”سنیں اب اٹھ بھی جائیں۔”
ایشل کی مدھم آوازعالی شان فرنیچر سے سجے ہوئے کمرے میں پھیل رہی تھی ، جہاں دھیمی ہوتی ہوئی گلاب کی خوشبو اور تازہ فرنیچر پالش کی مہک بتاتی تھی کسی نئے بیاہتا جوڑے کا کمرہ ہے۔
”فلک اٹھ بھی جائیں۔” ایشل نے اس کے اوپر سے چادر اتارتے ہوئے کہا، تو حنا سے سجی ہوئی کلائیوں میں چوڑیوں کی کھنک سے فلک کے دل کے تار بج اٹھے۔
”مجھے ابھی بھی یقین نہیں آتا ایشل کہ تم میرے پاس ہو۔” فلک نے مندی ہوئی آنکھوں سے سامنے سجی سنوری ایشل کو تکتے ہوئے خواب ناک لہجے میں کہا۔
”ایسا لگتا ہے ابھی یہ حسین خواب ٹوٹ جائے گا۔”
”یہ خواب نہیں ہے فلک۔ حقیقت ہے۔” ایشل نے بھی نم آنکھوں سے فلک کو دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
”اذیت ناک صبر کے بعد یہ دن نصیب ہوئے ہیں۔”
”اسی لیے آؤ اس کو انجوائے کریں۔” فلک نے فوراً ہی ہاتھ بڑھا کے ایشل کو اپنے پاس کھینچ لیا۔
”جی نہیں …” ایشل مچھلی کی طرح ہاتھ سے پھسل گئی۔
”آپ نے آج فیکٹری کا وزٹ کرنا ہے، منیجر کی کال آچکی ہے صبح ہی۔”
”سونے دو یاراتنی ظالم نہ بنو۔” فلک نے پرسکون انداز میں بھرپور انگڑائی لی۔ ایشل نے ہیئر برش کرتے ہوئے اسے ڈریسنگ کے آئینے سے دیکھا۔
”بہت ظالم ہو یار۔ سکون سے سونے بھی نہیں دیتی۔” فلک نے اس کا گھورنا محسوس کرلیا تھا۔
”اٹھ رہا ہوں بابا اٹھ رہا ہوں۔”
ایشل نے ہنستے ہوئے اسے آئینے سے دیکھاا ور یاد دلایا۔
”اتنے دنوں کے بعد ذرا نارمل روٹین پر آرہے ہیں آپ اور ابھی بھی ایسی باتیں۔ چہ چہ چہ…”
”مجھے لگتا ہے۔ اب تو زندگی شروع ہوئی ہے یار۔ تمہارے بنا بھی کوئی زندگی تھی۔ایک تکلیف تھی بس۔”
ایشل ڈریسنگ سے پلٹی اور فلک کے انتہائی قریب جا بیٹھی۔
”سچ بتاؤں فلک۔مجھے بھی یہ ایک دل فریب خواب لگتا ہے اور میں بہت خوش ہوں اگر یہ خواب بھی ہے تو۔ اس عالم میں موت بھی آجائے تو کوئی شکایت نہیں مجھے۔” ایشل نے مسکرا کے آنکھیں موند لیں اور لیٹے ہوئے فلک کے سینے پر سر رکھ دیا۔
فلک نے بے ساختہ ایشل کو بانہوں میں بھرلیا۔
”ایشل، بہت کڑے وقت کے بعد میں نے تمہیں حاصل کیا ہے ایسی باتیں نہیں کرو۔ صرف جینے کا سوچو میرے ساتھ۔ اب ہم ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔”
”ہاں اب ہمیشہ ساتھ رہیں گے فلک۔ بہت تکلیف سہ لی۔” ایشل نے فلک کے سینے سے لگے ہوئے دل ہی دل میں دہرایا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”فلک شیر… تو یہ کرسی تمہاری قسمت میں تھی اور آج تم اس جگہ پہنچ چکے ہو۔”
فلک نے سکندر صاحب کے آفس میں ان کی کرسی پر بیٹھ کے مسکراتے ہوئے زیرلب کہا اور کرسی پر چاروں طرف گھومتے ہوئے وہ دن یاد کرنے لگا جب سامنے بیٹھ کے وہ معمولی سی نوکری کے لیے سکندر صاحب کو یقین دلارہا تھا کہ وہ ایمان داری سے کام کرے گا۔
”اب میں مالک ہوں اس فیکٹری کا۔” فلک نے دونوں ہاتھوں کو پھیلا کے کرسی کوگول دائرے میں گھمایا اور ایشل کابھی۔
٭…٭…٭
پلک جھپکتے ہی پانچ سال گزر گئے۔
”صبر کرو فلک ہم کر ہی کیا سکتے ہیں۔” فلک اداس سا قدسیہ بیگم کا دوپٹا ہاتھ میں تھامے بیٹھا ہوا تھا۔ ایشل مستقل اس کی دل جوئی کررہی تھی۔ فلک نے قدسیہ بیگم کا دوپٹا اپنی آنکھوں پر رکھ لیا اور دھیمی آواز میں سسکنے لگا۔
”تم جو کرسکتے تھے کیا، لیکن زندگی اور موت ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔” ایشل نے قدسیہ بیگم کے سوم کے بعد بھی فلک کو دلاسا دینا کم نہیں کیا تھا۔
”ماں کا جانا بہت بڑا دکھ تھا جس پر رفتہ رفتہ ہی صبر آسکتا تھا۔” شادی کے چار سال تک قدسیہ بیگم نے ایشل کا بہت ساتھ دیا کبھی اسے دوسری شادی کا یا اولاد نہ ہونے کا کوئی طعنہ نہیں دیا تھا۔ اسی لیے وہ بھی دکھی تھی ساس کے جانے سے۔
٭…٭…٭
”تو کیا سوچا تم نے؟” ایشل نے پانچویں شادی کی سالگرہ کا کیک کاٹتے ہوئے ایک بار پھر فلک سے پوچھا۔
”فلک پہلے ہی نیم رضامند تھا۔” سر ہلاتے ہوئے اس کی تسلی کرائی۔
”ہوں… بس ایک دو دن اور دے دو پلیز۔”
”فلک سوچ سمجھ کے فیصلہ کرنا۔ میں نہیں چاہتی کہیں تم کو ایسا لگے ، زبردستی…” ایشل نے جان کے بات ادھوری چھوڑ دی۔
”سمجھ نہیں آرہا مجھے۔ ایک طرف تم ہو ایک طرف…” فلک نے الجھی ہوئی نگاہوں سے ایشل کا احاطہ کیا۔
”جب تک اماں تھیں۔ میں نے تمہیں کبھی فورس نہیں کیا فلک، لیکن میرا بھی دل چاہتا تھا اپنے گھر میں رہنے کے لیے۔ اب موقع ہے، تو کیوں نہ اس سے فائدہ اٹھایا جائے ۔ وہ کب سے خالی پڑا ہے اگر ہم وہاں شفٹ ہوجاتے ہیں، تو ہمارا ہی فائدہ ہے نا۔” ایشل ہر ممکن طور پر فلک کو راضی کرنا چاہتی تھی۔
فلک نے خاموشی سے ایشل کا جائزہ لیا۔
”لیکن تم دل سے راضی نہیں ہو تو بے شک ہم پاپا کے گھر شفٹ نہیں کرتے۔” ایشل نے بڑی حکمت سے بات ختم کرنی چاہی۔
”ادھر میرے ابا اماں کی یادیں ہیں ایشل…”فلک نے دل کی بات کہہ ہی دی ۔
”اگر تم ترقی کرو گے، تو کیا وہ خوش نہیں ہوں گے۔ ہم کون سا اس گھر کو بیچ رہے ہیں۔ کبھی کبھی آیا کریں گے نا ادھر بھی۔”
فلک کے پاس کچھ نہیں بچا تھا کہنے کے لیے۔
”پھر دیکھو نا۔ فیکٹری بھی تو اتنا دور پڑتی ہے۔ میرا پورا سرکل دوسرے ایریا میں ہے۔ پہلے کی بات اور تھی، لیکن اب تو کوئی مجبوری نہیں ہے۔”
”اماں بھی نہیں جانا چاہتی تھیں۔ میں نے چارسال ان کی خواہش پہ رہنا پسند کیا، لیکن اب تم چاہو تو ہم …”
فلک سر جھکائے حساب کتاب میں مصروف رہا۔ ترقی کرنا کس کو برا لگتا ہے اور پھر پرانے محلے کے اس گھر سے صرف یادیں ہی تو وابستہ تھیں۔ ہزار گز کے گھر اور ایک سو بیس گز کے گھر کے مقابلے میں یقینا ہزار گز ہی جیتنے والا تھا۔
”میری اتنی سی بات نہیں مانوگے فلک ؟” ایشل نے نرمی سے اپنا ہاتھ فلک کے ہاتھ پر رکھ کے پوچھا تو فیصلہ ہو ہی گیا۔
”تمہاری نہیں مانوں گا تو کس کی مانوں گا ایشل۔” فلک نے مسکراتے ہوئے ایشل کا مان رکھا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});