خلیل الرحمٰن قمر  – گفتگو

حسن: سکرپٹ رائٹنگ بھی آپ نے 96ء سے ہی شروع کی؟

خلیل الرحمٰن: نہیں ڈرامہ میں نے بہت پہلے سے لکھنا شروع کیا تھا۔ بہت چھپا ہے ڈرامہ میرا، اگر آپ اس وقت کے رسالے نکلوائیں تو آپ کو پتا نہیں چلے گا کہ وہ کسی بچے نے لکھا ہے۔ اگر آج خلیل الرحمٰن قمر لکھ رہا ہے تو وہ اس وقت بھی ایسا ہی لکھتا تھا بلکہ اس وقت میرے پاس vocabulary زیادہ تھی۔

مدیحہ: کس طرح کے سکرپٹس لکھنے میں آپ کو زیادہ مزہ آتا ہے؟ جن میں کوئی پیغام ہو یا جس سے آپ خود کو relate کرسکیں؟

خلیل الرحمٰن: میں مٹی سے جڑا ہوا آدمی ہوں۔ میرے پاس عجیب و غریب قسم کے واقعات ہیں جنھوں نے میری تربیت کی۔ دو چیزیں ہمارے ملک میں بدترین ہیں۔ ایک انگریزی زبان کو لیاقت سمجھنا حالاں کہ وہ صرف ایک زبان ہے، جس کو کوئی بھی چھے مہینے میں سیکھ سکتا ہے لیکن یہ ہمارے ملک میں ایک دانشوری کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ میں آپ کے سامنے انگریزی کا ایک لفظ غلط بولوں گا تو آپ کی ہنسی نکل جائے گی لیکن یہاں آپ کے سامنے تواتر سے غلط اردو بولی جاتی ہے اور کسی بے شرم آدمی کو شرم نہیں آتی۔ دوسرا جو مسئلہ ہے ، وہ ایک واقعہ ہے جو میری اساس کو طے کرگیا۔ میں بچپن میں بھٹو صاحب کا بہت بڑا فین تھا، ان کا جیسا کوٹ مجھے پسند تھا۔ میں غریب بچہ تھا لیکن لنڈے کا کپڑا نہیں پہنا کرتا تھا۔ میرے ابا کو کسی نے تحفے میں کوٹ پینٹ کے سوٹ کا کپڑا دیا۔ میں نے ابا سے کہا کہ آپ مجھے یہ کپڑا دے دیں میں اپنا کوٹ سلواؤں گا ۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے اس کوٹ کی سلوائی اس وقت اسّی روپے دی تھی اور میں پہن کر خالہ کے گھر گیا۔ آپ سے آج کے زمانے میں اگر کوئی پوچھتا ہے نا کہ کتنے کی لی ہے یہ شرٹ تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی اچھے برانڈ کی شرٹ ہے ، اس وقت یہ سوال اگر پوچھا جاتا تھا کہ کتنے کی لی ہے تو سمجھا جاتا تھا کہ لنڈے سے لی ہے۔ میں نے کہا نہیں خالہ جی سلوایا ہے، انہوں نے کہا چل، میں نے انہیں کہا قرآن مجید کی قسم میں نے سلوایا ہے، کسی کو یقین نہیں آیا۔ میں دوسرے گھر گیا، وہاں بھی میرے ساتھ یہی سلوک ہوا، میں تیسرے گھر گیا، وہاں بھی یہی سلوک ہوا۔ میں نے وہ کوٹ آکر اتارا، اپنی ماں کے سبز رنگ کے ٹرنک میں ڈالا اور پھر کبھی نہیں پہنا۔ اب آتے ہیں اس دور میں جب میں بینک آف پنجاب میں وائس پریذیڈنٹ تھا۔ ایک دن میرا بھائی میرے پاس آیا، میں نے دیکھا کہ اس نے ایک بہت ہی خوبصورت کوٹ پہنا ہوا تھا، میں نے اس سے پوچھا کہ کہاں سے لیا اس نے کہا لنڈے سے لیا ہے،ڈیڑھ سو کا۔ تب تک میں نے لنڈا نہیں پہنا تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ میرے ڈرائیور کو لے کر جاؤ دو کوٹ لے کر آؤ ایسے ہی لنڈے سے اور ڈرائی کلین کروانے دے جاؤ۔ وہ کوٹ آگئے۔ دو دن کے بعد میں بورڈ میٹنگ میں بیٹھا تھا۔ چیئرمین بینک آف پنجاب میرے پاس جھکے اور کہا خلیل صاحب کوٹ کہاں سے لیا؟ میں نے کہا سر ڈیڑھ سو روپے کا لنڈے سے لیا ہے۔ وہ کہنے لگے ارے کیا بات کرتے ہیں میں نے کہا سر خدا کی قسم لنڈے سے لیا ہے، وہ کہنے لگے ارے جانے دیں۔ میں اس وقت بھی قسم کھاتا تھا ، میں اس دن بھی قسم کھارہا تھا میری بات کسی نے نہیں مانی۔ یہ وہ vicious circle ہے جس کے بیچ میں آپ کی قوم کی تربیت ہوئی ہے۔ یہاں ساس کے خلاف لکھا جارہاہے یہ سوچے بغیر کہ میری ماں بھی ساس ہے۔ اگر وہ میری ماں ہے تو اچھی ہے، میری ساس ہو تو بری ہے۔ ہم نے بچے بچیاں ڈرادی ہیں ۔ ایسی عورتوں کے ہاتھ میں کانٹینٹ آیا جن کی طلاقیں ہوئی ہیں، جن کی شادیاں نہیں ہوئیں، جن کے دس ہزار مسائل ہیں ۔ وہ وہی کچھ چاہتی ہیں کہ سکرین پر آجائے۔ میرے ملک کے دس ہزار مسائل ہیں کوئی ایڈریس نہیں کررہا۔ مرد کی بے عزتی کیے جارہے ہیں۔ آپ کے ساتھ مرد کام کرتے ہیں ، بے وقوفوں کی طرح صبح سے کام کرتے رہتے ہیں رات کو گھر آتے ہیں ، ایک ہی خواب ہوتا ہے گھر والوں کے خواب پورے ہوجائیں۔ بلا تمیز، بلا دلیل مرد کو بُرا کہا جارہا ہے۔ میں تو کہتا ہوں سارے کے سارے مرد ولی ہوجائیں، معاشرہ نہیں چلے گا۔ معاشرہ صرف ایک اچھی عورت سے چلے گا۔



مدیحہ : سر آپ کو نہیںلگتا کہ بیلنس ہونی چاہیے یہ چیز کہ صرف ایک ہی کے صحیح ہونے سے چلے گا سب کچھ، یہ غلط نہیں ہے؟

خلیل الرحمٰن: اس کا آپ گھر جاکر سوچیے گا جو میں نے آپ سے ابھی کہا ہے ۔ میں کسی کو غلطی کرنے کی مارجن نہیں دیتا۔ لیکن فرض کیجیے کہ غلطی ہورہی ہے تو کس کو اجازت دی جائے۔ ہم کہتے ہیں غلطی ہونے دی جائے ، مرد غلطی کرے گا ایک گھر کا نقصان ہوگا، عورت غلطی کرے گی ایک نسل کا نقصان ہوگا۔یہ غلط سمجھا جاتا ہے کہ میں مرد کو سپورٹ کرتا ہوں، عورت کو نہیں۔ میں صرف یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ مرد کو ٹھیک کرنے سے معاشرہ ٹھیک نہیں ہوگا۔ آپ میری طرف ٹھیک طریقے سے دیکھیں گی تو میں شریف آدمی ہوں، آپ مجھے دیکھ کر لائن کرائیں گی میں شریف آدمی نہیں رہوں گا۔ مرد کو define کرنا بڑا آسان ہے، آپ اس کی طرف نہ دیکھیں وہ شریف ہے۔مرد سارے شہرسے ذلیل ہوکر بھی گھر آجائے لیکن گھر میں موجود عورت اگر اس کو کہہ دے کہ تم بہت اچھے ہو، وہ اپنی ساری ذلت بھول جائے گا۔

حسن: ابھی آپ نے جو بات کہی کہ عورتیں ہی دکھا رہی ہیں کہ ساس بری اور ساس دشمن، اگر ہم ان رائٹرز سے بات کریں تو ان کا کہنا ہوتا ہے کہ ہم وہی لکھتے ہیں جو ہم سے لکھنے کو کہا جاتا ہے ، جس پر ریٹنگ مل رہی ہوتی ہے۔

خلیل الرحمٰن: پھر ملک تباہ کرلیں۔ قحبہ خانے کھول لیں ، اس میں بھی بڑی ریٹنگ ملے گی۔ یہ بڑا گھٹیا فقرہ ہے کہ ہم سے مانگاجاتا ہے، کسی سے کہہ کر تو دیکھیں کہ وہ مجھ سے مانگے، پھر میں بتاؤں گا۔اگر آپ ایمان کے کمزور آدمی ہیں اور دو وقت کی بھوک نہیں برداشت کرسکتے ہیں،تو پھر بے شرم ہونے میں اور شرم دار ہونے میں ایک باریک سی پرت ہی باقی ہوتی ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ میں ہوا میں قلانچیں بھرتا ہوا آگیا ہوں؟ میں نے برے وقت دیکھے ہیں پر میں نے برداشت کیا ہے؟

مدیحہ: جب آپ کوئی نیا پراجیکٹ لکھ رہے ہوتے ہیں تو کیا سوچ کر لکھتے ہیں؟

خلیل الرحمٰن: آپ ایک بات بتائیں آپ نے میرے ڈرامے دیکھے ہیں؟ ان میں کبھی ایسا لگا کہ میں کچھ کہنا نہیں چاہتا تھا؟ میں کچھ بھی سوچ کر نہیں لکھتا، میرے اوپر الہام اترتا ہے۔ 

مدیحہ: آپ کاسٹنگ اپنی مرضی سے کرواتے ہیں؟

خلیل الرحمٰن: ظاہر ہے یہ میری مرضی سے ہی ہوتی ہے، میں نے ڈرامہ لکھا ہے، یہ میری اولاد کی طرح ہے ۔ میں insistنہیں کرتا میں آرڈر کرتا ہوں کہ کاسٹ یہ ہونا چاہیے، اگر وہ کاسٹ موجود نہیں تو پھر ہم آپشنز پر جاتے ہیں۔ 

حسن: آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ اپنے سکرپٹ کے حوالے سے کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرتے ہیں، ابھی آپ کا جو ڈرامہ چلا ہے، اس کی آخر کی اقساط میں آپ کا نام بہ طور مصنف نہیں موجود، تو آپ نے اس کی اجازت کیسے دے دی؟

خلیل الرحمٰن: کچھ فیصلے غلط ہوتے ہیں آپ کے۔ میں نے ان کو اکیس اقساط دے دیے تھے وہ اس کو طویل کرنا چاہتے تھے، میں اس کو لمبا نہیں کرنا چاہتا تھا اس کا بائیسویں یا تیئسویں قسط پر اختتام بنتا تھا۔ انہوں نے ایک گیم کھیلا اور وہ گیم ثابت ہوگئی۔ 

حسن: آپ کا ایک سیریل ‘محبت تم سے نفرت ہے’ آن شوٹ ہے، اس کے حوالے سے کچھ بتائیں، کہانی کیسی ہے؟

خلیل الرحمٰن: وہ ابھی شوٹ پر جارہا ہے، اور ایک بہت ہی خوبصورت سیریل ہے اور اس کی کہانی تو ان لوگوں کو بھی نہیں پتا جو ابھی بنارہے ہیں، آپ کو کیسے بتاسکتا ہوں میں (مسکراتے ہوئے)

Loading

Read Previous

حسینہ معین – گفتگو

Read Next

گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح ۔ پروین شاکر ۔ شاعری

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!