خونی سایہ — عمارہ خان (دوسرا حصہ)

چوڑیوں کی کھنک اور سریلی گنگناہٹ کچن کی محدود فضا میں بکھر رہی تھی۔ نک سک سے تیار نسوانی وجود خوشبوؤں میں بساہوا تھا۔ اچانک اوون کی آواز نے سارہ کو بتایا کیک بیک ہوگیا ہے۔
آ ہا…ہیپی برتھ ڈے ٹو می۔ ہیپی برتھ ڈے ٹومی سارہ ۔
سارہ جس کا آج جنم دن تھا وہ سرشام ہی تیار ہوکے اپنے لیے کیک بیک کرچکی تھی۔ اسے علم تھا فلک شیر کو یہ معمولی باتیں یاد نہیں رہتیں۔ خشک مزاج بلکہ کچھ حد تک سرد مزاج فلک سارہ کی اوّلین چاہت تھا اور اس کا مزاجی خدا بھی۔ راشد علی کے بعد سار ہ اورقدسیہ بیگم ہی رہ گئے تھے جو اس چھوٹے سے گھر میں مل جل کے رہتے تھے ۔سارہ جہاں خود کو خوش نصیب سمجھتی تھی کہ اچھی ساس ملی وہیں ایک شکوہ بھی اکثر دل میں امڈ آتا کہ کاش فلک ذرا خوش مزاج ہوتا ،تو لائف بہت بہترین گزر سکتی تھی ۔ خیر اچھی بھلی جیسی بھی تھی غنیمت ہی تھی۔ سارہ نے گہری سانس لے کے کیک کی دلفریب مہک اپنے اندر بھری اور ایک دم چونک گئی ۔ اچانک اسے احساس ہوا اس کے پیچھے سے کوئی سایہ گزرا ہے۔ اس نے ڈرتے ڈرتے پلٹ کے دیکھا، لیکن کوئی نہیں تھا۔ پلٹتے ہی سامنے صحن میں رکھے ہوئے جھولے پر موجود موبائل پر نظر گئی تو ذہن کی رو فلک کی جانب ہوگئی۔
کوئی فون کیا نہ کوئی میسج۔ چلو ہم ہی یاد دلادیتے ہیں۔ آج آپ کی بیگم کی سالگرہ ہے۔ سارہ نے کچن سے نکل کے فون اٹھایا اور زیر لب بڑبڑاتی فون ملانے لگی ۔
”ہیلو…”
”میں سارہ…”
”وہ بس ایسے ہی…”
”جی مجھے معلوم ہے آپ کام کررہے ہیں۔”
”اچھا سوری۔” شادی کے بعد سارہ کی دوسری سالگرہ تھی اور وہ پہلی سالگرہ کے تلخ تجربے سے یہ نہیں سیکھ پائی کہ فلک کو اس کا شوخ ہونا ناگوار گزرتا تھا اور نہ ہی وہ اس کے ساتھ زیادہ وقت گزارتا ہے۔ لیکن معاشی طور پر کوئی تنگی نہیں تھی، کوئی پابندی نہیں تھی۔ اسی لیے سارہ کو یہ باتیں نظراندا ز کرنا زیادہ مناسب لگا بجائے جھگڑنے کے۔
”میاؤں…”
سارہ جو ابھی تک گم صم سی موبائل ہاتھ میں لیے جھولے پر بیٹھی تھی۔ اچانک انتہائی قریب سے آواز سن کے چونک گئی۔ سامنے ہی ایک کالا بلا اسے اپنی طرف تکتا ہوا دیکھ کے وہ لمحہ بھر کو ڈر گئی لیکن پھر مسکراتی ہوئی کھڑی ہوئی اور کچن کی جانب جاتے ہوئے بلے سے باتیں کرنے لگی۔
”ارے تم پھر آگئے بہت ہی شریر ہو بھئی ۔ چلو اب تم ہی میرے ساتھ سالگرہ منالو۔ مانو بلے یا بلی ؟ہوں… کیا کہوں تمہیں ۔” سارہ نے کیک ٹرے میں نکال کے مسلسل باتیں کرتی رہی۔
”چلو فلک نہ سہی تم سہی۔ آجاؤ کیک کاٹتے ہیں۔” سارہ اداسی سے کیک کاٹنے کی تیاری کررہی تھی اور بلا کچن کی چوکھٹ پر بیٹھا اسے اپنی نظروں میں سمائے ہوئے تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

فلک مصروف انداز میں بیٹھا اسٹور کا حساب کتاب دیکھنے میں مصروف تھا کہ قدسیہ بیگم وہیل چیئر پر اس کے پاس آگئیں۔ لمحہ بھر اس کی مصروفیت دیکھتی رہیں اور مدھم آواز میں اسے مخاطب کیا۔
”فلک…”
”جی اماں۔” فلک نے سر اٹھائے بغیر جواب دیا۔
”تم ایسا کیوں کرتے ہو اور کب تک کرتے رہوگے۔” تیکھے انداز میں قدسیہ بیگم نے اپنے اکلوتے بیٹے کو عدالت میں کھڑا کیا ہو جیسے ۔
”کیاہوا اماں،اب کیا کردیا میں نے؟” فلک نے اُسی انداز میں پوچھا۔
”تمہاری بیوی ہے سارہ، کل اس کی سالگرہ تھی اور وہ بے چاری اتنی دیر تک جاگتی رہی تمہارے انتظار میں۔”
”اماں میں کام کررہا تھا۔” فلک نے چڑتے ہوئے قدسیہ بیگم کی بات کاٹی۔
”رات گئے تک بیوی کا پھولا ہو ا منہ برداشت کیا، تو اب صبح ہی صبح اماں کی عدالت میں پیشی ہوگئی۔”
”نہیں کرو ایسا فلک نہیں کرو۔ معصوم بچی ہے وہ ۔ جب سے شادی کرکے آئی ہے تمہاری معذور ماں کو سنبھال کے رکھاہوا ہے اورتم ایک ذرا خوشی نہیں دے سکے اسے۔” قدسیہ بیگم کو حقیقتاً کل سارہ کے تیار ہوکے انتظار کرنے کا دکھ تھا۔ شادی کے بعد پہلی سالگرہ پر وہ لوگ اسپتال میںتھے کہ عمرے سے واپسی پر ائیرپورٹ سے گھر آتے ہوئے جہاں راشد علی گاڑی الٹنے سے موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے تھے اور قدسیہ بیگم بھی ایک ٹانگ سے معذور ہوکے وہیل چیئر پر آگئی تھیں اور ا س موقع پر سارہ نے بیٹیوں کی طرح دیکھ بھا ل کرکے ان کا دل جیت لیا تھا۔ اسی لیے اُنہیں اب فلک کا مزاج نہیں بھاتا تھا۔ جب وہ سارہ کو نظر انداز کرے یا تلخی سے بولے۔ کون سا وہ تم سے روز کوئی فرمائش کرتی ہے بیٹے لیکن یہ چھوٹی چھوٹی باتیں شادی شدہ زندگی کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ قدسیہ بیگم کے لہجے میں برسوں کا تجربہ بول رہاتھا۔
”اماں اتنے چونچلے اٹھانے کا وقت نہیں ہوتا میرے پاس۔” فلک نے بے زاری سے جواب دیا۔
”بیوی کے چونچلے نہیں اٹھاؤگے تو کیا گلی محلے …”وہ کچھ کہتے کہتے رک گئیں۔
”اماں چھوڑیں بھی اس بات کو۔”
”کاش کوئی اولاد ہوتی، توشاید تمہارے مزاج پر فرق پڑجاتا۔” قدسیہ بیگم کے لیے فلک کا اتنا روکھا ہونا ہی ناقابل برداشت تھا۔
”اماں صرف آپ کی خاطر وہ اس گھر میں ہے اور اب کیا کروں میں۔ جو بن پاتا ہے، وہ کرتو لیتا ہوں۔”
”ایک ذرا ہنس کے بات کرنے سے تمہارا کیا بگڑ جاتاہے؟”
”بس مجھے کمانے دو اماں تاکہ کسی کو بھی پیسوں کی تنگی نہ ہو۔” فلک ابھی تک بھولا نہیں تھا۔ انہی پیسوں کی بدولت اس سے پہلی محبت چھین لی گئی تھی۔
”کمانے کو کون منع کررہا ہے، لیکن گھر والوں کا بھی تو کوئی حق ہوتا ہے یا نہیں۔” قدسیہ بیگم نے ناراض نگاہوں سے فلک کو دیکھا۔
”گھر میں ہے ہی کون ، لے دے کے ایک میں جو اب کسی کام جوگی نہیں اور تمہاری بیو ی جو پورا دن گھر میں لگی رہتی ہے۔ کس کے لیے اتنی محنت کرتے ہو جب سیدھے منہ بات نہیں کرسکتے۔ اسے تمہاری محبت کی ضرورت ہے کاغذ کے ٹکڑوں کی نہیں سمجھے۔”
سارہ نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فوراً ہی ناشتے کی ٹرے فلک کے سامنے رکھی اور وہیں بیٹھ گئی۔
”اماں ان سے پوچھیں کبھی شکایت کی ہویا کبھی کوئی فرمائش کی ہو ؟ ایک کل کا دن ہی تو مانگا تھا کہ جلدی آجائیں ساتھ مل کے کھانا کھالیں گے۔” سارہ کی آواز بھراگئی۔
”اتنی ناجائز فرمائش تو نہیں کی تھی میں نے جو انہوں نے …” سارہ نے بات ادھوری چھوڑ دی۔ فلک نے غصے سے اپنا کپ ٹرے میں پٹخا۔
”اماں انہیں کبھی تنگ نہیں کیا۔ پھر بھی یہ پتا نہیں کیوں اتنے غصے میں رہتے ہیں۔” سارہ نے فلک کا غصے میں آنا بری طرح محسوس کیا ۔
قدسیہ بیگم نے گہری سانس لیتے ہوئے خاموشی سے چائے کا کپ اٹھالیا۔ اب بہو کو کیا بتاتیں وہ صرف ان کی پسند سے آئی ہے اس گھر میں اور بہو کے سامنے بیٹے کو ڈانٹ کے بہو کا مزاج نہیں بگاڑ سکتی تھیں۔ فلک نے بھی ہنکارہ بھرتے ہوئے ناشتا کرنے میں عافیت دیکھی اور رہی سارہ تو اس نے ساس اور شوہر کے تیور دیکھ کے آنسو پینا ہی مناسب سمجھا۔
٭…٭…٭
فلک کے جانے کے بعد آج پہلی بار سارہ نے شادی کے پہلے دن کو مدنظر رکھتے ہوئے فلک کا رویہ ذہن میں تازہ کیا۔
”کس چیز کی کمی ہے مجھ میں۔” سارہ نے دھیرے سے چلتے ہوئے کمرے میں قد آدم آئینے میں خود کو دیکھتے ہوئے زیرلب کہا۔
”فلک کیوں مجھ سے کھنچے کھنچے رہتے ہیں۔” بے دھیانی میں سارہ نے اپنے بال کھولے اور ڈریسنگ کے سامنے بیٹھ کے ہیئر برش کرنے لگی۔
”پیسوں کی بھی اتنی تنگی نہیں ہے جتنا فلک محسوس کرتے ہیں۔ اچھا بھلا خرچہ چل رہا ہے گھر کا پھر پتا نہیں کیوں مزید دولت کی ہوس میں مبتلا ہیں۔” سارہ نے اپنے لمبے گھنے بالوں کو سلجھاتے سامنے ابھرتے اپنے عکس کو مخاطب کیا۔
”میں نظرانداز کرنے کے لائق تو نہیں ہوں۔” اسی وقت سارہ کو آئینے میں کالے بلے کی جھلک نظر آئی تو وہ چونک گئی۔
”ارے یہ کہاں سے آگیا کمرے میں۔” فوراً ہی برش رکھ کے سارہ پیچھے پلٹی، لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔ کندھے اچکا کے ایک بار پھر اس نے آئینے میں دیکھتے ہوئے اپنے بال سمیٹے اور اداسی سے نظریں نیچے کرکے فلک کا تصور کیا۔ اس کی نظریں نیچے کرتے ہی آئینے میں ایک بار پھر کالے بلے کا عکس نمودار ہوا جو فدا ہونے والے انداز میں سارہ کو دیکھ رہا تھا۔ سارہ نے سر جھٹکتے ہوئے اپنے بال باندھے اور الوداعی نظریں خود پر ڈالیں۔
”شاید فلک مجھے پسند ہی نہیں کرتے اسی لیے ایسا رویہ اپنا رکھا ہے۔” سارہ کے سامنے دیکھتے ہی کالے بلے کا عکس غائب تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

کچن میں ایک دن — نایاب علی

Read Next

خونی سایہ — عمارہ خان (تیسرا اور آخری حصہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!