خونی سایہ — عمارہ خان (دوسرا حصہ)

عامل بند آنکھیں کیے مسکرارہا تھا۔ اس کے سامنے ایک بار پھر تھال سجا ہواتھا۔
”صرف پانچ سال رہ گئے اب تو اسے ، اس لڑکے کے سامنے آنا ہی پڑے گا۔ پھر میں دیکھ لوں گا دونوں کو۔ ایک بار بس ایک بار میرے قابو میں آجائے وہ تو…”
اسی وقت جھگی میں کالا بلا داخل ہوا اور آہستگی سے چلتاہوا عامل کے قدموں میں بیٹھ گیا۔
”ہوں…آگیا ، لگتا ہے تجھے اس کی بیوی پسند آگئی۔”
کالے بلے نے عامل کو دیکھا اور لپک کے اس کی گود میں جا بیٹھا۔
”لیکن مت بھول… ابھی وقت نہیں آیا۔ رک جا ابھی۔” عامل نے نرمی سے اسے سہلاتے ہوئے ٹوکا۔
”جلد بازی نہیں کرنا ، اسے آنے دے پہلے پھر وہ لڑکی تیری…”
کالا بلے نے یہ سن کے عامل کی گود میں سر رکھ دیا جیسے شکریہ ادا کررہا ہو اس دان پر۔
٭…٭…٭
سارہ حسب معمول اکیلی لیٹی اپنے موبائل میں گیم کھیل رہی تھی کہ اچانک اسے فلک کا ایس ایم ملا ۔ حیران ہوکے میسج پڑھا اور مسکراتی ہوئی پھرتی کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ کمرے سے باہر نکلتے نکلتے خود پر نظر پڑی، تو فوراً ہی بال سیٹ کرکے لپ اسٹک لگانے میں کوئی ہرج نہیں سمجھا۔ ایک بھرپور نظر خود پر ڈال کے پرفیوم اسپرے کرکے خوش گوار موڈ میں وہ کمرے سے نکل کے باہر کی جانب قدم بڑھا گئی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

فلک سکون سے چھت پر بیٹھا اپنے لیپ ٹاپ میں حساب کتاب دیکھ رہا تھا کہ اسکرین پر ایک عکس نمودار ہوا ۔وہ ایک دم ساکت ہوگیا۔ عکس چلتاہوا دوسری جانب گیا اور جیسے ہی لیپ ٹاپ اسکرین سے غائب ہوا، فلک نے فورا ًہی پلٹ کے دیکھا، لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔ فلک نے آنکھیں مسل کے خود کو یقین دلایا کہ و ہ خواب نہیں دیکھ رہا۔ کام کی طرف دھیان دینا چاہا، لیکن لیپ ٹاپ کی طرف اب توجہ کیسے ہوسکتی تھی بھلا جب بائیں جانب گہری سانسوں کی مدھم آواز بھی سنائی دے رہی ہو۔
٭…٭…٭
سارہ کنگناتی کچن میں چائے بنانے کی تیاری میں لگی ہوئی تھی ۔دو کپ نکال کے ٹرے میں رکھے اور ساتھ ہی کیتلی میںپانی ڈال کے چولہا جلانے لگی۔ جلتے ہوئے برنر پر کیتلی رکھ کے جیسے ہی چائے کی پتی ڈالی چولہا بند ہوگیا۔ سارہ نے حیرانی سے اسے دیکھا اور ماچس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ چینی کا ڈبا کیبنٹ سے نکالنے کے لیے پلٹی اور ایک بار پھر بجھا ہوا چولہا دیکھ کے ہکا بکا رہ گئی۔
”یہ کیا ہورہا ہے۔ شاید گیس کا وال ڈھیلا ہوگیا ہے۔” سارہ نے خود کلامی کی اور گیس پائپ کو الٹ پلٹ کے دیکھنے لگی۔
”ہر چیز تو ٹھیک ہے پھر یہ بار بار بند کیوں ہورہا ہے۔” سارہ نے ایک بار پھر چولہا جلاتے ہوئے سوچا اور اس بار وہیں کھڑی رہی جب تک چائے نہیں بن گئی۔ اس کے عین پیچھے کچن کے دروازے کے بیچوں بیچ کالا بلا سارہ کو گھور رہا تھا۔ اگر سارہ پلٹ کے دیکھ لیتی، تو اسے معلوم ہوجاتا کہ وہ کسی معصوم جانور کی آنکھیں ہرگز نہیں تھیں۔ یہ تو کسی رقیب کی نفرت میں ڈوبی ہوئی آنکھیں تھیں جو اپنی محبوبہ کو رقیب کے لیے تیار ہوتا دیکھ کے بے بسی محسوس کررہا ہو۔
٭…٭…٭
فلک نے لیپ ٹاپ بند کر دیا اور پرسوچ نگاہوں سے چھت کا جائزہ لینے لگا۔ اسی وقت سیڑھیوں پر آہٹ سن کے وہ پھرتی سے اٹھ کھڑا ہوا، لیکن سارہ کو دیکھ کے حیران رہ گیا۔
”تم …اس وقت ؟”
”وہ…وہ یہ … وہ یہ چائے…”سارہ نے اٹکتے ہوئے فلک کو جواب دیا۔
”یہ کون سا وقت ہے چائے پینے کا؟” فلک نے ناگواری سے اسے دیکھا اور ہاتھ میں تھامی ہوئی ٹرے کو جہاں بھاپ اڑاتے دو کپ رکھے ہوئے تھے۔
”آپ نے ہی تو میسج کیا تھا ورنہ میں تو سونے لگی تھی۔” سارہ نے فوراً ہی اپنی صفائی دینا ضروری سمجھا۔
”آپ کے ساتھ اپنا بھی ایک کپ بنالیا کہ ساتھ ہی…”
فلک اسے مسلسل گھور رہا تھا۔
”میں جھوٹ نہیں بول رہی فلک۔” نا چاہتے ہوئے بھی سارہ ہکلا گئی۔
”میں نے… تمہیں میسج کیا؟” فلک نے طنزیہ انداز میں انگلی سے اپنی طرف اشارہ کیا اور پھر سارہ کی طرف وہی انگلی کی۔
”نہیں نہیں سچ میں، میں کیوں جھوٹ بولنے لگی آپ سے۔” سارہ نے بے یقینی سے فلک کو دیکھا۔
”اچھا دکھاؤ ذرا کہاں ہے وہ میسج؟”
”یہ دیکھیں۔” سارہ نے پھرتی سے موبائل کھولا سامنے ہی وہ میسج تھا جس کے نیچے فلک لکھا ہوا تھا، لیکن نمبر انجان تھا۔
”خود ہی پڑھ لیں۔”
فلک نے سارہ کے ہاتھ سے موبائل لیا اور میسج پڑھ کے حیران رہ گیا۔
”لیکن میں نے تم کو کوئی میسج نہیں کیا …اور یہ نمبر…”فلک بے ساختہ چونک گیا۔
”یہ نمبر…”سوچتی ہوئی نگاہوں سے فلک نے نمبر کو دہرانا شروع کیا۔
”ہاں پتا نہیں کون سا ہے۔ اگر آپ کا نام نیچے نہ لکھا ہوتا، تو مجھے کیسے علم ہوتا کہ آپ نے ہی میسج کیا ہے۔ ویسے یہ کون سی سم ہے آپ کی؟” سارہ نے بات سے بات نکالتے ہوئے پوچھا، لیکن فلک اسے سن ہی کب رہا تھا۔ وہ تو اس نمبر کو حیرانی سے تک رہا تھا جس سم کو شادی کے دن اس نے اپنے ہاتھ سے توڑ کے پھینک دیا تھا اس نمبر سے سارہ کو ایس ایم ایس کیسے آسکتا تھا۔
سارہ نے خاموشی سے فلک کے چہرے پر پھیلی پریشانی دیکھی۔ ان دونوں کے علاوہ چھت پر کالا بلا بھی تھا جو فلک کو نفرت سے گھور رہا تھا۔
٭…٭…٭
انہی روکھے سوکھے دنوں میں فلک ایک معروف شاپنگ پلازہ چلا گیا جہاں بعض اشیاء مارکیٹ سے بھی ارزاں نرخوں پر دستیاب تھیں۔ فلک کا ارادہ وہ اشیاء خرید کے اپنے اسٹور پر بیچنے کا تھا تاکہ معقول منافع مل سکے۔ وہ پارکنگ میں اپنی گاڑی پارک کرکے باہر نکلنے ہی لگا کہ ایک گاڑی قریب آکے پارک ہوگئی۔ فلک نے اس گاڑی کو دیکھا اور اچانک اسے لگا ، کسی نے اس کی سانس روک لی ہو۔
”ایشل…”
فلک نے زیرلب ایشل کا نام لیا اور ٹکٹکی باندھے گاڑ ی سے اترتی ایشل کو دیکھتا رہ گیا۔ ایشل بھرے بھرے جسم کے ساتھ پہلے سے زیادہ حسین لگ رہی تھی۔ وہ فلک کی موجودگی سے یکسر انجان، اپنی ساڑھی سنبھالتے ہوئے گاڑی لاک کرنے میں مصروف تھی کہ کسی نے اُسے پتھر کا بت بنا دیا۔
”ایشل…”
فلک نے فوراً بلند آواز میں ایشل کو پکارا، اس سے پہلے کہ وہ بھیڑ میں کہیں گم ہوجاتی۔
ایشل نے اپنا نام سن کے پہلے خود کو یقین دلایا اور آہستگی سے پلٹی۔ سامنے ہی فلک کی محبت بھری نگاہوں کو دیکھ کے وہ بے اختیار اس کی جانب کھنچی چلی گئی۔
٭…٭…٭
وقت تھم سا گیا تھا شاید یا دونوں کو لگا رہا تھا کہدنیا میں وہ ہی دو رہ گئے ہیں۔ دونوں ریستوران میں آمنے سامنے بیٹھے ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے ماضی کی کوئی تلخ بات جان بوجھ کے نہیں کررہے تھے۔
”کیسی ہو…؟”بالآخر فلک نے پہل کی۔
”دیکھ لو تمہارے سامنے ہی ہوں۔” ایشل نے دھیرے سے جواب دیا۔
”اداس کیوں ہو؟”
”تم بھی تو خوش نہیں لگتے۔”
”تم سے بچھڑ کے خوش کیسے رہ سکتا تھا۔”
”پھر چھوڑا کیوں تھا۔”
”میری غربت نے …”
”مجھے معلوم ہوگیا تھا کہ پاپا نے…” ایشل نے گہری سانس لے کے بات ادھوری چھوڑ دی۔
فلک کے سر سے جیسوں منوں بوجھ اترگیا ہو۔ یعنی ایشل کو حقیقت معلوم ہوگئی تھی۔
”میں نے دل سے ہی ذیشان کے ساتھ نیا سفر شروع کیا تھالیکن…”
”لیکن…”
”وہ… اب… اس دنیا میں نہیں۔”
فلک چونک کے اُداس آنکھوں والی ایشل کو دیکھتا رہ گیا۔ آہ، اس کی ایشل اتنے بڑے سانحے سے گزری اور اسے علم ہی نہیں ہوسکا۔
”تو اب تم…”فلک کے پاس الفاظ کم پڑ گئے تھے۔
”پاپا کے بعد میں اُن کی فیکٹری دیکھ رہی ہوں اور بس…”
”سکندر صاحب بھی…”فلک کو ایشل کی پوزیشن کا احساس ہوا۔
ہاں اُنہیں صحیح ڈر تھا کہ … میں جلد شادی کرلوں اور میری شادی کے دو ماہ بعد ہی…”
”اوہ آئی ایم سوری۔”
”میرے بارے میں تو سب جان لیا ، کچھ اپنے بارے میں بھی بتاؤ۔ کیا کرتے رہے اتنے سال کہاں رہے؟”
”کچھ نہیں بس… فلک اپنی بپتا سنانے ہی لگا تھا کہ ایشل کا فون آگیا۔ وہ فوراً ہی جانے کے لیے تیا ر ہوگئی ۔ ”
”اوکے اوکے… اُنہیں روک کے رکھیں۔ ٹھیک ہے۔ میں آتی ہوں۔”
ایشل نے فون بند کیا اور جانے کے لیے کھڑی ہوگئی۔
”ملتے رہنا اب فلک۔ اگر… مناسب سمجھو تو۔” ایشل نے جھجک کر فلک کی آنکھوں میں دیکھا۔
”تم سے نہیں ملوں گا، تو کس سے ملوں گا ایشل۔” فلک نے سرعت سے اسے جتلادیا کہ وہ ابھی تک ایشل کو نہیں بھولا۔
”میرا سیل نمبر لے لو۔”
فلک نے الوداعی نظروں سے ایشل کا احاطہ کیا اور مسکراتے ہوئے اس کے ساتھ پارکنگ کی جانب قدم بڑھادیے۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

کچن میں ایک دن — نایاب علی

Read Next

خونی سایہ — عمارہ خان (تیسرا اور آخری حصہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!