خونی سایہ — عمارہ خان (تیسرا اور آخری حصہ)

”اوہ یس یس… میں بس آرہا ہوں۔”
”ایکچوئلی کچھ طبیعت سیٹ نہیں تھی، اسی لیے آنکھ نہیں کھلی۔”
”آئی تھنک، تقریباً بیس منٹ لگ جائیں گے۔”
”شیور شیور، آپ میٹنگ کی تیاری کریں۔ میں بس نکل ہی رہا ہوں۔”
موبائل کانوں سے لگائے فلک تیزی سے باتھ روم سے نکلا اور تولیا بیڈ پر پھینکتے ہوئے فیکٹری منیجر سے بات جاری رکھی۔
”اُنہیں ریفرشمنٹ دیں آپ، اہم کلائنٹ ہے ہمارا۔”
”ٹھیک ہے ، آئی ایم کمنگ۔” موبائل بند کرکے فلک نے الماری سے کوٹ نکالا۔
”آج ہی فیکٹری میں بتادوں گا کل سے ایک ویک کا آف لے رہا ہوں۔ واقعی مجھے خود کو اور ایشل کو بھی کچھ وقت دینا چاہیے۔” فلک نے کپڑے بدلتے ہوئے سوچا اور ڈریسنگ کے سامنے کھڑا ہوکے ہیئر برش کرنے لگا۔
”فلک…فلک شیر… ”قریب ہی سے گہری سانس لینے کی آواز اور سرگوشی نے فلک کو بری طرح چونکا دیا۔ ہیئر برش اس کے ہاتھوں میں لرز کے رہ گیا۔
”کون ہو تم، سامنے کیوں نہیں آتے…” فلک نے کمرے میں اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے بلند آواز سے، دس سال پہلے کی طرح اُسے مخاطب کیا۔
”میں کہتا ہوں سامنے آؤ۔” فلک ایک دو منٹ تک منتظر رہا، لیکن جب اس کی آواز پر کوئی ردعمل نہیں ہوا، تو منہ بناتے ہوئے ہاتھ میں تھاما ہوا ہیئر برش ڈریسنگ پر رکھا اورساتھ پڑا ہوا پرفیوم اٹھانے کے لیے جھکا۔ پرفیوم اٹھا کے اس نے ایک نظر سامنے آئینے میں خود کو دیکھا،لیکن … لیکن جیسے ہی آئینے پر نگاہیں کیں، سامنے ہی وہ خونی سایہ دیکھ کے ساکت ہوگیا۔
”تم…”
”ہاں میں ۔بھولے تو نہیں ہو نا مجھے؟”
”تم…تم… ”حیرت کی زیادتی سے فلک بات کرنا ہی بھول گیا۔
”ہوں …تم نے ایک بار پھر مجھے دیر سے بلایا۔” خونی سائے نے بھرائی ہوئی آواز میں شکوہ کیا۔
”تت تم…تم …” فلک ہانپ کے رہ گیا۔
”بھول گئے تم فلک شیر۔جب تک مجھے آواز نہیں دوگے میں سامنے نہیں آسکتا۔”
”تم واپس کیوں آئے ہو؟”اس بار فلک نے خود پر قابو پاتے ہوئے پوچھا۔
”تم نے کہا تھا میری خواہش پوری کرنے کے بعد اپنی دنیا میں چلے جاؤگے نا، تو اب کیوں۔مم میرا مطلب ہے اب کیوں آئے ہو؟ دیکھو، مجھ سے کچھ لینا ہے، تو صاف صاف بتادو، اب میری پاس بہت دولت ہے۔ میں تم کو مالامال کرسکتا ہوں۔”
”فلک شیر…’ خونی سائے کی مسکراتی ہوئی آواز سن کے فلک شیر کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی سی دوڑ گئی۔
”کیا یہ روپیہ پیسہ ہم جیسی مخلوق کے لیے اہمیت رکھتا ہے، یہ تو تم انسانوں کے لیے ہے۔ ہمارے لیے نہیں ہے۔”
”تو پھر… تو…تو پھر تم کیوں آئے ہو ؟” فلک نے سنسناتے ہوئے لہجے میں ایک بار پھر سوال پوچھا۔
”آخری بار آیا ہوں۔ آنا ہی تھا…”
”کیوں…کیا مطلب ہے اس بات کا۔ فلک نے پریشانی سے پوچھا۔
”کیوں آنا تھا، تم نے… تم نے تو کہا تھا نا اب واپس نہیں آؤ گے تو…” فلک کو بے چینی سی لاحق ہوگئی۔ ایک الگ قسم کی گھبراہٹ کا شکار تھا وہ جس کو کوئی نام نہیں دیا جاسکتا تھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”فلک شیر، کہا تھا نامیں بھی مجبور ہوں۔”
”مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ تم کہنا کیا چاہتے ہو؟” فلک نے بری طرح الجھتے ہوئے پوچھا۔
”وہ ادھورا کام مکمل کرنا ہے فلک شیر۔” آئینے میں ہلتے ہوئے سائے نے بھرائی ہوئی آواز میں سرگوشی کے ہی انداز میں جواب دیا۔
”کک ک کون سا ادھورا کام؟” فلک نے حیران ہوتے ہوئے پھر پوچھا۔
”تم ایک ہی بار میں جواب کیوں نہیں دے رہے ، کیوں پہیلیاں بجھوارہے ہو۔ مجھے ویسے ہی دیر ہورہی ہے۔” فلک نے اس کسوٹی سے تنگ آکے سائے کو احساس دلانا چاہا کہ اس نے آفس جانا ہے۔
”دیر تو واقعی ہورہی ہے ، لیکن تمہیں نہیں مجھے۔” سائے کی آواز سے صاف محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ فلک کے انداز سے لطف اندوز ہوا ہو ۔
”یاد کرو فلک شیر تم نے دس سال پہلے مجھ سے اپنی خواہش پوری کرائی تھی …یاد ہے نا؟”
”وہ تو…وہ تو…وہ تو تمہارے ہی کہنے پر کی تھی نا۔ میں نے زبردستی تو تمہیں مجبور نہیں کرایا تھا۔ ”فلک کویک دم احسا س ہوا اس کا گلا کس قدر خشک ہورہاتھا۔
”اس خواہش پر پوری طرح اب عمل ہوگا فلک شیر۔”
”تم تم… تم…” فلک ہانپ کے رہ گیا۔ کچھ انہونی ہونے والی تھی۔ فلک کا دل چیخ چیخ کے اسے اشارہ کررہا تھا جسے وہ سمجھنے سے قاصر تھا۔
”تمہاری دس سال پرانی اس خواہش کو اب پورا کرنے کا وقت آگیا ہے۔”
”کک کیا مطلب ہے آخر تمہاری اس با ت کا… تم کہنا کیا چاہتے ہو؟” فلک نے تھوک نگلتے ہوئے اپنا گلا تر کرنا چاہا۔
”وہ کام تو پورا ہوچکا تھا نا۔” فلک نے کن انکھیوں سے کمرے کے بند دروازے کو دیکھتے ہوئے ہر ممکن حد تک اپنی آواز ہلکی رکھی اور سائے کو یاد دلا نا چاہا۔
”اس کام کے دو حصے تھے ، ایک حصہ مکمل ہوچکا اور اب دوسرے کی باری ہے۔” سائے نے رسانیت سے فلک کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
”کون سا حصہ۔ کیا کہہ رہے ہو تم۔ سنو مجھے بلیک میل نہیں کرسکتے تم۔ میں اب شہر کا امیر انسان ہوں۔”
”فلک شیر…” سائے نے افسوس سے سر ہلاتے ہوئے جیسے فلک شیر کی عقل پر ماتم کیا ہو۔
”تم بھول گئے، دس سال پہلے جب تم نے اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ میں نے تمہیں بتادیا تھا، اسی خواہش کو ایک بار پھر…”
”کیا تم… کیا تم…” فلک ہکلا کے رہ گیا۔ ایک سوچ اس کے ذہن میں ابھری اور اسی کے ساتھ فلک کے رہے سہے حواس گم ہونے لگے۔
”ہاں تم صحیح سمجھے ہو۔” پراسرار سائے نے جیسے اس کی سوچ پڑھ لی ہو۔
”لیکن ایشل کا کیا قصور ہے اس میں…” فلک نے رندھے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
”سارہ کا بھی کوئی قصور نہیں تھا۔” سپاٹ لہجے میں جواب سن کے فلک کی سیٹی گم ہوگئی۔
”لیکن وہ تو تم نے ہی…”
”تمہاری اپنی مرضی شامل تھی۔ ”
”لیکن ایشل ہی کیوں۔ میں کیوں نہیں۔ ہاں مجھے سزا دے دو۔”
”ایسا نہیں ہوسکتا۔”
”کیوں نہیں ہوسکتا بھلا۔ میں نے ہی، تو حکم دیا تھا نا اب دوسرا حکم دے رہا ہوں۔ مجھے اپنے ساتھ لے جاؤ یا جو بھی کرنا ہے وہ کرلو۔”
”دس سال پہلے تم نے اپنی بیوی کی قربانی دی تھی فلک ، تو اب بھی بیوی ہی جائے گی۔”
”فلک …فلک …ناشتا تیار ہے۔ کہاں رہ گئے ہو۔” دور سے ایشل کی آواز سن کے فلک کے ہاتھ پاؤں سے جان نکل گئی تھی۔ اس نے پریشان ہو کے خونی سائے کو دیکھاجو پرسکون انداز میں کھڑا تھا، جیسے کوئی معمول کی بات ہورہی ہو۔
”نن نہیں، یہ نہیں ہوسکتا۔ تم مذاق کررہے ہونا۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ دس سال بعد تم واپس کیسے آسکتے ہو بھلا۔ بولو ناتم مذاق کررہے ہو۔” روہانسہ فلک اس وقت قابل رحم حالت میں تھا۔
”یاد کرو میں نے تم سے کیا کہا تھا۔ جو کام ابھی بولو گے وہی دس سال بعد بھی ہوگا۔ تم نے اپنی مرضی سے اپنی بیوی کو…”
”تم جھوٹ بول رہے ہو، اس وقت ایسی کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ نا تم نے کوئی تفصیل بتائی تھی…” فلک نے غصے اور بے بسی سے سائے کی بات کاٹ دی۔
”اصول اصول ہی ہے فلک شیر۔”
”لل لیکن …یہ غلط ہے۔” فلک کو سمجھ نہیں آرہا تھا کیسے اس صورت حال سے نمٹا جائے۔
”ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔تم ایسا نہیں کرسکتے۔ میں تمہارے ہاتھ جوڑتا ہوں پلیز ایسا نہیں کرو۔”
”اصول کے مطابق اب بھی بیوی کی ہی باری ہے۔” پراسرار ہیولے نے رسانیت سے فلک کو جواب دیا۔
”تم اور میں کچھ نہیں کرسکتے۔”
”نہیں نہیں… ایسا نہیں ہوسکتا۔ تم ایساکیسے کرسکتے ہو۔میں ابھی زندہ ہوں۔” فلک نے ہیجانی انداز میں سائے کو دھمکی دی۔
”میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں اور نہ ہی ایشل کو کچھ ہونے دوں گا سمجھے تم…میں تم پر کیس کردوں گا۔”
”میں نے کہا تھا فلک شیر۔ سوچ سمجھ کے فیصلہ کرنا۔ تم نے اپنی مرضی سے وہ کام کروایا تھا۔” خونی سائے نے سکون سے بات مکمل کی۔
لیکن فلک اسے سن ہی کب رہا تھا، وہ تو تیزی سے دروازہ کھول کے باہر کی جانب دوڑ چکا تھا، باہر نکلنے کے ساتھ ہی فلک نے تیز آواز میں چیخنا شروع کردیا۔
”ایشل بھاگ جاؤ ایشل نکل جاؤ ادھر سے۔ جاؤ جاؤ۔ گھر سے باہر بھاگو۔جاؤووووو…”
بھاگتے ہوئے فلک کے قدم ایک دم ٹھٹک کے تھم گئے۔سامنے ہی … ہاں سامنے ہی تو میز پر ناشتا لگا ہوا تھا،ساتھ بروشر بھی رکھے ہوئے ہیں، لیکن …لیکن ایشل کہیں نہیں تھی۔
فلک ایشل ایشل پکارتا ہوا کچن سے لاؤنج تک دوڑتا چلا گیا۔ لاؤنج سے نقاہت بھرے انداز میں چکراتا پھرا، لیکن ایشل کہیں نہیں تھی۔ چوکیدار ہکا بکا اپنے صاحب کو بدحواسی سے مالکن کا نام لیتے دیکھتے رہے، لیکن کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی جو صاحب کو روک کے معاملہ پوچھ سکیں۔ فلک نے لان کے چکر لگانے کے بعد ایک بار پھر تیزی سے اپنے بیڈ روم میں جانے کو ترجیح دی، جیسے ابھی تک وہ خونی سایہ اس کے کمرے میں منتظر ہوگا۔ دیوانہ وار بھاگتا ہوا وہ دوسرے کمرے میں داخل ہوا۔
”کہاں ہو تم… واپس آوؑ…میں کہتا ہوں واپس آجاؤ، ایشل کو واپس کردو۔ مجھے لے جاؤ اپنے ساتھ۔”
”ایشل… جواب دو کہاں ہو تم؟ ایشل…”
”مجھے معاف کردو، لیکن ایشل کی کوئی غلطی نہیں تھی اس میں …سنو۔سامنے آؤ۔”
”بات سنو… مجھے لے جاوؑ۔ ایشل کو چھوڑدووووووووو۔”
”مجھ سے سارے پیسے لے لو، جائیداد لے لو، لیکن ایشل کو واپس کردو۔ پلیزززززمیں ہاتھ جوڑتا ہوں تمہارے پاوؑں پڑتا ہوں۔”
”یہ گھر بھی لے لو، گاڑی بھی لے لو، بس اسے دے دو۔”
دہاڑیں مارتا ہوا فلک اپنے حواس کھو بیٹھا تھا، لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ دس سال بعد ہی سہی ۔کرنی کا پھل اسے بھگتناہی پڑا۔
٭…٭…٭
”اور…”
اوردیکھنے والوں نے دیکھا قیمتی پوشاک میں ملبوس پینتیس چالیس سالہ آدمی پریشان حال، نیم دیوانوں کی طرح اُسی قبرستان میں بڑبڑاتا پھر تاہے۔ اگر جو کوئی قریب چلا جاتا، تو وہ واضح طور پر ادھورے جملے بھی سن لیتا جو وہ آدمی بوکھلائے ہوئے انداز میں کہتا پھرتا تھا۔
”کہاں ہوتم… سامنے آؤ…میں کہتا ہوں پلیز سامنے آجاوؑ۔ دیکھو مجھے معاف کردو۔” کبھی بلند آواز میں قبروں کے درمیان گھوم کے کسی ایشل کو پکارتا رہتا تھا۔
”ایشل… ایشل واپس آؤ۔ میں ادھر ہوں تم کہاں ہو۔ مجھے بتاؤ ۔ کچھ تو بولو نا۔ کہاں چلی گئی ہو تم …”کبھی منتیں کرنے لگتا، تو کبھی ایک دم غصے سے چیخنے لگتا تھا۔
”میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں۔ اچھا نہیں کیا تم نے میرے ساتھ۔ پلیز اسے واپس کردو۔میں تمہارے سامنے ہاتھ جوڑتاہوں۔ دیکھو مجھ سے غلطی ہوگئی۔ تم ایسا کیسے کرسکتے ہو میرے ساتھ وہ بھی اتنے وقت بعد۔” کبھی اچانک کسی درخت کے نیچے بیٹھ کے رونے لگ جاتا تھا اور… سارہ کا نام لے کے معافیاں مانگتا رہتا۔
”سارہ سارہ مجھے معاف کردو۔ میں نے غلط کیا، لیکن لیکن … میں مجبور تھا۔ پلیز مجھے معاف کردو۔ میں ایشل سے محبت کرتا ہوں۔ اس کی محبت میں خود غرض ہوگیا تھا، لیکن ایشل کا تو کوئی قصور نہیں نا۔ سنو اسے واپس کردو۔ مجھے لے جاؤ۔ میں تمہارے پاوؑں پڑتا ہوں، ہاتھ جوڑتا ہوں …”
مختصر یہ کہ اُسے کو دیکھ کے اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ کسی اذیت میں مبتلا ہے۔
٭…٭…٭
اس بار تیز بارشوں نے جہاں شہر میں تباہی مچادی تھی وہیں پرانے قبرستان کی دیوار ایک بار پھر ڈھے گئی تھی جو محلے کے کچھ لوگوں نے شارٹ کٹ اختیار کرنے والوں کو روکنے کے لیے چندہ اکٹھا کرکے بنا دی تھی۔ قبرستان کی دیوار کے دوسری جانب جہاں فٹ پاتھ تھا سرشام ایک مایوس سا لڑکا ہاتھ میں فائل تھامے بیٹھا ہوا تھا۔ شاید کسی جاب انٹرویو سے ناکام ہوکے آیا تھااور اب گھر جانے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا۔ اسے احساس ہی نہیں ہوا کہ شام کے سائے اپنے پر پھیلاچکے اور اندھیرا دبے پاوؑں بڑھ رہا ہے۔
اچانک، اسے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا، تو اس نے حیران ہوکے سامنے دیکھا جہاں ایک بزرگ ہاتھ میں تسبیح لیے کھڑے تھے۔ اس لڑکے نے ان بزرگ کو ناسمجھی سے دیکھا۔
برزگ نے ایک نظر قبرستان کے اندر ڈالی ، جہاں کالا بلا ایک خستہ حال قبر کے پاس بیٹھا اپنی دم چاٹ رہا تھا اور ہولے ہولے اسی لڑکے کو دیکھ کے غرا رہا تھا۔ بزرگ نے نرمی اور شفقت سے لڑکے کو دیکھا اور اسے مخاطب کیا۔
”اس وقت ایسی جگہوں پر نہیں بیٹھتے بچے۔ جاؤ گھر جاؤ شاباش۔”
ختم شد
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

خونی سایہ — عمارہ خان (دوسرا حصہ)

Read Next

اے شب تاریک گزر —- صدف ریحان گیلانی (پہلا حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!