خونی سایہ — عمارہ خان (تیسرا اور آخری حصہ)

مزید پانچ سال بعد
صبح کا سویرا ہر سو چھا چکا تھا، لیکن ہزار گز کے بنگلے میں نکلتے سورج کی کوئی کرن نہیں پہنچ پاتی تھی۔ اس گھر کے مکینوں نے دبیز پردوں سے مکمل بندوبست کر رکھا تھا، کوئی بھی ان کی نیند خراب نہ کرسکے۔
وقت مقررہ پر فلک کی آنکھ گہری نیند سے خود بہ خود ہی کھل گئی ۔ اس نے بھرپور انداز میں انگڑائی لی اور نیم تاریکی میں ڈوبے ہوئے خنک کمرے میں آرام دہ بیڈ پر لیٹے ہوئے پورے دن کا شیڈول ذہن میں تازہ کیا۔ بے دھیانی میں ایشل کا لمس پانے کے لیے اس نے ہاتھ بڑھایا اور ٹھٹک کے رہ گیا۔ ایک دم ہی دل فریب مسکراہٹ اس کے چہرے پر سج گئی۔
اتنے سال ہوگئے لیکن فلک کی یادداشت میں ایسا کوئی دن نہیں تھا جس دن اس نے اپنے ہاتھ سے اِس کے لیے ناشتا نہ بنایا ہو۔ ناشتا ہی کیا وہ فلک کے سارے کام اپنے ہاتھوں سے کرنا پسند کرتی تھی۔ بچہ نہ ہونے کی وجہ سے بھی وہ کافی حساس ہوگئی تھی۔ فلک کا ہر چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا کام سکون سے تسلی سے خود ہی انجام دینے کو مقدم جانتی تھی بہ نسبت نوکروں پر تکیہ کرنے کے۔ اس کے باوجود اس گھر میں نوکروں کی تعداد کم نہیں تھی۔ کچھ تو پرانے سکندر صاحب کے وقت سے ہی چلے آرہے تھے، تو دو چار کو فلک نے بھی رکھا تھا۔
ایشل کو سوچتے سوچتے فلک کی گھومتی ہوئی نگاہ سامنے ہینگ ہوئے اپنے کپڑوں اور میچنگ ٹائی پر چلی گئی۔ مسکراتا ہوا فلک بیڈ سے اٹھ کھڑا ہوا اور گنگناتا ہوا باتھ روم کی جانب بڑھا۔
شیو کرتے سمے اسے محسوس ہوا جیسے کوئی اس کے پیچھے کھڑا ہے۔ فلک فوری طوری پر چونک کے پلٹا، لیکن دوسری جانب کوئی نہیں تھا۔ وہ کندھے اُچکا کے پھر شیو کرنے میں مصروف ہوگیا اورچہرے کو دھونے کے لیے منہ پر پانی کے چھپکے مارنے لگا۔ سکون سے نہانے کے بعد وہ تولیے سے منہ صاف کرتے ہوئے آئینے میں اپنا عکس دیکھنے لگا۔
”ہوں اچھی زندگی ہو، تو بندہ اپنی عمر سے کم لگنے لگتا ہے فلک شیر۔” فلک نے آئینے میں اپنا عکس دیکھا اوردو انگلیوں سے ماتھے کی طرف اشارہ کرکے خود کو داد دی۔ وہ پرسکون انداز میں باتھ روم سے باہر جانے کے لیے پلٹا، وہ اگر مُڑ کے دیکھتا، تو اسے آئینے میں اس بار ایک سایہ نمایاں نظر آجاتا جو سیاہ چغہ پہنے ہوئے تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

باتھ روم سے باہر نکلنے کے بعد فلک نے کپڑے بدلنے چاہے، لیکن جہاں وہ کچھ دیر پہلے اپنا سوٹ دیکھ کے گیا تھا وہاں اب کچھ نہیں تھا۔ فلک ہکا بکا کھڑا رہ گیا۔ ایساکیسے ہوسکتا ہے۔ فلک نے سر کھجاتے ہوئے زیرلب کہا اور الماری سے دوسرے کپڑ ے نکالنے لگا۔ اسی وقت ایشل کی آواز سن کے بے ساختہ پلٹ گیا۔
”میں نے نکال تو دیے تھے کپڑے فلک۔”
”کہاں ہیں میڈم؟” فلک نے ایشل کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”یہ کیا ہے جناب۔” ایشل نے تیکھے لہجے میں سامنے اشارہ کیا، تو فلک کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ پریس کیے ہوئے کپڑے نفاست سے اپنی جگہ ہینگ تھے۔
”لل لیکن…لیکن لمحہ بھر پہلے، تو…”
”کیوں کیا پسند نہیں آئے یہ کپڑے جو دوسرے نکال رہے تھے۔” ایشل نے بے حد قریب آتے ہوئے فلک کو ہر چیز بھلادی۔
”ایسا ہوسکتا ہے مجھے تمہاری کوئی چیز ناپسند ہو جان من۔” فلک نے نرمی سے ایشل کو بانہوں میں لیتے ہوئے اس کی زلفوں کی نمی محسوس کی۔
”تو چلیں جلدی سے باہر آجائیں مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے۔” ایشل نے مسکراتے ہوئے فلک کو دیکھا او ر پھرتی سے اس سے الگ ہوکے باہر نکل گئی۔
”اوہ یو چیٹر…” فلک نے بلند آواز سے ایشل کو پکارا اور سر جھٹک کے شرٹ اٹھالی۔
”ابھی بتاتاہوں تمہیں۔ ”
اسی وقت فلک کوبھاری، لیکن گہری سانسوں کی آواز سنائی دی۔ فلک کا بٹن بند کرتا ہاتھ ساکت رہ گیا۔ لیکن دوسرے ہی پل وہ بے یقینی کا شکار ہو کے نفی میں سر ہلاتے ہوئے بڑبڑانے لگا۔
”نہیں نہیں ایسا نہیں ہوسکتا، یقینا میرا وہم ہے۔”
لیکن وہ نہیں جانتا تھا، اب مکافات عمل کا وقت آگیا ہے۔
٭…٭…٭
”اتنا وقت لگادیتے ہوتیار ہونے میں۔” ایشل نے شرارتی لہجے میں فلک کو چھیڑا۔
”دیر ہورہی ہے فیکٹری سے جناب!”
”تو ہونے دو جانم۔ پہلے کی طرح نوکر نہیں ہوں ، بلکہ مالک ہوں اس جگہ کا۔”
ایشل مسکراتے ہوئے اسے دیکھتی رہی اور آہستگی سے چلتی ہوئی فلک کے سینے سے جالگی۔
”تم ہمیشہ سے ہی مالک تھے اور رہوگے۔ میرے بھی اور مجھ سے منسلک ہر چیز کے۔”
”اور تم میری اوّلین چاہت اور خواہش ہو ایشل۔ اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی میں حیران ہوتا ہوں یہ چاہت کم کیوں نہیں ہوتی۔ روز اوّل کی طرح آج بھی تمہیں دیکھ کے میرے دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے۔” فلک نے اپنی بانہوں کا گھیرا ایشل کے گرد تنگ کیا، تو ایشل نے دل ہی دل میں اس چاہت کے دائمی ہونے کی دعا مانگی۔
”میں سوچ رہا ہوں کیوں نہ کہیں گھومنے چلیں۔” فلک نے میز کے گردکرسی کھینچ کے بیٹھتے ہوئے پرسوچ انداز میں ایشل کو حیران ہی کردیا۔
ایشل بے یقینی سے فلک کو دیکھتی رہ گئی۔
”بہت وقت ہوگیا ہم نے ایک دوسرے کو ٹائم نہیں دیا نا۔” فلک نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے ایشل کی حیرانی سے لطف اُٹھانا شروع کیا۔
”واقعی تم سچ کہہ رہے ہو فلک۔” خوشی سے ایشل کا لہجہ لرز رہا تھا۔
”اُفف مجھے یقین نہیں آرہا۔ اتنے سالوں سے تم سے کہہ رہی ہوں اور ایک دم ایسے اچانک۔”
”ابھی سن کے ہی تم بریڈ دینا بھول گئی ہو، تو جانے کے ٹکٹس آئیں گے، تو شاید مجھے ہی بھول جاؤ گی۔” فلک نے ایشل کے ہاتھوں میں بٹر لگی بریڈ دیکھ کے چھیڑا، تو وہ شرمندہ ہوکے ہاتھ آگے بڑھاگئی۔
فلک نے مسکراتے ہوئے بریڈ لی اور کھاتے ہوئے مزید بات آگے بڑھائی۔
”آج ڈنر باہر کرتے ہیں اور اس پروگرام کو ڈسکس کرکے فائنل کرتے ہیں۔”
”خیر تو ہے نا۔ اتنا خوش کیوں کررہے ہیں جیسے میں…”
”بس بس خراب باتیں نہیں کرو۔”
”مجھے لگ رہا ہے آج میرا آخری دن ہے اور کوئی الہ دین کا چراغ مجھے خوش کرنے پر تلا ہوا ہے۔” ایشل نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا، تو فلک بھی مسکرانے لگا۔
”اچھا چلو میں تو چلتا ہوں ، تم اپنے الہ دین کے چراغ کے ساتھ انجوائے کرو۔”
٭…٭…٭
فلک پورے انہماک سے اپنے کام میں مصروف تھا کہ اچانک آفس کے کمرے میں گہری اور بھاری سانسوں کی جانی پہچانی سانس لینے کی آواز سنائی دی۔ فلک کا تیزی سے چلتا ہوا ہاتھ رک گیا۔ اس نے چونک کے کمرے میں نظریں گھمائیں۔ کسی کو نہ پا کے وہ ایک بار پھر اپنے کام کی طرف متوجہ ہوگیاکہ اچانک…
”فلک …فلک شیر…” بہت پاس سے سرگوشی سن کے فلک کا ہاتھ ایک بار پھر تھم گیا۔
”نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔” ماضی کی کچھ تلخ یادوں نے یادداشت کے دروازے سے اپنی جھلک دکھانی چاہی ، لیکن فلک نے سختی سے وہ دروازہ بند کردیا۔
”فلک شیر…فلک شیر…” کچھ ہی لمحے بعد ایک بار پھر اپنے نام کی گردان سن کے وہ بے اختیار ہی کھڑا ہوگیا اور بہ غور پورے کمرے کا جائزہ لیا۔
”نہیں نہیں… یہ میرا وہم ہے۔ وہ دوبارہ نہیں آسکتا۔ اب کیوں آئے گا بھلا۔”
فلک نے دل ہی دل میں سہم کے ایک بار پھر اپنے کام کی طرف توجہ مرکو ز کرنی چاہی، لیکن اس بار اس کا دھیان بھٹک رہا تھا۔
وقفے وقفے سے بھاری سانسوں کی آواز اسے ذہنی طور پر تنگ کرنے لگی تھی۔ ہر کچھ دیر بعد فلک فلک کے نام کی گردان الگ چونکا رہی تھی۔
کیا وہ پراسرار سایہ پھر آگیا ہے، لیکن اب کیوں آیا ہے۔ فلک کے ذہن میں چیخ چیخ کے یہ سوال گونج رہے تھے جن کے جواب اس کے پاس نہیں تھے۔
٭…٭…٭
سر شام ہی ایک اہم میٹنگ بھگتا کے فلک نے فیکٹری کا کام ختم کیا اور ایک ٹریولنگ ایجنسی سے بروشر لیتا ہوا خوش گوار موڈ میں گھر چل پڑا۔ مین گیٹ دیکھ کے اسے ایشل کی پرمسرت چیخیں سننے کا تجسس ہوا۔ کیسے بچوں کی طرح خوش ہوجائے گی وہ ابھی۔ فلک نے تصور ہی میں اسے دیکھا اور مسکراتے ہوئے گیٹ پر ہارن دیا۔
”ایشل…ایشل…کہاں ہو بھئی۔”
”ارے آپ جلدی کیسے آگئے۔” ایشل نے چیختے ہوئے فوراً ہی فلک کا کوٹ تھاما اور اس کے ساتھ لگ کے سر کندھے سے ٹکادیا۔
”بس تمہاری یاد نے اتنا تنگ کیا کہ سوچا چھوڑو کام وام کو ، محبوبہ کے پاس چلتے ہیں۔” فلک نے ایشل کے گرد اپنی بانہوں کا حصار باندھااور ساتھ لگائے لاؤنج میں داخل ہوگیا۔
”بس رہنے دیں۔ ایسی ہی میری یاد آرہی تھی، تو اور جلدی آجاتے۔” ایشل نے مصنوعی ناراضگی سے شکوہ کیا۔
”ثابت ہوا بیوی کبھی خوش نہیں ہوسکتی چاہے وہ محبوبہ ہی کیوں نہ ہو۔ٔٔ فلک نے بھی سر جھٹک کے کراہتے ہوئے جواب شکوہ کیا۔
”اچھا چلو یہ تو رکھو۔” فلک نے صوفے پر نیم درازہوتے ہوئے کوٹ سے بروشر نکالے اور ایشل کو دیے۔
”اب تم خود دیکھ لو کہاں جانا ہے میرے پاس پورا ایک ہفتہ فری ہے۔”
”ارے واہ۔” ایشل کو اب یقین آہی گیا وہ تفریح کرنے جارہے ہیں۔ شاید آخری تفریح۔
”چائے …؟” ایشل نے بروشر ز پر سرسری سی نگاہ ڈالی اور فوراً ہی فلک کی طرف متوجہ ہوئی۔
”ہوں… چلو بناؤ میں ذرا چینج کرلوں۔” فلک نے صوفے سے اٹھتے ہوئے ایشل کی طرف نگاہ کی۔
”پھر ساتھ چائے پئیں گے پھر ڈنر کے لیے نکلتے ہیں۔” ایشل مسکراتے ہوئے کچن کی جانب چل پڑی۔
”ویسے میں سمجھی آپ بھول گئے ہیں جناب…”
”جس دن تم کو بھولا وہ دن میری زندگی کا آخری دن ہوگا ایشل۔” فلک نے اپنی محبت کا یقین دلاتے ہوئے ایشل کو دیکھا۔
”تم ہوتو میں ہوں، بہت تکلیف اٹھا کے تمہیں پایا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا تمہارا فلک شیر، ایشل فلک کو بھول جائے۔”
”مجھے یقین ہے فلک۔” ایشل نے سر ہلاتے ہوئے اپنے آپ پر فخر سا محسوس کیا۔
”مجھے اس بات پر مکمل بھروسا ہے، دنیا کی کوئی طاقت ہمیں جدا نہیں کرسکتی۔”
”آئی لو یو…” فلک نے کمرے کے دروازے پر کھڑے ہوکے بلند آواز میں ایشل سے اظہار محبت کیا۔
”سنتی ہو… آئی لویوووووو…” ایشل ہنستی ہوئی کچن سے پلٹی اور فلک کو دیکھ کے فلائنگ کس دینے لگی۔ فلک ، ایشل کی اس دلبربا ادا پر قربان ہوگیا۔
”چھوڑو ڈنر کوکمرے میں آؤ ذرا، اہم بات کرنی ہے۔” فلک نے اک آنکھ میچ کے انگلی سے اسے اپنے قریب بلایا۔
”چلیں چلیں، جیب ڈھیلی کریں پہلے۔ پھر وہ اہم بات بھی سن لیں گے جناب کی۔”
”ہوں… چالاک ہوگئی ہو۔” فلک نے اداسی سے سر ہلاتے ہوئے گویا دکھ کا اظہار کیا ہو۔
”کہاں سے سیکھی یہ چالاکیاں ، پہلے تو تم ایسی نہیں تھی یار۔”
”بس جناب کی قربت کا اثر ہے اور اب آپ وقت ضائع نہ کریں اور پھرتی سے جا کے واپس آئیں، میں چائے بنانے لگی ہوں۔”
”اچھا یار… ویسے سوچ لو ایک بار۔”
ایشل نے شرارتی انداز میں انگوٹھا دکھایا، لمحہ بھر بعد ہی دونوں کا بے اختیار قہقہہ آخری باراس عالی شان گھر کے در ودیوار میں گونج کے رہ گیا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

خونی سایہ — عمارہ خان (دوسرا حصہ)

Read Next

اے شب تاریک گزر —- صدف ریحان گیلانی (پہلا حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!