٢١۔ابھی کچھ عرصہ پہلے ہم ٹی وی کے ڈرامہ ” اُڈاری” کو پیمرا کی طرف سے اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کیا، کیونکہ ان کے خیال میں ڈرامہ میں کچھ قابلِ اعتراض سین تھے۔ اس سے پہلے فلم ”مالک” کو سندھ میں نمائش کے لیے بین کر دیا گیاکیونکہ وہ کرپشن کے موضوع پر تھی۔ آپ کے خیال میں کسی ایسی اتھارٹی کا ہونا ضروری ہے جو اس طرح کی حساس اور ضروری تخلیقات پر اس طرح کے قدغن لگا سکے؟ اپنی طاقت کا ناجائز استعمال کر سکے؟
حسینہ معین:کسی کو حق نہیں ہونا چاہیے اس طرح کے موضوعات بین کرنے کا۔ دیکھو جسے لکھنا آتا ہے اس کے پاس ایک ہتھیار ہے۔ اگر اناڑی کے پاس ہے تو وہ کسی کو نقصان ہی پہنچائے گا، لیکن اگر اناڑی نہیں ہے تو سنوار دے گا۔ اور لکھنے ہی سے تو revolution آتا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں جہاں شعور آیا ہے وہ کتابوں، کہانیوں، لکھنے والوں ہی سے تو آیا ہے۔ یہاں پر آپ سب بین کر دیں گے تو شعور کیسے دیں گے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ جب اتنے حساس موضوع(child abuse) پر لکھا جائے تو پھر اس کا حق ادا کیا جائے۔ذمہ داری کا خیا ل کرتے ہوئے، حساس طریقے سے اپنی بات کہیں۔آپ کسی بھی ٹاپک پہ لکھ دیں لیکن سلیقے سے لکھیں۔ضیاء الحق کے جیسے سخت دور میں ہم لوگوں نے پرچھائیاں کیا تھا۔اس میں مسٹریس کا ذکر ہے۔ساری کہانی گزر گئی لیکن پورے ڈرامے میں ایک بار بھی مسٹریس کا لفظ نہیں آیا۔ ہم نے ان کہے انداز میں ساری بات کہہ دی، اور ڈرامہ بڑی کامیابی سے چل کر ختم ہو گیا۔
دیکھو میں ایک بات بتاتی ہوں۔ ایک مرتبہ میں ایک کانفرنس کے لیے اسلام آباد میں تھی۔ ایک صاحب بڑے زوروشور سے میرے پاس آئے اور باتیں کرنے لگے اور پوچھنے لگے کہ آپ کے فیورٹ رائٹر کون ہیں۔ میں نے بتا یا۔ کہنے لگے کہ اچھا آپ کو منٹو پسند ہیں اور عصمت چغتائی اور ایک دو نام اور لیے اور کہتے ہیں کہ میں نے ایک کتاب لکھی ہے، آپ کو دوں گا، آپ پڑھیں گی تو آپ کو لگے گا کہ منٹو نے لکھی ہے۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی، میں نے کہا اچھا بھیج دیجیے گا۔ خیر انہوں نے بھیجی، میں نے پڑھی، اور پڑھ کر مجھے اتنا غصہ آیا، دل چاہا کتاب کو جلا ہی دوں۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ منٹو کی کتابوں میں ہوتا تو ہے کچھ گڑ بڑ،جو وہ الفاظ استعمال کرتے ہیں اور جس طبقے کے الفاظ استعمال کرتے ہیں،وہ اس وجہ سے ہے۔ لیکن کہانی کے اختتام تک جب آپ پہنچتے ہیں تو آپ دھک سے رہ جاتے ہیں، آپ کو احساس ہوتا ہے کہ کتنی خوبصورت بات کہی ہے اور پیچھے کی تمام باتیں آپ بھول جاتے ہیں۔ کم سے کم میرے ساتھ یہ ہوتا ہے۔ جو لوگ ان کے خلاف بات کرتے ہیں وہ اصل میں ان کہانیوں کا میسیج نہیں سمجھ پاتے۔ ادھر بھی یہی مسئلہ ہے۔ڈرامہ شاید دیکھ لیا ہو لیکن مقصد نہیں سمجھ پا رہے۔
٢٢۔ الف کتاب کے بارے میں کچھ کہیے۔
(ادھر ان کی ویڈیو کلپ آئے گی)
الف کتاب: نئے رائٹرز کو کیا کہنا چاہیں گی؟
حسینہ معین: نئے رائٹرز کے لیے بس ایک مشورہ ہے کہ یہ مت سوچیں کہ جو پہلی چیز آپ نے لکھ دی ہے وہ ٹی وی پہ آ بھی جائے گی۔ اس سے اپنی ناکامی اور کامیابی کا اندازہ مت لگائیں۔ پہلے اپنی کتابیں، کہانیاں چھپوائیں۔ایک لکھاری کے طور پر کچھ satisfaction حاصل کریں۔ اپنے اوپر کچھ اعتماد حاصل کریں۔ اس کے بعد ٹی وی کے لیے لکھیں۔ اور پہلے سنگل پلیز لکھیں۔ ایک دم سے سیریل کی ذمہ داری نہ لیں۔ہمارے چینلز انجان لکھاریوں کو بڑی بری بریکس نہیں دیتے اس لیے اس پہ اپنا وقت اور ہنر ضائع نہ کریں اور اپنا نام کمانے میں وقت لگائیں، اپنا فن نکھاریں۔