”میں اگر قصائی خاندان کا فرد ہوں، میرا باپ قصاب ہے، تو اس میں میرا کیا قصور؟ میں تو قصائی کا کام نہیں کرتا نا؟ پھر لوگ مجھے ”قصائی قصائی” کہہ کر کیوں چڑاتے ہیں؟” حنیف نے اپنی ماں سے گلہ کرتے ہوئے کہا۔
”بیٹا کیا ہوا اگر لوگ ہمیں قصائی کہتے ہیں؟ یہ تو ہمارا آبائی پیشہ ہے، ذات تھوڑی ہے۔ اسی کاروبار سے ہم کماتے اور اپنے اہل و عیال کو پالتے ہیں۔ اس میں شرم کی کیا بات ہے؟ ہم کسی سے بھیک تو نہیں مانگتے نا؟ اپنے ہاتھ کی، اپنی محنت کی کمائی کھاتے ہیں۔ تم لوگوں کی باتوں کو دل پر نہ لیا کرو۔” حنیف کی ماں نے اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
”لیکن امّی لوگ اور محلّے کے لڑکے مجھے اس بات پر طنز کرتے اور چھیڑتے ہیں۔ اس طرح بات کرتے ہیں جیسے میں ان کا نوکر ہوں۔ یہ سب مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔ بس میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے کسی اچھی جگہ ملازمت کروں گا تاکہ کوئی میرے بچوں کو قصائی کی اولاد ہونے کا طعنہ نہ دے۔” حنیف یہ کہتیہوئے آبدیدہ ہوگیا۔
”ٹھیک ہے بیٹا تُو فکر نہ کر۔ دل لگا کے پڑھ اور اپنی مرضی کی زندگی گزار۔ جتنا پڑھنا چاہتے ہو پڑھو۔ ہم تجھے ایک اچھا انسان بنتا دیکھنا چاہتے ہیں۔” ماں نے حنیف کو اپنی آغوش میں لیتے ہوئے اس کے آنسو پونچھے۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
حنیف اور شفیق دونوں سگے بھائی تھے۔ باپ آبائی پیشہ کی وجہ سے قصاب تھا۔ حنیف بڑا تھا اس سے چھوٹا شفیق اور سب سے چھوٹی فوزیہ بہن تھی۔ حنیف کو اپنے آبائی پیشے سے سخت نفرت تھی کیونکہ اسے محسوس ہوتا تھا کہ قصائی ہونے کی وجہ سے انہیں معاشرے میں کمتر سمجھا جاتا ہے۔ محلے کے لڑکے اسے قصائی کہہ کر چھیڑتے، تو وہ زچ ہوکر گھر سے باہر ہی نہیں نکلتا تھا۔ وہ شرم کے مارے اسکول یا کلاس میں بھی اپنے باپ کے پیشہ کے بارے میں کسی سے کچھ نہیں کہتا تھا۔ اس کا عزم تھا کہ وہ پڑھ لکھ کر اعلیٰ ملازمت کرلے گا، مگر یہ گھٹیا پیشہ نہیں اپنائے گا۔ اسی لیے وہ پڑھائی میں زیادہ دلچسپی لیتا تھا۔
اس کے برعکس شفیق کو پڑھائی سے زیادہ رغبت نہ تھی۔ اس نے میٹرک کرنے کے بعد پڑھائی کو خیر باد کہا اور باپ کے ساتھ دکان پر بیٹھنا شروع کردیا۔ چند سالوں میں ہی اس کے باپ نے شفیقکی محنت اور شوق کو دیکھتے ہوئے اسے الگ دکان بنا دی۔ اس نے نہ صرف روایتی طریقہ سے دکان پر تازہ گوشت رکھا ہوا تھا بلکہ زمانے کے نئے اطوار کے مطابق فروزن میٹ اور گوشت کی مختلف پیک شدہ آئٹمز کے فریز رز لگوالیے تھے۔ اس کے پاس اب ہائی کلاس کی بیگمات بھی آتی تھیں۔ شفیق اب ایک کامیاب بزنس مین بن چکا تھا۔
اسی عرصہ میں اس کا بڑا بھائی حنیف اپنی پڑھائی مکمل کرکے سرکاری محکمہ میں کلرک کی ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اب وہ بابو بن کر اپنی بائیک پر فخر سے ڈیوٹی پر جایا کرتا۔
ان دونوں کے باپ لطیف کو لوگ طیفا قصائی کہتے تھے۔ اس نے محسوس کیا کہ اب دونوں بیٹے جوان بھی ہیں اور بر سرروززگار بھی، لہٰذا مناسب وقت ہے کہ اِن کی شادیاں کردی جائیں۔ اس نے دونوں بیٹوں کی شادی کے فرض سے سبکدوش ہونے سے قبل چھوٹی بیٹی فوزیہ کی شادی اپنی بڑی بہن کے بیٹے سے دوسرے شہر میں کردی۔ پھر اپنی گرتی صحت اور بڑھتی عمر کے پیش نظر بیٹی کو جائیداد میں اس کا حصہ دے کر اپنا مکان دونوں بیٹوں میں برابر تقسیم کردیا تاکہ وہ شادی کے بعد سکون سے اپنے اپنے گھر زندگی گزاریں۔
بچوں کی شادیوں سے فراغت پانے کے بعد وہ قدرے پرسکون ہوچکا اور اب آرام کرنا چاہتا تھا۔ وہ آخر دم تک اپنی بیوی کے ہمراہ چھوٹے بیٹے شفیق کے ساتھ ہی رہا، کیونکہ بڑے بیٹے کی بیوی کے تیور اپنی ساس اور سُسر کو دیکھ کر کچھ مناسب نہیں رہتے تھے۔ شفیق اور اس کی بیوی نے دونوں میاں بیوی کی جی جان سے خدمت کی۔ اپنے سارے فرائض سے فراغت پاکر اگلے دو سالوں ہی میں لطیف اور اس کی بیوی معمولی بیمار رہ کر یکے بعد دیگرے اگلے جہان سدھار گئے۔
باپ نے جس طرح دونوں بھائیوں میں انصاف کے ساتھ جائیداد تقسیم کی تھی اسی طرح طرح دونوں بھائیوں کو ربّ نے بھی برابری کے ساتھ ایک ایک بیٹے اور ایک ایک بیٹی سے نوازا۔
بڑے بھائی حنیف کی بیوی پڑھی لکھی ہونے کے باعث اونچے رکھ رکھاؤ کی مالک اور صفائی پسند تھی۔ اپنے ساتھ والے گھر میں رہنے والے اپنے دیور اور اس کے بیوی بچوں کو وہ خود سے اور اپنے بچوں سے دور ہی رکھتی تھی۔ کیونکہ ایک قصائی گھرانے کے افراد سے اسے چربی کی بو آتی تھی، مگر اسے اپنے خاوند کی آنکھوں پر چڑھی چربی بے حد مرغوب تھی جو اپنی اصل تنخواہ سے کہیں زیادہ اوپر کی کمائی کی وجہ سے چڑھی ہوئی تھی۔
حنیف اب اپنے محکمے میں اونچی پوسٹ کا افسر تھا۔ اس نے اپنے دونوں بچوں کو ہائی پروفائل کیتھیڈرل اسکول سسٹم میں تعلیم دلائی تاکہ وہ سوسائٹی میں اعلیٰ مقام پر پہنچسکیں۔
اس کا بیٹا حبیب اسکول کی تعلیم کے بعد اب گورنمنٹ کالج میں پڑھ رہا تھا۔ جبکہ شفیق کا بیٹا رفیق بھی اپنے باپ کی طرح دسویں جماعت سے آگے پڑھنے کا خواہشمند نہیں تھا۔ اس لیے باپ نے میٹرک کے بعد اسے اپنے ساتھ فریش میٹ سٹور پر بٹھانا شروع کردیا۔ اپنے باپ کی طرح رفیق نے بھی اپنے آبائی پیشے کی تمام جزئیات پر جلد ہی عبور حاصل کرلیا۔ جب سے اس نے دکان کی ذمہ داری میں باپ کا بوجھ بانٹنا شروع کیا تھا شفیق کے کاندھے اوربھی چوڑے ہوگئے تھے اور وہ اپنے ہاتھوں میں پہلے سے زیادہ مضبوطی محسوس کررہا تھا۔ کرتا بھی کیوں نہ آخر بیٹا بازو جو بن گیا تھا۔
٭…٭…٭
”میں نے کہا جی سنتے ہو، اپنی رضیہ بارہویں جماعت پاس کرچکی، خیر سے اب اٹھارہویں برس میں ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ اب جلدی سے کہیں اچھا بر دیکھ کر اس کی شادی کردیں۔” شفیق کی بیوی آسیہ نے رات کھانا کھانے کے دوران اس سے کہا۔
”ہاں بیگم کہتی تو تم ٹھیک ہو، بھلے ہی ابھی بیٹا تابعدار ہے، مگر آنے والے وقت کا کیا پتا اور ابھی اپنے بازوؤں میں ہمت ہے، جلد از جلد اپنے فرائض سے سبک دوش ہوجائیں تو اچھا ہے۔” شفیق نے تولیے سے ہاتھ پونچھتے ہوئے کہا۔
”میں تو کہتی ہوں کہ آپ اپنے خاندان میں ماموں، یا تایا چچا زاد کے ہاں کوئی اچھا سا لڑکا دیکھیے یا کہیں، تو میں اپنے بہن بھائیوں میں بات کروں؟” آسیہ نے برتن اُٹھاتے ہوئے پوچھا۔
”ٹھیک ہے میں کرتا ہوں بات اپنے رشتے داروں میں اور دوستوں کے کان میں بھی ڈال دیتا ہوں، ویسے تم بھی اپنی خاندان میں نظر رکھو، کہیں بھی مناسب لڑکا مل جائے تو بس سال دو سال میں اس کے ہاتھ پیلے کردیں۔” شفیق نے چارپائی پر لیٹتے ہوئے کہا۔ ”ہے تو حنیف بھائی کا بیٹا حبیب بھی لائق اور خوب صورت اب اچھا پڑھ لکھ بھی گیا ہے خواہش تو یہی تھی کہ اس سے بھائی بندی کا رشتہ مضبوط ہوتا، مگر وہ اور اس کی بیوی اونچے خیالات کے مالک ہیں۔ کاہے کو وہ غریب بھائی سے رشتہ لینا یا دینا گوارہ کریں گے۔ وہ تو غریب بھائی سے سال بھر میں صرف عید بقر عید پر ہی ملتا ہے بس، پھر سارا سال اس کی شکل دیکھنے کو ترس جاتا ہوں۔” شفیق نے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا۔
”ہا آ آ آں ملتے ہیں آپ کے بھائی صاحب آپ کو عید بقر عید پر، ارے وہ تو ان کے بیل اور بکرے انہیں آپ کی چوکھٹ پارکرنے پرمجبور کرتے ہیں اس دن، ورنہ وہ تو دیکھیں بھی نہیں ادھر قصاب کے گھر کو۔” آسیہ نے سرمارتے ہوئے طنزیہ انداز میں جواب دیا۔
”اری یوں نہیں کہتے رفیق کی ماں، آخر وہ خون ہے میرا، اکلوتا بھائی، جیسا بھی ہے، ہے تو میرا بڑا بھائی نا؟ وہ جیسا بھی ہے میں تو اپنی فطرت کے مطابق اس کا احترام کرتا رہوں گا۔” شفیق نے آسیہ کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
”تو ٹھیک ہے کیجیے میں نے کب منع کیا ہے۔” آسیہ نے بات ختم کرتے ہوئے کہا۔
آسیہ کی بڑی بھاوج نے ان کی بیٹی رضیہ کو اپنے بڑے بیٹے کے لیے مانگ لیا۔ وہ اسی سال اپنے ماموں زاد سے بیاہ کر اسی شہر میں اپنے سسرال چلی گئی۔
٭…٭…٭
حنیف پر ”لکشمی دیوی” کچھ زیادہ ہی مہربان تھی۔ اس نے ساتھ والے دونوں مکان خرید کر اپنے گھر کو کوٹھی بنا لیا۔ نئے خریدے جانے والے دونوں مکان گرا کر شاندار رہائش بنالی۔آخری کارنر والے مکان میں اس نے رہائش اختیار کرلی اور باپ کے دیے ہوئے مکان کو گرا دیا۔ اصل میں اس کی بیوی کو اب ساتھ والے گھر میں رہائش پزیر قصائی دیور کے گھر سے ادھر دیکھنے والوں پر اب زیادہ رعب پڑتا تھا۔
شفیق کو بھائی کے ساتھ سانجھی دیوار اور سانجھے مکان کے اس طرح خاتمے کا بہت دکھ ہوا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});