فلک ناشتا تیار ہے جلدی آجاؤ۔ قدسیہ بیگم نے فلک کو آواز لگائی اور چائے دم پر رکھی۔
فلک جو باتھ روم میں آئینے کے سامنے شیو کررہا تھا، ماں کی آوازسن کے سر ہلاتا منہ پر پانی کے چھپکے مارنے لگا۔ آئینے میں فلک کا عکس نیچے ہوجاتے ہی، اس کے پیچھے کھڑا ایک سایہ آئینے میں نظر آنے لگا۔ اس بات سے بے خبر فلک مستقل چہرے پر چھپکے مار رہا تھا۔
٭…٭…٭
”میں آج سکندر صاحب سے بات کرنے کی کوشش ضرور کروں گا۔” فلک نے سکندر صاحب کے آفس جاتے ہوئے دل ہی دل میں ایک بار پھر خود کو یاد کرایا اور اپنی ہمت بندھائی۔
”کیا ہوا زیادہ سے زیادہ منع ہی کریں گے یا ہوسکتا ہے نوکری سے نکال دیں، لیکن مجھے تسلی تورہے گی کوشش کی تھی ایشل کو پانے کی۔” انہی سوچوں میں گم وہ کب سکندر صاحب کے عین سامنے جابیٹھا اسے علم ہی نہیں ہوا۔
”اوہ یس یس…یو کین کم مائے پلیس۔”
فلک نے چونک کے سکندر صاحب کو دیکھا جو کسی سے نہایت خوش گوار موڈ میں بات کررہے تھے۔
”ہوں موقع اچھا ہے۔ فون بند ہونے کے فوراً بعد میں بات کرلوں گا۔” فلک نے اپنی منصوبہ بندی جاری رکھی۔
”شیور شیور… اوکے پھر… ڈن ہوگیا۔ کل کا ڈنر میرے گھر… ہاں یار اب وقت ہے۔ بزنس کوفیملی بزنس بنا ہی لیا جائے۔ آخر ایک ہی بیٹی ہے میری۔ کسی ایرے غیرے کو تو دینے سے رہا نا۔” فلک جو فائل سکندر صاحب کے سامنے رکھ کے ہاتھ کے اشارے سے سائن کرنے کی جگہ بتا رہا تھا ایک دم ساکت ہوگیا۔ سکندرنے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔
”اسی لیے تو تم سے رشتہ جوڑ رہا ہوں سمدھی ہم پلہ ہی جچتا ہے بھئی۔” زوردار قہقہہ لگا کے اپنی ہی بات سے لطف اندوز ہوتے ہوئے سکندر صاحب نے با ت سمیٹی۔
”اچھا اچھا چلو، کام کرنے دو۔ کل ملتے ہیں پھر اور ہاں مٹھائی لیتے آنا خوشی کے موقع پر کچھ بدپرہیزی ہوہی سکتی ہے نا۔” مسکراتے ہوئے فون رکھا اور گم صم کھڑے فلک کی طرف دیکھ کے اچنبھے سے پوچھا۔
”یس فلک واٹ ہیپنڈ؟” سکندر صاحب نے لمحے بھر بعد باقاعدہ ہاتھ ہلا کے فلک کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کی۔
”ہیلووووو ینگ مین۔ واٹس رونگ ود یو؟”
”نن نتھنگ سر…” فلک نے چونک کے سکندر صاحب کو دیکھااور اپنے اندر دم توڑتی ہوئی ایشل کی آس کو محسوس کیا۔
”اور کہاں سائن کرنے ہیں بھئی’ٔٔ سکندرصاحب نے خوش گوار لہجے میں پوچھتے ہوئے اس کی جانب بہ غور دیکھا، لیکن اسی وقت بجتے ہوئے فون نے ان کی توجہ دوسری جانب کردی۔ سکندر صاحب کے مصروف ہوتے ہی فلک گم صم سا آہستگی سے چلتا ہوا شکستہ قدموں سے باہر کی جانب مڑ گیا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”اور آج میں نے تمہیں بھی کھو دیاایشل…”
فلک اپنی سوچوں میں پریشان حال بس اسٹاپ کی جانب قدم بڑھارہا تھا کہ اسے اپنے بائیں جانب تیزسانسوں کی آواز آئی اور اس کے ساتھ گھسیٹے ہوئے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ فلک نے بے زاری سے اِدھر اُدھر دیکھا، لیکن کوئی نظر نہیں آیا۔ اس نے کندھے اُچکا کے ایک بار پھر بس اسٹاپ کی طرف بڑھنا شروع کردیا۔ فلک نے بس اسٹاپ تک جانے کے لیے مین روڈ پار کرنی چاہی۔ جیسے ہی وہ بیچ سڑک تک پہنچا اسے دوسری جانب سے ایک سایہ اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے نظر آیا۔ فلک ہکا بکا سڑک پر کھڑا رہ گیا۔ قسمت اچھی تھی جو ایسے بیچ سڑک میں رک جانے سے کسی گاڑی کے نیچے نہیں آیا ورنہ فلک نے انجانے میں خودکشی کی ہی کوشش کی تھی۔ تیز ہارن کی آواز سن کے فلک اپنے ہوش میں آیااور جلدی سے باقی سڑک پار کی۔ اسٹاپ پر پہنچ کے اس ہیولے کو ہر طرف ڈھونڈنے کی کوشش کی، لیکن وہ کہیں نہیں تھا۔
٭…٭…٭
”کیا ہوا فلک میرے بچے، جب سے کام سے واپس آئے ہو گم صم بیٹھے ہو۔ سب خیر تو ہے نا۔” قدسیہ بیگم نے کھانے کی ٹرے اٹھاتے ہوئے کہا ۔ برائے نام ہی کھانا کھاکے فلک خاموشی سے صحن میں بچھی چارپائی پر نیم درازہوگیا۔
”اماں وہ مجھے…” فلک ابھی بہانہ بنانے کے لیے کوئی بات سوچ ہی رہا تھا کہ ایشل کے فون نے اسے ساکت کردیا۔
”ہیلو…” سرسراتی ہوئی آواز سن کے ایشل نے بہ مشکل اپنا غصہ کنڑول کیا۔
”تمہیں معلوم ہے نا میرارشتہ طے ہونے جارہا ہے۔” ایشل کے چیختی ہوئی آواز یقینا موبائل اسپیکر سے باہر تک سنائی دے رہی تھی۔ قدسیہ بیگم نے چونک کے فلک کو دیکھا۔ فلک نے زبردستی کی مسکراہٹ چہرے پر سجا کے چائے پینے کا اشارہ کیا جسے قدسیہ بیگم سمجھ کے خاموشی سے کچن کی جانب بڑھ گئیں، لیکن یہ الگ بات تھی کہ ان کا رواں رواں کان بنا فلک شیر کی جانب متوجہ رہا۔
”ہیلو ہیلو…فلک آر یو دئیر…” ایشل نے گھبرا کے فون چیک کیا کہ آیا لائن تو نہیں کٹ گئی۔
”ہاں سن رہا ہوں۔” فلک کی مایوسی میں ڈوبی ہوئی آواز سن کے ایشل کو مزید غصہ آگیا۔
”بس سنتے ہی رہنا کچھ کرنا نہیں تم۔”
”تم بتاؤ میں کیا کرسکتا ہوں؟”
”مجھ سے پوچھ کے محبت کی تھی ؟” ایشل روہانسی ہوگئی۔
”مت کرو ایسا۔ میں پہلے ہی پریشان ہوں۔” فلک نے بھی ذہنی اذیت جھیلتے ہوئے ایشل کو ٹوکا۔
”تم،ت۔تم… پریشان ہو اور تمہیں میری پریشانی کا ذرا سا بھی اندازہ ہے فلک؟ وہ لوگ… وہ لوگ کل…”
فلک نے مایوس ہوکے آنکھیں بندکرلیں۔
”تم ایک بار… تم ایک بار پاپا سے بات تو کرکے دیکھو۔ایشل نے ایک بار پھر فلک کو اکسایا۔ باقی میں دیکھ لوں گی لیکن بات تو شروع کرونا۔ میں لڑکی ہوکے کیسے… سمجھ کیوں نہیں رہو فلک؟”
”سکندر صاحب کبھی نہیں مانیں گے۔ مشکل ہے ایشل بہت مشکل ہے ۔” فلک کے کانوں میں سکندر صاحب کی باتیں گونج گئیں۔
”پلیز میری خاطر ایک بار کوشش تو کرو میں نہیں رہ سکتی تمہارے بنا فلک۔” ایشل نے اپنے نسوانی پندار کو چکنا چور کرتے ہوئے کہہ ہی دیا، تو فلک کو بھی احساس ہوا جب وہ لڑکی ہو کے اسٹینڈ لے سکتی ہے، تو میں تو پھر مرد ہوں۔
”میں کل ضرور بات کروں گا سکندر صاحب سے۔” فلک نے ایشل کو ایک بار پھر بھرپور تسلی دی۔
قدسیہ بیگم کچن کی چوکھٹ سے لگی یک طرفہ بات سن رہی تھیں وہ ہکا بکا رہ گئیں۔
٭…٭…٭
بات کرنے میں کیا ہرج ہے۔ فلک نے دل ہی دل میں اپنی ہمت بندھائی۔ ایک بار سر کے کانوں میں بات ڈال دی جائے باقی یقینا ایشل دیکھ لے گی۔ فلک نے گہری سانس لیتے ہوئے خود کو کمپوز کیا اور سکندر صاحب کے کمرے کا دروازہ دیکھ کے ہونٹ بھینچ لیے۔ ارے ے ے ے یہ کیا؟
سامنے ہی سڑک پار ہیولہ سکندر صاحب کے کمرے کا دروازہ کھول کے اندر داخل ہوتا ہوا دکھائی دیا۔ فلک نے یہ دیکھ کے بے اختیار ہی تیزی سے اپنے قدم بڑھائے اور جھٹکے سے دروازہ کھول دیا۔ پھر وہیں کھڑے ہوکے چاروں طر ف حیران نظروں سے جائزہ لینے کے بعد وہ ٹھٹک کے رہ گیا۔ سامنے ہی سکندر صاحب کوٹ پہنتے ہوئے ترش نگاہوں سے اسے گھور رہے تھے۔
”یہ کیا بدتمیزی ہے فلک؟” سکندر صاحب نے کوٹ کے بٹن بند کرتے ہوئے ناگواری سے پوچھا۔
”سس سوری سر…وہ میں نے کسی کو اندر آتے دیکھا تھا۔”
”کس کو؟” سکندر صاحب نے سرجھٹکتے ہوئے سامنے میز پر رکھا ہوا موبائل اٹھایا ۔
”کون ہو تم ؟” فلک نے اچانک سکندر صاحب کے عین پیچھے کرسی پر بیٹھے ہوئے سائے کو دیکھ کے پوچھا۔
”کیا ہوگیا تمہیں فلک؟” سکندر صاحب نے فلک کی نظروں کا پیچھا کرتے ہوئے اپنی کرسی کی جانب دیکھا اور سوالیہ نظروں سے ایک بار پھر فلک کو دیکھتے ہوئے ماتھے پر بل ڈالے۔
”وہ سر…وہ ( ہاتھ کے اشارے سے پیچھے کرسی کی سمت ان کی توجہ مرکوز کرانی چاہی)یہ مجھے کل سڑک پر بھی ملا تھا اور ایک دم غائب ہوگیا اور آج آپ کی کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔”
سکندرصاحب نے پیچھے پلٹ کے دیکھا، جہاں خالی کرسی پڑی ہوئی تھی۔
”کون بیٹھ گیا بھئی میری کرسی پہ ، یہ تو خالی ہے۔ لگتا ہے کام کا کچھ زیادہ ہی اسٹریس لیا ہے تم نے۔ ویسے تو خیر اچھی بات ہے، لیکن اتنی بہکی بہکی باتوں کی اِدھر کوئی گنجائش نہیں ہے ینگ بوائے۔” سکندر صاحب کا موڈ یقینا بہت خوش گوار تھا جو ابھی تک فلک کو برداشت کررہے تھے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});