جنّت — طارق عزیز

اِدھر حنیف کی ریٹائرمنٹ میں ایک سال باقی رہ گیا۔ شفیق کے گھر کی رونق اور چہل پہل دیکھ کر انہیں اپنی تنہائی اور اپنے اتنے بڑے گھر کی ویرانی کا شدت سے احساس ہوتا۔ شفیق کے گھر میں اس کی بہو رانی اور اس کے بچوں کی خوشیوں بھری زندگی دیکھ دیکھ کر ان کا دل کرتا کہ اسی طرح ان کے گھر میں بھی بچوں کی رونق ہو، وہ بھی اپنے پوتے پوتیوں کی معصوم شرارتوں سے لطف اندوز ہوکر زندگی کے آخری ایام سکون سے بسر کریں۔ دونوں میاں بیوی اس اکیلے پن کے عذاب سے اکتا چکے تھے انہوں نے فیصلہ کیا کہ اپنے بیٹے کو امریکا سے بُلا کر یہاں اس کے بزنس کا انتظام کرکے اس کی شادی کردیں۔ حبیب کے فائنل امتحان کب کے ہوچکے اور رزلٹ بھی آچکا تھا، مگر وہ مزید شارٹ کورسز کا بہانہ کرکے والدین کو ٹرخاتا اور ان کی تڑپتی امنگوں کو ترساتا جارہا تھا۔
حنیف اور اس کی بیوی نے حبیب عرف بوبی سے مسلسل مطالبہ کرنا شروع کردیا کہ مزید پڑھائی چھوڑ دے اور واپس آجائے۔ جب ان کا اصرار بڑھ گیا، تو بوبی نے اپنا موبائل نمبر بدل دیا تاکہ والدین کا اس سے رابطہ ہی نہ ہوسکے۔ جب کافی دنوں سے مسلسل فون پر رابطہ نہ ہوا، تو دونوں میاں بیوی کو سخت پریشانی لاحق ہوئی۔ حنیف نے اپنے ایک جاننے والے کو اپنے بیٹے کا پتا دیا کہ اس کی خیریت معلوم کرکے بتائے اور اس کا رابطہ نمبر بھی۔ ان کے دوست نے جو کہ اسی شہر میں رہتا تھا جلد اس کا پتا کرکے اس کا نیا نمبر بھی دے دیا بلکہ انہیں اس کے متعلق کچھ اور خبریں بھی دیں۔ یہ سن کر ان کے سروں پر قیامت ہی ٹوٹ پڑی کہ ان کا بیٹا وہاں ایک امریکی لڑکی سے شادی کرچکا ہے، جو کئی سالوں سے اس کی گرل فرینڈ کے طور پر اس کے ساتھ پر رہ رہی ہے۔ انہوں نے بوبی کے نئے نمبر پر رابطہ کیا۔ فون بوبی نے ہی اُٹھایا تھا، اس کی آواز سُنتے ہی دونوں میاں بیوی پھٹ پڑے۔
”پاپا آپ نہیں جانتے کہ یہاں لائف کتنی فاسٹ ہے اور آگے بڑھنے کے لیے یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے اور گرین کارڈ لینے کے لیے مجھے جینی سے شادی کرنا پڑی۔” بوبی امریکن لہجے میں اُردو بولتے ہوئے بتا رہا تھا۔
”کون جینی؟” حنیف نے استفسار کیا۔
”مائی وائف، آپ کی بہو پاپا۔” بوبی نے فخریہ انداز میں جواب دیا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
بیٹا، تو نے اپنی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ بھی کرلیا اور ہمیں پوچھنا تو درکنار بتانا بھی گوارہ نہیں کیا؟” حنیف نے شکایت بھرے لہجے میں کہا۔
”پلیز پاپا، ڈونٹ پریچ، ٹرائی ٹو انڈرسٹینڈ، شی واز مائی کلاس فیلو اینڈ مائی گرل فرینڈ ایزویل۔” بوبی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔ ”ہماری پچھلے تین سال سے بہترین انڈر سٹینڈنگ ہے اور آئی ٹی انجینئرنگ کرنے کے بعد اس کے پاپا نے مجھے اپنی فرم میں ایز اے منیجر رکھ کر اتنا احسان کیا اور پھر جینی سے شادی کرلینے کی صورت میں اس نے مجھے اپنی فرم کا پارٹنر بھی بنا لیا ہے اور آپ لوگوں کی بھی یہی خواہش تھی ناکہ میں یہاں سٹڈی مکمل کرکے گرین کارڈ ہولڈر بن جاؤں، سو اب بن گیا، تو شور کیسا؟” بوبی نے درشت لہجے میں جواب دیا۔
”دیکھو بیٹا تمہاری ماں اور میرا تمہارے سوا اب ہے کون دُنیا میں، پلیز بیٹا ہماری خاطر چھوڑ دو سب کچھ، ہمیں نہیں چاہیے گرین کارڈ، بس واپس اپنے دیس آجاؤ، اپنے والدین کی خوشی کے لیے۔” حنیف نے درد بھرے لہجے میں التجا کرتے ہوئے کہا۔
”واٹ؟؟ سب کچھ چھوڑ کر واپس آجاؤں؟ پاپا کیا کہہ رہے ہیں آپ؟ دس از ناٹ پاسیبل یٹ۔ مجھے تو اپنے دیسی لوگوں کو دیکھ کر ہی گھن آتی ہے اور آپ کہہ رہے ہیں واپس اس دیس میں آجاؤں۔ یہ ملک چھوڑ کر جس نے مجھے اتنا کچھ دیا ہے اور آپ کے ملک میں رکھا ہی کیا ہے؟ یہاں میں جس مقام تک پہنچ گیا ہوں اس کی آرزو میں لوگ مر جاتے ہیں اور آپ مجھے کہہ رہے ہیں واپس آجاؤں، ہاؤ سویٹ پاپا۔” بوبی نے ہلکا سا قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
”بیٹا خدا کے لیے ایسا نہ کہو، تم جانتے ہو کہ تمہاری بہن کو بیاہ کر ہم کینیڈا رخصت کرچکے ہیں، اس کی واپسی اب شاید کبھی قسمت سے ہی ہو۔ اب اور کون ہے ہمارا تمہارے سوا؟ اوکے تم یہاں واپس نہیں آنا چاہتے نہ سہی، پھر ایسا کرو ہمیں اپنے پاس بلا لو ہم وہیں تمہارے ساتھ زندگی گزار لیں گے۔”
”ہاہاہا… اومائی سویٹ پاپا آپ لوگ اس معاشرے میں ایڈجسٹ نہیں کرسکتے اور میں اپنی فیملی کو سنبھالوں گا یا آپ لوگوں کو؟ آپ کی عمرکے لوگوں کی جگہ صرف ”اولڈ ایج ہاؤسز” میں ہوتی ہے، گھر میں نہیں۔ اَ م سوری اِٹ ازایمپا سیبل پاپا۔” بوبی نے باپ کی ہنسی اُڑاتے ہوئے جواب دیا۔
اوکے بیٹا، تو پھر تم آجاؤ یہاں، پاکستان میں، میں تمہیں اسلام آباد میں ویسی ہی فرم بنوا دوں گا، ایک بڑی سی کوٹھی، کار، نوکر جو تم کہوں گے سب لے دوں گا، تم شادی کرکے چاہے وہاں اکیلے ہی رہنا اپنی بیوی کے ساتھ۔ ہم تمہاری زندگی میں دخل نہیں دیں گے۔ ہم یہاں لاہور میں ہی رہ لیں گے، مگر کبھی کبھار تمہیں مل تو لیا کریں گے نا۔” حنیف نے اسے سمجھانے کی آخری کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”اوفار گاڈ سیک پاپا، آپ کو سمجھ کیوں نہیں آرہی، میں شادی کرچکا ہوں اور جلد ہی میرا فرسٹ بے بی ہونے والا ہے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ سب چھوڑ کر آجاؤں؟” بوبی کا لہجہ مزید سخت ہوگیا تھا۔
”کیا؟ بچہ بھی ہونے والا ہے؟” حنیف نے اپنا سر تھام لیا۔
”یس اور ہاں مجھے یاد ہے کہ آپ کی ریٹائرمنٹ ہونے والی ہے، اسی لیے آپ مجھے واپس آنے کو کہہ رہے ہیں، ڈونٹ وری پاپا، میری تعلیم اور اخراجات پر جتنا آپ نے خرچ کیا ہے میں اس سے کہیں زیادہ آپ کے اکاؤنٹ میں جمع کروا دیتا ہوں، مزید ضرورت ہوگی تو اطلاع دے دیا کرنا، میں اور بھجوا دیا کروں گا، بس اور مجھے کچھ نہیں کہنا آپ سے۔” بوبی نے انتہائی اکڑ سے جواب دیا۔
”لائیں مجھے دیں فون میں بات کرتی ہوں اپنے بیٹے سے، وہ اپنی ماں کی بات ضرور مانے گا۔” حنیف کی بیوی نے فون چھینتے ہوئے کہا۔ ”ہیلو بیٹا، میں تمہاری ماں بول رہی ہوں بیٹا۔”
”یس مما؟ کہیں، آپ کو کیا کہنا ہے؟” بوبی نے بے زاری سے پوچھا۔
”دیکھو بیٹا میں نے تمہاری خوشیوں کے اور تمہاری شادی کے کتنے ارمان سجا رکھے ہیں، پلیز بیٹا میری بات تو مان لو، آجاؤ واپس بیٹا ہم دونوں تو بس اب تمہاری آس پر زندہ ہیں۔” حنیف کی بیوی نے تقریباً روتے ہوئے کہا۔
”اوہ مما کیا ہوگیا ہے آپ کو، کیوں میرے پیچھے پڑگئے ہیں آپ دونوں؟ آپ کو تو خوش ہونا چاہیے کہ میں نے آپ کی سوچ سے زیادہ ترقی کرلی ہے اور ابھی مجھے اپنی فرم کا مالک بننا ہے، پلیز میری راہ میں دیوار نہ بنیں۔” بوبی نے جان چھڑانے والے انداز میں جواب دیا۔ ”آپ لوگوں نے اپنی لائف اپنی مرضی سے جی لی ہے۔ اب مجھے اپنی لائف خود اپنی مرضی سے گزارنے دیں، پلیز۔”
”بیٹا خدا کے لیے اتنے سنگدل نہ بنو، تمہارے بغیر ہم کیسے جئیں گے، ہم مرجائیں گے بیٹا، اپنا فیصلہ بدل دو خدا کے لیے۔” مسز حنیف نے روتے ہوئے بیٹے کی منت کی۔
”اوہ مائی گاڈ، مما ایموشنل بلیک میل نہیں کریں پلیز، میں ایک ایجوکیٹڈ اور جوان آدمی ہوں اب اور اپنے فیصلے خود کرسکتا ہوں۔ اب کیسے سمجھاؤں آپ لوگوں کو، لُک مما، ایک نہ ایک دن سب نے مرنا ہے، آپ لوگوں نے کوئی سدا یہاں دنیا میں تو نہیں رہنا، کچھ نہیں ہوتا مما آپ کو، مما کوئی کسی کے بغیر نہیں مرتا۔” بوبی نے ماں کو سمجھانا شروع کردیا، پھر اپنی بات کو پلٹتے ہوئے بولا ”آ آ، ایم سوری مما، آپ میری بات کا غلط مطلب نہ سمجھیں، چلیں آپ یوں سمجھ لیں کہ آپ کا بیٹا نہیں رہا اس دنیا میں، مرچکا ہے۔ میں یہاں اگر مر گیا ہوتا تب بھی آپ نے صبر کرنا تھا نا، سو یہی سوچ کر اب کرلیں۔ بس اب خوش؟”
”بیٹا ایسے نہ کہو میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں، پلیز ماں کو اتنا دکھ نہ دو۔” مسز حنیف نے آخری کوشش کر دیکھی۔
”مما…” بوبی نے انتہائی بد تمیزی سے کہا ”آپ لوگوں کو یہ بات سمجھ کیوں نہیں آرہی، پلیز میرا مزید ٹائم ویسٹ نہ کریں اور نہ ہی آیندہ مجھے فون کرنے کی ضرورت ہے، یہ بات خود بھی سمجھ لیں اور پاپا کو بھی سمجھا دیں۔ آج آپ کو سب کچھ کہہ دیا اور سن لیا، بس یہ ہماری آخری بات چیت ہے، گڈ بائے۔” بوبی نے دھاڑتے ہوئے فون بند کردیا۔
حنیف بُت بنا بیٹھا تھا اس کی بیوی نے ہچکیاں لیتے ہوئے اس کے کندھے پر سر رکھ دیا۔ ان کے بہنے والے آنسو ان کا گریبان بھگو رہے تھے۔
رمضانی بابا ان کا پرانا ملازم ان کے پیچھے کمرے کے دروازے کے ساتھ کھڑا سب کچھ سن رہا تھا، اس کا دل پھٹا جارہا تھا اور اس کی آنکھیں ایسے برس رہی تھیں گویا سچ مچ یہاں کوئی مرگ ہوگئی ہو۔
٭…٭…٭
”میں نے کہا جی سنیے۔” رانی نے رفیق کے سامنے ناشتے کی ٹرے رکھتے ہوئے کہا۔
”جی کہیے رانی صاحبہ، میںہمہ تن گوش ہوں۔” رفیق نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے چھیڑتے ہوئے جواب دیا۔
”بس شروع ہوگئے صبح صبح، یہ چونچلے چھوڑئیے اور جلدی سے ناشتا کرلیجیے” رانی نے چائے رکھتے ہوئے کہا۔ آج دکان پر جاتے ہوئے بچوں کو اسکول چھوڑتے جائیے گا، رکشے والے نے کہلا بھیجا ہے کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں وہ نہیں آسکے گا، لہٰذا ابھی آپ ہی کو زحمت کرنا ہوگی۔”
”جو حکم مہارانی صاحبہ۔” رفیق نے ایک ہاتھ سے رانی کا ہاتھ تھامتے ہوئے دوسرا ہاتھ سینے پر رکھا اور شاہی انداز میں جھکتے ہوئے جواب دیا۔
”اُف توبہ ہے آپ بھی نا، بس موقع مل جائے تو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔” رانی نے شرماتے ہوئے کہا۔
دونوں بچے ناشتا کرکے اپنے دادا دادی کے پاس جابیٹھے تھے۔
”اچھا آیا میرے باپ، کبھی بیگم سے پیار کی باتیں نہ کرنے دینا، تیری شادی ہو گی نا پھر دیکھوں گا تجھے۔” رفیق نے جلدی سے پراٹھے کا رول بنا کر چباتے ہوئے ہلکی آواز میں جواب دیا۔
”چلو! ابھی بچوں کو اسکول داخل کیے دو سال بھی نہیں ہوئے اور آپ چلے ان کی شادی کرنے، حد ہے آپ کی بھی۔” رانی نے ہنستے ہوئے کہا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

رین کوٹ — ہاشم ندیم

Read Next

قید — ساجدہ غلام محمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!