”آپ کو شرم نہیں آتی فلک۔” سارہ نے جیسے ہی فلک کو کمرے میں آتے دیکھا پورے دن کی بھڑاس اس پر نکال دی۔
”میں آپ کی ماں کی خدمت کرتی رہوں ادھر اور آپ باہر پتا نہیں کن کن عورتوں کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے پھریں…”
”بکواس نہیں کرو۔” فلک فوراً ہی طیش میں آگیا۔
”یہ بکواس نہیں ہے حقیقت ہے۔ کہاں تھے آپ سارا دن ، اتنے فون کیے، میسج کیے ایک کا بھی جواب نہیں دیا۔ بتائیں جواب دیں مجھے۔” سارہ کی بلند ہوتی آواز فلک کی برداشت سے باہر ہوگئی۔
”میں کہتا ہوں تمیز سے بات کروسارہ ورنہ…”
”ساری تمیز کیا میرے لیے رہ گئی ہے۔” سارہ ساری کشتیاں جلا چکی تھی۔
”دو کوڑی کی عزت نہیں دی آپ نے مجھے۔” فلک سر جھٹکتا ہوا کمرے سے باہر جانے لگا۔
”آپ ایسے نہیں جاسکتے فلک… جواب دیں مجھے۔” سارہ نے قریب جا کر فلک کو جانے سے روکا۔
”میں پہلے ہی تھکا ہوا آیا ہوں۔ ہٹو آگے سے۔” فلک نے سارہ کا ہاتھ جھڑکا۔
”کام سے تھکے ہوئے آئے ہیں یا اس آوارہ عورت کے ساتھ گلچھرے اُڑا کے؟” سارہ کی برداشت یقینا ختم ہوچکی تھی ۔
”آپ اتنے بے حس ہوں گے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔”
اچانک ایک زوردار آواز کمرے میں گونج گئی۔ سارہ کا دایاں گال سلگ رہا تھا۔ وہ بے یقینی سے اپنا ہاتھ چہرے پر رکھے فلک کو حیران نظروں سے دیکھنے لگی۔
فلک جس کا ہاتھ بے ساختہ ہی گھوم گیا۔ ایک انگلی اٹھا کے سارہ کو تنبیہ کرنے لگا۔
”ایشل کے لیے ایک لفظ نہیں کہنا۔ خاموش ہوجاؤ۔”
سارہ کو یہ امید ہی نہیں تھی۔ وہ ایک دم سکتے میں آگئی۔ دائیں گال پر پڑنے والا تھپڑ اتنا اذیت ناک نہیں تھا جتنا ایشل کے نام پر فلک کا ری ایکشن دل جلا گیا تھا۔
”پلیز چپ کرجاؤ۔ میں بہت تھکا ہوا ہوں۔” دل ہی دل میں نادم ہوتے فلک نے نرمی سے سارہ کو مخاطب کیااور ایک ہاتھ سے اپنا سر دبانے لگا۔
”آپ نے …آپ نے مجھے مارا۔ وہ بھی اس بے حیا عورت کے لیے۔”
”افف سارہ۔”
”میں آپ کی بیوی ہوں کوئی گھر سے بھاگ کے نہیں آئی جو اس طرح کا برتاؤ کررہے ہیں مجھ سے۔ میں انتظار میں تھی کبھی تو آپ میری طرف متوجہ ہوں گے لیکن یہ یہ… یہ صلہ ملا ہے مجھے اس صبر کا؟” سارہ نے اپنے مجروح رخسارکی جانب اشارہ کیا۔
”اب تو میں چیخ چیخ کے ساری دنیا کو بتاؤں گی آپ میرے ساتھ کیا کررہے ہو اور کیسے اس بدذات عورت کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہے ہیں۔ دو کوڑی کی عورت کیسے میرا گھر خراب کرسکتی ہے؟”
فلک نے اسے غضب ناک نظروں سے گھورا۔ لمحہ بھر کی شرمندگی فوراً ہی کافور ہوگئی جو تھپڑ مارنے کے بعد فلک محسوس کررہا تھا ۔
”کیا ہوگیا ہے تمہیں سارہ۔کیسی زبان استعمال کررہی ہو؟”
”آپ کوزبان پر اعتراض ہے اور جو میری زندگی خراب ہونے جارہی ہے اس پر کسی کو اعتراض نہیں۔ اتنے عرصے سے آپ کا نظر انداز کرنا برداشت کررہی ہوں، لیکن سوتن برداشت نہیں کرسکتی میں۔” سارہ سینہ تان کے کھڑی ہوگئی۔
”اچھا کیا کرلوگی پھر؟” بالآخر فلک نے بھی معاملے کو ختم کرنا چاہا۔
”آپ دیکھ لیجیے گا۔” سارہ نے دھمکی دینے کے انداز میں جواب دیا۔
”اتنا آسان نہیں ہے یہ سب فلک شیر…”
”اُونہہ جو کرسکتی ہو کرلینا جاؤ۔” فلک نے بھی بلی چوہے والا کھیل ختم کرنا چاہا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”میں ایشل سے شادی کرنے جارہا ہوں، روک سکتی ہوتو روک لو۔”
”میں پورے خاندان کو اکٹھا کروں گی فلک۔ آپ بہت بڑی غلطی کررہے ہیں۔ برادری کے سامنے رخصت ہوکے آئی تھی ایسی ہلکی نہیں ہوں کہ جب دل چاہا…” فلک نے غصے میں سارہ کو گھورتے ہوئے کمرے سے نکل جانے کو ترجیح دی ۔ دروازہ بند ہونے کی کرخت آواز نے سارہ کو خاموش کرادیا تھا۔
٭…٭…٭
”کہاں ہو تم…سامنے آؤ۔”
فلک نے شدید غصے میں چھت پر چہل قدمی کرتے ہو ئے ایک جگہ رک کے سرگوشی کی۔
”توکیا تم نے فیصلہ کرلیاہے فلک شیر؟” سائے نے نمودار ہوتے ہی سوال پوچھا۔
”تم پہلے یہ بتاؤ…کوئی مجھ پر تو شک نہیں کرے گا؟میرا مطلب ہے پولیس وغیرہ۔”
”نہیں۔ بے فکر رہو۔”
فلک نے دائیں بائیں دیکھتے ہوئے مزید سرگوشی کی…
”توپھر کب ہوسکتا ہے یہ تم کرو گے کیا سارہ کا…”
”پہلی بات تو یہ کہ جب تم بولوگے اور دوسری بات کا جواب یہ ہے ، ہمارا کام ہے ہم پر چھوڑ دو…لیکن تم نے …”
”ہاں کیا بولو…” فلک نے تیز رفتاری سے پوچھتے ہوئے سائے کو گھورا۔
”سوچ سمجھ کے فیصلہ کیا ہے نا؟ کوئی زور زبردستی تو نہیں کی میں نے؟”
”نن ن نہیں نہیں، لیکن تم یہ کیوں پوچھ رہے ہو؟” فلک نے گھبراتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھا جیسے کوئی چھپ کے کچھ ریکارڈ تو نہیں کررہا۔
”جواب دو فلک شیر۔ اپنی مرضی سے ہی مجھے حکم دے رہے ہو نا؟”
”ہاں میں اپنی مرضی سے یہ کام کر وارہا ہوں۔”
”اور تم کو یہ معلوم ہے آج سے ٹھیک دس سال بعد بھی…”
”ہاں ہاں ، معلوم ہے اب جاؤ۔” فلک نے ہیولے کی بات کاٹ کے فوراً ہی اسے جانے کا عندیہ دیا کیوں کہ نیچے قدسیہ بیگم اور سارہ کی چیختی ہوئی آوازیں سنائی دے رہی تھیں جو رفتہ رفتہ مزید بلند ہورہی تھیں۔
”ٹھیک ہے ، جیسا تم نے کہا ہے وہی ہوگا۔” سایہ ایک دم غائب ہوگیااور فلک تیز رفتاری کے ساتھ نیچے کی سمت بھاگا۔ کاش وہ ایک بار رک کے اس سائے کی بات کو بہ غور سن لیتا تو شاید…
٭…٭…٭
”سارہ… سارہ…”
فلک جو رات الگ کمرے میں گزارنے کے بعد بھی بجھی بجھی سی کیفیت محسوس کررہا تھا، ابھی تک سوئی جاگی حالت کا شکار تھا کہ اماں کی بلند ہوتی آواز سے آنکھیں کھولنے پر مجبور ہوگیا جو سارہ کو پکار رہی تھیں۔
”یہ اماں بھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ کل کتنی بدتمیزی کی تھی اماں سے اور اب انہیں دیکھو۔” فلک کو رات کا قصہ یاد آگیا جب پراسرار سائے سے بات کرکے وہ نیچے آیا، تو سامنے ہی اماں اور سارہ دوبدو لڑرہی تھیں۔ فلک کے آنے سے مزید خرابی ہوئی اور بالآخر سارہ روتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئی۔ قدسیہ بیگم اور فلک ایک دوسرے سے نظریں چرائے بیٹھے رہے۔ یہ حقیقت دونوں ہی جانتے تھے، سارہ بے قصور ہے صرف حالات کی گردش میں پھنس گئی ہے۔ کچھ دیر کروٹیں بدلنے کے بعد فلک بالآخر اسٹور جانے کے لیے اٹھا اور کمرے سے باہر نکلا۔ سامنے ہی اماں پریشان بیٹھی ہوئی تھیں۔
”کیا ہوا اماں ؟” فلک نے باہر کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے پوچھا۔
”سارہ …”قدسیہ بیگم نے فلک کو دیکھتے ہی گھبرائے ہوئے اندا ز میں کہا، تو فلک چونک گیا۔
”و ہ سارہ…”
”کیا ہوا سارہ کو…سب خیر ہے۔ کہاں ہے وہ؟” پراسرار ہیولے سے کہی ہوئی بات اچانک فلک کے ذہن میں تازہ ہوگئی تھی ۔
”تمہیں نہیں معلوم۔” قدسیہ بیگم نے کچھ جانتے کچھ چھپاتے ہوئے استفسارکیا، تو فلک مزید پریشان ہوگیا۔
”اماں میں تو کام کرتے کرتے دوسرے ہی کمرے میں سوگیا تھا، ل لل لیکن سارہ…میرا مطب ہے سارہ تو ٹھیک ہے نا؟”
”مجھے کیا معلوم فلک…”
”تو آپ اس کو ایسے آوازیں کیوں دے رہی تھیں اور وہ جواب کیوں نہیں دے رہی۔” فلک نے الجھتے ہوئے پوچھا۔
”اتنی بدتمیزی کے آپ کو جواب بھی نہ دے۔ کہاں ہے وہ؟”
”وہ تو صبح سے گھر پر ہی نہیں ہے بیٹے۔ میں نے پورا گھر چھان مارا۔ بلند آوازیں بھی دیں کہ چھت پر ہوتو کم از کم جواب تو دے دے لیکن ہر سو خاموشی ہی ہے۔”
”کک کیا مطلب وہ گھر چھوڑ گئی؟” فلک نے حیرت سے چیختے ہوئے اپنے بیڈروم کی طرف لپکتے کہا۔
”اتنی صبح کیسے جاسکتی ہے وہ؟”
”پتا نہیں…”قدسیہ بیگم نے اب بے زاری سے ہاتھ ہلایا۔ کل جو سخت بدتمیزی اور زبان سارہ نے استعمال کی تھی وہ ابھی تک قدسیہ بیگم بھلائے نہیں بھول رہی تھیں۔ گھبرائے ہوئے فلک نے کمرے کا دروازہ کھولا اور حیرت سے وہیں کا وہیں کھڑا رہ گیا۔
سلوٹوں والی بیڈ شیٹ بتا رہی تھی سارہ اس پر سوئی ضرور تھی، لیکن اب وہ کہیں نہیں تھی۔ باتھ روم بھی گیلا تھا یعنی وہ صبح جاگی تھی، لیکن پھر کہاں جاسکتی ہے۔ کپڑے جوتے ہر چیز تو وہیں موجود تھی۔ فلک حیران پریشان پورے کمرے میں پھررہا تھا، لیکن سارہ وہاں ہوتی تو ملتی۔
٭…٭…٭
فلک نے ایک ہفتے تک سارہ کو ہر ممکن جگہ ڈھونڈا، برادری والے بھی تھک ہار کے بیٹھ گئے لیکن بات پولیس تک نہیں جانے دی۔ گھر کی عزت کا معاملہ تھا۔ سارہ کے کپڑے لتے، زیور، جوتے ہر ایک چیز اپنی جگہ موجود تھی سوائے سارہ کے۔ فلک ہر گزرتے دن کے ساتھ خود کو پراعتماد محسوس کررہا تھا۔ ساتھ ہی ڈھکے چھپے ایشل سے بھی ملنا شروع کردیا۔
٭…٭…٭
”کیا ہوا فلک کچھ پریشان لگتے ہو۔ ”ایشل نے کھوئے کھوئے انداز کو دیکھتے ہوئے بالآخر فلک سے پوچھ ہی لیا۔
”کوئی مسئلہ ہے گھر پر؟”
”نن … نہیں۔” فلک نے پھرتی سے جواب دیا۔
”تو پھر اتنے خاموش کیوں ہو، کھانا بھی نہیں کھارہے۔” ایشل نے سامنے رکھے ہوئے چائنیز کھانے کو دیکھتے ہوئے فلک کی توجہ اس جانب کرائی تو فلک نے گہری سانس لے کے اس حقیقت کو مان ہی لیا کہ سارہ اب اس کی زندگی سے جا چکی ہے اور دس دن بعد بھی اس کا کوئی اتا پتا نہیں مل پایا۔
”مجھے لگتا ہے ایشل اب ہمارے ملنے کا وقت قریب ہے۔” فلک نے پرسکون انداز میں پانی کا گلاس اٹھایا اور گھونٹ گھونٹ پیتے ہوئے بات کا آغاز کیا۔
”کیا مطلب؟”
”یہ بتاؤ۔ تمہیں مجھ سے شادی کرنے میں کوئی اعتراض تونہیں ہے نا؟” ایشل نے حیران نظروں سے فلک کو دیکھا جو مسکراتے ہوئے اس سے جواب طلب کررہا تھا۔
”بتاؤ ایشل…میں باقاعدہ تم کو پرپوز کرنا چاہتا ہوں۔”
”لیکن تمہاری بیوی؟” ایشل نے جھجک کے سارہ کے بارے میں دریافت کرنا چاہا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا تھا جیسے وہ کوئی نوعمر لڑکی ہو اور سامنے اس کا چاہنے والا اسی کی رضامندی سے ہاتھ مانگ رہا ہو۔
”وہ گھر چھوڑ کے چلی گئی ہے۔” فلک نے دھماکا کیا۔
ایشل حیران ہوکے کھانا بھول گئی…
”کیا؟ اور تم اتنے آرام سے بیٹھے ہوجیسے کوئی بات ہی نہیں۔”
فلک نے مسکراتے ہوئے ایشل کا ری ایکشن دیکھا۔
” اچھا، تو کیا کرنا چاہیے پھر مجھے ملکہ عالیہ؟”
”پولیس میں رپٹ درج کراؤ ڈھونڈو اسے۔ بیوی ہے تمہاری۔” ایشل نے سنجیدگی سے فلک کو ٹوکا۔
”تم تو بات بھی ایسے کررہے ہو جیسے وہ تمہاری بیوی نہیں کوئی اور عورت ہو۔”
”وہ اپنی مرضی سے گئی ہے، میں کیا کرسکتا ہوں اب۔” فلک نے کندھے اچکاتے ہوئے اپنی لاتعلقی کا اظہار کیا۔
”تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو فلک۔ اتنے بے رحم نہیں بنو۔” ایشل کے لیے فلک کا یہ نیا روپ تھا۔
”میری بیوی کو چھوڑو اپنی بات کرو۔ کیا تم میری بیوی بننے پر راضی ہو؟” فلک نے ایک دم ہی ایشل کا ہاتھ تھام لیا ۔
ایشل جو مزید کچھ کہنے جارہی تھی۔ ایک دم جھینپ گئی۔
”اب کیا مجھے گھٹنو ں کے بل بیٹھ کے تمہاری ہاں کا انتظار کرنا ہوگا۔” فلک نے مسکراتے ہوئے ایشل کو دیکھا۔
”مجھے پہلے بھی کوئی اعتراض نہیں تھا فلک اور اب بھی نہیں ہے۔” ایشل نے ہار مانتے ہوئے ہتھیار ڈال دیے۔
”آخر زندگی پر اس کا بھی حق تھا۔”
”لیکن…” ایشل نے بات ادھوری چھوڑی اور فلک کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیکھنے لگی۔
فلک جو ابھی سے آنے والی زندگی کی خوب صورتی کا سوچ کے مسکرارہا تھا ایک دم چونک گیا۔
”کیالیکن ایشل؟ مجھے تمہاری ساری شرطیں منظور ہیں۔ بولو کیا چاہیے تمہیں۔ ”
”میری فیکٹری…”ایشل نے آہستگی سے اسے یاد دلایا۔
”اوہو بس اتنی سی بات۔ بیچ دو اسے یار۔ا ب میں اتنا کما لیتا ہوں کہ تمہیں خوش رکھ سکوں۔” فلک نے فخریہ انداز میں ایشل کو جتایا۔
ایشل نے سر جھکاکے فلک کے منت کی۔
”وہ میرے پاپا کی آخری نشانی ہے فلک۔ ایسے کیسے بیچ سکتی ہوں۔”
”پھر جو مرضی ہووہ کرو۔ میری طرف سے تم پر کوئی دباؤ نہیں ہے۔” فلک نے اسے آزادی دیتے ہوئے مان بڑھایا۔
”کیا تم… کیا تم میری خاطر اس کو ٹیک اپ کرسکتے ہو فلک؟یہ تمہارا احسان ہوگا مجھ پر پلیز…”
اس بار حیران ہونے کی باری فلک کی تھی۔
”کوئی دباؤ نہیں ہے تم پر، لیکن میں چاہتی ہوں تم اس فیکٹری کو دیکھو اور میں تمہارا گھر سنبھالوں گی۔ تھک گئی ہوں کام کرتے کرتے ، اب میں ایک عام سی عورت کی زندگی جینا چاہتی ہوں فلک… وہ بھی تمہارے سنگ۔ ”
فلک کا دل بلیوں اچھل رہا تھا۔ اتنا آسان تھا یہ سب۔فلک کو کب معلوم تھاایشل اتنی آسانی سے اس کی زندگی میں شامل ہونے والی تھی ، لیکن اسے یہ نہیں معلوم تھا۔ اس چیز کا فلک شیر نے کتنا بڑا خمیازہ بھرنا تھا آگے چل کے۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});