حسینہ معین – گفتگو

الف کتاب:ہم نے ایک جگہ پڑھا کہ انڈین فلم ”حنا” جس کے مکالمے آپ نے لکھے تھے، اورجو راج کپور کی ڈائرکشن میں بننے والی آخری فلم تھی، اس کی ریلیز کے وقت آپ نے رندھیر کپور سے درخواست کی کہ فلم کی تشہیر میں آپ کا نام نہ استعمال کیا جائے۔ وہ کیا کہانی ہوئی؟

حسینہ معین: اس فلم کے لیے انہوں نے مجھے راج کپور صاحب نے سائن کیا تھا ڈائیلاگز لکھنے کے لیے۔ انہوں نے بہت محبت اور بہت عزت سے بلایا تھا۔ وہ تین سال تک میرا سراغ ڈھونڈنے کی کوشش کرتے رہے۔ اس زمانے میں اتنا آسان نہیں تھا۔ خیر پھر کہیں سے انہیں میرا پتا ملا تو انہوں نے مجھ سے بات کی اور کہا کہ اگر آپ نہیں لکھیں گی یہ مکالمے تو یہ جو میرا ڈریم پروجیکٹ ہے، حنا، سات سال کا، یہ میں نہیں بنائوں گا۔۔ وہ روئے بھی تھے میرے سامنے۔ خیر پھیر میں نے ہامی بھر لی تھی اور مکالمے لکھ دیے تھے۔ اس زمانے میں میرے ڈرامے ان کہی ، تنہائیاں، دھوپ کنارے وغیرہ وہاں چل رہے تھے اور بہت مشہور تھے۔وہاں انہوں نے میرے لیے پریس کانفرنس رکھی۔  سب نے بہت تعریف کی اور بہت سراہا۔ وہاں پریس کانفرنس میں کسی نے سوال کیا کہ آپ یہاں کی شہریت کیوں نہیں لے لیتیں۔ ہمیں اچھے رائٹرز کی ضرورت ہے۔(مسکراتے ہوئے) تو میں نے کہا کہ میں ایسا نہیں کر سکتی۔ میرے ملک، میرے گھر کو میری ضرورت ہے، میں تویہاں نہیں رہ سکتی۔ پھر بد قسمتی یہ ہوئی کہ راج کپور کا انتقال ہو گیا، اور فلم پھر رندھیر کپور، ان کے بیٹے، نے مکمل کی۔ میں نے رندھیر کو خط لکھا تھا کہ میرا نام پروموشنز میں نہ جائے، کیونکہ بابری مسجد کا واقعہ ہوا تھا۔ تو اسے یہ بات بُری لگی تھی۔مجھے یہ بات محسوس ہوئی تھی۔خیر کچھ سال بعد جب میں انڈیا اپنی دوست سے ملنے گئی تو انہیں معلوم ہوا کہ میں آئی ہوئی ہوں۔ ان کی تب ویڈنگ اینورسری تھی، تو انہوں نے مجھے بہت اصرار سے بلایا ۔ میں گئی۔ وہاں باتوں کے دوران انہوں نے مجھ سے شکوہ کیا کہ دیکھیں آپ نے ایسا کیا تھا۔ میں کے کہا کہ بھائی دیکھو ، بات ملک کی تھی۔ اور میری جگہ تم ہوتے تو تم بھی یہی کرتے۔اور ہمارے ملکوں میں تو آپس میں ویسے ہی بدمزگی ہے، تو ہم اس بدمزگی کو اور بڑھا دیتے تو کیا فائدہ ہوتا۔

اور پتا ہے کہ میں نے تو اس فلم کے پیسے بھی نہیں لیے تھے۔ رندھیر نے مجھے کہا کہ ہم نے تو آپ کے نام کا لفافہ تک رکھا ہوا ہے ابھی۔ میں کے کہا کہ بس اسے تم رکھے رہو۔(ہنستے ہوئے)۔اصل میں انہوں نے وہاں میری اتنی عزت افزائی کی، اتنی خاطر کی، کہ وہ جتنے بھی پیسے دیتے اس کے آگے وہ کم ہوتے۔(مسکراتے ہوئے)۔ایک بار وہاں کسی تقریب میں میری طبیعت خراب ہو گئی۔ ڈاکٹر نے کہاں بلڈ پریشر لو ہے، انہیں ناریل کا پانی پلایئے۔ تو روز ایک ناریل ان کی طرف سے میرے ہوٹل آتا تھا۔ (ہنستے ہوئے)۔



الف کتاب:آپ کے فیورٹ رائٹرز کون سے ہیں؟ جن کے ڈرامے یا کتاب آنے کا آپ انتظارکرتی تھیں یا کرتی ہیں؟

حسینہ معین:کرشن چندر، عصمت چغتائی، منٹو ۔۔ ۔ یہ بڑے بولڈاور جاندار رائٹرز ہیں۔ انہوں نے بڑے تیکھے موضوعات پہ لکھا، اور ان کے بارے میں کو ئی کچھ بھی کہہ دے،لکھا تو انہوں نے بہرحال بہت کمال کا ہے۔ جو کامیڈی لکھتے ہیں ان میں مجھے مشتاق احمد یوسفی پسند ہیں۔ کرنل محمد خان پسند ہیں۔اشفاق ملک صاحب اچھے ہیں۔رشین لٹریچر مجھے بہت پسند ہے۔ ٹالسٹائی مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔Dostoyevsky بہت اچھے لگتے ہیں۔جولوگ لکھنا چاہتے ہیں میرا انہیں بہت مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ باہر کا لٹریچر بھی ضرور پڑھیں۔ اس سے نقل نہ کریں، بس سیکھیں۔ اس سے آپ کا horizon  وسیع ہوتا ہے۔ کینوس بڑا ہو جاتا ہے۔ آپ نئے نئے موضوعات اور ایشوز پر لکھ سکتے ہیں، بات کر سکتے ہیں۔۔۔آپ کے کیرئیر کا دورانیہ ہی بڑھ جاتا ہے کیونکہ آپ کے پاس کہنے کو بہت سی کہانیاں آ جاتی ہیں۔اور جب آپ مطالعہ کریں تو ہر طرح کی کتابیں پڑھیں، مختلف اصناف کی۔ اُردو کی کتابیں بھی پڑھیں اور باہر کی بھی۔

الف کتاب: آپا سب لکھاری پہلا مشورہ مطالعے کا ہی دیتے ہیں۔ یہ اتنا ضروری کیوں ہوتا ہے؟

حسینہ معین: دیکھو،مطالعہ آگاہی دیتا ہے۔ آپ کو جب کہانی لکھتے ہوئے ہر ایک چیز کے بارے میں مکمل آگاہی ہو گی تو سکون ملے گا، اور یہ سکون باہر آئے گا۔ ہم کسی بھی انسان کو وہی چیز تو دے سکتے ہیں جو خود ہمارے پاس پہلے ہو۔ جو اپنے پاس نہیں ہو گا وہ کسی اور کو کیسے دیں سکیں گے ہم۔ اس لیے جب علم نہ ہو، ذہن میں الجھائو ہو، توکا غذ پر وہی آئے گا۔کبھی کوئی چیز پڑھتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ اچھا، ان صاحب یا خاتون میں کہیں کوئی کمی رہ گئی، کچھ تھا جو مکمل ہو نہیں پایا، تبھی تو یہ الجھن ہے۔ عصمت چغتائی ایک مرتبہ یہاں آئی تھیں تو ہم ملے تھے۔ تو میں نے ان سے کہا کہ یہ جو آپ نے لکھا ہے ٹیڑھی لیکر، اس میں جو ہوا یہ آپ نے دیکھا تھا، تو انہوں نے کہا کہ نہیں ، سنا تھا۔ تومیں نے کہا کہ پھر آپ نے اسے بہت محسوس کیا ہو گا، تب ہی تو اتنا اچھا لکھا گیا۔ ہوتا ہے ایسا کہ کبھی کبھی صرف مشاہدے سے ہی آپ بہت اچھا لکھ دیں لیکن جب تک آپ اس سے کہیں نہ کہیں ، کسی نہ کسی طرح ٹکرائے نہ ہوں، آپ اسے اس طرح، اتنی شدت، ایسی سچائی سے بیان نہیں کر سکتے۔

٩۔ انڈس ویژن کے ساتھ آپ نے بطور کونٹینٹ ہیڈ کام کیا۔ آپ پاکستان کی پہلی خاتون کونٹینٹ ہیڈ تھیں۔ اس تجربے کے بارے میں بتائیے۔آپ نے نئے رائٹرز کے ساتھ کام کیا۔ کیسا رہا وہ تجربہ؟

حسینہ معین: بہت اچھا رہا۔ کچھ نئے رائٹرزنے اچھا کام کیا۔ میں ان کو مشورے دیتی تھی کہ کہانی کو ایسا نہیں ایسا کر لو گے تو اچھا رہے گا۔ کبھی کبھی پوری کہانی میں تبدیلی کروانی پڑتی تھی، کبھی کبھی بس دو چار چیزیں بدلنے سے کہانی اچھی ہو جاتی تھی۔ اچھا بھی لکھا نئے لوگوں نے ۔ اور جو young لڑکے لڑکیا ں ہوتے تھے وہ بات سن بھی لیتے تھے، سمجھ بھی لیتے تھے۔ لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں نے دیکھنا چھوڑ دیا ہے۔ میں کبھی کبھی کوئی ڈرامہ دیکھ لیتی تھی لیکن اب تومیں نے ٹی وی بالکل بند کر دیا ہے۔

Loading

Read Previous

فصیح باری خان – گفتگو

Read Next

خلیل الرحمٰن قمر  – گفتگو

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!