”کتنی مطمئن زندگی ہے میری۔” فلک نے ایک نظر اپنے سجے سجائے اور صاف ستھرے کمرے کو دیکھا اور دوسری نگاہ خود پر ڈالی۔ سامنے قد آدم آئینے میں فلک کا دلکش عکس نمایاں تھا، جو اس عمر میں بھی اسمارٹ اور جوان ہی نظر آتا تھا۔ گو کہ بچے نا ہونے کی خلش دونوں کو تھی، لیکن وہ اس بات کو ابھی اتنی اہمیت نہیں دیتے تھے ، آپس کی رفاقت ہی کافی تھی ابھی۔
”ہوں… فلک شیر۔کبھی سوچا بھی نہیں تھا یہ دن قسمت میں ہیں۔” فلک کو نہ جانے کیوں اس وقت پرانا وقت یاد آگیا۔ جب وہ یونی ورسٹی میں پڑھ رہا تھا اور ابا کے ایکسیڈنٹ کی بدولت فیس کے سارے پیسے ان کی دوا دارو پر لگ گئے تھے۔ جس کی وجہ سے ادھوری پڑھائی کے ساتھ وہ جاب کے لیے جوتے چٹخاتا پھرتا رہا اور بالآخر ابا کی ہی سودے سلف کی دکان پر بیٹھ گیا۔ وہ تو اماں اور ابا کی دوراندیشی کے باعث جمع پونجی نکل آئی تھی جو دکان میں لگا کے اس نے گروسری اسٹور بنانے میں مدد دی۔ ان تھک محنت اور ایمان داری کے ساتھ کام نے جلد ہی دن ضرور پھیر دیے تھے، لیکن ساتھ ہی دل کی بستی اجڑ چکی تھی۔ اماں نے اس اجڑی بستی کی نذر ایک معصوم لڑکی کی بھینٹ چڑھادی جو بدقسمتی سے فلک کے دل کی ملکہ نہ بن سکی۔
”آہ سارہ… تم بے قصور ہمارے راستے میں آگئی تھیں۔ یقین کرو، جان بوجھ کے میں نے تمہیں… کاش تم سمجھ سکتیں۔ ایشل میری اوّلین چاہت ہی نہیں وہ میرا عشق تھی اور ابھی تک ہے۔”
فلک کو بے ساختہ سارہ یاد آگئی اوراتنے برسوں بعد اس کی یاد نے فلک کو جہاں حیران کیا وہیں اس کے ذہن کے کسی گوشے میں وہ چھپی حیرانی بھی باہر نکل آئی جو پراسرار سائے پر مشتمل تھی۔
وہ کیا چیز تھا اور کیوں تھا۔ آج کل کے زمانے میں بھی ایسی چیزیں موجود ہیں جن پر کوئی یقین نہیں کرسکتا۔ جب تک خود اس دور سے نہ گزرجائے۔ فلک مسلسل آئینے میں خود کو دیکھ کے خود کلامی میں مصروف تھا۔ کالا جادو، یہ قبرستان میں پھول، ہڈیاں وغیرہ رکھ کے عمل کرنا۔ پتا نہیں کیا کیا ہوتا ہے اس دنیا میں۔
”فلک…فلک شیر…”
فلک شیر کی گردان کرتی، تیز سرگوشی اور گہری سانس لینے کی آواز نے اسے یک دم ماضی سے حال تک پہنچا دیا۔
”فلک شیر…”
فلک کے رونگٹے کھڑے ہوگئے ۔
”کون ہے… کون ہے ادھر؟”
کمرے کی محدود فضا میں فلک نے گھبراکے اِدھر اُدھر دیکھا، لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتا، اسی وقت ایشل کمرے میں اس کا موبائل لیے داخل ہوئی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”یہ کسی سہیل کی کال آرہی ہے اتنی دیر سے۔ میں نے سوچا کوئی ارجنٹ کام نہ ہو۔” ایشل اپنی ہی لے میں بات کرتی ہوئی فلک کو موبائل دینے آگے بڑھی اور سامنے کھڑے ہوئے حواس باختہ فلک شیر کے چہرے پر ہوائیاں اڑی دیکھ کے وہ گھبرا گئی۔
”کک کیا، کیا ہوا فلک… خیریت تو ہے۔” ابھی دو تین منٹ پہلے ہی، تو وہ ہشاش بشاش کمرے کی چوکھٹ پر کھڑا ہوا تھا اور اب…
فلک جو ابھی تک اپنے حوا س میں نہیں تھا، دل ہی دل میں سخت پریشان ہوچکا تھا۔ وہ خونی سایہ اب کیوں آگیا تھا، کیا واقعی میں نے اس کی آواز سنی تھی یا میرا وہم ہے۔ سوال جواب، جواب سوال فلک حقیقتاً ذہنی الجھن کا شکار تھا۔
”کیا ہوگیافلک؟” ایشل نے آگے بڑھ کے فلک کا کندھا ہلایا اور اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میںلے کے اپنی جانب کیا۔
”فلک خیریت ہے نا؟” ایشل نے فلک کی خالی، بے تاثر نگاہوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”کچھ ہوا ہے کیا۔ مجھے بتاؤ… طبیعت صحیح ہے تمہاری؟” ایشل نے کچھ سوچ کے، گھبراکے اپنا ہاتھ فلک کے ماتھے پر رکھا۔
فلک نے اس بار خود پر قابو پانے کی اپنی سی کوشش کی۔ گھبرائی ہوئی ایشل کا ہاتھ اپنے گرفت میں لے کے ، نرمی سے اُس کی انگلیوں کی پوروں کو چوما، اپنے ساتھ لگاتے ہوئے اس کی تسلی کرانی جاری رکھی…
”کچھ نہیں۔ شاید تھکن ہے، ٹریفک بھی تو بہت ہوتا ہے اس وقت۔”
”لیکن …فلک… ”ایشل نے فلک کے لہجے کا کھوکھلا پن صاف محسوس کیا۔
”کچھ نہیں ہے میری جان، ڈونٹ وری۔” فلک نے ایشل کو اپنی بانہوں میں لے لیا اور اُس کا سر سہلاتے ہوئے کن انکھیوں سے کمرے کا بھرپور جائزہ لیا، لیکن کسی کو نا پا کے گہری سانس لی۔
”ڈنر کل کرلیں گے فلک۔ تم ابھی ریسٹ کرو پلیز۔”
”نہیں نہیں۔ بس دو منٹ دو میں فریش ہوکے آتا ہوں ، تم چائے بنالو۔”
”پکی بات ہے؟” ایشل نے سوالیہ نظرو ں سے فلک کو دیکھا جس نے مسکراتے ہوئے سر ہلایا۔
”چلو پھر جلدی سے باہر آجاؤ۔” ایشل نے فلک کے چہرے کو تھپتھپاتے ہوئے اس کے سر کے بال بکھیردیے۔
”اوکے میڈم… جو حکم۔” فلک نے سینے پر ہاتھ رکھ کے ذرا سا خم کھایا۔
٭…٭…٭
صبح کی ٹھنڈی اور پرسکون ہوا نے دنیا کو خواب غفلت سے جگانے کا بیڑا اٹھایا۔ ہر سو مسحور کن فضا پھیلی ہوئی تھی۔ کافی دنوں بعد آج اہل کراچی نے سورج کی تپش سے بے نیاز دن دیکھا تھا۔۔ لیکن کون جانتا تھا، اس حسین وقت میں کوئی برسوں پرانے فعل کا حساب دینے والا ہے۔ وہ آج کسی بے بس انسان کی آہ کی بھینٹ چڑھ کے مکافات عمل کا جیتا جاگتا ثبوت بننے والا تھا۔
٭…٭…٭
”کیسی طبیعت ہے اب فلک؟” ایشل نے فکر مندی سے سوتے جاگتے ہوئے فلک کو ہلایا۔
”کک کیوں کیا ہوا۔” فلک نے حیران نگاہوں سے ایشل کو دیکھا۔
”آپ پوری رات ڈسٹرب رہے ہیں فلک۔ پتا نہیں کیا بڑبڑاتے رہے تھے۔ میں بہت پریشان ہوگئی تھی ۔” ایشل کی آنکھوں میں آنسو جگمگائے۔
”میں ؟ اچھا…” فلک نے سٹپٹا کے اپنے سر پر ہاتھ پھیرا۔
”مجھے تو کوئی علم نہیں یار۔” یہ الگ بات تھی کہ فلک اپنی طبیعت کافی بوجھل بوجھل سی محسوس کررہا تھا۔
”میں ڈاکٹر کو فون کرنے لگی ہوں۔” ایشل نے پاس رکھا ہوا موبائل اٹھایا اور نمبرسرچ کرنے لگی۔
”اوہ کم آن ایشل۔ رہنے بھی دو، میں ابھی شاور لوں گا تو سیٹ ہوجاؤں گا۔” فلک نے ایشل کو تسلی دی۔
”کل تھک بھی تو گیا تھا نا، کراچی کی ٹریفک تو روز بہ روز شیطان کی آنت کی طرح ہوتی جارہی ہے بس۔”
”اچھا تو پھر آپ آج فیکٹری نہیں جاؤ گے۔” ایشل نے پیار بھری دھونس سے فلک کو مصنوعی انداز میں گھورا۔
”ریسٹ کریں دن بھر۔”
”ایسا ہونا بھی ممکن نہیں جان من۔ کچھ اہم میٹنگ ہیں میری۔” فلک نے سینے پر بوجھ محسوس کیا لیکن ایشل کو بتانے سے گریز کیا۔
”فلک… نہیں تنگ کریں پلیز۔” ایشل روہانسی ہوگئی۔
”جانا تو ہوگا۔ ورنہ ہمارا ٹرپ کھٹائی میں پڑسکتا ہے۔” فلک نے بے زاری سے جواب دیا اور منہ بنایا۔
”کچھ عجیب سی فیلنگ ہیںجیسے۔ جیسے کچھ ہونے والا ہو۔”
”کچھ نہیں ہونے والا بس میں اور تم گھومنے جانے والے ہیں اور تم کو عادت نہیں ہے۔” ایشل نے شوخ ہوتے ہوئے فلک کے سینے پر سر رکھ دیا۔
”کبھی خود کو بھی وقت دیا کرو فلک۔ بہت کمالیا بس۔ کیا کرنا ہے اتنے پیسوں کا …”
”ابھی ہم اکیلے ہیں ایشل۔ کل کو بچے ہوں گے تو میں نہیں چاہتا، معمولی سے کاغذ کے ٹکڑوں کے لیے اپنی خواہشات کا گلا گھونٹیں۔ ”فلک نے سب بھول بھال کے ، ایشل کو اپنی منصوبہ بندی بتائی۔
”میں نے سوچا ہے ، ہم گھومنے تو جا ہی رہے ہیں باہر، تو کیوں نہ اپنا اپنا چیک اپ بھی کرالیں۔”
”اس سے پہلے تو کبھی ایسی بات نہیں کی فلک۔” ایشل حیران رہ گئی۔
”بس ابھی ابھی ہی یہ بات ذہن میں آئی ہے۔ اچھا ہے باہر کے کوالیفائیڈ ڈاکٹر سے اچھی طرح اپنا کیس ڈسکس کرلیں اور پھر چنا منا ہمارے سونے گھر میں شور مچانے آجائے۔”
”آئیڈیا تو اچھا ہے۔” ایشل نے شرماتے ہوئے تائید کی۔
”اچھا یہ بتاؤ، تم نے فائنل کیاکہ کہاں جانا ہے۔” فلک نے موضوع بدلنا چاہااور پاس رکھے بیڈ کارنر سے پانی کا گلاس اٹھا کے گھونٹ گھونٹ پینے لگا، کسی طرح اندر کی بے چینی تو کم ہو۔
”میں اکیلے کہاں فائنل کرسکتی ہوں۔ مل کے کرتے ہیں نا ابھی۔” ایشل نے فلک کے ماتھے پر اپنی پیار کی نشانی ثبت کی اور اسے اٹھنے کی تاکید کرتے ہوئے باہر جانے لگی۔
”آپ اٹھیں فریش ہوجائیں پھر اسے بھی دیکھ لیں گے۔ میں کون سا کہیں جارہی ہوں۔”
”آئی لو یوایشل۔” فلک نے ایشل کو آنکھوں میں سموتے ہوئے کہا۔
”آئی رئیلی لو یو۔ مجھے چھوڑ کے کبھی نہیں جانا۔”
”آئی لو یو ٹو فلک… میں ہمیشہ تمہیں چاہتی رہوں گی۔” ایشل نے دل موہ لینے والے انداز میں بل کھاتے ہوئے کہا اورلہرا کے باہر نکل گئی۔
٭…٭…٭
ایشل کے باہر جاتے ہی، فلک نے بھرپور انگڑائی لی اور ساری سوچوں کو ذہن سے نکالا۔ کچھ نہیں ہے فلک ایسی ہی تھکن ہے ، ابھی ٹھیک ہوجاؤگے تم۔ ایشل کو سوچو، اس کا ساتھ سوچو اور محسوس کرو تم کس قدر خوش نصیب ہو اپنی محبت پالی اور اسی کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہو۔ فلک نے زیرلب بڑبڑاتے ہوئے اپنا دھیان بٹایا۔ اچھی اورمن پسند بیوی بھی انعام ہوتی ہے قدرت کا۔ شیمپو لگاتے ہوئے اسے ایک بار پھر فلک نے خود کو سمجھایا، کسی چیز کی کمی نہیں ہے، سوائے…
فلک کو ایک دم گہری سانسوں کی مدھم سی آواز سنائی دی۔ فلک نے چونک کے باتھ روم کے کھلے دروازے کی جانب دیکھا۔ ایک دم کمرے کا دروازہ بند ہونے کی آواز سنائی دی، تو فلک کو گھبراہٹ نے آگھیرا۔
”ایشل تم ہو۔” جوابی خاموشی سن کے فلک نے ایک بار پھر بلند آواز میں ایشل کو مخاطب کیا۔
”ایشل تم ہی ہو نا۔”
اس بار بھی کوئی جواب نہ ملنے پہ فلک نے لمحہ بھر رک کے آہٹ سننے کی کوشش کی، لیکن جب ہر سو سناٹا محسوس ہوا، تو اس نے باتھ روم کے دروازے سے منہ باہر نکال کے کمرے کا جائزہ لیا۔ پورا کمرہ خالی تھا۔
”ہوں، ایشل ہی ہوگی، واپس چلی ہے شاید۔ مجھے دیکھنے آئی ہوگی کہ اٹھا یا نہیں۔” فلک نے اپنی تسلی کرائی اور شانے اچکا کے واپس اندر ہوگیا۔ فلک کے باتھ روم میں جاتے ہی کمرے میں موجود ڈریسنگ کے آئینے میں سائے کا عکس بہت صاف نظر آنے لگا تھا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});