حسن: آپ کا ایک ڈرامہ تھا لنڈا بازار اس میں آپ نے بحیثیت اداکار بھی کام کیا تھا، وہ تجربہ کیسا رہا تھا؟
خلیل الرحمٰن: میں اس ڈرامے کا پروڈیوسر بھی تھا، اور سیٹ پر ساتھ ساتھ بیٹھ کر لکھتا بھی تھا ، اس کی انیسویں قسط لیٹ ہوگئی تھی۔ جمعہ کو قسط چلتی تھی اور ہفتہ، اتوار ہم چھٹی کرتے تھے۔ کوئی مسئلہ ہوگیا تھا جس کی وجہ سے وہ لیٹ ہوگیا تھا ۔ اب میں انتظار کررہا ہوں کہ انیسویں قسط کا اشتہار آئے اور میں سوجاؤں اور وہ قسط آئی تو مجھے سکون آیا۔ میں پھر گھر جانے کے لیے تیار تھا تو اس وقت ڈائریکٹر میرے پاس آیا اور کہنے لگا آپ کو نیند آرہی ہے میں نے کہا ہاں، ڈائریکٹر نے کہا آپ کو پتا ہے آپ نے کیا کیا ہے؟ آپ نے مہر چراغ کو گولی لگوادی ہے، ماردیا ہے اسے، تو اب بھی کیا حکم نہیں آئے گا؟ میں اٹھ کر بیٹھ گیا، پریشان ہوگیا میں نے کہا دلاور ملک یہ تو مسئلہ ہوگیا ، اب کوئی نیا کردار لانا پڑے گا اور کوئی ہم پلّہ ایکٹر چاہیے ہوگا ۔ ہم نے سوچنا شروع کردیا، پھر جب ساری سوچیں ناکام ہوگئیں تو میں نے کہا کہ ابھی تھوڑا ٹھنڈے ہوجاؤ پیر کو سوچتے ہیں، ڈائریکٹر نے مجھ سے کہا آپ خود کرلیں، میں نے کہا تمہارا دماغ تو نہیں خراب ہوگیاپروڈیوسر بھی ہوں، رائٹر بھی ہوں، سارے کردار ہٹ ہیں۔ دو دن گزر گئے، میں ایکٹرز کا نام لوں تو ڈائریکٹر نہیں مانتا تھا، آخر میںنعمان اعجاز پر ڈائریکٹر مانا۔ میں نے نعمان اعجاز کو بلایا، اس سے کہا یار ایک رول نکل آیا ہے، اور میں چاہتا ہوں کہ تم کرو، میں اس کو بڑا بنادوں گا۔ اس نے حامی بھرلی۔ میں نے اس سے پیسے پوچھے۔ اس وقت میں سب سے زیادہ پیسے بابر علی کو دیتا تھا،اور وہ بارہ ہزار فی قسط ہوتے تھے۔ نعمان اعجاز نے مجھ سے کہا میں پچیس ہزار لوں گا، تو میں ہنسنے لگا، وہ بھی ہنسنے لگا اور کہنے لگا آپ ہی کرلو نا ۔ میں نے کھڑے ہوکر ہاتھ ملایا اور کہا ٹھیک ہے میں خود کرلوں گا۔ میں نے سلیم شیخ کو فون کیا، وہ کراچی میں تھا، یہ سب کرتے کرتے جمعرات آگئی، صبح قسط بھیجنی تھی، ڈائریکٹر مجھ پر برس رہے تھے کہ آپ خود کرلو۔ میں نے کہا دیکھو کوئی شلوار قمیص موجود ہے، تو پتہ چلا قمیص ہے شلوار نہیں، میں نے شارٹس پہنی ہوئی تھی۔ میں نے قمیص پہنی، مونچھیں لگائیں اور آئینے میں دیکھا ،مجھے لگا کہ چلے گا کام، اس کے بعد شوٹ کیا اور وہ بڑا ہٹ ہوا۔
حسن: آپ کے جو سیریلز تھوڑے عرصے پہلے چلے پیارے افضل، صدقے تمہارے، بنٹی آئی لو یو، من جلی، ان سب میں اختتام نہایت ٹریجک تھا اور لوگ آپ کے بعد کے سیریلز کے حوالے سے بھی بوجھنے لگے تھے کہ اب دیکھیں اس میں کون مرتا ہے جیسے میرا نام یوسف ہے اور ذرا یاد کر۔
خلیل الرحمٰن : آپ ایک بات بتائیں، آپ کے خاندان میں بہت سی شادیاں ہوں گی جو کامیاب ہیں، آپ کبھی بیٹھ کر انہیں ڈسکس کرتے ہیں؟ آپ ہمیشہ وہی ڈسکس کرتے ہیں جہاں کوئی حادثہ ہوا ہو۔ کہانیاں ہمیشہ حادثوں سے جنم لیتی ہیں۔ سبق آپ حادثوں سے لیتے ہیں۔
مدیحہ: میں نے پڑھا تھا کہ آپ پیارے افضل کی ہیپی اینڈنگ کرنا چاہ رہے تھے، لیکن حمزہ علی عباسی کے اصرار پر آپ نے ماردیا؟
خلیل الرحمٰن: پیارے افضل میں میں ہیپی اینڈنگ کرنا چاہ رہا تھا لیکن وہ موت کے منہ سے نکال کر لارہا تھا، میں نے اس کو تقریباً ماردیا تھا جب وہ آکر خط پڑھتی ہے اس کے سامنے، وہ جب خط پڑھنے لگتی ہے تو افضل کے اندر جان پھونکی جارہی ہوتی ہے۔ وہ خط جو اس نے کبھی نہیں لکھا تھا وہ لکھ کر لاتی ہے۔ مجھے مسلسل یہی کہا جارہا تھا کہ سیڈ اینڈنگ کردیجیے۔ ہم لوگ بار بی کیو ٹونائٹ میں کھانا کھارہے تھے، حمزہ علی عباسی اچانک اٹھا اور آکر میرے گھٹنے پر ہاتھ رکھا اور مجھ سے ایک جملہ کہا: ‘خلیل بھائی مجھے مار دیجیے میں زندہ ہوجاؤں گا” بس اس وجہ سے میں نے اسے مار دیا۔ ایک مزے کی بات بتاؤں ایک عورت نے جہاز میں آکر مجھے تھپڑ بھی مارا تھا کہ میں نے افضل کو ماردیا (قہقہہ) ۔
مدیحہ: آپ کے بارے میں مشہور ہے کہ آپ کا اگر کسی ڈائریکٹر یا پروڈیوسر کے ساتھ اگرcreative difference ہوتا تھا تو آپ اس کو اجازت نہیں دیتے تھے کہ آپ کے سکرپٹ میں تبدیلی کرے۔
خلیل الرحمٰن: میرا تو کبھی کسی کے ساتھ difference نہیں ہوا ہے۔ میں تو خود اپنے ڈرامے پروڈیوس کرتا تھا۔
حسن: سر ابھی آپ نے کہا تھا کہ کانٹینٹ ڈپارٹمنٹ کو بند کردیا جائے تو نئے لکھنے والوں کو مواقع ملیں گے، کانٹینٹ ڈپارٹمنٹ والے کہتے ہیں ہم وہی لکھواتے ہیں جس پر ریٹنگ آتی ہے تو پھر ریٹنگ میٹرز نہ ختم کردیے جائیں پھر؟
خلیل الرحمٰن: بالکل۔ پندرہ سو جاہلوں کے گھر اس قوم کو define کریں گے کہ کیا چیز ہٹ ہے اور کیا چیز فلاپ؟ ریٹنگ کو میں define کروں؟ یہاں ایک آدمی جائے نماز بچھا کر نماز پڑھے، اور سامنے ایک لڑکی ناچنا شروع ہوجائے تو آپ کس چیز کو دیکھیں گے؟ یہ ہے اس ملک میں ریٹنگ۔جب پیارے افضل چل رہا تھا تو اس وقت چھے سو چالیس لوگوں کی viewing پر ریٹنگ کو define کیا جاتا تھا۔ یہاں پر لوگوں کی مجبوریاں بکتی ہیں۔ کئی خلیل الرحمٰن قمر اپنی مجبوریاں بیچ رہے ہیں۔
مدیحہ: سر یہ سب کچھ ٹھیک کیسے ہوگا؟
خلیل الرحمٰن: مجھے معذرت کے ساتھ کہنے دیجیے کہ پہلے ہمیں بیٹھ کر یہ سوچنا پڑے گا کہ جو لکھ رہے ہیں کیا یہ لوگ رائٹر ہیں؟ یا ہمارے کمرشلزم نے ان لوگوں کو رائٹر بنایا ہے، طالع آزماؤں کی وجہ سے نقصان ہورہا ہے۔ہمارے یہاں لوگوں کے حق مارے جاتے ہیں، جو ڈیزرو کرتا ہے ، اس کو آگے نہیں آنے دیا جاتا۔ کئی عمیرہ احمد، کئی خلیل الرحمٰن گھر بیٹھے رہ جاتے ہیں اور opportunists کو موقع مل جاتا ہے۔میں نے اپنے پہلے سیریل میں ایک جملہ لکھا تھا کہ میرا ملک وہ بدنصیب ملک ہے جہاں بارہ بارہ، چودہ چودہ سال کی عمر میں شیکسپیئر مر جاتا ہے ۔ آپ کو کیا پتا ہے کہ وہ جو چھوٹا پانا لے کر گاڑی کے نیچے پھنسا ہوا ہے وہ کتنا بڑا خلیل الرحمٰن قمر ہوگا، وہ لڑکی جو کسی کے گھر پوچا پھیر رہی ہے، وہ کتنی بڑی عمیرہ احمد ہوگی۔ ہم نے راستے مسدود کردیے ہیں۔ سب سے بڑا ظلم ہے اور قوموں کے مرنے کی سب سے بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہاں پر ادب مرنے لگتا ہے۔آپ جسم کی غلامی سے آزاد ہوسکتے ہیں، آپ زبان کی غلامی سے آزاد نہیں ہوسکتے ہیں، وہ آپ کے رگ و پے میں سرائیت کرجاتی ہے، ہم نے انگریزی کو fantasizeکرلیا ہے۔ ایک زبان کی بنیاد پر ہم نے بچوں کی ذہانت کو کچل دیا ہے۔
حسن: سر آپ کے خیال میں اس انڈسٹری میں رائٹرز کو صحیح معاوضہ دیا جاتا ہے، کیوں کہ ہم نے سنا ہے کہ نئے لکھنے والوں کو بہت کم معاوضہ دیا جاتا ہے۔
خلیل الرحمٰن: مجھے تو بہت اچھا معاوضہ ملتا ہے اور جو آپ نے دوسری بات کی ہے اس سے میں متفق ہوں اور یہ نہایت غلط ہے ، میں ان لوگوں کے ساتھ کھڑا ہوں۔
مدیحہ: آپ نے ابھی کہا تھا کہ آپ کتابیں نہیں پڑھتے ہیں تو اتنی اچھی تحریریں کیسے لکھ لیتے ہیں؟
خلیل الرحمٰن: یہ سب اوپر والے کی مہربانی ہے۔ اردو میں شروع سے ہی اچھی بولتا تھا حالاں کہ میرا ایک انتہائی کٹر پنجابی گھرانے سے تعلق ہے، اس کی وجہ شاید یہی تھی کہ میں اردو اچھی لکھتا تھا تو مجھے شوق ہوا اردو اچھی بولنے کا بھی اور صرف پڑھنا ہی سب کچھ نہیں ہوتا، میں بہت اچھا سامع بھی ہوں۔ مجھ سے اچھا سامع آج تک پیدا نہیں ہوا۔
حسن: آپ کی ایک غزل ابھی حال ہی میں ایک انڈین فلم میں شامل ہوئی ہے، آپ شاعری کیوں نہیں کرتے؟ اور اگر آپ کرتے ہیں تو ابھی تک شائع کیوں نہیں کروائی؟
خلیل الرحمٰن:میں اصل میں شاعر ہی ہوں، اور ابھی اپنی شاعری کے مجموعے کو شائع کروانا چاہ رہا ہوں۔ اس غزل کے جو پہلے دو مصرعے ہیں۔
لفظ کتنے ہی تیرے پیروں سے لپٹے ہوں گے
تُو نے جب آخری خط میرا جلایا ہوگا۔
یہ میں نے نویں جماعت میں لکھا تھا، گانا میں نے چار سال پہلے لکھا۔
مدیحہ: ہم نے پڑھا تھا کہ آپ کا سکس سگما (ہمایوں سعید کا پروڈکشن ہاؤس) کے ساتھ کوئی کانٹریکٹ ہوا ہے اور آپ صرف ان ہی کے لیے لکھ رہے ہیں۔
خلیل الرحمٰن: اس سوال کو رہنے دیجیے(مسکراتے ہوئے) تھوڑے عرصے میں آپ کو سارے جوابات مل جائیں گے۔