خونی سایہ — عمارہ خان (تیسرا اور آخری حصہ)

فلک جب سے اسٹور سے آیا تھا ایک ہی اینگل میں بیٹھا مسلسل سوچوں میں گم تھا۔ سارہ کافی دیر تک دیکھتی رہی، لیکن پھر مجبور ہوکے اس کے پاس چلی آئی۔
”کیا ہوا فلک، کچھ پریشان سے لگ رہے ہیں۔ کھانا بھی نہیں کھایا دیکھیں ٹھنڈا ہوگیا ہے۔”
فلک نے چونک کے سارہ کو دیکھا اور سامنے رکھے کھانے پر بھی نظر ڈالی جو پتا نہیں کب سارہ رکھ گئی تھی۔
”ہوں…بس ایسے ہی۔”
”کوئی پریشانی ہے، تو مجھے بتادیں شاید کوئی مدد کرسکوں۔” سارہ نے بات برائے بات کرنی چاہی۔
فلک واقعی اس وقت سارہ کو دیکھ کے سوچ رہا تھا کہ ایشل سے شادی کا کیا جواز دے پائے گا اسے۔
”تم مجھے کتنا چاہتی ہو۔ فلک خود بھی حیران رہ گیا اپنے سوال پر۔”
سارہ نے چونک کے فلک کو دیکھا۔ پھر مسکراکے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے سکون سے جواب دیا۔
”اپنی جان بھی دے سکتی ہوں آپ کی خاطر۔”
فلک نے اسے چونک کے دیکھا اور خود کلامی سی کی۔
”ہاں جان بھی تو…نہ رہے گا بانس نہ دینی بجے گی بانسری۔”
سارہ فلک کے ذہن میں چلنے والی الجھن سے بے خبر، اس کے پاس آ کے بیٹھ گئی۔
”فلک میں آپ سے واقعی بہت محبت کرتی ہوں۔ میرے پاس آپ کے سوا اور ہے ہی کون… جان تو معمولی سی چیز ہے۔ اگر میرے بس میں ہو، تو یہ دنیا نچھاور کردوں آپ پر۔” سارہ نے جذب سے کہا، تو فلک بے ساختہ شرمندہ ہوگیا۔
”اتنا چاہتی ہو مجھے سارہ۔ٔٔ فلک نے شرما کے منہ پھیر لیا۔ وہ نہیں جانتی تھی کس سخت دل سے جی لگا بیٹھی ہے جو پہلے ہی کسی دوسرے کے نام پر دھڑکتا ہے اور اب اس کو بھی اپنی محبت پر قربان کرنے چلا تھا، لیکن فلک بھول گیا تھا، مکافات عمل بھی کوئی چیز ہے ۔ورنہ یہ دنیا ایسے ہی خود غرض لوگوں کی اجارہ داری پر ختم ہوچکی ہوتی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”تم فیکٹری آجاؤ نا فلک…” ایشل نے دبے دبے لہجے میں فلک سے بحث جاری رکھی ۔
”ہم ادھر لنچ کرلیں گے ، پلیز میں بہت مصروف ہوں آج …”
”مصروف تو میں بھی ہوں ایشل، لیکن تمہاری خاطر سب چھوڑ چھاڑ کے … خیر چلو تم کام کرلو پھر کبھی مل لیں گے۔” فلک نے جانے انجانے ایشل کے جذبات دیکھنے چاہے۔
”تم جانتے ہو فلک، یہ فیکٹری کام اور بزنس میرے مطلب کے نہیں۔ جب سارا دن خالی دیواروں کو دیکھ دیکھ کے نفسیاتی طور پر پاگل ہونے لگتی ہوں، تو ادھر آجاتی ہوں اور چاہ کے بھی پلٹ نہیں سکتی جب تک…” ایشل نے جھجک کے بات ادھوری چھوڑ دی، لیکن فلک کی جانب سے کوئی سوال نہ پا کے خود ہی بات مکمل کرلی۔
”جب تک کوئی مضبوط سہارا نہیں مل جائے مجھے ، اسی جگہ رہنا ہے فلک سمجھو بات کو۔”
فلک بے ساختہ تڑپ گیا۔
”اوہ ایشل۔میں ہوں نا تمہارے ساتھ۔”
”نہیں فلک اب نہیں۔ مجھے جھوٹے خواب نہیں دکھانا۔ وہ وقت الگ تھا اب میں اتنی کمزور ہوچکی ہوں کہ دوسرا جھٹکا نہیں سہ سکتی۔ تمہاری بیوی ہے، گھر ہے تم اس کو دیکھو۔ میں ٹھیک ہوں جہاں اتنا وقت گزرا ہے وہیں باقی بھی گزر جائے گا۔” ایشل نے تلخ مسکراہٹ سے جواب دیا۔
”میں آرہا ہوں تم میرا انتظار کرو۔” فلک نے تیزی سے فون کاٹ کے گاڑی کا رخ اسی فیکٹری کی جانب موڑا جہاں ایشل کو پانے کے لیے معمولی سی نوکری کرنے گیا تھا اور اسی کا سوال کرنے پر بے عزت ہوکے نکال دیا گیا تھا۔ وقت وقت کی بات تھی، جو کبھی بھی ایک سا نہیں رہتا۔
٭…٭…٭
”کیوں اتنی اداس رہتی ہو سارہ۔ خوش رہا کرو۔” قدسیہ بیگم نے سارہ کو روکھے الجھے ہوئے بالوں کے ساتھ پھرتے دیکھا، تو ٹوک گئیں۔
”کس کے لیے تیارہوں اماں؟” سارہ نے چائے کا کپ ان کی جانب بڑھاتے ہوئے تھکے لہجے میں پوچھا۔
”اپنے لیے ، میرے لیے۔ دیکھو فلک جتنی محنت کررہا ہے ہمارے لیے ہی تو کررہا ہے نا۔” قدسیہ بیگم نے سارہ کو اپنے پاس بٹھاتے ہوئے ، ایک بار پھر اسے دلاسا دیا۔ وہ یہ بات بھول گئیں تھیں کہ بیوی کے لیے شوہر کی ایک نظر ہی کافی ہوتی ہے۔ وہ بھانپ جاتی ہے اس کا شوہر اس کی جانب راغب نہیں ہے۔
”اماں میں کب سے ایک بات پوچھنا چاہ رہی تھی آپ سے۔” سارہ نے جھجک کے قدسیہ بیگم کی جانب دیکھا۔
”ہاں ہاں پوچھو بیٹی۔ ماں سے بھی کوئی اجازت لے کے بات کرتا ہے کیا۔”
”فلک اس شادی کے لیے راضی نہیں تھے کیا۔” سارہ نے دھیمے لہجے میں اپنے دل کی الجھن قدسیہ بیگم سے شیئر کی۔
یہ سنتے ہی قدسیہ بیگم کے ہاتھ میں چائے کا کپ لرز گیا۔
”ایسی تو کوئی بات نہیں سارہ۔ یہ شادی اسی کی رضامندی سے ہوئی تھی۔ ہم تمہیں اتنے دقیانوسی لگتے ہیں کہ پرانے زمانے کی طرح زبردستی شادی کرادیں گے وہ بھی لڑکے کی… ”قدسیہ بیگم نے بات کا رخ ہلکے پھلکے انداز میں بدلنا چاہا۔
”ویسے بھی اتنا وقت ہوگیا ہے تمہاری شادی کو اگر وہ تمہیں پسند نہیں کرتا، تو کیوں گھر میں رکھتا؟”
”لیکن اماں…” سارہ اپنی ساس کو فلک کے سرد مزاج کے متعلق بتانے سے جھجک رہی تھی۔
”سارہ ۔ ہم نے کڑا وقت گزارا ہے۔ اب فلک جو یہ دن رات محنت کررہا ہے سمجھو اس کا مداوا کرنے کے لیے …”
”اور یہ جو وقت گزر رہا ہے اماں ، پھر بعد میں اس کا مداوا کریں گے؟” سارہ کے اس سوال کا جواب قدسیہ بیگم کے پاس نہیں تھا۔
”کیوں فکر کرتی ہو، فلک کے ابا، اماں کی پسند ہو ایسے کیسے اس کو ناپسند ہوسکتی ہو تم۔” قدسیہ بیگم نے اپنی ہر ممکن کوشش کرلی، لیکن سارہ بھی اپنے شوہر کے بدلتے مزاج کو بخوبی جاننے لگی تھی۔اس کی چھٹی حس اسے اشارہ دے رہی تھی ، کچھ بہت غلط ہونے والا ہے۔
٭…٭…٭
”آؤ فلک آؤ۔” ایشل نے خوش دلی سے استقبال کیا، لیکن اس کے چہرے کی تھکن فلک کو بہت واضح محسو س ہوئی۔
”لنچ پر جانا ہے یا ادھر ہی آرڈر کردوں۔”
”کیوں تھکاتی ہو اتنا خود کو ایشل؟” فلک نے سرخ ہوتی آنکھوں کو دیکھتے ہوئے ایشل سے سوال کیا۔
ایشل نے آنکھیں موندے بہت سے آنسو پیچھے دھکیلے اور زیرلب جواب دیا۔
”پھر کیا کروں اور کچھ ہے بھی تو نہیں کرنے کو؟”
”تمہاری کوئی اولاد؟” جھجکتے ہوئے فلک نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
ایشل نے آنکھیں کھول کے فلک کو دیکھا اور نظریں جھکا کے خود ترسی کا شکار ہوگئی۔
”نہیں میری کوئی اولاد نہیں ہے۔ میں اکیلی ہی ہوں اور شاید اکیلے ہی رہوں گی ہمیشہ۔”
فلک نے یہ سن کے اپنے جسم و جان میں سکون کی لہر دوڑتی ہوئی محسوس کی۔
”تم سناؤ۔ شادی تو کرلی ، بچے نہیں بتائے کتنے ہیں اور کس کلاس میں ہیں۔” ایشل نے نم آنکھوں سے فلک کو دیکھا۔
”اتنی بار بات ہوئی لیکن کبھی پوچھا ہی نہیں تمہاری فیملی کے بارے میں۔”
”ہوں کی ہے شادی اور رہے بچے… مجھے کچھ چاہ نہیں تھی۔ اسی لیے …”
”تمہاری بیوی…کیا اُسے بھی ، میر امطلب ہے ہر عورت کی خواہش ہوتی ہے ماں بننا۔”
”زبردستی کاسودا تھا ایشل…ابا، اماں کی خواہش پوری کردی بس کافی تھا۔ اب بیوی کی بھی کرنا مناسب نہیں سمجھا میں نے۔” خود غرضی سے جواب دیتا فلک ، وہ فلک نہیں لگ رہا تھا جو یونی ورسٹی میں مشہور ہی دوسروں کے کام کرنے کے لیے تھا۔ ایشل نے بہ غور اسے دیکھا۔
”خوش نہیں ہوفلک؟”
”تم ہو…؟”
ایشل نے بے ساختہ نفی میں سر ہلادیا۔
”پھر میں کیسے خوش رہ سکتا ہوں۔”
”جب ہم نے ملنا ہی نہیں تھا تو…”ایشل نے افسوس سے سر جھکا لیا۔
”ہم کیوں ملے تھے فلک اور ہم اب کیوں ملے جب کہ ایک نہیں ہوسکتے۔ یہ قسمت بار بار ہم سے ہی کیوں کھیل رہی ہے۔”
”میں اب کسی کو نہیں کھیلنے دوں گا ایشل۔” فلک نے ایشل کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔
”اب نہیں… بس اب کوئی نہیں آسکتا ہمارے بیچ۔” فلک نے فولادی لہجے میں خود سے عہد کیا۔
”کاش کوئی جادو ہوجائے اور پچھلا وقت واپس مل سکے ہمیں۔” ایشل نے بھرائی ہوئی آواز میں اپنے دل کی بات کہہ دی۔
”تمہارا گھر بس چکا ہے بیوی ہے۔ ان کی موجودگی میں ایسے ملنا مجھے…کاش ہم کسی طرح پرانا وقت جی سکتے جب ہم ایک تھے۔”
”ابھی بھی ہم مل سکتے ہیں۔ ایشل تم دیکھنا ہم ایک ہوجائیں گے۔ ہاں ہم ایک ہوجائیں گے، تم بس میرا انتظار کرو۔” فلک کو ایک دم کسی سوچ نے بے چین کیا ۔
”ہاں ایسا ہوسکتا ہے۔ ایشل اس بار میں واپس آؤں گا میر ا یقین کرو۔” فلک تیزی سے بات مکمل کرکے آفس سے باہر نکل گیا اور ایشل اسے حیرانی سے دیکھتی رہ گئی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ فلک اس کی خاطر کسی دوسری انسانی جان سے کھیلنے جا رہا تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

خونی سایہ — عمارہ خان (دوسرا حصہ)

Read Next

اے شب تاریک گزر —- صدف ریحان گیلانی (پہلا حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!