خلیل الرحمٰن قمر  – گفتگو

خلیل الرحمٰن قمر  – گفتگو



جب بھی پاکستانی ڈرامہ کی بات کی جائے گی، خلیل الرحمٰن قمر کی بات ضرور کی جائے گی۔ خلیل الرحمٰن قمر کانام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے، خلیل الرحمٰن قمر نے بہت سے مشہور اور شہرۂ آفاق ڈرامہ لکھے ہیں جن میں بوٹا فرام ٹوبہ ٹیک سنگھ، لنڈا بازار، چاند پور کا چندو، من جلی، میں مرگئی شوکت علی اور کبھی نہ بھولنے والے ڈرامے جیسے پیارے افضل، صدقے تمہارے مشہور ہیں۔ ابھی حال ہی میں ان کا ڈرامہ ذرا یاد کر ہم ٹیلی ویژن سے چلا ہے۔اس ماہ ہمارے لیے نہایت خوشی کی بات ہے کہ الف کتاب کے گفتگو کے سلسلے میں خلیل صاحب ہمارے مہمان ہیں۔

حسن: اپنے بارے میں کچھ بتائیے، ویسے تو لوگ جانتے ہی ہیں، لیکن ایک مختصر سا تعارف کہ آپ نے کب سے لکھنا شروع کیا؟

خلیل الرحمٰن: سب لوگ جانتے ہی ہیں کہ میں پیدائشی رائٹر ہوں، I am a gifted writer، اس میں میرا کمال نہیں ہے۔ I was to start writing ۔میں خود آگہی کے ساتھ پیدا ہوا بچہ تھا مگر مجھے معلوم تھا کہ مجھے لکھنا ہی ہے۔ میں پانچویں یا چھٹی جماعت میں تھا جب سے میری تحریریں چھپ رہی تھیں میٹرک تک میں نے لکھا۔ میرے والدین میرے لکھنے کے خلاف تھے، ان کے خیال میں رائٹر کے بال بکھرے ہوئے ہوتے ہیں، اس کے ہاتھ میں ایک سائیکل ہے، اس سائیکل میں ایک تھیلا ہے، اس تھیلے میں تہ کیے ہوئے کاغذ ہیں ۔

مدیحہ: میںنے شاید کسی میگزین میں انٹرویو پڑھا تھا کہ آپ کے والد نے آپ کو اجازت نہیں دی تھی لکھنے کی۔

خلیل الرحمٰن: وہ اس کے بالکل خلاف تھے، میرے گھر میں میرا لکھنا ایسا ہی تھا کہ جیسے آپ کوئی illegitimate actکرتے ہوئے پکڑے گئے ہوں۔ میں نے چُھپ کر لکھنا شروع کیا، اس بات پر مجھے مار پڑتی تھی۔ مجھے پیسے ملتے تھے اور کئی سو لوگ مجھے خطوط لکھا کرتے تھے، میرے دو کزن بیٹھ کر خط پڑھتے تھے اور میں اہتمام سے سنا کرتا تھا اور جو خط کسی قابل ہوتے تھے تو ان کے جواب دیے جاتے تھے۔ وہ ایک لمبا سلسلہ تھا، میرے والدین اس کے بہت خلاف تھے اس لیے آپ نے کبھی میرے منہ سے یہ نہیں سنا ہوگا کہ یہاں تک پہنچنے میں میری والدین کی دعائیں شامل ہیں (قہقہہ) لیکن شاید وہ اس وقت ٹھیک سوچ رہے تھے۔ میں ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا، ایک بہت اچھا طالب علم تھا، ہمیشہ ٹاپ کرتا تھا ، وہ چاہتے تھے کہ میں کچھ بن جاؤں، شکر ہے کہ اللہ نے میری مدد کی۔ میں بینکنگ کی فیلڈ میں گیا اور First Punjab Mudarba کا Chief Executive تھا ۔ اس بینک کا Youngest Vice President تھا، اس سب سے مجھے فائدہ یہ ہوا کہ میری تربیت ہوگئی۔ میں نے سائنس بھی پڑھ لی، میںنے میتھس بھی پڑھ لیا، میں نے اکاؤنٹس بھی پڑھ لیا ، اب جب میں لکھنے بیٹھتا ہوں تو مجھے پتا چلتا ہے کہ میرا پروردگار میری تربیت کر کے یہاں تک لایا ہے۔ آپ دیکھیں آج شاید ہی کوئی ایسا رائٹر ہو جو سائنس پر یا اکاؤنٹس پر لکھ سکتا ہو۔ بھانت بھانت کے لوگوں سے مل لیا۔ چھے سال میں آزاد کشمیر میں رہا۔

مدیحہ: میں نے یہ بھی پڑھا تھا کہ آپ نے ناراضگی میں اپنا نام کافی سالوں تک اردو میں نہیں لکھا۔کیا یہ سچ ہے؟

خلیل الرحمٰن: میں نے 1982ء سے لے کر 1996ء تک اردو میں کسی کو خط کا جواب نہیں دیا، اردو میں بات نہیں کرتا تھا۔ میں صرف انگریزی میں بات کرتاتھا، مجھے بناکر کچھ اور بھیجا گیا تھا اور مجھے بنایا کچھ اور جارہا تھا۔ میں کیا ہوں؟ اور کیا ہونا تھا؟ کے درمیان میں جو خلیج تھی اس ہی خلیج کے چکر میں میں نے یہ سب کیا۔

مدیحہ: تو آپ نے پھر سے لکھنا کب شروع کیا؟ اور کیا آپ نے ایسے ہی سوچا اچانک کہ اب میںنے لکھنا ہے؟

خلیل الرحمٰن: میں نے 1996ء میں بینک چھوڑا اور لکھنا شروع کیا اور کچھ وجوہات تھیں جن کی وجہ سے میں نے لکھنا شروع کیا، میں اس کے حوالے سے ابھی کچھ نہیں بتانا چاہتا، بتاؤں گا بعد میں کبھی۔ 



Loading

Read Previous

حسینہ معین – گفتگو

Read Next

گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح ۔ پروین شاکر ۔ شاعری

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!