”سر پر ڈوپٹا لے لے۔” اماں نے اسے زور کی جھڑکی دی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی منہ بسور کر اس نے اماں کے حکم کی تعمیل کی۔ دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ جما کر اماں اندر داخل ہوگئی۔ یہ اس کا پسندیدہ بنگلہ تھا۔ نایاب باجی اخلاق کی بہت اچھی تھیں۔ انہوں نے قرآن کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی تھی۔ ملانی تھیں پوری ملانی۔ دین کے بارے میں ایسی ایسی باتیں بتاتیں کہ انسان بس اسی میں کھو جائے۔ اندر داخل ہو کر لاؤنج سے گزر کر دونوں ماں بیٹی کچن میں داخل ہوگئیں۔ وہاں نایاب باجی سر پر اچھی طرح دوپٹا جمائے چائے بنارہی تھیں۔ ان کے چہرے پر جھنجلاہٹ کے تاثرات نمایاں تھے۔ نورین ڈر گئی ۔ وہ ایسی ہی تھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر ڈرجانے والی۔
”سلام بیگم صاحبہ!” اماں نے بڑی دھیمی آواز میں چہرے پر مظلومیت سجائے سلام کیا۔ ان کی آواز سے تھوڑی دیر پہلے والی کرختگی غائب تھی۔ نورین دل ہی دل میں اماں سے متاثر ہوئی۔
”کمال ہے کنیز کتنی دیر سے اُٹھی ہوئی ہوں۔ تمہارا انتظار کرتے کرتے آنکھیں سوکھ گئیں اور تم اب آئی ہو؟ صفدر بھی ناراض ہورہے تھے مجھ سے آج وہ گھر پر ہی ہیں۔ نہ آنا ہو تو بندہ بتاہی دیتا ہے۔” وہ خاصی خفا لگ رہی تھیں۔”
”بس جی مجبوری ہو گئی تھی، اس کے باپ کے رشتے دار میرا پیچھا ہی نہیں چھوڑتے۔ ہاتھ دھوکر پیچھے پڑ گئے ہیں، اماں نے کم زور سے لہجے میں ساری تفصیل بتائی۔ جو کچھ پلے تھا سارا کچھ چھین لیا۔ پھر بھی کلیجے نہیں ٹھنڈے پڑتے ان کے بس اسی بلا کو ٹالنے گئی تھی جی۔”
”دیکھو اگر تمہیں زیادہ پریشانی ہے تو کچھ دن گھر بیٹھ جاؤ، میں مالی کی بیوی سے کام کروالوں گی۔” نایاب نے اسے دھمکایا۔
”نا نا میری میٹھی بیگم صاحبہ! لو کیسی بات کردی جی، میں آپ کے گھر نہیں آؤں گی تو دن کیسے گزرے گا میرا بیگم صاحبہ جی۔ آپ کے گھر میں تو اللہ رسولۖ کا نام چلتا ہے۔ کانوں میں مٹھاس گھلتی ہے چھاتی ٹھنڈی پڑ جاتی ہے۔ بس جی یہ روٹی پانی کی گٹھ نہ ہو نا بیگم صاحبہ تو سارا دن یہیں گزار دوں۔ آپ کا اخلاق اور اسلامی طریقے دیکھ کر تو جی مجھے خوشی ملتی ہے۔ ہر ایک آپ کی طرح نیک تو نہیں ہوتا نا۔” اس کے لہجے میں نمی اترآئی تھی۔ اس کی تعریف نے عجیب انداز میں نایاب کا غصہ ٹھنڈا کردیا۔ نورین نے حیرت سے اماں کو دیکھا جو گھر پر نایاب کو بڑے طنزیہ انداز میں ملانی کہہ کر یاد کرتی تھی۔
”ملانی کے گھر میں کیبل ہی نہیں ٹی وی بھی سمجھو خالی ڈبا ہی ہے۔ کیبل کے بغیر نہ گانے نہ ڈرامے، میرا تو دل گھبراتا ہے ایسی خاموشی میں۔ بڑی عجیب باتیں کرتی ہے۔”
”یہ بتا کیا کہہ رہے ہیں اب وہ لوگ ؟”اپنا غصہ اترنے کے بعد اسے کنیز کی پریشانی کا خیال آیا۔ نورین نے نہایت حیرت سے باجی کو دیکھا اور پھر اماں کو۔ تھوڑی دیر بعد جب وہ کام ختم کرکے بنگلے سے باہر آئیں تو کنیز کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا۔ نایاب نے اسے ایک ہزار کا نوٹ دیا تھا، صدقے کے پیسوں میں سے۔
”اماں ایک بات تو بتا۔” نورین نے اپنے دماغ میں پڑنے والی گرہ کھولنی چاہی۔
”ہاں پوچھ!” کنیز نے چنگ چی رکشے کا انتظار کرتے ہوئے اسے اجازت دی۔
”اماں جب تو نایاب باجی کے ہاں جاتی ہے تو سر ڈھانپتی ہے۔ مجھے بھی پردہ کرواتی ہے لیکن فرح باجی کے گھر جاتی ہے تو اتار دیتی ہے ایسا کیوں؟”اماں نے ملگجے مگر صاف ستھرے دوپٹے سے پسینا صاف کرتے ہوئے بیٹی کو دیکھا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”نی نورین پانچ جماعتیں پڑھنے کا کیا فائدہ ؟ تو ابھی بھی جھلی ہے۔ دیکھ میں تجھے بتاتی ہوں یہ جو اپنی ملانی ہے نہ یہ بڑی اسلامی ہے۔ اسے اسلامی طریقے اچھے لگتے ہیں اور وہ جو اپنی فرح میڈم ہے نا۔” فرح کا نام لیتے ہوئے اماں کا لہجہ ہمیشہ پرجوش ہوجاتا تھا۔
”ارے وہ بہت ماڈرن ہے، تو اسے ماڈرن طریقے اچھے لگتے ہیں۔ دیکھ تجھے پتا ہے نا فرح باجی کے کتنے دوست آتے ہیں۔ سارے مرد ہوتے ہیں، اب پردے والی بی بی کو تو نہیں رکھے گی وہ کام پر تو اُسے ماڈرن ماسی چاہیے۔ کیا کہتی ہیں باجی وہ لیب… لیب۔” وہ اٹکی تھی۔
”لبرل!” نورین نے جھٹ سے اسے درست لفظ بتایا۔ یہ لفظ وہ کئی مرتبہ فرح باجی کے منہ سے سن چکی تھی۔
”ہاں میرا پتر وہی۔” چنگ چی رکشا آچکا تھا۔ وہ دونوں اس میں بیٹھ کر روانہ ہوگئیں۔ گھر پہنچ کر بھی اس کا ذہن اسی گتھی کو سلجھاتا رہا۔
”لیکن اماں ہم اصل میں کون ہیں؟” نورین کے سوال پر صندوق سے رضائیاں نکالتی کنیز نے کچھ خفگی سے اسے دیکھا”کیا مطلب ہم کون ہیں؟ انسان ہیں ہم۔” وہ اپنے کام میں لگ گئی۔
”لیکن اماں ہم ماڈرن ہیں یا اسلامی؟” وہ اپنے مطلب کے سوال پر آگئی تھی۔ رضائی نکال کر اسے جھاڑتے ہوئے کنیز نے اپنی بڑی بیٹی کو دیکھا۔
جو اس گھر کی واحد بچی تھی جو قابل تھی اور اس نے پانچ جماعتیں پڑھی ہوئی تھیں ۔ اس کے بعد کنیز نے اسے اسکول سے اٹھادیا۔ ایک تو جس بیگم صاحبہ نے اس کا داخلہ کروایا تھا وہ شہر چھوڑ گئی تھی۔ حالاں کہ وہ سرکاری اسکول تھا اور خرچہ کوئی پہاڑ نہیں تھا لیکن کنیز کے خیال میں اب نورین کو پریکٹیکل ہوجانا چاہیے تھا۔ آگے بھی تو یہی کرنا تھا۔ وہ اسے اپنے ساتھ رکھ کر اپنے پروفیشن کے اسرا ر و رموز سکھانا چاہتی تھی اور اس وقت بھی اسے ایک اہم گُر سے آگاہی دینے کا وقت آگیا تھا۔
وہ اپنا کام چھوڑ کر اس کی طرف آگئی۔
”دیکھ میرا پتر! یہ جو سارے شوشے ہوتے ہیں نا یہ امیروں کے ہوتے ہیں۔ ہم غریب جو ہیں ہمارا ایک ہی مسئلہ ہے اور وہ ہے ضرورت۔ ضرورت پڑے تو ماڈرن بن جاؤ، ضرورت پڑے تو اسلامی بن جاؤ۔ دیکھ میرا بچہ یہ جو باجیاں ہوتی ہیں نا ان کو اپنے جیسے لوگ اچھے لگتے ہیں۔ دیکھ فرح باجی کے گھر کبھی سر نہ ڈھانپنا اور نایاب باجی کے گھر کبھی سر ڈھانپے بنا نہ جانا۔ اپنی ضرورت دیکھ کہ وہ کس جگہ کیسے پوری ہوتی ہے، ویسا بھیس بنالے۔”تیرہ سالہ نورین حیرت سے ماں کی باتیں سنتی رہ گئی۔
”لیکن اماں میں نے تو کتابوں میں کبھی یہ نہیں پڑھا۔” وہ الجھی تھی، کنیز بے ساختہ ہنس پڑی۔
”پگلی ہوگئی ہے تو، یہ کتابیں امیر لوگ لکھتے ہیں۔ یہ تو ہم غریبوں کی باتیں ان کے پلے نہیں پڑتیں۔”
اماں کی باتیں اس کے ننھے ذہن کو الجھا دیتی تھیں ۔ الجھن بھی ایسی کہ سلجھنے میں نہ آتی ۔ اماں کا فلسفہ عجیب تھا، کچھ کھٹا کچھ میٹھا۔ کبھی اپنے اندر چاشنی لیے ہوئے اور کبھی کڑواہٹ سے بھرا۔ نورین کو ایسا لگتا جیسے غریب کوئی الگ دنیا کی مخلوق ہوتے ہیں۔ اس نے ایک کتاب میں allien کے بارے میں پڑھا تھا۔ اسکول کی تعلیم سے تو اس کا ناتا ٹوٹ چکا تھا لیکن خوش قسمتی سے کتابوں سے ابھی اس کا رشتہ برقرار تھا۔ اماں کے لاکھ منع کرنے کے باوجود وہ پہلی مرتبہ نافرمانی کی مرتکب ہوئی تھی۔
اسے ہر قسم کی کتابیں پسند تھیں لیکن کتابوں سے یہ دوستی اس کے ذہن میں مزید سوالات کو جنم دیتی تھی ۔ فرح باجی کے گھر میں ایک بہت بڑا کتابوں والا کمرا تھا اور نورین کبھی کبھار اس کمرے کی صفائی کرتے ہوئے کوئی کتاب پڑھ لیتی تھی۔ کبھی آدھی کبھی پوری اور وہیں ایک کتاب کو اپنے اندر جذب کرتے ہوئے اس کی تلاش جیسے مکمل ہوچکی تھی۔
وہ خوشی خوشی واپس آئی۔ اس دن اس نے کہیں نظریۂ ضرورت کے بارے میں پڑھا تھا اور اِسے پڑھتے ہوئے مسلسل اپنی ماں یاد آئی تھی۔ ہاں یہی تو ہے اماں کا طریقہ ۔ زندگی گزارنے کا سہل طریقہ، نظریۂ ضرورت ۔ مطلب اپنے آپ کو اپنی ضرورت کے لبادے میں ناپنا۔ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے رہنا۔ اپنی ضرورت دیکھ ۔ یہ جملہ اس نے ہزار بار سنا تھا بلکہ شاید ہوش سنبھالنے کے بعد روزانہ۔
زندگی میں کچھ بھی غلط صحیح نہیں ہوتا، صرف ضرورت کا تابع ہوتا ہے۔ نورین کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے ضرورت کے نام پر۔
ضرورت کے وقت سب کرنا جائز تھا۔ زبان سے جھوٹ کے دریا بہانا جائز تھا۔اپنے چہرے پرمنافقت کی چادر اوڑھنابھی جائز تھا۔
ضرورت ، ضرورت… آخر کیا تھی ضرورت ؟عفریت یا مصیبت؟
آخر یہ ضرورت تھی کیا؟ کون تھی جو صرف غریبوں کے حصے میں آتی ہے۔ امیروں کو اس کی پروا کیوں نہیں ہوتی؟ اس کا ذہن اس فرق کو ناپنے اور سمجھنے سے قاصر تھا کہ جدید ماڈل کی گاڑیوں اور جہازی سائز کے گھروں میں رہنے والوں کی ضرورتیں کچھ اور ہوتی ہیں اور وہ بھی ایسا ہی کرتے ہیں، اپنی ضرورت کے رعب میں آکر صحیح اور غلط کی پہچان کھودیتے ہیں۔
وہ گیارہ سال کی تھی جب اس نے ماں کے منہ سے پہلی بار یہ لفظ سنا اور اگلے کئی سال تک وہ اس لفظ کو باقاعدگی سے سنتی رہی۔ کم عمر نورین اپنی ماں کے منہ سے نکلنے والے ہر حرف کو کتابوں میں ڈھونڈتی اور مایوس ہوجاتی تھی ۔ کتابوں میں پڑھی ہوئی باتیں اپنی ماں میں ڈھونڈتی اور یہ مایوسی کی خلیج اور بڑھ جاتی۔
اس کی زندگی میں ایسا کچھ نہیں تھا جو کتابوں میں تھا۔ کتابوں والی زندگی تو فرح باجی اور نایاب باجی کے گھروں میں تھی۔
دو کمروں کا مکان جہاں سب سے بڑا اثاثہ ایک زنگ آلودلوہے کی فولڈنگ چارپائی تھی اور جس میں قابلِ فخر چیز اندرونی کمرے میں لگا ہوا وہ پنکھا تھا جو پچھلے رمضان فرح باجی کے ایک جاننے والے نے دیا تھا اور سب سے بڑا کمال یہ تھا کہ ان کا گھر پکا تھا۔ دیواریں رنگ و روغن سے عاری لیکن سیمنٹ کی تھیں۔ یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی جو اس تنگ گلی والے محلے میں بہت کم لوگوں کو حاصل تھی۔ اماں جھوٹ بول کر بہانے کرکے اور جھوٹی سچی تعریفیں لگا کر اپنی جھولی کو صدقے اور خیرات کے مال سے بھرتی رہتی تھیں۔ ان کا گھر اس گلی کا واحد گھر تھا جس میں بڑی عید کے علاوہ بھی گوشت بنتا تھا اور اماں کو لگتا تھا کہ یہ سب اس کی عقل مندانہ اور بروقت پالیسیوں کا کمال ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ نورین نے کتابوں میں جھانکنا چھوڑ دیا تھا۔ کام بھی بڑھ گیا۔
لیکن کچھ تھا جس کی چبھن تھی کوئی روگ تھا یا پھر کچھ اور، وہ اپنی اس زندگی سے خوش نہیں تھی۔
وہ کچھ سمجھی اور کچھ ناسمجھی کے عالم میں زندگی گزارتی رہی ۔ سترہواں سال لگتے لگتے وہ کام میں ماہر ہوگئی تھی لیکن زبان و بیاں میں اماں جیسی چابک دستی اور چاپلوسی نہیں آسکی تھی ۔ جہاں ماشااللہ کہنا ہوتا وہاں الحمدللہ کہہ جاتی جہاں آمین کہنا ہوتا وہاں ان شا اللہ کہہ جاتی اور پھر اماں کو اپنے لفظوں کا جادو جگانا پڑتا۔ ابھی وہ اسے اکیلے کام پر نہیں بھیجتی تھی۔
کنیز کا خیال تھا کہ نوری کو ابھی مزید ٹریننگ کی ضرورت ہے۔ نوری کو کتابوں سے عشق تھا۔ اس کا ذہن اکثر اماں کی پالیسی برائے ضرورت کو برے طریقے سے مسترد کرتا تھا ۔ وہ اکثر بے اختیار کوئی جملہ کہہ جاتی تھی۔
”دیکھ نوری تو اپنی یہ جو کتابی باتیں ہیں نا ان کو اپنے آپ میں ہی رکھا کر، اِدھر اُدھر پھیلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تیرے چھوٹے بہن بھائیوں کو لت لگ گئی نا تو میں کیسے چھڑؤاں گی۔ ویسے ہی تونے مجھے تنگ کرکے رکھا ہے۔”ایک دن اماں نے تنگ آکر کہا۔
”دیکھ پتر تونہیں جانتی یہ ضرورت کیا ہوتی ہے۔ یہ جو نایاب باجی ہے نا اپنی ملانی، یہ جودوپٹے پہنتی ہے نا ان کی قیمت ہزاروں میں ہوتی ہے اور ہر سوٹ کی میچنگ چیزیں لیتی ہے، کپڑوں لتوں کا خرچہ الگ اور ہمیں دو ہزار دیتے ہوئے اس کی جان جاتی ہے اور بنی پھرتی ہے اسلامی۔ اگر ایک دو جملوں کی نوٹنکی کرکے ہمیں اچھا کھانے کو مل جائے تو کیا برائی ہے؟” اب کی بار اماں نے اسے قدرے نرمی سے سمجھایا۔
”اماں رزق دینے والی اللہ کی ذات ہے اس کے لیے تجھے یہ ڈرامے کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔” نورین کی بات سن کر کنیز حیران رہ گئی۔ اسے یہ بات ٹھیک سے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس کی بیٹی کے پاس علم آگیا تھا اور وہ صحیح اور غلط کی تمیز کرنا سیکھ گئی تھی۔
”ہم غریب ہیں، ضرورت مند ہیں ہم پر کوئی گناہ نہیں آتا تجھے آہستہ آہستہ پتا لگ جائے گا۔” وہ اسے اس منافقت کی توجیہہ پیش کرتی تھی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});