الف کتاب: آپ کی ہیروئین بڑی دلیر، بہادر اور پر اعتماد ہوتی ہے، اپنے حقوق کی پہچان والی۔ اب جو ڈرامے آ رہے ہیں ان میں اکثرخواتین مردوں کی محبت میں خوار اورہر وقت بس محرومی و مظلومیت کی تصویر بنی دکھائی دیتی ہیں۔آپ کو نہیں لگتا یہ رجحان ڈرامے کو اور معاشرے کو ایک غلط سمت پہ لے جا رہا ہے؟
حسینہ معین: دیکھو، میں نے جو لڑکیاں دکھائیں، وہ بولڈ ضرور ہیں، کیونکہ میں خود بہت بولڈ ہوں، لیکن وہ غیر ذمہ دار نہیں ہیں۔ اور یہی ہماری تہذیب ہے۔ اب جو میں دیکھ رہی ہوں۔۔۔(کچھ خاموشی کے بعد)ابھی الحمرا میں لٹریچر کانفرنس ہوئی تھی، میری تقریر تھی وہاں۔ میں نے کہا ، میں نے چالیس سال اپنی زندگی کے،یونیورسٹی سے نکلنے کے بعدکے اپنے بہترین سال، ان ڈراموں پہ صرف کیے۔لڑکی کو بولڈ بنانے کے لیے۔ میں لڑکی کو بولڈ بنانا چاہتی تھی کہ اسے اپنی بات منوانا چاہیے، اپنا حق لینا چاہیے۔ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے حقوق کیا ہیں۔اور اگر اس سے چھینے جا رہے ہیں تو وہ انہیں واپس لے!۔۔۔اور اب میں دیکھتی ہوں تو وہ سب محنت بے کار گئی۔ وہی دور واپس آ گیا ہے۔ اسلام نے عورت کواتنی عزت دی ہے کہ آپ اس عورت کو نیچا دکھا کر اللہ کی دی ہوئی عزت کے ساتھ خیانت کر رہے ہیں! ایک ڈائریکٹر صاحب مجھ سے فرمانے لگے،کہ جب ہم کسی عورت کو ٹی وی پہ تھپڑ مارتے ہیں تو ہماری ریٹنگ بڑھ جاتی ہے۔مجھے بہت برا لگا۔میں نے کہا کسی مرد کو آپ تھپڑ مار کے دیکھیے، شاید ریٹنگ اور بڑھ جائے!
الف کتاب: (قہقہہ)
حسینہ معین:(ایک مسکراہٹ کے بعد) یہ جو ہم عورت کی تذلیل کر کے ریٹنگ بڑھا رہے ہیں یہ صرف عورت کے ساتھ ہی نہیںبلکہ اس کے بچوںکے ساتھ اور پورے معاشرے کے ساتھ ناانصافی ہے۔اب ایک ڈرامہ دیکھا میں نے۔ ایک خاتون کسی وجہ سے اپنا گھر چھوڑ آئی ہیں۔ اب وہ جسے پسند کر تی ہیں اس کے گھر رہ رہی ہیں۔ سر پورا ڈھکا ہے لیکن ڈھیٹ بن کے اس کمرے میں بیٹھی ہیں، باہر نہیں جا رہیں۔ وہ لڑکا انہیں کہہ رہا ہے کہ یہاں سے جائو، لیکن انہیں کوئی عزتِ نفس کا مسئلہ نہیں۔ بس بیٹھی ہوئی ہیں۔ یہ کہاں سے عورت کی عزت ہے؟عجیب و غریب تماشے دکھائے جا رہے ہیں۔
الف کتاب: اگر پاکستانی ڈرامہ واقعی اتنا غیر معیاری ہو گیا ہے جتنا ہم سوچ رہے ہیں، تو پھر کیا وجہ ہے کہ انڈیا میں ہمارا ڈرامہ آج بھی پسند کیا جاتا ہے؟
حسینہ معین: انڈیا کا حال ہم سے کئی درجے برا ہے! تب ہی انہیں ہمارے ڈرامے اب بھی پسند آتے ہیں۔ ان سے ہمارا مقابلہ جائز نہیں۔ ہم نے بہت معیاری کام کیا ہے۔ انڈیا کے ڈرامے تم کبھی دیکھو۔۔۔
الف کتاب:(ہنستے ہوئے) آپا، مجھ سے تو نہیں دیکھے جاتے۔
حسینہ معین: (ہنستے ہوئے) تو مجھ سے کہاں دیکھے جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کوئی پاگل پن ہو رہا ہے۔ان کے تو خیر اس لیے نبھ جاتے ہیں کہ ان کا کلچر اتنا رچ ہے۔ کہیں کہانی رکی تو چلو ہولی دکھا دو، دیوالی دکھا دو، دس پندرہ قسطیں اس میں نکل جائیں گی۔تو لوگ اس میں گم ہو جاتے ہیں۔ اور یہی ان کی اٹریکشن ہے۔ ڈرامہ تو ان کا کچھ نہیں۔ Nil ہے۔ اور وہ یہ بات جانتے ہیں۔ فلمیں البتہ اچھی بنا لیتے ہیں۔
الف کتاب:آپا،پی ٹی وی کے لیے لکھنے میں اور پرائیوٹ چینلز کے لیے لکھنے میں کچھ فرق محسوس ہوا آ پ کو؟
حسینہ معین: اوّل تو پرائیوٹ چینل کے لیے میں نے لکھا ہی بہت کم ہے۔دوسرے یہ کہ پی ٹی وی اپنے گھر جیسا لگتا تھا۔ہمارے سکرپٹ ایڈیٹر ہوتے تھے، مدبر صاحب، افتخار عارف صاحب ہوتے تھے، کہیں کوئی مشکل پیش آئی، کسی لفظ کا مطلب نہ آیا تو وہ بتا دیتے تھے۔ کوئی جملہ صحیح نہیں لگا، آپ نے فوراً ان سے پوچھ لیا، کہ کہیں سنسر میں تو نہیں آ جائے گا، تو وہ لوگ کنفرم کر دیتے تھے۔بہت مدد کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ ہم ایک ڈرامہ کر رہے ہیں، اس میں ڈیزائن ڈیپارٹمنٹ کے لوگ بھی آ جاتے تھے، کیمرہ ڈیپارٹمنٹ کے لوگ بھی آ جاتے تھے، سب لوگ اپنے اپنے مشورے دیتے تھے کہ ڈرامہ کی چھوٹی چھوٹی تکنیکی باریکیاں کیسے بیان کی جائیں گی۔وہ ایک پوری فیملی بن جاتی تھی، ہر شخص ہر پراجیکٹ کو ذاتی ذمہ داری سمجھ کر نبھاتا تھا۔افسوس ہے کہ اب ویسا نہیں ہے۔پرائیوٹ چینلز پہ تو کسی طرح ایسے کام نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ اب پی ٹی وی میں بھی ایسا نہیں ہے۔ آغا ناصر صاحب ہوا کرتے تھے پی ٹی وی میں۔تب ہیڈ کوارٹر سے مجھے آفر آ رہی تھی کہ آپ بطور پروڈیوسر ٹی وی جوائن کر لیں تو آغا صاحب نے کہا تھا کہ نہیں، تم کبھی جوائن مت کرنا۔کیونکہ جوائن کرتی تو پھر ایک ایمپلائی کے طور پر ہر بات ماننا پڑتی، اب ہم جیسے لوگ ہر بات تو نہیں مان سکتے۔آج کل خرابی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ رائٹرز ہر بات مان لیتے ہیں۔ اب تو ان کو dictate کیا جاتا ہے کہ اس پر لکھ کر لے آئیے، تو لوگ لکھ لاتے ہیں، جیسا مرضی وہ لکھوائیں۔ اس سے ہی تو معیار گرا ہے، کیونکہ بتانے والے بھی تو ناکارہ ہیں ۔ اگر بتانے والے بہت اچھے ہوں تو تب تو چلو ہو جائے گا کام۔لیکن یہاں پہ مسئلہ یہ ہے کہ ٹی وی چینلز پر جو لوگ ڈرامہ approve کرتے ہیں وہ ہیں مارکیٹنگ کے لوگ۔اب مارکیٹنگ کے لوگو ں کو ڈرامے کے معیار کی کیا خبر۔ تو جب بزنس سائیڈ کے لوگ ڈرامہ approve کریں گے تو یہی ہو گا۔
١٧۔آپ کے خیال میں بطور رائٹر آپ کی مضبوطی کیا ہے؟سچویشن، کردار یا ڈائیلاگ؟
حسینہ معین: ڈائیلاگز۔ سب ہی یہی کہتے ہیں کہ میں مکالمے اچھے لکھ لیتی ہوں۔ مجھے بھی یہی لگتا ہے کہ میری strength مکالمے ہی ہیں۔ میں نے نوٹ کیا ہے کہ جب میں لکھنے بیٹھتی ہوں تو سب سے آسانی سے مکالمے لکھ لیتی ہوں۔ لکھ کیا لیتی ہوں، ایسا لگتا ہے کہ لکھنے بیٹھوں تو ڈائیلاگز ایک روانی سے ذہن میں آتے رہتے ہیں۔ایک روانی سے سوال کا جواب،جواب کا جواب ذہن سے کاغذ پر نکلتا رہتا ہے۔
١٨۔ایک رائٹر کے طور پر کوئی کمزوری محسوس ہوتی ہے آپ کو؟
حسینہ معین: ہاں کیوں نہیں۔ جہاں مجھے یہ لگے گا کہ میں پرفیکٹ ہو گئی وہیں سے مسئلہ خراب ہو جائے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ میں نے کچھ بہت اچھا، بہت سنجیدہ نہیں لکھا۔ یہ ضرور کیا کہ پی ٹی وی پہ ایک کمی تھی،ایک ماڈرن سوچ کی جو تہذیب سے بھی جڑی ہوئی ہو، وہ میں نے پوری کی۔۔۔لیکن اب میں کچھ بہت الگ سا لکھنا چاہتی ہوں۔ اپنی ایک کتاب لکھنا چاہتی ہوں۔ ناول لکھا ہے ایک میں نے لیکن میں اس سے زیادہ مطمئن نہیں ہوں۔ ۔۔(ہلکا سا مسکراتے ہوئے)اصل میں بات یہ ہے کہ مطمئن ہونا بھی نہیں چاہیے۔ جب آدمی مطمئن ہو جاتا ہے، ختم ہو جاتا ہے۔میں تو ابھی تک اپنے ڈرامے دیکھتے ہوئے سوچتی ہوں کہ اوہو، اگر اس کو ایسے کر لیتے تو زیادہ بہتر ہو جاتا۔
٢٠۔اپنی کہانیوں کے لیے آپ آئیڈیاز کہاں سے لیتی ہیں؟روزمرہ زندگی کا مشاہدہ ہوتا ہے یا آپ سوچتی ہیں کہ مجھے اس موضوع پر بات کرنی ہے؟
حسینہ معین:دونوںباتیں ہیں۔ کبھی اپنی اصل زندگی سے واقعات لیتی ہوں، جیسے مجھے کینسر ہوا تو اس کے بعد میں نے ایک ایسی عورت کی کہانی لکھی جسے کینسر ہو جاتا ہے ۔ اسے بھی میں نے ہلکا پھلکا سا لکھا تھا۔کیونکہ میرا ماننا ہے کہ لکھتے ہوئے یہ آپ کے اوپر ہے آپ کہانی کا کون سا پہلو دکھا رہے ہیں۔ آپ چاہیں تو مثبت دکھا دیں، چاہیں تو منفی پہلو دکھا دیں۔ ہمارے معاشرے میں لوگ اکثر بہت منفی سوچ رکھتے ہیں، بات بات پر پریشان ہونا، چیزوں کو پیچیدہ کرنا۔ اس لیے مجھے اچھا لگتا ہے حواسوں پہ گراں ہوئے بغیر اپنی بات کہہ دی جائے۔