خونی سایہ — عمارہ خان (دوسرا حصہ)

”تو پھر کیا سوچا برخوردار!” راشد علی نے فلک کو دیکھتے ہوئے محبت سے پوچھا۔
”کس بارے میں ابا۔” فلک نے سرسری سے انداز میں پوچھا اور موبائل میںلگا رہا۔
”ہم سوچ رہے تھے تمہاری شادی کردیں۔ تاکہ ہم دونوں بڈھے میاں بیوی اپنے پوتا پوتی کو دیکھ کے ہی اوپر جانے کا ارادہ باندھیں۔” راشدعلی نے تحمل سے ایک بار پھر بات دہرائی۔ راشد علی نے ہلکے پھلکے انداز میں بات کرنا مناسب جانا۔
”شادی…” فلک نے زیرلب دہرایا۔
”ہاں اب تو کام بھی اچھا چل رہا ہے اور ہمارے حالات بھی دیکھو کیسے بدل رہے ہیں۔” راشد علی نے گھر پر ایک فخریہ نظر دوڑائی درودیوار پر تازہ تازہ پینٹ الگ ہی بہار دکھارہاتھا ۔ سونا گھر اب برا لگنے لگا ہے۔
”لیکن ابا… مجھے ابھی شادی نہیں کرنی۔” فلک نے کچھ ہی دور بیٹھی بہ ظاہر انجان بنی اماں پر ایک نظر ڈالی۔
”کیوں؟” قدسیہ بیگم کے لیے اس سے زیادہ چپ رہنا ناممکن ہی تھا۔
فلک نے گہری سانس لے کے خود پر قابو پایا۔ جلد یا دیر اسے اندازہ تھا یہ موضوع گھر میں اُٹھے گا ہی ، لیکن یہ علم نہیں تھا آج ہی پکڑ ہوجائے گی۔
”تیری عمر کے لڑکوں کے بچے بھی ہوگئے ہیں ایک تم ہی ایسے پھر رہے ہو۔” قدسیہ بیگم نے اپنی جگہ چھوڑ کے باپ بیٹے کے پاس آکے بیٹھنے کو فوقیت دی اور فلک کو اپنی عافیت خطرے میں لگنے لگی۔
”دیکھو بیٹے اگر تم کسی کو پسند کرتے ہو تو بے شک بتادو۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔” ابا نے آزاد خیال ہونے کی کوشش کی، لیکن یہ الگ بات ہے کہ اپنی نصف بہتر سے نظریں چرانی پڑیں جو انہیں تیکھے انداز سے گھور رہی تھیں۔
”ہاں کیوں نہیں کراتی ہوں ابھی اس کی پسند کی شادی ۔ اکلوتا ہی بیٹا ہے میرا۔ دیکھ بھال کے شادی کرنی پڑے گی تاکہ دب کے رہے ۔” قدسیہ بیگم کے ذرا الگ خیالات تھے بہو کے لیے ۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”نہیں ابا…ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔ میں کسی کو پسند وسند نہیں کرتا۔ اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو ضرور بتادیتا۔” فلک نے دل پر پتھر رکھتے ہوئے آہستگی سے جواب دیا۔ اچانک اُس کے تصور میں ایشل کا سراپا لہراگیا۔
”تو ہم خود ہی دیکھ لیں کوئی؟” قدسیہ بیگم نے لگے ہاتھوں اسے گھیرنا چاہا۔
”اتنی جلدی کیا ہے اماں شادی کی۔” فلک جھلا گیا۔
”میرے مرنے کے بعد کرے گا کیا؟ ”قدسیہ بیگم نے اچانک بھرائے لہجے میں فلک کا ہاتھ تھامتے ہوئے آخری داؤ کھیلا۔
”سوچا تھا چلتے ہاتھ پیروں سے تیری شادی کردوں گی تاکہ کوئی حسرت باقی نہ رہے۔ کون سا تیرے اور بہن بھائی ہیں جو…” قدسیہ بیگم نے سسکتے ہوئے بات ادھوری چھوڑدی، تو راشد علی نے دل ہی دل میں داد دی اپنی زوجہ کو، کیا بروقت انٹری دے کے بات سنبھالی تھی۔
”اماں…” فلک نے پریشان ہوتے ہوئے ابا کی جانب دیکھتے نظروں ہی نظروں میں مدد طلب کی، لیکن ابا بھی آج اپنی بیوی سے سارے اختلاف بھلائے بیٹھے تھے۔
”کس چیز کی کمی ہے اب جو شادی کو منع کررہا ہے فلک؟ صاف بات بتا مجھے۔” قدسیہ بیگم نے آنسو پوچھتے ہوئے فلک سے سیدھا سیدھا جواب طلب کیا۔
”ایک اولاد ہو تم اور اتنا تنگ کررہے ہو۔”
”اچھا اچھا اماں۔ ٹھیک ہے۔ جیسے آپ لوگوں کی مرضی۔” فلک نے اماں کے رونے پر فوراً ہی ہتھیار ڈال دیے اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔ ایک آخری بار ایشل کو یاد کرنے میں کوئی مضائقہ تو نہیں تھا۔
فلک کے جاتے ہی اماں نے فخریہ انداز میں راشد علی کو دیکھا جو پہلے ہی داد بھری نگاہوں سے اُنہیں دیکھ رہے تھے۔
٭…٭…٭
رات کی تاریکی میں عامل قبرستان میں ایک دھنسی ہوئی قبر کے اندر بیٹھا اپنا جاپ کررہا تھا کہ اچانک کالے بلے نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔
”ہوں…”
اچانک عامل نے مسکرانا شروع کردیا اور کالے بلے کی جانب دیکھتا ہوا زیرِلب بولا۔
”اچھا میرا کام خراب کرکے شادی رچانے کی سوجھی ہے ۔ دیکھتا ہوں کس طرح خوش رہتے ہو۔ جاؤ اور نظر رکھو اس پر۔” عامل نے ہاتھ لہرا کے کالے بلے کو جانے کا اشارہ کیا اور خود کوئی سفلی عمل کرنے لگا۔
٭…٭…٭
”ہاں تو پھرکیا جواب دوں فلک۔” قدسیہ بیگم نے چند ہی روز بعد پھر فلک کو گھیر لیا۔
”کس بات کا جواب اماں؟” فلک نے سکون سے ناشتے کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے پوچھا، تو قدسیہ بیگم چڑ گئیں۔
”تین دن سے ایک فوٹو تمہارے کمرے میں رکھی ہوئی ہے اور تم پوچھ رہے ہو کس بات کا جواب۔ ہر بات کو ایسے پوچھتے ہو جیسے پہلے کبھی اس موضوع پر بات ہی نہ ہوئی ہو۔” اس بار اماں کی بھی بس ہوگئی تھی شاید۔
”اوہ اماں…” فلک نے بے زاری سے چائے کی چسکی لی۔
”لڑکی والے انتظار میں ہیں اور صاحبزادے کو پروا ہی نہیں۔” قدسیہ بیگم نے فلک کو غصے سے گھورتے ہوئے گھرکا۔
”ذرا ہوش کے ناخن لو اب۔”
”اماں چھوڑیں بھی۔ اتنی اچھی گزر رہی ہے چلنے دیں بس…”
”ہاں اور ہمارے آنکھ بند کرنے کے بعد ہمیں بددعائیں دینا کہ گھر بسائے بغیر ہی چلے گئے۔”
”اُف کیسی باتیں کرتی ہیں آپ بھی۔” فلک کے ہاتھ میں چائے کا کپ لرز گیا۔
”ہاں تو اتنی ہی پروا ہے تو…”
”اچھا اماں اچھا جو آپ کی مرضی بس۔ ”فلک نے پھرتی سے جواب دے کر اماں کو خاموش کردیا، لیکن دل کا کیا کرتا جو چیخ چیخ کے صرف ایشل کو مانگتا تھا اتنے وقت بعد بھی۔
”پھر بعد میں شکایت نہیں کرنا کہ پوچھا نہیں۔” قدسیہ بیگم نے حجت تمام کرنی چاہی۔
”کچھ نہیں بولتا بس میں جاؤں۔” فلک نے ناشتے کی ٹرے کھسکا تے ہوئے پوچھا، تو قدسیہ بیگم نے دیکھا اس نے تو ناشتا بھی پورا نہیں کیا تھا۔
”ارے ناشتا تو کرلو پورا ۔”
”بس پیٹ بھر گیا اماں۔” فلک نے جیب سے موبائل نکالتے ہوئے سرسری سا جواب دیا۔
”پھر میں آج لڑکی والوں کو ہاں کہلوادیتی ہوں۔” قدسیہ بیگم نے جاتے جاتے بھی فلک کی سماعتوں کو چیرا۔
”ایشل نہیں تو کوئی بھی سہی ۔”فلک نے تلخی سے سوچا اور سرہلاتا ہوا دہلیز پار کرگیا۔
”شکر ہے۔” قدسیہ بیگم نے پھرتی کے ساتھ کچن سمیٹا اور الماری سے اپنے کپڑے نکالنے لگیں۔ آخر کوبیٹے کے سسرال جانا تھا کوئی مذاق تو نہ تھا۔ قدسیہ بیگم کو علم ہی نہیں تھا کچن کی چوکھٹ پر کب سے کالا بلا بیٹھا انہیں بہ غور دیکھ رہا تھا۔
٭…٭…٭
چھوٹا سا گھر برقی قمقموں سے جگمگارہا تھا جس سے عیاں تھا کہ یہ شادی والا گھر ہے۔
فلک بے دلی سے اپنی شیروانی لیے باتھ روم کی جانب جارہا تھا کہ ایک دم رک گیا۔ اسے گہری سانسوں کی آواز اپنے اردگرد محسوس ہوئی۔ اس نے چونک کے کمرے میں دیکھا اور تنک کے سر جھٹک دیا۔
”پتا نہیں کیا مسئلہ ہے یہ ، کیوں کان بجنے لگتے ہیں۔”
فلک نے منہ بنا کے زیرلب خودکلامی کی اور باتھ روم چلا گیا۔ شیو کرتے وہ بہ غور خود کو دیکھنے لگا تھا۔ تصور میں ایشل کا سراپا لہرا گیا۔ کاش ایشل کے لیے تیار ہورہا ہوتا، تو ایسے اداس تو نہیں ہوتا۔ سوچوں میں گم فلک کو احساس ہی نہیں ہوا کہ وہ آئینے میں دھندلا نظر آنے لگا ہے اور رفتہ رفتہ بالکل ہی غائب ہوچکا ہے۔ فلک نے بے دھیانی میں خود کو کٹ لگالیا اور جب زخم آئینے میں چیک کرنا چاہا، تو حیران ہی رہ گیا۔ سامنے ایک ہیولہ کھڑاتھا۔ فلک کہیں نہیں تھا۔ سر جھٹک کے اس نے ایک بار پھر آئینے کو دیکھا، تو اسے اپنا عکس نظر آیا۔ کیا ہورہا ہے مجھے… فلک نے ڈیٹول سے زخم صاف کرتے ہوئے خود کلامی کی اور ایک بار پھر آئینے میں دیکھا۔ سامنے وہی تھا، لیکن…لیکن اس کے عین پیچھے کالا بلا، شیروانی کے اوپر بیٹھا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ بے ساختہ فلک کی چیخ نکل گئی اور وہ فوراً ہی پیچھے مڑ کے دیکھنے لگا، لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔
٭…٭…٭
رات ایک بجے فلک اُداسی کے عالم میں چھت پر ٹہل رہا تھا۔ نیچے صحن میں محلے کی عورتیں مختلف رسموں میں مصروف تھیں اور فلک اپنی محبت کو الوداع کہنے کی ہمت جمع کررہا تھا۔
اب یہ آخری نشانی بھی تمہاری یادوں کی میں اپنے ہاتھوں سے ختم کررہا ہوں ایشل۔ فلک نے وائلٹ کی اندرونی پاکٹ سے ایک سم نکال کے نظروں کے سامنے کی اور اس کے دوٹکڑے کردیے۔
”ارے تم ادھر ہو میں کب سے ڈھونڈ رہی تھی۔” قدسیہ بیگم نے ہاپنتے کانپتے چھت پر آتے ہوئے کہا۔
فلک نے اداس نگاہوں سے ماں کی جانب دیکھا۔
”کیا کررہے ہو فلک۔ چلو دلہن کے پا س جاؤ۔” قدسیہ بیگم نے بیٹے کی شکوے بھری نگاہوں کی تاب نہ لاتے ہوئے کہا ۔
”اچھا اماں۔” فلک نے گہری سانس لیتے ہوئے سم کے ٹکڑے چھت سے نیچے پھینکے۔
”فلک، ادھر آؤ۔”قدسیہ بیگم نے آہستگی سے پکارا اور ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھیلی کھولی۔
فلک سوالیہ نظروں سے دیکھتا ہوا ماں کے پاس آیا۔قدسیہ بیگم نے اُس کے ہاتھوں کو تھامتے ہوئے اپنی آنکھوں سے لگایا اور تھیلی سے ایک ڈبا نکال کے اُس کی ہتھیلی پر دھرا۔
”مجھے علم ہے تم اس شادی کے لیے دل سے راضی نہیں ہو، لیکن یاد رکھنا وہ تمہارے نام پر اپنے ماں باپ کو چھوڑ کے آئی ہے اور اب وہ تمہاری ذمہ داری ہے۔” فلک ڈبے کو سرسری سا دیکھ کر خاموش کھڑا رہا۔
”اس میں دلہن کے لیے منہ دکھائی ہے ، تم نے تو کچھ لیا نہیں ہوگا نا۔” نہ چاہتے ہوئے بھی قدسیہ بیگم نے طنز کیا، تو فلک شرمندہ ہوگیا۔
”مجھے خیال نہیں رہا اماں۔”
اسی لیے میں نے بنوالیا تھا۔ قدسیہ بیگم نے کہا۔
”فلک جو چیز قسمت میں نہیں لکھی ہوتی اس کے لیے دنیا نہیں چھوڑتے۔ تمہارے مقدر میں سارہ ہی لکھی ہوئی تھی جو مل گئی ہے۔ وہ کسی اور کے لیے تھی اسی لیے تمہیں نہیں ملی۔”
فلک جو نیچے اترنے کے لیے قدم بڑھانے لگا تھا ایک دم رک گیا، لیکن پلٹا نہیں۔
”جو پیچھے رہ گیا اسے بھول کے ہی آگے بڑھنا آسان زندگی گزارنے کے لیے بہترہے اور مجھے یقین ہے تم مجھے شرمندہ نہیں کروگے۔”
فلک کچھ نہ سمجھتے ہوئے بھی بہت کچھ سمجھ گیا اور خاموشی سے سیڑھیاں اترگیا۔ پیچھے قدسیہ بیگم نے بھی نیچے اترنے میں وقت نہیں لگایا۔ دونوں کے جانے کے بعد کالا بلا سکون سے چھت سے کود کے سم کے ٹکڑوں پاس جا بیٹھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

کچن میں ایک دن — نایاب علی

Read Next

خونی سایہ — عمارہ خان (تیسرا اور آخری حصہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!