خونی سایہ — عمارہ خان (دوسرا حصہ)

”سس سسوی سر… آئی ایم رئیلی ویری سوری۔” اچانک فلک کو یاد آیا وہ سکندر صاحب کے آفس کیوں آیا تھا۔
”مجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے سر…”
سکندر صاحب نے میز پر رکھی گاڑی کی چابی اٹھاتے ہوئے نفی میں سر ہلایا، لیکن خوش اخلاقی سے فلک کو دیکھتے ہوئے بات مکمل کی۔
”سوری مائے بوائے۔ اگر آپ کسی فائل کو ڈسکس کرنے آئے ہوتو آئی ہیو نو ٹائم۔ آج بے بی کا رشتہ ہونے جارہا ہے اور مجھے گھر جانا ہے۔”
فلک نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے سکندر صاحب کو مسکراتا ہوا یکھا۔
”ارے ہاں۔ آپ کو بھی مٹھائی کھلائیں گے۔ آخر آپ اس کے کلاس فیلو تھے اور حق ہے آپ کا ایشل کی خوشی میں خوش ہونے کا۔”
”سر میں ایشل سے…”
سکندر صاحب کا ہاتھ کھلے ہوئے دروازے پہ جم گیا۔
٭…٭…٭
”کھانا کھا لو بیٹا۔” قدسیہ بیگم نے کافی دیر سے ایک ہی انداز میں بیٹھے ہوئے بیٹے کو دیکھ کے کہا، لیکن فلک ٹس سے مس نہیں ہوا۔
”فلک …” قدسیہ بیگم نے دھیرے سے اس کا کندھا ہلایا، تو وہ چونکا۔
”جی اماں۔”
”کیا ہوگیا ہے تمہیں ایسے نہیں رہا کرو۔ ایک تم ہی تو اس گھر کی رونق ہو۔”قدسیہ بیگم نے اس کے بکھرے بال سمیٹتے ہوئے پیار بھری نگاہوں سے دیکھا۔
”کچھ نہیں اماں بس ایسے ہی۔” فلک نے ہونٹ بھینچ کے بات پلٹتے ہوئے کہا۔
”اچھا یہ بتائیں کیا پکایا ہے؟”
”جو میرا بیٹا کہے گا وہی پکادوں گی۔” قدسیہ بیگم نے لاڈ سے فلک کے ماتھے پر بوسہ دیا۔
”کچھ بھی بنادیں اماں، لیکن ابھی بس۔”
”چائے پینی ہوگی نا۔” قدسیہ بیگم نے بات کاٹتے ہوئے فوراً ہی مسکراتے ہوئے پوچھا۔ فلک نے اداسی کے عالم میں سر ہلادیا، تو قدسیہ بیگم تیزی سے کچن کی جانب بڑھ گئیں۔ فلک ایک بار پھر نیم دراز ہوکے آسمان کی وسعتوں کو دیکھنے لگا۔ اچانک قدسیہ بیگم کی آواز سن کے ایک بار پھر چونک گیا۔
”فلک تمہارا فون بج رہا ہے۔”
”اچھا اماں۔” فلک نے سر جھٹکتے ہوئے چارپائی سے اٹھنے کی کوشش کی اور فون اٹھا کے پھر لیٹ گیا۔
”ہاں معلوم ہے یار۔ آج ایشل کی شادی ہے۔”
قدسیہ بیگم کے ہاتھ سے چائے چھلک گئی اور قدموں میں سستی اُمڈ آئی۔
”کیا کرتا یار… کی تو تھی بات سکندر صاحب سے لیکن انہوں نے…”
”کیا ہونا تھا۔ ذلیل کرکے جاب سے نکال دیا۔” فلک نے بے رحمانہ ہنسی کے ساتھ جواب دیا، تو قدسیہ بیگم کو اس کا پریشان ہونا سمجھ آگیا۔ نا صرف دل کی دنیا اجڑی تھی بلکہ لگے لگائے روزگار سے بھی ہاتھ دھونے پڑے تھے ان کے بیٹے کو۔
”چھوڑ یار… اسے سوچنے دے میں ہی بے وفا تھا۔ کم از کم خوش تو رہے گی۔ ادھر کیا تھا۔ نہ پیسہ، نہ گاڑی اور نہ اچھا گھر۔” فلک نے حقیقت پسند ہوتے ہوئے سارا الزام اپنے پر لے لیا اور ایک دم چونک کے اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ ایک بار پھر بھاری سانسو ں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”اس سے بات تو کرکے دیکھو نیک بخت۔” راشد علی نے کھانا کھانے کے بعد دسترخوان سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے اصرارکیا۔
”جوان خون ہے ایسے گھر بیٹھے بیٹھے بیمار ہوجائے گا۔”
”ہوں…” قدسیہ بیگم نے پرسوچ انداز میں ہنکارا بھرا۔
”کب سے دیکھ رہا ہوں راتوں کو چھت پر ٹہلتا رہتا ہے یا گم صم بیٹھ کے پتا نہیں کن سوچوں میں رہنے لگا ہے۔ اچھا ہے جب تک نوکری نہیں ملتی دکان ہی دیکھ لے۔”
”لیکن اتنا پڑھ کے…”
”اپنی دکان ہے بھئی کسی کے ماتحت تھوڑی کام کرے گا۔ پھر دیکھتے ہیں اگر اسے دل چسپی ہوگی تو اس دکان میں نئے آئٹم بھرلیںگے۔”
قدسیہ بیگم نے نیم رضامندی سے سر ہلایا۔
”میں نے تو اپنی جان کے مطابق گزارے لائق ہی سودا بھراہوا ہے نا۔ وہ جو کمیٹی نکلنے والی ہے اس کو پوری کی پوری فلک کے ہاتھوں میں رکھ دو۔وہ اپنی سوجھ بوجھ سے دیکھ لے گا۔”
”کہتے تو ٹھیک ہیں آپ فلک کے ابا۔” قدسیہ بیگم نے بھی میاں کی ہاں میں ہاں ملائی۔
”میں تو سوچ رہا تھا فلک سے کہوں وہ جو نئے نئے سودے کی بڑی دکانیں نہیں کھل رہیں اسی طریقے سے اپنی دکان بھی کرلے۔ پیچھے اتنی جگہ خالی پڑی ہے ہمارے پاس۔” راشد علی نے جدید زمانے کے تقاضے پورے کرنے چاہے۔
”ہاں یہ مناسب ہے میں کل ہی فلک سے بات کرتی ہوں۔ ایسے کیسے زندگی چلے گی ابھی ایک ہے کل کو ان شااللہ دو ہوجائیں گے تو…” قدسیہ بیگم نے فوراً ہی بیٹے کے سہرے کے پھول سجانے کا سوچا۔ تو راشد علی نے سکون کا سانس لیا۔ بیٹے سے پہلے اس کی ماں کو راضی کرنا مشکل کام تھا۔ ماں راضی تو اولاد کو وہ خود ہی سمجھا لیتی ہے۔
٭…٭…٭
”تو کیا سوچا پھر تم نے فلک۔” قدسیہ بیگم نے بات کرنے کی ابتدا کی۔
”کس بارے میں اماں۔” فلک جسے آج کل اپنا ہی ہوش نہیں تھا ، اسے کہاں یاد تھا کب اماں نے ابا کی دکان سنبھالنے کی بات کی تھی۔
”ابا کب سے منتظر ہیں تمہارے کہ تم ان کا مضبوط کندھا بنو اور اُنہیں آرام سے گھر بٹھاؤ۔” قدسیہ بیگم نے جذباتی بلیک میل کا سہارا لیا۔
”میں بھی اب تھک گئی ہوں جوڑ توڑ کرکے بیٹے۔”
فلک خالی الذہن کے ساتھ ماں کو دیکھتا رہا اور باتیں بھی سن رہا تھا۔
”بیٹے اسے لیے مانگے جاتے ہیں تاکہ بڑھاپے میں سکون سے زندگی گزرے۔ اب تم ابا کی چھوٹی سی دکان کو بڑے اسٹور میں بدل لو یا چاہے تو اس دکان میں کوئی کام شروع کرلو۔ جیسا میرا بیٹا چاہے وہ کرے۔ پیسوں کی طرف سے فکر نہیں کرنا ، اگلے ہی ماہ میری کمیٹی نکل آئے گی وہ تم لے لینا۔”
فلک نے ماں کی ساری پلاننگ سن کے بھی کوئی تبصرہ نہیں کیا، تو قدسیہ بیگم نے مجبورامصنوعی ناراض ہوتے ہوئے فلک کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
”لگتا ہے اب تمہیں ہماری ضرورت ہی نہیں فلک۔میں کب سے باتیں کررہی ہوں اور تم نہ سن رہے ہو نہ ہی کوئی جواب دے رہے ہو۔ چلو کوئی بات نہیں ، جہاں اتنی گزری ہے باقی بھی گزار لیں گے۔” قدسیہ بیگم نے جان بوجھ کے اُداسی سے بھرپور تاثرات چہرے پر سجائے اور کمرے سے باہر کی جانب بڑھنے لگیں۔
”تمہارے ابا کو بتادوں گی ، ابھی انہیں مزید کام کرنا ہے۔ وہ اس دھوکے میں نہ رہیں کہ جوان بیٹا ان کو گھر بٹھانے لگا ہے۔”
”اماں… ”بالآخر فلک کے بے جان جسم میں جنبش ہوئی۔
”ابا سے بولنا کل سے دکان میں کھولوں گا۔”
”ہائے میں صدقے…”قدسیہ بیگم نے پھرتی کے ساتھ واپس پلٹتے ہوئے فلک کی بلائیں لیں۔
”مجھے معلوم تھا مجھے معلوم تھا۔”
فلک نے یاسیت سے مسکراتے ہوئے اماں کا ہاتھ تھاما اور آنکھوں سے لگاتے ہوئے التجا کی۔
”اماں میرے لیے دعا کر سکون مل جائے۔ بہت بے چینی ہے اندر۔”
”فکر نہ کر میرے لعل۔ میری تو ساری دعائیں ہی تیرے لیے ہیں۔” قدسیہ بیگم نے فلک کے منہ سے اتنی مایوسی کی بات سن کے اپنے اندر سناٹے سے محسوس کیے۔
٭…٭…٭
”شکر ہے مولا کہ اس نے یہ دن بھی دکھائے۔” راشد علی نے پاؤں پسارتے ہوئے سکون سے چائے کا کپ اٹھایا اور لطف لیتے ہوئے چسکیاں لینے لگے۔ مڈل کلاس کے طبقے میں پچاس پچپن سالہ آدمی کے لیے وہ سکون کا لمحہ ہی ہوتا ہے جوان بیٹا کمانے لگے اور وہ گھر بیٹھ کے سکون کا سانس لے۔ مرضی سے اٹھے،بنا روزی روٹی کی فکر پالے اور عیاشی کے ساتھ چائے کی چسکیاں سڑک سکے۔
”فلک چپ چپ رہنے لگا ہے نا۔”قدسیہ بیگم نے بیٹے کی بڑھتی ہوئی خاموشی سے خائف ہوتے راشد علی کو بھی اس معاملے میں کھینچنا چاہا۔
”ارے بھئی کاروبار کی اپنی ہی مصیبتیں ہوتی ہیں نیک بخت۔نیا نیا کام بہت توجہ چاہتا ہے۔”
”لیکن…”
”اب فلک کی شادی کی عمر بھی تو ہے۔” راشد علی نے بات کو دوسرے انداز سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”تبدیلی آئے گی زندگی میں خود ہی بدل جائے گا۔ تجربہ کسی اسکول کی میراث تو نہیں ہے۔”
”کام تو سیٹ ہوجائے پہلے۔” قدسیہ بیگم نے تیکھے لہجے میں راشد علی کو جواب دیا۔
”ابھی سے شادی کرادوں اس کی، ساری زندگی ہم نے تنگی جھیلی اور سیٹ ہوتے ہی پرائی لڑکی مزے لے۔ اتنی جھلی نہیں ہوں ۔ عورتوں کے اپنے ہی پیمانے ہوتے ہیں۔”
”ارے یہ کیوں نہیں سوچتی۔ آنے والی بھی تو اپنی قسمت کا لائے گی آخر… پھر روزی دینے والی ذات اوپر بیٹھی ہے تم کاہے کو پریشان ہوتی ہو۔” چائے کا خالی کپ ٹرے میں رکھتے ہوئے راشد علی کا رواں رواں اپنے پروردگار کا شکر گزار تھا۔ جس نے کماوؑ پوت سے نوازا تھا۔
”ہوں بات تو ٹھیک کہتے ہیں آپ بھی۔” قدسیہ بیگم نے ذہن میں بہت ساری لڑکیوں کو لاتے ہوئے سرسری انداز میں راشد علی کی بات کی تسلیم کی۔
”واہ واہ یہ تو کمال ہوگیا۔ نیک بخت آپ نے میری بات پہلی بار میں ہی مان لی۔”
راشد علی نے بشاشت سے کہا، تو قدسیہ بیگم بھی مسکرا د یں۔
”جو بھی تھا ایک کڑے وقت کے بعد یہ سکون میسر آیا تھا کہ وہ ایک ددسرے کے ساتھ فرصت سے وقت گزار سکیں۔ عقل کی بات جب کریں گے تب ہی مانوں گی نا فلک کے ابا۔ ”
”بس تو پھر وقت نہ خراب کرو اور فوراً ہی اس بات پر عمل بھی کرڈالو تاکہ پوتا پوتی کھیلا کے آنکھیں بند ہوں۔”
٭…٭…٭
فلک نے اپنے نئے اسٹور پر طائرانہ نظر ڈالی اور سامان کی لسٹ دیکھتے ہوئے مزید اشیا شامل کرتا گیا۔ ہوں کافی کچھ رہتا ہے ابھی تو۔ فلک نے سر ہلاتے ہوئے خرچے کا اندازہ لگایا اور موبائل اٹھا کے بینک والے کو فون کرنے لگا۔ جیسے ہی موبائل میں نمبر ڈائل کیے ایک دم روشن اسکرین پر کسی کا سایہ لہرایا۔ فلک نے بری طرح چونک کے چہرہ اٹھایا ، آگے پیچھے دیکھا ، کوئی بھی تو نہیں تھا۔ فلک نے سر جھٹک کے ایک بار پھر نمبر پنچ کیے اور بینک والے سے بات کرنے لگا، لیکن ذہن اسی سائے میں اٹک گیا تھا جس کا عکس موبائل اسکرین پر دیکھا تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

کچن میں ایک دن — نایاب علی

Read Next

خونی سایہ — عمارہ خان (تیسرا اور آخری حصہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!