خلیل الرحمٰن قمر  – گفتگو

مدیحہ: صدقے تمہارے جب آپ لکھ رہے تھے تو آپ کو ڈر نہیں لگتا تھا کہ اگر یہ مشہور نہیں ہوا تو کیا ہوگا؟

خلیل الرحمٰن: مجھے پتا تھا کہ یہ مشہور ہوگا۔ میں الہام پر تو زندہ ہوں۔ مجھے ثمینہ ہمایوں سعید نے کہا تھا کہ خلیل بھائی مجھے ایک سیریل چاہیے جس پر مجھے ایوارڈ لینا ہے۔ میں نے یہ سوچ کر سیریل اس کو دیا تھا کہ اس پر اسے ایوارڈ ملے گا۔ 



مدیحہ : آپ کے فیورٹ رائٹرز؟

خلیل الرحمٰن: میں ناولز نہیں پڑھتا اور انگلش فلمیں نہیں دیکھتا۔ جتنے بجٹ میں ان کے یہاں ایک فلم بنتی ہے اتنے میں ہم دو سو فلمیں بنا لیتے ہیں۔ آپ کے پاس دس ارب روپے ہیں اور آپ نے ایک اچھا گھر بنا لیا تو کیا کمال کیا، بات تو تب ہے کہ آپ کے پاس پانچ لاکھ روپے ہوں اور آپ ایک اچھا گھر بنا کر دکھا دیں۔آپ حیران ہوجائیں گے یہ بات سُن کر کہ میں نے آج تک کسی کو نہیں پڑھا، میرے پاس جو بھی ہے، اوپر سے آیا ہوا ہے اس کو کوئی چیلنج نہیں کرسکتا۔آخری کتاب میں نے جو پڑھی تھی وہ کتاب تھی ”یاخدا”، کسی نے مجھے سالگرہ پر وہ کتاب دی تھی اور میں اب وہ کتاب لوگوں کو تحفے میں دیتا ہوں۔ وہ ہرپاکستانی کو پڑھنی چاہیے۔ وہ کتاب پڑھ کر میں رات کو چیخا تھا۔ اس کے آخر کے دو صفحات جان نکال دینے والے ہیں۔ آپ کے اردو میں اتنا ادب ہے، میں آپ کو ایک بات بتاؤں یہاں دو ہزار تین سو پندرہ میں بھی اگر ڈرامہ بنے گا تو وہ بھی اردو میں بنے گا، انگریزی میں نہیں۔ یہ انگریزی Hyperstar کے فلور پر ہی ختم ہوجائے گی ۔ ہمیں ہنس کی چال نہیں چلنی۔

حسن: ہمارے معاشرے میں لوگ اردو لکھنا پڑھنا بھول رہے ہیں، رومن کا استعمال کررہے ہیں، آپ کے نزدیک یہ خطرناک صورت حال نہیں ہے؟

خلیل الرحمٰن: کرنے دیجیے ان کو۔ یہ ایک گروپ ہے، زیادہ لوگ نہیں ہیں۔ آپ کی vicinity میں خاموشی ہو اور ایک کتا بھونکے تو اس کے بھونکنے کی آواز آتی ہے نا؟ اس کو مڑ کر دیکھتے ہیں نا؟ تو اس ہی طرح ان لوگوں کو بھی دیکھ لیں۔ اپنی زبان کے ساتھ کھلواڑ کرنے والے سب لوگ میرے نزدیک کتے ہیں۔ وہ اپنی مٹی کے وفادار نہیں ہیں، ہمسایوں کے بچے ہیں، باپ کے بچے نہیں ہیں۔یہ لوگ جلد ہی مرجائیں گے، ان کو اہمیت ہی نہ دیں۔

مدیحہ:اب تک کے کیے گئے پراجیکٹ میں سب سے پسندیدہ پراجیکٹ کون سا ہے؟

خلیل الرحمٰن: وہ ابھی تک نہیں بنا (مسکراتے ہوئے)

حسن: آپ نے فلمیں بھی لکھی ہیں؟ آج کل کوئی فلم لکھ رہے ہیں؟

خلیل الرحمٰن: میں نے چھے سات فلمیں لکھی ہیں، سب سے پہلی فلم قرض تیرہ نیشنل ایوارڈز کے لئے نامزد ہوئی تھی ، مجھے پہلا نیشنل ایوارڈ اس پر ملا تھا۔ اس کے بعد میں نے گھر کب آؤ گے، نکی جئی ہاں لکھیں، ریما نے جو پہلی فلم ڈائریکٹ کی تھی کوئی تجھ سا کہاں وہ میں نے لکھی تھی۔ ابھی میری دو فلمیں شوٹ پر جارہی ہیں میں پنجاب نہیں جاؤں گی اورمیں ہوں تیری گلناز۔

مدیحہ: آپ کے ڈراموں کے ٹائٹل بڑے اچھے ہوتے ہیں۔

خلیل الرحمٰن: (مسکراتے ہوئے) اچھے ہوتے ہیں ۔ میں آپ کو بتاؤں کہ کہیں کچھ ہے مجھ میں تھوڑا بہت جو میرا پروردگار مجھے دیتا رہتا ہے۔

مدیحہ: آپ professional writing courses پر یقین رکھتے ہیں؟

خلیل الرحمٰن: میں ان کورسز اور کانٹینٹ ڈپارٹمنٹ سے نفرت کرتا ہوں ۔ وہاں پر ایک کھسکی ہوئی عورت کانٹینٹ کی ہیڈ ہوتی ہے، جس کو زندگی میں کچھ نہیں ملا ہوتا، اس لیے وہ زندگی میں کسی کو کچھ نہیں دیتی۔ آپ یقین کریں میں عورتوں کے خلاف نہیں ہوں، آپ اگر میرے سیریل دیکھیں تو اس میں میری عورت ہمیشہ مضبوط ہوتی ہے۔ مجھے وہ ذہن برا لگتا ہے کہ اگر مجھے کچھ نہیں ملا تو دوسروں کو بھی نہیں ملے۔ جو آپ نہیں کرپائے وہ دوسروں کو کرنے دیجیے۔ آپ کے ساتھ کوئی ناانصافی کبھی نہیں ہوتی، چوں کہ ہم اپنے گناہ یاد نہیں کرتے، اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، اس وقت بیٹھ کر اپنا وہ گناہ یاد کرلیجیے جو آپ بھول گئے ہیں ، یا یہ یاد کرلیجیے کہ کہیں آپ نے کسی کے ساتھ ناانصافی تو نہیں کی۔ کانٹینٹ ڈپارٹمنٹ آپ کی creativity کے تابوت میں آخری کیل ہیں۔ وہ آپ کو پنپنے نہیں دیں گے۔ اس ہی طرح ریٹنگ کے سین لکھتے رہیں گے۔

حسن: سر ہمارا ماننا ہے کہ لکھنا ایک خداداد صلاحیت ہے اور یہ عطا کردہ ہے لیکن اس کو تراشا تو جاسکتا ہے نا؟ 

خلیل الرحمٰن: آپ پڑھیں، علم والے لوگوں کے ساتھ بیٹھیں۔ برانڈز کی باتیں کرنا چھوڑ دیں۔ کیا برانڈ آپ کو نمایاں کرتا ہے؟ آپ دو لاکھ روپے کا جوڑا پہن کر بیٹھ جائیے ، کیا وہ آپ کی شخصیت کو نکھار دے گا؟ آپ سادے کپڑے پہن کر بڑی بات کیجیے میں آپ کے پیروں میں بیٹھ جاؤں گا۔آپ کسی ایک معقول رائٹر کا ڈرامہ پڑھ لیجیے اور لکھنا شروع ہوجائیے۔

مدیحہ: آپ کا writing procedure کیا ہے؟ 

خلیل الرحمٰن: میرے پاس سب کچھ اوپر سے آرہا ہوتا ہے، میں لکھتا ہوں اور اس کے بعد کہتا ہوں کہ واہ یار کیا لکھا ہے۔ میں اپنا ڈرامہ دیکھ کر خود کو اتنی شاباشیاں دیتا ہوں جتنی آپ لوگ بھی نہیں دیتے ہوں گے۔ میں لکھنے کے بعد بھول جاتا ہوں کہ میں نے کیا لکھا ہے۔



Loading

Read Previous

حسینہ معین – گفتگو

Read Next

گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح ۔ پروین شاکر ۔ شاعری

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!