جنّت — طارق عزیز

حنیف نے بیوی کی فرمائش پر اپنے اکلوتے بیٹے حبیب کو آئی ٹی کی اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا بھجوا دیا تھا۔
”ارے میاں جی میں کہتی ہوں کہ جب ہمارا بیٹا امریکا سے اعلیٰ تعلیم کی ڈگری کے ساتھ گرین کارڈ ہولڈر بن کر لوٹے گا، تو دیکھنا سارے محلے میں کیا شان ہو گی ہماری، محلہ کیا سارے علاقے میں دھوم پڑ جائے گی اور میرے سوشل کلب کی ممبران میں میری کتنی ویلیو بڑھ جائے گی۔” حنیف کی بیگم نے خوشی سے پھولے نہ سماتے ہوئے کہا۔ وہ اپنے میاں اور بیٹی کے ساتھ لان میں شام کی چائے پی رہی تھی۔
”جب میرے بیٹے کو وہاں کی نیشنلٹی مل جائے گی، تو پھر ہم بھی ادھر شفٹ ہوجائیں گے۔” اس نے تقریباً اچھلتے ہوئے شوہر سے کہا۔
اب حنیف کو بیٹے کی امریکا میں پڑھائی کے علاوہ اس کی رہائش اور دوسری ضروریات کے لیے پہلے سے زیادہ کمائی کی ضرورت تھی جو اس سیٹ پر بیٹھے ہوئے افسر کے لیے اوپر کے ذرائع سے نکالنا کچھ مشکل نہ تھا۔ وہ ہر ماہ اسے خاصی بڑی رقم ڈالرز کی صورت میں اس کے امریکی اکاؤنٹ میں بھجواتا رہا۔
حبیب بہت جلد اپنی یونیورسٹی میں ”بوبی” کے نام سے مشہور ہوچکا تھا، اسے یہاں آئے تین سال ہونے کو تھے۔ باپ کی طرف سے ملنے والے ڈالرز کی فراوانی نے اسے خود کمائی کرنے کی فکر سے آزاد کررکھا تھا۔ پڑھائی میں وہ تھا تو ذہین ہی، مگر مشرقی قد کاٹھ اور ڈیل ڈول کی وجہ سے وہ گوری لڑکیوں میں خاصی کشش رکھتا تھا۔ جلد ہی اس کی کئی امریکی کلاس فیلو لڑکیوں سے تعلقات پیدا ہوگئے، وہاں تھا ہی کون جو اسے روکتا۔ یونیورسٹی اور اس سے باہر کی رنگین محفلوں کی جان بن کر اس نے بادہ نوشی کو اپنا معمول بنالیا تھا۔ کئی لڑکیاں اس کی گرل فرینڈز تھیں۔ وہ اپنے دِین، وطن، ماں باپ سب کو بھلا کر جینی نامی ایک امریکی لڑکی کے ساتھ پیپر میرج کرکے اس کے فلیٹ ہی پر ازدواجی زندگی گزار رہا تھا۔ ولایتی شباب اور شراب نے اسے ہر غم سے آزاد کردیا تھا۔
”ارے میں نے کہا بیگم ذرا دیکھو تو یہ لڑکی کون ہے بھلا؟” شفیق نے آسیہ کو پاس بلا کر پوچھا۔ ”ماشاء اللہ بڑی سلجھی ہوئی اور سگھڑ معلوم ہوتی ہے، دیکھو تو کیسے بھاگ بھاگ کر کام کررہی ہے۔ صبح سے دیکھ رہا ہوں اسے، یونہی کام کاج میں لگی ہوئی ہے۔”
شفیق کل سے اپنی بیوی کے ساتھ قریبی شہر میں اپنے رشتہ داروں کے ہاں ایک شادی میں آیا ہوا تھا۔ آج لڑکی کی رخصتی کے بعد انہیں واپس جانا تھا۔ حنیف اور اس کی فیملی کے علاوہ سارا خاندان ہی تو جمع تھا یہاں۔
”کون؟ وہ ہرے سوٹ والی کی بات کررہے ہو؟” آسیہ نے شوہر کی نظر کا پیچھا کرتے ہوئے ایک لڑکی کی طرف اشارہ کیا۔ ”کیا ہوگیا ہے آپ کو، پہچانا نہیں اسے، ارے آپ کی بہن فوزیہ کی بیٹی، آپ کی بھانجی رانی ہے یہ۔”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”کیا؟ ارے یہ اپنی رانی ہے؟ کمال ہے اتنی بڑی ہوگئی پہچانا ہی نہیں میں تو” شفیق نے حیرانگی سے کہا۔
ماشاء اللہ اپنی رضیہ سے سال بھر چھوڑی ہے۔ پر قد کاٹھ اچھا نکالا ہے نا، اس لیے دیکھنے میں بڑی ہی دِکھتی ہے۔” آسیہ نے کہا۔
”ہاں ٹھیک کہتی ہو بیگم، اصل میں سال پہلے جب فوزیہ بہن آئی تھی اپنی رضیہ کی شادی میں، تب دیکھا تھا اسے ۔” شفیق نے اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا اور دیکھو تو سال بھر میں کیسی درخت پر چڑھی بیل کی مانند بڑھی ہے کہ میں پہچان ہی نہیں سکا۔ ویسے رفیق کی ماں ایک بات دل میں آرہی ہے؟” شفیق نے بیگم کے کان کے پاس ہوکر کہا۔
”جی کہیے؟” آسیہ نے میاں کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”میرا جی کہہ رہا ہے کہ اس بچی کو اپنی بہو بنا لیا جائے، آخر اپنا رفیق بھی تو جوان ہوچکا کب کا۔” شفیق نے زیرلب مسکراتے ہوئے کہا، کیا کہتی ہو تم؟
”ارے میاں اللہ آپ کا بھلا کرے۔ آپ نے تو میرے منہ کی بات چھین لی، کیا بات ہے آپ کی اور ہماری ایک سوچ کی، اسے کہتے ہیں انڈر سٹینڈنگ۔” آسیہ نے بڑے رومانٹک انداز میں جواب دیا۔
”اے واہ جناب بڑی انگریزی بول رہی ہو آج کل، کیا بات ہے آپ کی۔” شفیق نے پیار سے کہا۔
”ارے میاں جی، چھوڑو ان چونچلوں کو، آپ بس آج ہی برات جانے کے بعد فوزیہ آپا سے بات کریں، بلکہ میں تو کہتی ہوں کہ انہیں بھی اپنے ساتھ ہی گھر لے چلیے، وہیں ساری بات طے کرلیں گے۔” آسیہ نے بات فائنل کرتے ہوئے کہا۔
”ہاں یہ ٹھیک رہے گا، فوزیہ کو ساتھ ہی اپنے گھر لیے جاتے ہیں، وہیں بات کرنا مناسب رہے گا۔” شفیق نے اس کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا۔
٭…٭…٭
”ہیلو، حبیب کے پاپا۔ ایک زبردست گڈنیوز۔ یہاں سوشل کلب میں میری ایک فرینڈ مسز احسان ہیںنا، انہوں نے ہماری بیٹی ڈولی کے لیے کینیڈا میں سیٹل اپنی ایک کزن کے بیٹے کا رشتہ پرپوز کیا ہے۔ مسز حنیف نے خوشی سے ناچتے ہوئے موبائل فون پر انہیں اطلاع دی۔ ”لڑکا وہیں پلا بڑھا ہے، کنیڈین نیشنلٹی ہولڈر ہے، ہماری بیٹی کی تو قسمت کھل گئی۔ ہائے ایسے رشتے تو نصیبوں سے ملتے ہیں، آپ شام کو جلد گھر آجائیں میں بھی بس تھوڑی دیر تک یہاں سے نکل رہی ہوں، باقی بات گھر آکر ہوگی بائے۔”
دونوں میاں بیوی شام کو اپنی بیٹی کے ساتھ مسز احسان کے گھر جوہرٹاؤن گئے ہوئے تھے، جہاں انہیں ان کے ہونے والے داماد کی فوٹو پروفائل انٹرنیٹ پر دکھائی گئی جو اس کی فیس بُک آئی ڈی پر لوڈ تھی، اس میں کچھ ویڈیو کلپس بھی تھے۔ لڑکا وہاں کے ماحول سے ہم آہنگ ہوکر بالکل انگریز لگ رہا تھا۔ مسز حنیف کی باچھیں کھل رہی تھیں، ان کے پاؤں زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔ اگلے چند روز میں ان کے ہونے والے داماد سے ان کی اور ان کی بیٹی ڈولی سے سکائپ پر کئی ملاقاتیں ہوچکی تھیں اور رشتہ فائنل ہوگیا۔ دونوں طرف سے تیاریاں مکمل تھیں۔ چند ماہ ہی میں ان کی بیٹی کا نکاح ٹیلی فون پر کردیا گیا۔ اب وہ ایک کینیڈین کی بیوی تھی۔ اس کی امیگریشن کے کاغذات مکمل کروا کر اسے اس کے سسرال کینیڈا رخصت کردیا گیا۔
٭…٭…٭
”ارے بھائی صاحب، بھلا مجھے کیا اعتراض ہوگا، رانی آپ کی ہی بیٹی ہے، آپ اپنی بہن سے پوچھ لیجیے۔” شفیق کے بہنوئی نے شفیق کے سوال پر کہا۔
”کیوں فوزیہ بہن آپ کیا کہتی ہو؟ میرا رفیق تو اب اپنی دکان کا مالک ہے اور یہ اوپر والا پورشن تو آپ دیکھ ہی رہی ہو، ماشاء اللہ کافی بڑا ہے۔ یہیں رہے گا وہ شادی کے بعد اپنی دلہن کے ساتھ۔” شفیق نے تفصیل سے بتاکر اپنی بہن سے پوچھا۔
”اے لورانی کے ابّا اب مجھ سے بھلا کیا پوچھوانا۔” فوزیہ نے اپنے میاں کو جواب دے کر اپنے بھائی کی طرف منہ کرتے ہوئے کہا ”ارے بھیا جب اِنہوں نے ہاں کہہ دی ہے، تو بھلا مجھے کیا اعتراض ہوگا۔ آپ کی ہی بیٹی ہے ایک گھر سے جائے گی، تو دوسرے گھر میں آجائے گی۔ دونوں ہی اس کے اپنے گھر ہیں۔” فوزیہ نے محبت بھرے لہجے میں جواب دیا۔
جیتی رہو بہن، تم نے اپنے جگر کاٹکڑا میری جھولی میں ڈال کر میرا جی ٹھنڈا کردیا، سدا خوش رہو۔” شفیق نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے خوشی سے کہا۔
”لو تو بس رشتہ پکا سمجھو بہن، بہت بہت مبارک ہو۔” آسیہ نے فوزیہ کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔
”ارے میاں جی بیٹھے کیوں ہیں؟ جا کر مٹھائی کا ٹوکرا لائیے ۔ میں تو ابھی سارے محلے کا منہ میٹھا کرائوں جا کر۔” آسیہ نے خوشی سے اپنے میاں کو بازو سے پکڑ کر اُٹھاتے ہوئے کہا۔
”بس فوزیہ بہن ایک احسان اور کردو ہم پر۔” اس نے فوزیہ کی جانب مُڑتے ہوئے کہا۔ اپنی رضیہ کی شادی کے بعد میں تو بالکل اکیلی رہ گئی ہوں گھر میں، یہ دونوں تو سارا دن دکان پر مصروف رہتے ہیں انہیں اکیلا پن نہیں لگتا، مگر مجھ سے اب اور نہیں رہا جاتا۔ بس تم ابھی منگنی کی رسم پوری کرکے ہی جاؤ اور چار چھے مہینے میں ہماری بہو ہمارے گھر بھیج دو بس۔”
”ارے ارے بھابی کوئی گڈے گڑیا کا کھیل کھیلنا ہے کیا؟ ایسے کیسے جھٹ پٹ شادی کردیں، آخر کوئی تیاری بھی تو کرنا ہے، کچھ کپڑا لتا، جہیز کا سامان، بھئی ابھی اتنی جلدی یہ سب کیسے ہوجائے گا؟” فوزیہ نے حیرانگی سے کہا۔
”اری فوزیہ آپا کا ہے کا جہیز، دیکھو تو اللہ کا دیا سبھی کچھ تو ہے گھر میں، ماشاء اللہ سے دونوں باپ بیٹا اتنا کماتے ہیں کہ کسی چیز کی کمی نہیں رہی گھر میں، اگر ہے تو بس بہو کی کمی ہے۔ آپ جہیز کی فکر چھوڑیں، نہیں چاہیے ہمیں کچھ بھی۔ آپ بس دو کپڑوں میں دو بول پڑھوا کر رخصتی دے دیں۔ بس میں کچھ نہیں سننے کی، آپ کے پاس صرف چھے ماہ ہیں جتنا کچھ کام وام ہیں کرلیجیے، بس ہم تو آئے چھے ماہ بعد اپنی بہو لینے۔” آسیہ نے انہیں کچھ کہنے کا موقع دیے بغیر اپنا فیصلہ بھی سنا دیا۔
”ارے آپ بھی کچھ بولیے نا چپ چاپ کھڑے بہن کا منہ دیکھے جارہے ہیں۔” آسیہ نے شفیق کی طرف دیکھ کر مصنوعی غصے سے کہا۔
”اری اللہ کی بندی تُو کسی کو موقع دے تو کوئی بولے نا، بس جو تُو نے کہہ دیا وہی میری بھی خواہش ہے۔ بس اب فوزیہ بہن آپ کچھ نہیں بولیے گا، اسے ہماری التجا سمجھ لیجیے۔” شفیق نے بیگم اور بہن کی جانب منہ کرکے کہا۔
”چلیں جی بھابی بھیا، آپ جیتے میں ہی ہاری، اب خوش؟” فوزیہ نے خوشی سے جواب دیا۔
٭…٭…٭
شفیق نے اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی خوب دھوم دھام سے کی۔ ساری گلی بقعۂ نور بنی ہوئی تھی۔ تیل منہدی اور برات کی شان کا تو کیا ہی کہنا اور ولیمے پر تو ساری گلی اِس نکڑ سے لے کر اُس نکڑ تک شامیانوں سے بھری ہوئی تھی، سارا محلہ ہی مدعو تھا۔ اتنی دیگیں آج تک محلہ کی کسی شادی میں نہیں چڑھی تھیں۔ آخر ان کے اکلوتے بیٹے کی شادی تھی۔ رضیہ اپنے میاں بچوں سمیت بھائی کی شادی میں آئی ہوئی تھی۔ رضیہ کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا۔ رانی اس کی پھوپھو کی بیٹی تھی اور اس کے بچپن کی سہیلی بھی جواب اس کی بھابی بن چکی تھی۔ اس سمیت ساری کزنز نے رفیق کی شادی پر خوب ہلا گلا کیا اور جی بھر کر اپنے دل کے سارے ارمان پورے کیے۔
شفیق نے اپنے بڑے بھائی حنیف اور بھابی کو مہمان خصوصی بنا رکھا تھا۔ بیروں کی ایک ٹیم صرف ان کی خاطر مدارات میں مصروف تھی۔ شفیق اس وجہ سے بھی خوش تھا کہ اس کی بھابی اس کی توقع کے برخلاف شادی میں نہ صرف بھرپور طریقے سے شریک ہوئی، بلکہ اس نے ان کی بہورانی کو منہ دکھائی میں سونے کا سیٹ پہنا کر اسے ممنون بھی کردیا تھا۔
شادی کی رسمیں ختم ہونے کے بعد رفیق اپنی رانی کے ساتھ اوپر والے پورشن میں شفٹ ہوگیا۔
اوپر والے پورشن کے مختصر صحن سے آتے جاتے ساتھ والے گھر کے لان میں حنیف اور اس کی بیوی شام کی چائے پیتے نظر آتے تھے۔ حنیف اور اس کی بیوی بھی نظر دوڑا کراس گھر والوں کی آمدورفت کا نظارہ کرلیتے تھے۔ شفیق کے گھر میں بہو کے آجانے سے رونق آگئی تھی۔ جب چھٹیوں میں اس کی بیٹی رضیہ اپنے بچوں کے ساتھ رہنے آئی تو بچوں کی آوازوں اور شرارتوں سے سارا گھر خوشیوں سے چہک اُٹھا تھا۔ اگلے دو سالوں میں ایک پوتے اور ایک پوتی کے اضافے نے شفیق کے گھر کی خوشیوں کو چار چاند لگا دیے۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

رین کوٹ — ہاشم ندیم

Read Next

قید — ساجدہ غلام محمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!