جو غائب بھی ہے حاضر بھی — سحرش مصطفیٰ

یوں ہی باجیوں کے گھر مختلف رنگ سجاتے سجاتے وہ وقت آ ہی گیا۔ اُسے انیسواں سال لگ گیا تھاکہ اچانک اماں کی طبیعت ایسی بگڑی کہ وہ چلنے پھرنے کے قابل نہ رہی اور دونوں گھروں کے کام نوری کے سر پر آن پڑے۔ وہ جیسے کسی طوفان کی زد میں آگئی تھی۔ اس پر کڑک دار بجلی نایاب باجی نے گرائی تھی۔ انہوں نے اسے کام سے فارغ کردیا تھا۔ جب تک کنیز تمہارے ساتھ تھی تب تک ٹھیک تھا، لیکن اب میری ساس جوان لڑکی کو گھر میں رکھنے کی حامی نہیں ہیں۔
وہ گڑ بڑا کر رہ گئی۔ اتنے سالوں سے وہ ان دو ہی گھروں میں کام کرتی تھی۔ اس کا ذہن چکرا کررہ گیا تھا۔ بیمار ماں، چھوٹے بہن بھائی اور لاکھوں مجبوریاں اسے دن میں تارے نظر آنے لگے۔ فرح باجی کے گھر میں الگ مسئلہ چل رہا تھا۔
بہ ظاہر دیکھنے میں وہ بہت خوبصورت تھا ۔ گورا چٹا ، پڑھا لکھا اور پرکشش۔ بالکل ایسا جیسا اس نے بعض کتابوں میں پڑھا تھا۔ فرح باجی کا کینیڈا پلٹ بیٹا۔ جب تک اماں ساتھ تھی اس نے کبھی کھل کر نہ ہی اسے تنگ کیا نہ کوئی اشارہ دیا تھا۔ وہ ان سارے شُبہات کو نظر انداز کرتی رہی، اب اور بات تھی۔ اس کے انداز بڑے ڈھکے چھپے ہوتے تھے۔ پانی کا گلاس پکڑاتے ہوئے وہ اس کی انگلیوں کا لمس محسوس کرتی ، کمرے کے دوسرے کونے میں کھڑی ہونے کے باوجود اس کی خود پر جمی نظریں جانچ لیتی تھی۔
وہ اپنے کمفرٹ زون سے باہر آگئی ۔ سر پر پڑی تو ساری باتیں سمجھ آگئی تھیں ۔ گھر سے نکل کر کام کرتے ہوئے ، روڈ کراس کرتے ہوئے ، میڈموں کی ڈانٹ کھاتے ہوئے اور فرح باجی کے سپوت کی نظروں کو نظر انداز کرتے ہوئے کہیں بھی وہ اکیلی نہیں تھی۔ ہر جگہ، ہر لمحہ ، ہر آن اس کے چھوٹے بہن بھائیوں کی نظریں اور بیمار ماں کی کراہیں اس کے ساتھ تھیں۔ اس کی ہر حرکت ، ہر عمل کا پیچھا کرتی ہوئی اور یہی وجہ تھی کہ وہ چاہنے کے باوجود فرح میڈم کا کام چھوڑ نہ پائی اور آخر اتنا بڑا مسئلہ تو نہیں تھا؟ کیا کرتا تھا وہ صرف گھورتا ہی تو تھا آخر روڈ پر چلتے ہوئے، منی بس میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی تو اسے دیکھتے تھے۔ وہ کون سی پردہ دار بی بی تھی جو سر سے پاؤں تک باپردہ ہو۔وہ ڈھیٹ بن جاتی، اپنے اندر کی بے چینی سے کروٹیں لیتی لڑکی کو ڈپٹ دیتی لیکن وہ یہ بھول گئی تھی کہ بعض اوقات چھوٹی چھوٹی باتیں اور بے معنی حرکتیں بھی ہمارے لیے ایک پہاڑ جیسی آزمائش کھڑی کردیتی ہیں۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

اس نے ایک نظر بیگم صاحبہ کو دیکھا۔ وہ اس وقت نیند کی دوا کے زیر ِاثر سو رہی تھیں ۔ وہ جانتی تھی کہ اب وہ سارا دن سوتی ہی رہیں گی ۔ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی ۔
”ایک تو یہ امیر لوگ بڑے نازک ہوتے ہیں ذرا سی بھاپ کو آگ کا دریا سمجھ کر شور مچانے لگتے ہیں اور غریب کی ساری زندگی بھٹی میں بھی گزرے تو وہ آہ نہیں کرتا، بس سر جھکائے اس بھٹی کی تپش کو اپنی قسمت سمجھ کر جیتا رہتا ہے۔”نورین نے دل ہی دل میں سوچا۔
”پانچ ہزار دے دوں؟ کہاں سے دے دوں؟ ہم نوٹ بنانے والی مشین نہیں ہیں۔ تنخواہ تو پہلی تاریخ کو ہی ملے گی، کام کرنا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ رستہ ناپو۔” اس کے کانوں میں میڈم کی آواز گونجی تھی۔ اپنی ساری تنخواہ اس نے اماں کے ٹیسٹوں اور دوائیوں میں لگادی اور اب گھر چلانے کے لیے اپنی تنخواہ ایڈوانس میں لینا چاہ رہی تھی لیکن بیگم صاحبہ نے ایسی سنائیں کہ وہ چپ ہوگئی۔
ایک ایک قدم اٹھاتے وہ اس بے حد اسٹائلش ، قیمتی اور قد آدم آئینے کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی۔ اسے اپنا سراپا دکھائی دیا۔ اس نے اپنے عکس سے نظریں چرائیں۔ دوپٹا اتارنے کے بعد وہ بال کھول رہی تھی۔ ہاتھ آگے بڑھا کر سنگار میز سے گہرے رنگ کی لپ اسٹک اٹھائی اور ہونٹوں پر تھوپ لی۔ آئینے کو دیکھتے ہوئے اسے یہ سرخی اپنی مجبوریوں کی طرح دکھائی دی تھی۔
اچانک اس کی نظر سنگار میز پر دھری ہوئی سونے کی موٹی زنجیر پر پڑی۔ اس کے دل میں چوری کا خیال آیا تھا لیکن پھر اس نے سر جھٹکا زنجیر کی چوری پکڑی جائے گی، خوب شور مچے گا اور بدنامی ہوجائے گی ۔ یہ ایک کھلا جرم تھا ۔جو جرم وہ کرنے جارہی تھی وہ دنیا کے سامنے نہیں آسکتا تھا جب تک وہ خود نہ بتاتی۔ وہ ایک چھپا ہوا جرم کرنے جارہی تھی۔ اماں ٹھیک کہتی تھیں کہ ہمارا ایک ہی مسئلہ ہے اور وہ ہے ضرورت اور یہ کہ جیسی جگہ ہو ویسا بھیس بنا لو۔
”تمہیں پانچ ہزار چاہئیں، میں دوں گا تمہیں پانچ ہزار لیکن تمہیں وہ کرنا پڑے گا جو میں چاہتا ہوں۔” اس کے کانوں میں چھوٹے صاحب کی آواز گونجی۔ وہ اس سے سودا کرنا چاہ رہا تھا، اس کی مجبوریوں کے ساتھ اپنی عیاشی کا سودا ۔ اس دنیا کا سب سے کامیاب ترین جوا جسے کوئی بھی ناجائز قرار نہیں دے سکتا تھا کیوں کہ ہر انسان زندگی میں کبھی نہ کبھی یہ سودا ضرور کرتا ہے، کیوں کہ انسان جلد باز ہوتا ہے اور اللہ پر بھروسا کرنے کے بجائے جلد بازی کا مظاہرہ کرنا اسے پسند ہوتا ہے۔ اسے کیا چاہیے تھا؟ یہ جاننے کے لیے اسے کوئی وضاحت درکار نہیں تھی۔وہ تیار ہوگئی تھی، اماں ٹھیک کہتی تھیں۔
”اللہ نے جو رزق ہمارے لیے رکھا ہے اسے حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے پڑتے ہیں۔” زندگی میں پہلی بار اسے اپنی فلاسفی فلاپ لگنا شروع ہوگئی تھی۔
اس نے ایک مرتبہ پھر اپنا سراپا دیکھا۔ گندمی رنگت، صاف ستھرا پرکشش چہرہ۔ وہ باہر آگئیاور سیڑھیوں پر آہستگی سے چڑھنے لگی۔ اوپر، بہت اوپر، لیکن حقیقتاً یہ پاتال کی طرف لے جانے والی اونچائی تھی۔ جہاں قدم روکتی، سوال کرتی امید سے بھری ہوئی معصوم آنکھیں اس کے سامنے آجاتیں۔
سیڑھیاں ختم ہوگئیں اب راہ داری تھی اور اس کی منزل اس راہ داری کا تیسرا کمرا تھا۔ وہ ٹرانس کی کیفیت میںچل رہی تھی کہ اچانک کوئی اس کے سامنے آگیا، وہ اس کا اپنا آپ تھا۔
”ایسا مت کر! اپنے آپ کو میلا مت کر۔”
”اپنے آپ کو میلا نہ کروں اور اپنے گھر والوں کو بھوکا ماردوں؟” وہ بھینچی ہوئی آواز میں کہہ رہی تھی۔ اس کے لہجے میں شدت تھی۔
”رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے، تیرے ہاتھ میں نہیں۔”
”ہاں جانتی ہوں لیکن ہاتھ پاؤں تو مجھے چلانے ہیں اور اماں کہتی ہے کہ اپنے آپ کو مت دیکھو، مالک کو دیکھو کہ وہ کیا پسند کرتا ہے۔” وہ اپنے آپ کو تسلی دینے لگی۔
”تیری ماں جاہل ہے، نہ کبھی کتاب دیکھی اور نہ بات صحیح کرتی ہے۔ وہ اپنے مالک کو نہ پہچان سکی تمہیں مالک کی پہچان ہے۔” وہ ایک بامعنی جملہ تھا۔
وہ ہڑبڑا کر رک گئی۔ آس پاس دیکھا کوئی بھی نہیں تھا ۔ وہ اس کے اندر کی آواز تھی۔ وہ اس کی روح کی کراہ تھی۔ بوجھ بڑھتا جا رہا تھا۔ اس کے پاؤں ڈھیلے پڑ گئے، دل ڈوبنے لگا لیکن وہ چلتی رہی۔
”نایاب باجی نے نوکری سے نکال دیا، وہ ایک جوان لڑکی پر بھروسا نہیں کر سکتی تھیں کیوں کہ وہ بہت مذہبی تھیں۔
فرح باجی نے روپے نہیں دیے۔ وہ نوکروں کو سر پر چڑھانے کی قائل نہیں تھیں۔کسی نے بھی اسے انسان نہیں سمجھا تھا۔ اماں کی دوا اور راشن کے لیے روپے نہیں ہیں ۔ رزق بھی نہیں ہے۔ روزگار بھی نہیں ہے۔ پریشانیاں ہیں،مجبوریاں ہیں۔ آخر ہم غریب زندہ ہی کیوں رہیں؟ کیا فائدہ ہے علاج کرانے کا جب بھوک کی اذیت سہنا مقدر ہو؟” اس کے اندر ایک باغیانہ سوچ نے سر اٹھایا تھا۔
”دیکھ گڑیا! ہمارے جیسے غریبوں کو کوئی گناہ ثواب نہیں ہوتا، ہم مجبور ہوتے ہیں جو کرتے ہیں بس پیٹ کے لیے کرتے ہیں۔ گناہ تو ان بڑے لوگوں کو ہوتا ہے ان کی عیاشیوں کا۔” اماں نے ایک دفعہ بہت غصے میں اس کی بات کا جواب دیا تھا۔
وہ اب دروازے پر آرکی تھی ۔سانولی پیشانی پر عرق نمایاں تھا۔ اندر سے بلند آواز میں بکھرے سُر سنائی دیے۔ وہ اس کا انتظار کرتے ہوئے میوزک سے دل بہلا رہا تھا۔اس نے ہینڈل پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ اچانک اس کی سماعت نے کچھ اور بھی سنا۔ ایک اور آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی تھی۔
اس کے چاروں جانب قہقہے تھے۔ بلند و بانگ، بے تحاشا اونچی بے ہنگم آواز والے قہقہے اور نظریں تھیں۔
غصہ ، حیرانی ، ملامت اور آنسو سے لبریز نظریں۔ سب مل کر اس کی خودغرضی کو لعنت ملامت کررہے تھے۔
وہ اس وقت گھر کی طرف رواں دواں تھی۔ ساری دنیا نے اسے ملامت کیا تھا۔ سوائے روح اور ضمیر کے جو بروقت جاگا تھا یا پھر شاید غلط وقت پر جاگا تھا۔
وہ اپنی روح کو بچا لائی تھی۔
اس مضبوط دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس کی سماعت میں اذان کی آواز اتری تھی اور اتری کیا، سیدھی دل کے تاروں کو چھوگئی تھی اور اس لمحے اس کی بوجھل ٹانگیں ساکت ہوگئی تھیں۔ ایک عجیب سے خوف نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔
وہ علم رکھتی تھی، آگہی کا خوف۔
اس عمل کے بعد وہ کس سزا کی مرتکب ٹھہرے گی، ناآگہی کا خوف۔
اپنے ہونٹوں سے اس گہرے رنگ کی سرخی کو بے دردی سے مٹاتے ہوئے وہ دوپٹا پہن کر سرپٹ بھاگی تھی۔
اور اب اس بس اسٹاپ پر کھڑے ہوئے وہ اپنے آنسوئوں کو پینے کی کوشش کررہی تھی۔
سامنے کھڑے قلفی کے ٹھیلے نے اس کی سوچ کو ایک رنگ دیا جہاں ایک بچہ قلفی کھا رہاتھا۔
تیزی سے پگھلتی ہوئی قلفی۔
”کاش سارے غم ساری آزمائشیں اور مسئلے اس قلفی کی طرح ہوتے، تیزی سے حل ہوجاتے ۔ خود بہ خود پگھلتے جاتے لیکن ایسا نہیں ہوتا، وہ جانتی تھی ایسا نہیں ہوتا۔ نیکی کا ، ایمان داری کا صلہ ملنے میں وقت لگتا ہے۔”
اس نے اللہ کا راستہ چنا تھا۔
وہ مطمئن تھی لیکن صرف اپنے حوالے سے۔
”لیکن اب کیا ہوگا…”
اس نے لرزتے ہوئے وجود کے ساتھ آنکھیں بند کرلیں۔ اس کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ کاش کہ ایسا ہو جیسے ہی آنکھیں کھولوں سب مسئلے حل ہوجائیں ۔ وہ سوچتی جارہی تھی۔ اچانک اس نے ٹائر چرچرانے کی آواز سنی۔ اس نے جلدی سے آنکھیں کھول لیں ۔
وہ مدحت باجی تھیں، جویریہ باجی کی سسرالی رشتہ دار، وہ انہیں جانتی تھی۔
وہ چند سیکنڈز ہی اس کے پاس رکی تھیں ۔
”میری میڈ اپنے گاؤں چلی گئی ہے۔ تم کل سے میرے گھر کام پر آجاؤ، جویریہ نے بتایا تھا تمہیں کام کی ضرورت ہے۔ کل سے تم سے رابطے کوشش کررہی تھی لیکن تمہارا موبائل آف تھا۔ شکر ہے یہاں نظر آگئیں۔” وہ تیز تیز بول رہی تھیں۔
”اور ہاں! میری بیٹی ماں بن گئی ہے خیر سے اسی خوشی میں یہ پیسے رکھ لو مٹھائی خرید لینا۔” ”ٹھیک ہے باجی جی۔ ” وہ اتنا ہی کہہ سکی۔
گاڑی جاچکی تھی۔ اس کی نیکی کا جواب اتنی جلدی آگیا تھا۔ وہ کتنا رحیم ہے کتنا کریم ہے۔
اس نے سامنے دیکھا۔ سڑک پر کھڑے اس بچے کی قلفی ختم نہیں ہوئی تھی لیکن اس کے سارے مسئلے حل ہوچکے تھے۔ اس کا وجود ہلکا ہوگیا۔
اب اسے دنیا بری نہیں لگ رہی تھی۔ وہ خوش تھی اپنے لیے۔ وہ غم زدہ تھی، اپنی ماں کے لیے جس نے اپنی ساری زندگی ایک دھوکے میں گزار دی ۔ سراب کے سائے میں ۔
کاش وہ اپنی بسترِ علالت پر پڑی ماں کو بتا سکے کہ اصل مالک کون ہے جس کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے۔
وہ اپنی مٹھی میں بھینچے پانچ ہزار کے نوٹ کو دیکھ کر سوچ رہی تھی۔
”رزق دینا اللہ کا کام ہے لیکن راستہ چننا انسان کا اپنا انتخاب ہے۔”
کاش وہ اسے یہ اطلاع دے سکے کہ غربت گناہ کی دلیل نہیں ہے، ہو ہی نہیں سکتی۔ بالکل اس طرح جیسے دولت عیاشی کا استعارہ نہیں۔
واپس جاتے ہوئے اس کے قدموں میں مضبوطی تھی۔اس کے خلا میں معلق وجود کو زمین عطا کردی گئی تھی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اللہ میاں جی — ضیاء اللہ محسن

Read Next

پہچان — ماہ وش طالب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!