حنیف نے قبل ازوقت محکمے سے ریٹائرمنٹ لے لی۔
”اتنا کچھ تو ہے ہمارے پاس کہ دونوں باقی زندگی کے لیے بہت سے بھی زیادہ ہے، پھر اور اپنا ہے کون اب، میں کس کے لیے جان کھپاؤں؟” حنیف نے بیوی کو فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔
مسز حنیف کو بیٹے کی بے رخی کے صدمے سے ایک ہارٹ اٹیک ہوچکا تھا، اس نے حنیف کی بات پر کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کیا۔
دونوں میاں بیوی اب گھر میں چپ چاپ تنہا زندگی گزار رہے تھے۔ کسی مہمان کا آنا جانا بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔ بس وہ تھے اور ان کے پرانے نمک خوار ملازمین، ایک رمضانی بابا تھے جو گھر کی دیکھ بھال کے علاوہ ضروری سودا سلف لاتے تھے، ان کی بیوی تھی جو کھانا پکانا اور کپڑے دھونے کا کام کرتی تھی۔ ایک ان کا پرانا ڈرائیور تھا جو فارغ اوقات میں گیٹ کیپر کے فرائض بھی انجام دیتا تھا۔ رمضانی بابا گوشت لینے رفیق کے میٹ سٹور پر جاتے رہتے، رفیق بھی ان کی بزرگی کی وجہ سے ان کا بے حد احترام کرتا تھا۔ کبھی کبھار رفیق کو اکیلا پاکر رمضانی بابا اپنے دل کی ہر بات اس سے کہہ لیا کرتے تھے۔
حنیف اور اس کی بیوی دونوں ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے ناشتے کے بعد چائے پی رہے تھے، اتوار کا دن تھا۔ دروازے سے رمضانی بابا اندر داخل ہوئے اور حنیف کے پاس آکر بولے: ”صاحب جی، وہ آپ کے مہمان آئے ہیں میں نے انہیں…” ابھی یہ الفاظ اس کے منہ میں ہی تھے کہ دوبارہ دروازہ کھلا اور حنیف کے چھوٹے بھائی شفیق کا بیٹا رفیق اپنی بیوی رانی اور بچوں کے ساتھ اندر داخل ہوا۔
”السلام علیکم تایا ابو، السلام علیکم تائی امّی۔” رفیق نے اندر داخل ہوتے ہی کہا۔
”سلام ماموں جان، سلام ممانی جان۔” رانی نے، جو کہ حنیف کی بھانجی بھی تھی اور بھائی کی بہو بھی، رفیق کے ساتھ آکر کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
دونوں دروازے کے پاس کھڑے تھے، جب کہ دونوں بچے آگے آچکے تھے۔ وہ لوگ آج پہلی دفعہ اس گھر میں آئے تھے۔
حنیف اور اس کی بیوی خاموش نظروں سے کبھی اُنہیں اور کبھی ایک دوسرے کو دیکھ کر حیران ہورہے تھے۔ انہیں ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کسی ویرانے میں ایک دم بہار آگئی ہو اور خوش نما پرندوں کے چہچہانے کی آوازیں فضا میں بکھر رہی ہوں۔
اپنی خوشی کو چھپاتے ہوئے مسز حنیف کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اس نے پیار دینے کے انداز میں لرزتے ہاتھ اوپر اُٹھا دیے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
رفیق اور رانی جلدی سے آگے بڑھے اور ان کے آگے بیٹھتے ہوئے ان کا ہاتھ سر پر رکھ لیا۔ رانی نے مسز حنیف کا ہاتھ چوم کر آنکھوں سے لگا لیا۔ دونوں بچے بھی ان کے سامنے آچکے تھے۔
سلام دادا ابو، سلام دادی امی۔” دونوں بچوں نے باری باری اپنی باریک سی آواز میں انہیں سلام کیا۔
کسی معصوم بچے کے منہ سے اپنے لیے دادا دادی کے الفاظ سن کر دونوں میاں بیوی کو یوں لگ رہا تھا کہ وہ ایک چمن میں بیٹھے ہیں اور ہر طرف پھولوں اور کلیوں کے چٹکنے کی آوازیں سی آنے لگی ہیں۔ ایسی معصوم خوشیوں کو ترسے ہوئے دونوں میاں بیوی خوشی کے مارے رو رہے تھے۔
”وعلیکم السلام میرے بچو ادھر آؤ، میرے سینے سے لگ جاؤ، آؤ آگے آؤ، اتنی دور کیوں کھڑے ہو؟” حنیف نے اُٹھ کر دونوں کو سینے سے لگا لیا۔ وہ ان کے گال بے ساختہ دیوانہ وار چوم رہے تھے۔
مسز حنیف کو ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے اس کے اپنے بیٹی بیٹا بچپن کا روپ دھار کر دوبارہ واپس آگئے ہیں، وہ بھی کرسی سے اُٹھ کر کھڑی ہوچکی تھی اور دونوں بازو پھیلائے بچوں کو پاس آنے کی دعوت دے رہی تھی۔ بچے حنیف کی گود سے نکل کر اس کی بانہوں میں آگئے تھے۔ دونوں بچوں کو سینے سے لگا کر وہ دیر تک روتی رہی۔ اس نے بچوں کو یوں بھینچ رکھا تھا کہ کہیں کوئی انہیں چھین کر لے نہ جائے۔
”ارے بیگم بچے آئے ہیں گھر میں، کچھ کھانے پینے کا بندوبست کرو، ارے رمضانی کاکا، آپ کھڑے کیوں ہیں؟ جائیے جلدی سے ڈھیر سارا سامان لے آئیں آج گھر میں خوب دعوت کریں گے۔” حنیف کے خوشی کے مارے الفاظ بھی کانپ رہے تھے۔
”بیٹا تم دونوں اکیلے ہی آگئے ہو؟ میرے بھائی اور بھابی کو بھی لے آتے۔” حنیف نے اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے رفیق کی طرف متوجہ ہوکر کہا۔
”تایا ابا، ابو تو دکان پر چلے گئے تھے اور امی ہمارے ساتھ ہی آرہی تھیں کہ ان کی ملنے والی ایک مہمان آگئیں اس لیے وہ گھر رہ گئیں۔” رفیق نے جواب دیا۔
”ممانی آپ کی طبیعت کیسی ہے اب؟” رانی نے مسز حنیف سے پوچھا۔
”ارے بیٹا تم لوگوں کو سامنے دیکھ کر خوشی سے ہی ٹھیک ہوگئی ہوں، بیٹا تم اب نہ جانا ادھر ہی رہنا۔ ہاں، یہاں میرے پاس تو میں بالکل ٹھیک ہو جاؤں گی، مجھے دوائیوں کی نہیں اپنوں کی ضرورت ہے۔” مسز حنیف نے رانی کو سینے سے لگاتے ہوئے کہا۔
”ارے بیگم تم بھی کمال کرتی ہو، مہمانوں کو کھڑا ہی رکھو گی کیا، بیٹھنے تو دو انہیں۔” حنیف نے بیگم سے کہا۔
”ہاں ہاں کیوں نہیں، آؤ آؤ بیٹا یہاں بیٹھو میرے پاس۔” انہوں نے صوفے پر بیٹھتے رفیق کو اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
رفیق رانی اور بچے ان کے پاس آگئے۔ مسز حنیف نے دونوں بچوں کو گود میں لیا ہوا تھا۔
”بیٹا دادی ماں کو نام تو بتایا ہی نہیں آپ نے؟ مسز حنیف نے چھوٹی بچی کا بوسہ لیتے ہوئے کہا۔
”میرا نام آمنہ ہے دادی امّی۔” بچی نے ان کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
”ارے اتنا پیارا نام، بھئی واہ بہت خوب۔” اور بیٹا آپ کا؟” مسز حنیف نے بچے کے گال پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔ وہ اپنی ساری تکلیف بھول چکی تھیں۔
”میرا نام سبحان ہے۔” بچے نے پیار بھرے انداز میں جواب دیا۔
”ارے واہ سبحان اللہ، بہت پیارے نام ہیں آپ کے تو۔” اب کے حنیف نے کہا ”دیکھو بیگم بچے کتنی پیاری پیاری باتیں کرتے ہیں، بالکل گڈے گڑیا کی طرح، ہے نا؟ اور جب ان کے منہ سے ہمارے لیے دادا دادی نکلتا ہے، تو لگتا ہے کہ اللہ کی رحمت برس رہی ہے ہم پر۔ پھر وہ بچوں سے مخاطب ہوکر کہنے لگے ”بیٹا آج آپ کو چھٹی ہے نا؟ بس آج آپ رات تک یہاں ہمارے پاس رہو گے، ہم آپ سے سارا دن خوب باتیں کریں گے اور بازار بھی جائیں گے آئس کریم کھانے ٹھیک ہے نا؟
”ہاں بالکل۔” بچوں کے بجائے مسز حنیف بولیں۔ ”اور آئس کریم کھا کر پارک بھی جائیں گے اور خوب کھیلیں گے، ہے نا۔”
لگتا تھا کہ حنیف اور اس کی بیوی آج ہی اپنے سارے ارمان پورے کرلیں گے۔
٭…٭…٭
حنیف اور اس کی بیوی کی ہی خواہش پر لان کے ساتھ شفیق کے گھر ملحق دیوار توڑ کر اس میں سے ایک بڑا دروازہ نکال لیا گیا ۔ اب روزانہ صبح بچوں کو اسکول بھیج کر رانی اپنے میاں اور ماموں کو ناشتا کرواتی اور صفائی سے فارغ ہوکر اپنی ممانی کے ساتھ لان والے دروازے سے نکل کر حنیف کے گھر آجاتی تھی، شفیق کی بیوی اپنی جیٹھانی مسز حنیف کے ساتھ وقت گزارتی، جبکہ رانی کچن کے کام کاج میں مصروف ہوجاتی، وہ حنیف اور اس کی بیوی کے لیے کھانا خود بناتی۔
جب دونوں بچوں کے اسکول کی چھٹی کا وقت ہوتا، تو حنیف اپنی گاڑی ڈرائیور کے ہاتھ بھیج کر انہیں سیدھا اپنے ہی گھر لے آتا۔ سب مل کر کھانا کھاتے۔ رانی گھر کی ملازمہ کے ساتھ مل کر صفائی، کپڑوں کی دھلائی اور دیگر کاموں میں لگ جاتی۔
شفیق اور رفیق بھی دکان سے فارغ ہوکر گھر آتے اور فریش ہوکر ان کے پاس لان ہی میں آجاتے، جہاں سب مل کر شام کی چائے پیتے۔
حنیف اور مسز حنیف ان سب میں گھل مل کر اپنی اولاد کے سارے دکھ بھول گئے تھے۔ انہیں لگتا کہ جیسے پہلے وہ مرچکے تھے اور ان سب کو پاکر انہیں نئی زندگی مل گئی ہے۔
٭…٭…٭
گرمیوں کی چھٹیاں ہوئیں تو ان کی رونق اور بھی دوبالا ہوگئی جب شفیق کی بیٹی رضیہ اپنے بچوں کو لیے چھٹیاں گزارنے اپنے میکے آگئی ۔اب تو حنیف اور اس کی بیگم سارا دن بچوں کے ساتھ مل کر لان میں کرکٹ کھیلتے۔ مسز حنیف زیادہ بھاگ دوڑ تو نہ کرتی مگر ساتھ ہلا گلا ضرور کرتی تھی۔ ان لوگوں کے ساتھ خوشیوں بھرے ایام گزارنے سے ان کی دل کی تکلیف بھی بڑی حد تک ختم ہوگئی تھی۔ ان سب کو پاکر دونوں میاں بیوی اپنے سارے گزشتہ غم بھول گئے انہیں اپنی زندگی اب صحیح معنوں میں جنت لگ رہی تھی۔
گرمیوں کی چھٹیاں ختم ہوئیں تو رضیہ گھر جانے کے لیے تیار ہوگئی، مگر حنیف اور اس کی بیگم نے زبردستی اسے بھی روک لیا اور اس کے خاوند کو، جو اسے لینے آیا ہوا تھا اسے بھی یہاں رہنے پر آمادہ کرلیا۔
”بیٹا اتنی مشکل سے تو ہماری جنت آباد ہوئی ہے، خدا کے لیے اسے ہم سے نہ چھینو۔” حنیف نے رضیہ کے خاوند کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو جھلملا رہے تھے۔
”ارے ارے ماموں آپ کیوں ہمیں گناہ گار کرتے ہیں۔ رضیہ آپ کی ہی بیٹی ہے، جیسے آپ کی خواہش، ٹھیک ہے آپ انہیں اپنے پاس رکھ لیں میں ہفتے بعد چکر لگا لیا کروں گا، ساتھ والے شہر سے کون سا دور ہے یہ گھر۔” رضیہ کے خاوند نے ان کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا۔
”ارے بیٹا تم کہاں اب بیوی بچوں سے دور رہو گے، ایسا کرو اپنے ماں باپ سے اجازت لے لو، اگر وہ بخوشی مان جائیں، تو تم بھی یہیں ہمارے ساتھ رہو، ہمیں زیادہ خوشی ہوگی۔” مسز حنیف نے اس کے کاندھے پر شفقت بھرے انداز سے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
انہوں نے رضیہ کو اپنی بیٹی بنا کر اپنے ساتھ ہی گھر کے ایک پورشن میں رکھ لیا اور اس کے خاوند کو قریب ہی ایک بڑا گر وسری سٹور بنا دیا اور بچوں کو رفیق کے اسکول میں ہی داخل کرادیا۔ اب چاروں بچے ایک ساتھ اسکول جاتے اور آتے تھے۔ گروسری سٹور کی صورت میں حنیف کو مصروفیت کا ایک بہانہ بھی مل گیا جہاں وہ دن کا کچھ وقت گزارنے چلا جاتا تھا۔
٭…٭…٭
اگلے سال انہوں نے اپنے ساتھ شفیق اور اس کی بیوی کے لیے حج پر جانے کی درخواست دے دی اور باقی انتظامات بھی کرلیے تھے۔ حج پر جانے سے پہلے حنیف نے اپنی وصیت میں خود اپنے اور اپنی بیوی کے مرنے کے بعد اپنی ساری جائیداد کا وارث رفیق، رانی رضیہ اور اس کے خاوند کو نامزد کروا کر، سارے کاغذات اپنے وکیل کے پاس جمع کرا دیے۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});