سے کرنے لگی تھی۔
”تم سے بڑھ کے کوئی نہیں ہے ایشل…” فلک نے جذب سے جواب دیا، تو دوسری طرف ایشل کے چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ دوڑ گئی۔
”پھر بھی اچھا نہیں لگتا فلک چھٹی کے دن تم…” ایشل نے اوپری دل سے جواب دیا۔
”ہم کل ڈنر کرلیں گے بس۔”
”میں پورے سات بجے تمہیں پک کرنے آجاؤں گا۔ ریڈی رہنا۔” فلک نے دھونس بھرے انداز میں ایشل کا مان رکھا۔
”جیسا تم کہو اب میرے پاس تمہارے سوا ہے ہی کون فلک…” ایشل نے بلا جھجک اعتراف کیا۔
فلک، ایشل سے باتیں کرتا اپنا لیپ ٹاپ ریک میں رکھنے کے لیے کھڑا ہوا ،تو ایک دم چونک گیا۔ گہری اور بھاری سانسوں کی آواز نے اسے پلٹنے پر مجبور کردیا تھا۔
”ہیلو ہیلو…” ایشل نے فلک کا جواب نہ پا کے اسے مخاطب کیا۔
”ہاں سن رہا ہوں۔” فلک نے کن انکھیوں سے کمرے کا جائزہ لیا، لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔ سامنے آئینے نے بھی فلک کی سوچ کی تصدیق کی کہ کمرے میں اس کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے۔ کندھے اچکا کے فلک نے ایک بار پھر ایشل سے بات کرتے ہوئے، ڈریسنگ ٹیبل سے پرفیوم اٹھا کے خود پر چھڑکا، لمحہ بھر کھڑے رہ کے خود کا عکس دیکھاور واپس پلٹ گیا۔
”لیکن … لیکن۔” فلک کے جانے کے بعد بھی ایک عکس آئینے میں نظر آرہا تھا جو اس بار پچھلی بار کی طرح کافی نمایاں تھا۔ کالا چغہ پہنے وہ سایہ غیر معمولی طور پر لمبا تھا۔
٭…٭…٭
ڈھلتی ہوئی رات جہاں سارہ اداس لیٹی فلک کو مسلسل کام کرتے دیکھ رہی تھی۔ وہیں وہ کالا بلا بھی خون خوار نگاہوں سے فلک کو گھور رہا تھا۔ بالآخر سارہ نے گہری سانس لے کے خود پر ترس کھایا اور سونے کی کوشش کرنے لگی ۔ اسے دیکھ کے کالے بلے نے باہر کی جانب قدم بڑھائے اور پل بھر میں وہ عامل کی جھگی میں تھا۔
”ہوں آگئے…” عامل نے آنکھیں موندے ہی اسے مخاطب کیا اور اچانک چونک کے آنکھیں کھول دیں۔
”نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔ نہیں نہیں۔” عامل نے گھبرا کے اِدھر اُدھر دیکھا اور ہیجانی لہجے میں نہیں نہیں کا ورد کرنے گا۔ا سی کے ساتھ کالا بلا بھی بے تابی سے جھگی کے اندر بے چینی سے چاروں طرف پھرنے لگا۔ جیسے باہر جانے کا راستہ تلاش کررہا ہو۔
”تم کچھ ہی وقت تک آزاد ہو۔” عامل نے ایک جگہ گھورتے ہوئے تلخ لہجے میں ،کہا تو کالا بلا دبک کے ایک کونے میں بیٹھ گیا۔
”تم نے اچھا نہیں کیا۔” ایک دم جھگی میں سرگوشی نما بھاری آواز گونجی۔
”تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔” عامل نے بہ دستور تیکھے انداز میں جواب دیا۔
”میں تمہارا مالک ہوں۔”
”میں کسی کا غلام نہیں ہوں۔” آواز میں غصہ غالب تھا،لیکن اب تمہیں اس کی سزا بھگتنی پڑے گی جو عمل تم نے میرے لیے کیا تھا۔
”مجھے قابو کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔”
یہ سنتے ہی عامل گھبرا کے چاروں طرف دیکھنے لگا۔
”تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ بھولو مت میں کون ہوں۔” عامل نے اپنی گھبراہٹ پر قابو پانا چاہا۔
”تم جیسے کئی آئے اور کئی گئے۔”
بلا مستقل کونے میں بیٹھا، دوطرفہ باتیں سن کے مزیددبک گیا۔
”تم مجھے ڈرا نہیں سکتے نہ ہی کچھ کرسکتے ہو۔ تم جانتے نہیں میں کون ہوں۔” عامل مسلسل بول رہا تھا، لاشعوری طور پر اس کی آواز بلند سے بلند تر ہوتی جارہی تھی۔ شاید بول کے وہ اپنی پریشانی کم کررہا تھا کیوں کہ اس وقت بھی گہری سانسوں کی بلند ہوتی آواز عامل کو ہیجان میں مبتلا کررہی تھی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

کچن میں ایک دن — نایاب علی

Read Next

خونی سایہ — عمارہ خان (تیسرا اور آخری حصہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!