حسینہ معین – گفتگو

الف کتاب: یہ تو بہت بھروسے کی بات ہے آپا، آپ کے کام پہ یقین تھا انہیں۔

حسینہ معین: ہاں۔ اور اتنا ہی نہیں۔  یہ بھی ہوا کہ میں نے اس کا پہلا episode کر کے دیااور پھر مجھے کام سے باہر جانا تھا تو میں چلی گئی، اور میں نے کہا کہ میں واپس آ کر باقی کام کروائوںگی۔لیکن اس دوران انہوں نے وہ ڈرامہ کسی اور پروڈیوسر کو دے دیا، حالانکہ وہ بھی بہت بڑے پروڈیوسر تھے، انہوں نے جو کاسٹنگ کی، وہ الگ تھی، جس طرح کی ریکارڈنگ تھی، وہ الگ تھی۔ جب میں واپس آئی اور انہوں نے مجھے پہلا episode دکھایا تو۔۔۔خیر مجھے وہ بہت الگ لگا۔ میںفوراً جی ایم کے پاس گئی اور میں نے کہا کہ سر یہ جو بنا ہے، یہ مجھے پسند نہیں آیا اور میں آگے نہیں لکھوں گی۔انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ اس کی تو ڈیٹ انائونس ہو گئی ہے، یہ تو آپ کو لکھنا ہی لکھنا ہے۔میں نے کہا کہ سر میں کسی چیز کوخراب نہیں کر سکتی ۔ لوگ تو مجھے کہیں گے کہ ہنری جیمز کا ناول لیا اور اس کے ساتھ انصاف بھی نہیں کیا اور اتنی بُری طرح پیش کیا۔ہیڈ کوارٹر سے بات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ اچھا آپ کیا چاہتی ہیں۔ میں نے کہا کہ ایک تو میرے پرانے ڈائریکٹرز مجھے واپس دیے جائیں، اور دوسرا میں اسلام آباد سے ساحرہ کاظمی اور راحت کاظمی کو اس ڈرامے کے لیے بلانا چاہوں گی۔اُن دنوں پی ٹی وی کا ماحول اتنا اچھا تھا کہ میں جو ابھی نئی ہی تھی، یونیورسٹی سے نکل کر سیدھی گئی تھی، انہوں نے میرا اتنا مان رکھا، میری بات کو سمجھا کہ فوراً ہی یہ دونوں کام کروا دیے۔ حالانکہ ساحرہ کی بچی اس وقت چھوٹی سی ہی تھی لیکن ساحرہ یہاں آ کر اپنے رشتہ داروں کے گھر رہی اور سارا سارا دن ہمارے ساتھ کام کرواتی رہی۔ہر انسان اپنے کام کے ساتھ مخلص تھا، dedicated تھا۔اچھی سیریل وہی ہوتی ہے جس میں ہر آرٹسٹ اپنے کام کے ساتھ پورا پورا انصاف کرے۔ وہ پہلی کلرڈ سیریل تھی پی ٹی وی کی اور اس میں ہمیں بہت مشکلات بھی آئیں۔(کچھ یاد کر کے ہنستے ہوئے)شیرین کو بھی نہیں معلوم تھا کہ جب chromo کرتے ہیں تو کس طرح سے chromo کٹ کیا جاتا ہے۔تو ایک دفعہ کیا ہوا کہ شکیل بلو شرٹ پہن کے آ گئے۔اور جب وہ کرومو پہ آئے تو شرٹ غائب ہو گئی ان کی! (قہقہ)۔اس قدر لطیفہ ہوا، اس قدر لطیفہ ہوا کہ کچھ حد نہیں(ہنستے ہوئے)۔ پھر اس کے بعد ان لوگوں نے سمجھا کہ اس کو کیسے کرنا ہے توپھر بات بنی۔خیر آپ کو دیکھ کر لگے گا نہیں کہ اس سیریل کو ان لوگو ں نے کیا جنہیں کلرڈ سیریلز بنانے نہیں آتے تھے۔ بہت بہترین کام کیا سب نے۔



اچھا اس زمانے میں ٹی وی کے پاس زیادہ پیسے بھی نہیں ہوتے تھے کہ اگر آپ سوات دکھانا چاہ رہے ہیں تو آپ سوات ہی چلے جائیں(ہنستے ہوئے)۔تو پھر اس سیریل کے لیے سوات یہیں بنایا گیا۔اِن ڈور سیٹس کے لیے ہمارے بہت اعلیٰ سیٹ ڈیزائنر تھے شہبازصاحب اور عابدہ بشیر، انہوں نے اس سیریل کے سیٹس بنائے تھے۔اُسی طرح کی لکڑی، ویسی ہی رسی کی سیڑھیاں۔ادھر طارق روڈ کے پیچھے پہاڑی ہوا کرتی تھی، وہاں ہم نے آئوٹ ڈور شوٹنگ کی۔ تب اتنی آبادی نہیں تھی لیکن پھر بھی لوگوں کی بھیڑ جمع ہو جاتی تھی شوٹنگ کے وقت۔ ایک مرتبہ (ہنس کر بتاتے ہوئے)بارش کا سین دکھانا تھا تو دو دو فائر بریگیڈز بلا کر پہاڑی پر بارش کروائی گئی۔ اس کے بعد دکھانا تھا ساحرہ وہاں اوپر چڑھ رہی ہے۔اب وہ اوپر چڑھتی جاتی تھی اور شیرین کو آوازیں دیے جاتی تھی کہ شیرین بلائو ذرا حسینہ کو بھی، جس نے یہ لکھا ہے۔ذرا اُس سے بھی کہو کہ چڑھ کر دکھائے۔(ایک لمبی ہنسی) ۔ بڑا انجوائے کیا ہے ہم نے اس کام میں کہ شاید ہی کم لوگوں نے کیا ہو گا۔اتنے پروجیکٹس ایک ساتھ کیے کہ ایک دوستی سی ہو گئی تھی، تعلق بن گیا تھا۔لگتا ہی نہیں تھا کہ کام کر رہے ہیں، لگتا تھا بس تفریح ہے۔ سب لوگوں کے ساتھ ذہن ایک دم مل گئے تھے۔ میری والدہ کہتی تھیں کہ بھئی یہ کیسی سیریل بن رہی ہے کہ صبح دس بجے جاتی ہو اور رات کو دس بجے آتی ہو۔ تمہارا کام تو لکھنا ہے تم وہاں بیٹھی کیوں رہتی ہو؟میں ان سے کہتی تھی کہ میرا کام صرف لکھنا نہیں، میں کاسٹنگ بھی کرواتی ہوں، ساتھ ہی رہتی ہوں تا کہ اگر سکرپٹ میں کسی فوری تبدیلی کی ضرورت ہو یا مکالموں میں تو آسانی سے ہو جائے۔

الف کتاب: کاسٹنگ آپ ہمیشہ اپنی مرضی کی کرواتی تھیں؟

حسینہ معین:ہاں، ہمیشہ۔ مرضی سے مراد یہ کہ ہم تینوں بیٹھتے تھے، دونوں ڈائریکٹرز اور میں۔ اور مل کر فیصلے کرتے تھے کہ کس کردار کے لیے کون سب سے موضوں ہو گا۔ یہ نہیں کہ بس اپنی مرضی ہی تھوپ دی۔ ہر پروجیکٹ کے لیے ایک ذاتی ذمہ داری کا احساس ہوتا تھا۔ اور کاسٹنگ کے بعد ہر آرٹسٹ کو اس کے کردار کے بارے میں ٹرین کیا جاتا تھا، کہ آپ کا لہجہ یہ ہو گا، چلنا اٹھنا ایسے ہو گا۔ جیسے اب ہم نے کامیڈی کردار بہت بنائے جیسا کہ قباچہ کا کردار کیسا ہوگا، جمشید انصاری کیسے بات کریں گے، ہر کردار کا mannersim، رکھ رکھائو الگ الگ ہوتا تھا۔اور بار بار ریہرسل ہوتی تھی۔ انہیں کہا جاتا تھا کہ نہیں ایسے نہیں، ایسے کریں۔تو ایسے یہ سب کام اتنے عرصے تک کامیابی سے ہوتا رہا۔

الف کتاب:آپ نے سٹیج ، ریڈیو  اور ٹی وی تینوں میڈیمز کے لیے لکھا ہے۔ آپ کو تخلیقی طور پر کون سا میڈیم سب سے زیادہ مطمئن کرتا ہے؟

حسینہ معین: تخلیقی لحاظ سے ریڈیو سب سے زیادہ آسان تھا۔ سکرین کے لیے لکھنے کے جو تحفظات ہوتے ہیں وہ اس میں نہیں تھے۔ لیکن مجھے تو میڈیم سے زیادہ کام اٹریکٹ کرتا ہے۔ اچھا کام جہاں ہو۔ ٹی وی پہ بہت زیادہ ہوا اس لیے شاید ٹی وی زیادہ پسند ہے۔

الف کتاب:ڈرامہ کے لیے سکرپٹ لکھنا اور اور فلم کے لیے سکرپٹ لکھنا، دونوں میں کیا فرق لگا آپ کو؟کون سی تین چیزیں سب سے زیادہ مشکل تھیں؟

حسینہ معین: دونوں بہت الگ ہیں۔ فلم کرتے ہوئے مجھے کچھ خاص مزہ نہیں آیا کیونکہ جس طرح کے آرٹسٹ ٹی وی پہ تھے اور جس خلوص اور محنت اور لگن کے ساتھ کام ہوتا تھا، وہ بات نہیں تھی وہاں۔ فلموں کے لیے میں نے صرف ڈائیلاگز لکھے ہیں۔ جیسے ثمینہ پیرزادہ نے اپنی فلم’یہ نزدیکیاں’ کے لیے لکھوائے تھے،اور راج کپور نے مجھے بلوایا تھا ‘حنا’ کے لیے، تو اس میں مزہ آیا تھا۔ وہ لوگ اتنا appreciate کرتے ہیں، اتنا encourage کرتے ہیں، بالکل سر پہ بٹھا لیتے ہیں۔قدر کو ایک طرف بھی کر دیں تو بھی ان کا پروفیشنل ازم ہی کمال کا ہے۔ ہر چیز اتنی آرگنائزڈ ہے۔ہمارے ہاں آپ کسی کو کہیں کہ چھ بجے آنا ہے تو وہ دس بجے پہنچیں گے۔(ہنستے ہوئے)بلکہ کبھی کبھی تو اس وقت تک کچھ ڈائریکٹر بھی نہیں پہنچے ہوتے۔

الف کتاب: آپ کو کون سا سکرپٹ لکھتے ہوئے سب سے زیادہ مزہ آیا؟ اپنے پسندیدہ پروجیکٹس کے بارے میں بتائیں۔



حسینہ معین: مجھے رومانس اور کامیڈی لکھنے میں سب سے زیادہ مزہ آتا ہے۔ اور اپنی لکھی چیزوں میں مجھے ان کہی اور انکل عُرفی بہت پسند ہے۔ ایک بہت خوبصورت واقعہ ہے میری زندگی کا، جس سے مجھے بڑی طمانیت ہوتی ہے کہ میں نے ایک چھوٹی سی نیکی ضرور کی ہے دنیا میں۔ جب تنہائیاں چلا ٹی وی پر، اس کے کچھ عرصے بعد یہاں ایک ہارٹی کلچرسٹ ہیں، ڈاکٹر خان، انہوں نے مجھ سے درخواست کی کہ ہو سکے تو مجھ سے آ کر مل لیجیے ، مجھے آپ سے ایک ضروری کام ہے۔ وہ میرے ایک رشتہ دار کے گھر کے قریب رہتی ہیں تو ہم چلے گئے ان کے گھر۔ وہاں ایک بچی تھی جو bed-ridden تھی۔انہوں نے مجھے بتایا کہ اس بچی کا مڈایسٹ میں آپریشن ہوا تھا جس کے دوران زیادہ انیستھیزیا ملنے کی وجہ سے اس کا آدھا برین مفلوج ہو گیا۔وہ امیر لوگ تھے، انہوں نے ہاسپٹل پر کیس وغیرہ کیا لیکن بچی تو ٹھیک نہیں ہوئی۔وہاں سے وہ اسے امریکہ لے گئے۔وہاں اس کا علاج ہوتا رہا۔ نہ وہ بول سکتی تھی نہ ہاتھ پائوں ہلا سکتی تھی۔ تو یہاں پاکستان سے ان کے رشتے داروں نے تنہائیاں کے کیسٹس انہیں بھیجے کہ آپ اسے لگا دیں شایداسے ہنسی آ جائے۔تو انہوں نے لگا دیا۔ کچھ عرصے بعد ڈاکٹرز نے نوٹ کیا کہ جب یہ ڈرامہ لگتا ہے تو وہ کچھ خوش لگتی ہے۔ تو انہوں نے اس کے والدین سے کہا کہ آپ اسے ہر وقت چلنے دیں، اسے دیکھنے دیں۔ کچھ عرصے میں یہ ہوا کہ اگر اسے بند کر دیا جائے تو وہ بے چین ہوتی تھی۔ ایسے ہی چلتا رہا۔ پھر یوں ہوا کہ دو سال بعد اس بچی نے اپنا پہلا جملہ بولا۔(مسکراتے ہوئے) اور اس نے جو جملہ بولا ، دبی سی آواز میں، وہ اس کا نہیں، بلکہ زارا(تنہائیاں کی ہیروئن) کا کہا ایک جملہ تھا۔ پھر پتا چلا کہ اس بچی نے اپنے آپ کو correlate کر لیا تھا اس کردار سے جو اس ہی کی طرح بیڈ پہ آگیا تھا لیکن پھر خود اپنی ہمت سے اپنے پیروں پر کھڑا بھی ہو گیا تھا۔تو اس بریک تھرو کے بعد ڈاکٹرز نے نئے سرے سے اس کا علاج شروع کیا۔ اس کے بعد یہ تو نہیں ہوا کہ وہ کھڑی ہو پائی، لیکن اس کے ہاتھ ضرور کام کرنے لگے تھوڑا بہت۔اور بات چیت کرنے لگی۔اس کے بہت عرصے بعد وہ فیملی پاکستا ن آئی، تنہائیاں کے کوئی چار، چھ سال بعد ، تو انہوں نے مجھے پی سی میں ریسپشن دیا ، اور اس بچی نے اپنے ہاتھوں سے مجھے ہار پہنایا۔ میں بتا نہیں سکتی میں کتنی خوش تھی۔ اب وہ امریکہ میں ہی رہتی ہے ، اور اب وہ پینٹنگ کرتی ہے۔ ابھی پچھلے سال اس کے ماموں نے مجھے اس کی بنائی پینٹنگز کا ایک کیلینڈر بھیجا۔ اس میں بارہ تصویریں ہیں، اور سب اس کی بنائی ہوئی۔

لوگ کہتے ہیں کہ یہ ڈرامے ہیں، کہانیاں ہیں، ان کا کہیں اثر نہیں ہوتا، لیکن دیکھو، پتا نہیں کہاں کہاں ہماری کہی ہوئی، لکھی ہوئی چیزوں کا اثر ہوتا ہے۔اچھا یا برا۔ایک ہتھیار ہے آپ کے ہاتھ میں یہ۔ آپ اس سے بنا بھی سکتے ہیں، بگاڑ بھی سکتے ہیں۔



Loading

Read Previous

فصیح باری خان – گفتگو

Read Next

خلیل الرحمٰن قمر  – گفتگو

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!