تم میرا نصیب نہ تھے — سلمیٰ خٹک

”جوزف یہ…!!!” اس نے حیرت سے جوزف کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں تم نے کچھ دنوں پہلے جب بات کی تھی تو اس وقت میں نے سوچا کہ ایڈایشن تک تو مجھے یہ مذہب وغیرہ کا خیال ہی نہیں آیا تھا۔ بس میں بچوں کو ایک اچھی زندگی کا حق دینا چاہتا تھا جو اس دنیا میں پیدا ہونے والے ہر بچے کا ہے، چاہے وہ انگلینڈ میں ہو، افریقہ میں ہو، افغانستان یا پاکستان میں ہو، مگر تمہارے پوچھنے پر مجھے یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ ان بچوں کا مذہب میں ان سے چھیننے کا حق نہیں رکھتا۔” جوزف اب قدرے پرسکون انداز میں اسے بتانے لگا۔
”مگر یہ تو بہت دور ہیں؟ برمنگھم، مانچسٹر، لیڈز اور یہ ڈیوزر وغیرہ تو یہاں سے کافی دور ہیں؟” نور نے اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
”ارے بھئی میں نے بھی صرف وہاں اپلائی کیا ہے جہاں پر ہاسٹل کی سہولت موجود ہو، تاکہ دونوں بچے آرام سے اپنے مذہب اور اس دنیا سے روشناس ہوسکیں۔ چھٹیوں میں آجایا کریں گے میرے پاس۔” جوزف کے لہجے سے اطمینان صاف جھلک رہا تھا۔
وہ کچھ دیر خاموشی سے بینچ پر بیٹھے رہے۔ کبھی کبھی بالکل خاموشی بھی کتنا سکون دیتی ہے۔ ایک دوسرے کے قریب بیٹھنا بھی آپ کو ایک مکمل زندگی کا احساس دلاتا ہے۔ سچ کہتے ہیں اگر دنیا کی لالچ، طمع اور حرص سے انسان منہ موڑ لے تو چھوٹے سے پارک کے ایک بینچ پر بیٹھے بیٹھے جو سکون راحت نصیب ہوتی ہے وہ بہت کم لوگوں نے محسوس کی ہوتی ہے۔
”چلو اٹھو! چلتے ہیں۔ بچوں کو لینے کا وقت ہو گیا ہے۔” جوزف نے ایک جھٹکے سے اس روحانی سحر کو توڑا جس میں نور پوری طرح ڈوبی ہوئی تھی۔
ہاں! ہاں چلتے ہیں۔” اس نے آہستگی سے کہا اور جوزف کے ساتھ گیٹ کی طرف چل دی۔
”کتنی بے غرض محبت کرتے ہو تم، چاہے ایک فوجی کے روپ میں اپنے وطن سے ہو۔ یا باپ کے روپ میں اپنے بچوں سے یا پھر وہ جو میں سمجھنا نہیں چاہ رہی، جو تمہاری آنکھوں میں مجھے صرف میرے لیے نظر آتی ہے۔” ایک دم اس کا دل بھر آیا اور وہ ہتھیلیوں سے جلدی جلدی آنکھیں پونچھتی ہوئی جوزف کے پیچھے دوڑی، جو لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا اس سے کافی آگے نکل گیا تھا۔
ان کی زندگی بہت خوب صورت ہوگئی تھی۔ جوزف نے ایک نینی رکھ لی تھی جو صبح آتی اور شام کو جوزف کے آفس سے آنے کے بعد گھر چلی جاتی۔ وہ پکی عمر کی عورت تھی جو گھر کی صفائی کرتی کپڑے دھوتی، استری کرتی اور سکول سے بچوں کو لاتی اور جوزف کے آنے تک ان کا خیال رکھتی۔
عزیزہ اور ببرک بھی نور کے سکول میں داخل کروا دیئے گئے تھے۔ زندگی ایک نپے تلے ڈگر پر چلنے لگی تھی مگر پھر وہ ہوا جس کے خیال سے ہی نور کی راتوں کی نیندیں اُڑ جاتی تھیں۔
وہ اتوار کا دن تھا۔ نور نے بچوں کو جوزف کی طرف بھجوا دیا تھا کیوں کہ اسے گرمیوں کے کپڑے رکھنے تھے اور سردیوں کے نکالنے تھے۔ بچے ہوں تو آدھے گھنٹے کا کام میں بھی آدھا دن لگ جاتا ہے۔ ہاں بچے کوئی سنبھال لے تو سارا کام جیسے جادو کی چھڑی سے ہو جاتا ہے۔وہ جلدی جلدی چیزوں کو اپنی اپنی جگہ پر رکھ رہی تھی کہ دفعتاً کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ حیران ہوئی کے اتوار کے دن اس کے یہاں کون آسکتا ہے۔ جوزف بچوں کو باہر لے گیا تھا اور ان کے آنے میں ابھی ٹائم تھا۔ وہ نیچے اتری اور دروازے کے پاس کھڑی ہوکر پوچھا۔
“who’s there?” (کون ہے؟)

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”میں ہارون! نوری دروازہ کھولو۔” باہر سے ایک کرخت بھاری بھرکم آواز آئی۔
اور نور کو لگا جیسے دروازے پر ہارون نہیں بلکہ وقت سے پہلے ہی قیامت آگئی ہے۔
”نور! نور! دروازہ کھولو۔ دیکھو میں نے بہت مشکلوں سے تمہیں ڈھونڈ ہے۔ خدا کے لیے مجھے اور عذاب میں مت ڈالو۔” باہر کھڑا ہوا شخص ملتجی لہجے میں کہہ رہا تھا۔
نور نے ایک جھٹکے سے دروازہ کھولا۔ وہ تقریباً تین سال بعد اُسے دیکھ رہی تھی۔ ہارون والہانہ انداز میں آگے بڑھا اور نور کے گلے لگ گیا، نور بدک کر پیچھے ہٹی۔
”اندر آئیں آپ۔” نور جلدی سے بولی، گھبراہٹ اس کے لہجے سے صاف عیاں تھی۔
دونوں اب لاؤنج میں آمنے سامنے صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ درمیان کی ٹیبل پر پھولوں کا ایک بڑا گلدستہ، ایک چاکلیٹ کا ڈبہ اور ساتھ میں کچھ اور گفٹ بیگز پڑے ہوئے تھے۔ ہارون اپنی جگہ سے اٹھا اور نور کے قدموں میں جا کر بیٹھ گیا۔ نور نے اپنی بھیگی ہوئی آنکھیں جلدی سے دوپٹے سے صاف کیں۔
”تمہیں یاد ہے جب تم آٹھویں میں تھی اور میں سیکنڈ ایئر میں تھا، ایک دن چچی جان ہمارے گھر آئیں اور برآمدے میں امی سے بات کرنے لگیں۔ میں قریب ہی بیٹھا امتحانات کی تیاری میں لگا ہوا تھا۔ چچی اپنے کسی دور پرے کے رشتہ دار کا بتا رہی تھیں جن کا بیٹا نیا نیا کاکول گیا تھا۔ انہوں نے تمہارا ہاتھ مانگا تھا۔ چچی جان امی سے مشورہ کرنا چاہتی تھیں کہ کیا کریں۔ اچھے رشتے بھی تو بار بار نہیں آتے وہ لوگ خود بھی چاہ رہے تھے کہ منگنی کردیتے ہیں اور تین چار سال بعد جب لڑکا کمیشن لے لے گا تو پھر شادی کردی جائے گی۔ اس وقت تک نور بھی ایف اے کرلے گی۔ اور پتا ہے نور مجھے لگا جیسے میرے بدن سے سارا خون نچڑ گیا۔” ہارون ماضی میں کہیں کھوئے ہوئے بولتا چلا جارہا تھا۔
”آپ ایسا نہیں کرسکتیں چچی جان، نور پر پہلا حق میرا ہے۔ میں اس کے تایا کا بیٹا ہوں۔ پشتونوں میں لڑکیاں اس وقت باہر دی جاتی ہیں جب گھر میں لڑکے نہ ہوں اور میرے ہوتے ہوئے آپ یہ سوچ بھی کیسے سکتی ہیں؟ میں لال بھبھو کا ہورہا تھا۔ چچی کچھ نہ بولیں اور اُٹھ کر اپنے پورشن کی طرف چل دیں۔ مجھے ایک دم خیال آیا کہ یہ میں نے کیا کردیا۔ کتنی بے شرمی سے اپنی محبت کا اظہار کیا تھا۔ اماں کی طرف ڈر ڈر کر دیکھا تو وہ مسکرائے جارہی تھیں۔ وہ اٹھ کر آئیں اور میرا ماتھا چوم کر بولیں:
پشتون مرد ایسے غیرت مند ہی اچھے لگتے ہیں۔ وہ بولیں اور مجھے دعائیں دیتی ہوئی اندر چلی گئیں۔ سارے گھر میں خبر پھیل گئی تھی۔ مجھے یاد ہے تم مجھ سے چھپنے لگی تھیں۔ ہمارے پورشن میں بھی نہیں آتی تھیں اور جب میں آتا تو تم اپنے کمرے سے نہ نکلتی تھیں مگر کب تک؟ ایک ہی گھر میں رہتے تھے ہم۔ صبح ایک ہی گاڑی میں ڈرائیور گھر کے بچوں کو سکول اور کالج لے کر آتا جاتا تھا۔ مجھے بہت اچھا لگتا تھا جب تم سیڑھیوں پر بیٹھی اپنا ہوم ورک کرتیں اور میں تمہاری چٹیا زور سے کھینچتا۔ تم غصے سے مڑ کر دیکھتیں مگر مجھے دیکھتے ہی دوپٹہ سر پر سنبھالنے لگتیں۔ ہم دونوں بہت اُلٹ تھے۔ تم خاموش سی، اپنے کام سے کام رکھنے والی اور میں سارے خاندان میں منہ پھٹ مشہور تھا۔ سیکنڈ ایئر کے بعد میں بزنس ایڈمنسٹریشن کرنے امریکہ چلا گیا۔ وہاں چھ سال گزارنے کے بعد آیا تو تم بھی بی اے کرچکی تھیں۔ اس واقعے کے بعد غیررسمی طور پر تم میرے نام ہوگئی تھیں۔ اگر کوئی رشتہ آتا بھی تو چچا چچی انکار کردیتے تھے۔ پاکستان واپس آکر میں نے اپنا بزنس شروع کرنے کی سوچی۔ تب ہی مجھے معلوم ہوا کہ تم یونیورسٹی میں داخلہ لینا چاہتی ہو۔ اتنا پڑھ لکھ کر، باہر وقت گزار کر آنے کے بعد بھی میرے اندر کا پشتون مرد یہ گوارا نہ کرسکا کہ تم یونیورسٹی میں لڑکوں کے ساتھ پڑھو، ان دنوں تمہاری حالت مجھ سے چھپی نہ تھیں۔ تم بلاوجہ بات بات پر رونا شروع کردیتی تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ تمہیں یونیورسٹی میں داخلہ نہ لینے کا قلق ہے مگر مجھے اپنی انا پیاری تھی۔ میں سوچتا تھا کہ جب میں دنیا جہاں کی ساری خوشیاں تمہارے قدموں میں رکھ دوں گا تو تم یہ سب کچھ بھلا دو گی اور پھر میں نے شادی کے لیے اماں ابا کو راضی کیا۔ وہ تو خوشی سے پھولے نہ سما رہے تھے۔ چچا نے تھوڑی پس و پیش کی کہ میری کوئی نوکری وغیرہ ابھی نہیں لگی مگر میں نے انہیں یقین دلایا کہ میں بزنس ہی کرنا چاہتا ہوں، لگی بندھی تنخواہ والی نوکری نہیں۔” ہارون کسی فلم کو دہرانے والے انداز میں کہے جارہا تھا۔
”اور پھر تم میری زندگی میں آئی۔” ہارون نے اپنے دونوں ہاتھ نور کے ہاتھوں پر رکھ دیئے جو اس کے گود میں پڑے ہوئے تھے۔
”نور میں بیان نہیں کرسکتا وہ شب و روز، مجھے لگا میں دنیا کا امیر ترین، خوش قسمت ترین شخص ہوں۔ میں نے تمہاری آنکھوں میں اپنے لیے محبت کے دیئے جلتے دیکھے۔ میں گھر میں داخل ہوتا تو تمہارے ہونٹوں پر پھیلنے والی مسکراہٹ پر میں اپنی جان فدا کرنے کو تیار تھا۔”
”آپ دور سے آئے ہیں، کچھ کھانے کو لاؤں یا پھر آپ آرام کرنا چاہتے ہیں؟” نور شاید بات بدلنا چاہ رہی تھی۔ مگر ہارون نے ان سنی کردی۔
”پھر میں اپنے بزنس پر توجہ دینے لگا، صرف تمہارے لیے! میں اتنا مصروف ہوا کہ راتوں کو دیر سے آنے لگا مگر تم میرا انتظار کرتیں۔ ان دنوں تمہیں آرام کی ضرورت تھی کیوں کہ ابراہیم آنے والا تھا ہماری زندگی میں، میں دبئی میں تھا جب ابا نے فخر سے مجھے فون پر بتایا کہ وہ دادا بن گئے ہیں اور وہ بھی پوتے کے، میں تقریباً ایک ہفتہ بعد آیا تھا۔ ابراہیم کو گود میں لے کر میں نے تہیہ کرلیا تھا کہ نور کے ساتھ ساتھ اب مجھے اپنے بچے کے لیے بھی دنیا کی ساری نعمتیں ان کے قدموں میں ڈھیر کرنی ہیں۔” اس کی آواز فرطِ جذبات سے بھرا گئی تھی۔
نوری میں بھول گیا تھا کہ تمہیں پیسے کی ضرورت نہیں، میری ضرورت ہے۔ یاد ہے ایک دفعہ تم نے مجھ سے گلہ بھی کیا تھا۔ تم بیڈ پر بیٹھی میرے فارغ ہونے کا انتظار کررہی تھیں جب کہ میں پیرس میں ہونے والی قیمتی پتھروں کی نمائش کے لیے اپنی فرم کا نام بھجوانا چاہتا تھا اور مسلسل ای میلز کے ذریعے ان سے رابطے میں تھا۔ میں چاہتا تھا کہ میری فرم کا نام کنفرم ہو جائے تو پھر میں سب سے اچھے اور نایاب پتھر منتخب کرکے پیرس لے جاؤں ۔ میرے قیمتی پتھروں کا کاروبار اب بین الاقوامی سطح پر پہنچنے والا تھا۔ اور تم نے پہلی دفعہ سخت احتجاج کیا تھا۔ ہماری شادی کے اڑھائی سال بعد جب آمنہ بھی ہماری زندگی میں آگئی تھی۔ وہ کچھ ہی مہینوں کی تھی اور تم روتے ہوئے مجھ سیشکایت کررہی تھی۔ تم اور بیویوں کی طرح مجھے بچوں کی باتیں بتانا چاہتی تھیں، فیملی میں کس کی منگنی کس سے طے ہوئی، کس ساس بہو نے پھر جھگڑا کیا، ابراہیم نے کون کون سے الفاظ سیکھ لیے تھے اور میں دل ہی دل میں تمہاری بے وقوفانہ باتوں پر ہنس رہا تھا۔ ہارون مکمل طور پر ماضی میں کھویا ہوا تھا اور نور نم آنکھوں سے اس کی باتیں سُن رہی تھی۔
”شکر کرو تم کہ جو چاہو خرید سکتی ہو اپنے لیے، بچوں کے لیے، سب سے بہترین چیز۔ تمہیں ان بیویوں کی طرح دو دفعہ سوچنا نہیں پڑتا کہ یہ چیز لے لوں یا نہیں۔ میں نے تمہیں سمجھاتے ہوئے کہا تھا۔ اور تم مجھے خالی خالی نظروں سے دیکھنے لگی تھیں۔ مجھے بہت عرصہ بعد احساس ہوا کہ تم پر اس وقت کیا گزری ہوگی جب میں نے یہ بات کی تھی تم سے۔ ہاں میں مانتا ہوں کہ اونچی سوسائٹی میں جگہ بنانے کے لیے میں نے ان کے طور طریقے اپنانا شروع کردیئے تھے۔ اپنے پتھروں کی نمائش کے لیے کبھی مجھے فیشن شوز اٹینڈ کرنے پڑتے، کبھی میرے فرم سے وابستہ جیولرز جو مجھ سے پتھر خریدتے ان کے پروگرام اٹینڈ کرنے پڑتے ہے۔ جن میں شراب وغیرہ سب چلتا ہے مگر بہ خدا! میں ان چیزوں سے حتی الامکان اپنے آپ کو بچاتا تھا۔
مگر یہ دنیاوی نعمتیں ایک دلدل کی مانند انسان کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں۔ مجھے اب مزہ آتا تھا۔ ہاں تمہارے بارے میں اب بھی ویسا ہی تھا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ کوئی اور میں تمہیں دیکھے یا ان پارٹیوں میں تمہیں لے کر جاؤں۔ میں اس مصنوعی چکا و چوند اور گلیمر کی دنیا سے جب اپنے گھر تمہارے پاس اور بچوں کے پاس آتا تھا تو ایک روحانی سکون کا احساس ہوتا تھا۔ میں بہت خود غرض تھا نوری، بہت خودغرض۔ صرف اپنی خوشی چاہتا رہا اور ہمارے راستے بہ تدریج ایک دوسرے سے دور ہوتے گئے۔ میں اپنی غلطی مانتا ہوں مگر ایسا بھی کیا کردیا تھا میں نے کہ تم گھر ہی چھوڑ کر چلی گئیں۔ مجھے چھوڑ کر چلی گئیں۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ گھر کی چار دیواری میں رہتے ہوئے اتنا بڑا قدم اٹھاؤ گی کہ اپنا شہر تو کیا، ملک ہی چھوڑ کر چلی جاؤ گی۔” نور نے ہارون کی طرف دیکھا اور ماضی کے دریچے کھول کر رکھنے لگی۔
٭…٭…٭
میں اُن دنوں بہت چڑ چڑی ہوگئی تھی۔ بچے سکول جانے لگے تھے اور ساس سسر کبھی گاؤں ہوتے اور کبھی میرے ساتھ۔ گھر میں سب کچھ تھا، چوکی دار، ڈرائیور، خانساماں، مالی، کام والی ماسی، ملک کے بہترین فرنیچر کمپنی کا فرنیچر سب کچھ، مگر میرے اندر خالی پن تھا۔ میں ہر وقت تمہاری کی تصویریں انٹرنیٹ پر دیکھتی جن میں تم بڑے اور مشہور و معروف لوگوں کے ساتھ نظر آتے۔ کبھی کبھی تو خواتین کے کندھوں پر ہاتھ رکھے تصویر کے لیے پوز دیتے تو مجھے اپنا آپ بڑا حقیر نظر آتا۔ وہ شخص جو بچپن سے مجھے چاہتا تھا، آج وہ گھر آتا ہے تو صرف کپڑے بدلنے اور ایک موٹا چیک کاٹ کر دینے کے لیے۔ وہ اب بھی بڑے والہانہ انداز میں مجھے اپنے قریب کرتا مگر مجھے یہ سب کچھ دکھاوا لگتا۔ اور پھر مشکل سے دو تین دن گزار کر پھر اپنی موج مستیوں میں مصروف ہو جاتا۔ بچے سکول، ٹیوشن اور قاری صاحب سے پڑھنے کی سخت روٹین میں تھے۔ ایسے میں، میں بولائی بولائی پھرتی تھی۔ ہاں تم سے چھپ کر ٹیچنگ کے میں نے کافی آن لائن کورس کرلیے تھے۔ کچھ بدخواہوں نے بھی میرے کان بھرنے شروع کردیئے۔ اور ایک دفعہ تو حد ہوگئی جب ایک جاننے والی نے فون کرکے استہزائیہ انداز میں بتایا کہ ہارون سپین جارہا ہے کچھ دوستوں کے ساتھ، جہاں پول پارٹی دی جارہی ہے۔ میں نہیں سمجھی مگر جب اس نے بتایا کہ پول پارٹی کیا ہوتی ہے اور اس میں کیا کیا ہوتا ہے تو میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ پھر اس نے تلخ لہجے میں مجھے کہا کہ اس کا شوہر بھی جارہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ تم لوگوں کے لیے میں اپنی جان مارتا ہوں تو مجھے بھی کچھ انجوائے منٹ کا حق ہے۔ اور اس دفعہ وہ ہارون کو بھی لے کر جارہا ہے۔ بس اب تم بھی میری طرح اپنے آپ کو ان چیزوں کا عادی کرلو۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جو شاہانہ زندگی ہم دونوں گزار رہے ہیں، وہ اب اپنے شوہروں کی ان کرتوتوں کی وجہ سے چھوڑ بھی نہیں سکتے۔ جو عیش و آرام انہوں نے ہمیں دیا ہوا ہے اس کے عوض وہ جو چاہے کریں، ہمیں پوچھنے کا کوئی حق نہیں۔
میں فون ہاتھ میں لیے سن ہوگئی تھی۔ ہارون مجھے اپنے آپ سے گھن آنے لگی کہ جب جب تم میرے قریب آئے تو کیا اس کے درمیان کوئی اور بھی تھا یا نہیں۔ اور پھر میں نے فیصلہ کرلیا۔ کہ مجھے عیش و آرام نہیں چاہیے تھا۔ مجھے اپنی عزتِ نفس پیاری تھی۔ میں اپنے بچوں کو اس قسم کی غلیظ باتیں اپنے باپ کے بارے میں سننے کا موقع کسی کو نہیں دینا چاہتی تھی۔” نور بھرائی ہوئی آواز میں کہہ رہی تھی جب کہ ہارون ساکت بیٹھا اس کی باتیں سُن رہا تھا۔
”ہاں ہارون! اس فون نے میری زندگی بدل دی۔ میں جو گھر کی چار دیواری میں تمہاری جس ناموس کی حفاظت کیے بیٹھی تھی تم اس کی دھجیاں اڑاتے پھر رہے تھے۔ اور پھر میں نے فیصلہ کیا اور میرا خدا میرے ساتھ تھا۔ تم نہیں جانتے کتنی راز داری سے میں نے برٹش کونسل تک رسائی حاصل کی۔ ڈرائیور کو بازار کی پارکنگ میں کھڑا کرکے میں دوسری طرف ٹیکسی لے کر برٹش کونسل جاتی اور پھر واپسی میں دو تین چیزیں ویسے ہی خرید کر گھر آجاتی۔ جب گھر کے لوگ بھی مجھے صبر کی تلقین کرتے اور گزارہ کرنے کو کہتے تو میرا چیخ چیخ کر کہنے کو دل کرتا کہ میں اگر اس طرح کروں تو کوئی ہارون کو گزارہ کرنے کے لیے کہتا؟ کوئی اسے صبر کی تلقین کرتا؟ نہیں! نا تو پھر ٹھیک ہے میں بھی ہارون سمیت سب کو بتا دوں گی کہ عورت جب کچھ کرنے پر آجائے تو اسے کوئی روک نہیں سکتا۔” نور اب رو نہیں رہی تھی۔ اس کی آواز میں غصہ تھا۔ وہ رکی اور ہارون کی طرف دیکھا جو مضبوطی سے اس کے دونوں ہاتھوں کو پکڑے سر جھکائے بیٹھا رو رہا تھا۔
”نور میں بہک گیا تھا، شیطانی سرور مجھ پر چھایا ہوا تھا۔ مجھے تمہاری قسم کہ یہ سب صرف تصویروں کی حد تک تھا، صرف پارٹی کی حد تک۔ بہ خدا میں نے کبھی خیانت نہیں کی کہ میں صرف تمہارا تھا۔ مگر اس دفعہ میں کھائی میں گرنے والا تھا۔ میں بڑے سرور میں سپین گیا تھا۔ شام کو پارٹی شروع ہوئی تو میں بھی شامل ہوگیا۔ تھرکتے بدن، میوزک، شراب، بس لگتا تھا کہ یہ ہی تو زندگی ہے۔ میں اب تک اس کو کیوں نظر انداز کرتا رہا تھا۔ میں دانستہ تمہیں یا بچوں کو سوچنا نہیں چاہتا تھا۔ میں پول میں اترا تو دو تین قیامت ڈھاتی حسینائیں میری طرف بڑھیں۔ میں والہانہ انداز میں ہاتھ پھیلا کر انہیں خوش آمدید کہنے ہی والا تھا کہ اچانک کچھ ہی فاصلے پر پانی میں مجھے تم نظر آئیں، کسی غیرمرد کی بانہوں میں وہ پانی کے چھینٹے اڑا رہا تھا اور تم ہنس ہنس کر دوہری ہورہی تھیں۔ میں غیض و غضب کے عالم میں ان حسیناؤں کو جھٹک کر تمہاری طرف لپکا اور پوری قوت سے تمہیں ہاتھ سے پکڑ کر اپنی طرف گھمایا اور تمہارے چہرے پر ایک زناٹے دار تھپڑ جڑ دیا۔ سارے پول میں خاموشی چھا گئی جیسے وہاں کوئی موت ہوگئی ہو۔ میں اپنے حواسوں میں آیا تو دیکھا وہ کوئی اور لڑکی تھی جس کے بال تمہاری طرح لمبے تھے۔ اسی وقت سکیورٹی آئی اور مجھے پارٹی سے باہر لے گئی۔ میں دو دن جیل میں رہا۔ اس عورت نے پورا پورا معاوضہ لینے کے بعد مجھے معاف کیا۔ جیل میں رہتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ کل میرا بیٹا میرے نقشِ قدم پر چلے گا۔ میری بیٹی بھی یہی کچھ کرے گی جو نام نہاد بے باک اور اسٹرونگ لڑکیاں کررہی ہیں۔ نوری اس واقعے نے میری آنکھیں کھول دی تھیں۔ جیسے ہی میں جیل سے چھوٹا، میں نے فلائٹ لی اور پاکستان آگیا اور یہاں ایک بری خبر میری منتظر تھی۔ تم گھر چھوڑ کر جاچکی تھیں اور کچھ بھی نہیں لیا تھا ساتھ میں تم نے سوائے بچوں اور کپڑوں کے، وہاںتمہارا خط پڑا تھا کہ مجھے ڈھونڈھنے کی کوشش کوئی نہ کرے۔ ایک شوپیس کی طرح زندگی گزارنے سے اچھا ہے کہ میں اپنے بچوں کو مضبوط اور خودمختار ماں کے روپ میں نظر آؤں۔ میں بلک بلک کر رویا تھا۔ نوری اُس دن زندگی میں پہلی بار میں رویا تھا میں۔ اس دن سے لے کر آج تک دیوانوں کی طرح تمہیں ڈھونڈھتا رہا۔” وہ اب بھی بلک بلک کر رو رہا تھا۔
”مگر آپ کو یہاں کا پتا کس نے دیا؟” نور کو ایک دم سے یاد آیا۔
”کچھ ہفتے پہلے ایک فون کال آئی تھی میری سیکرٹری کے پاس، وہ میرے آفس آئی اور یہاں کا ایڈریس دیا کہ کسی شخص نے میسج دیا ہے کہ آپ اپنا سب سے قیمتی پتھر اس پتے پر پائیں گے۔ یہاں پر آپ کو دو نایاب چھوٹے پتھر بھی ملیں گے جن کا زندگی میں کوئی نعم البدل نہیں۔ میں ایک دم ہی سمجھ گیا اور ضروری کارروائی کرنے کے بعد یہاں آگیا۔ میں دو دن سے یہاں تھا ہوٹل میں لیکن تمہارا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہورہی تھی مجھ میں۔ مگر آج میں نے تہیہ کرلیا تھا کہ میں آج اس پتے پر ضرور تم سے ملنے آؤں گا۔”
”بچے کہاں ہیں نور۔” ہارون نے پہلی دفعہ بچوں کا پوچھا۔
”ہاں؟” نور جیسے کہیں اور ہی تھی۔ اس نے ہارون کی بات نہیں سنی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ جوزف نے ایسا کیوں کیا اس کے ساتھ؟ کیوں ہارون کو اس کا پتا بتایا۔
”بچے! ہمارے بچے نور۔” ہارون نے بھیگی سی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔
”ہاں وہ پڑوس میں گئے ہیں، ابھی آتے ہوں گے۔ بلکہ آپ بیٹھیں میں ان کو بلاتی ہوں۔ وہ جلدی سے جوزف کے گھر کی طرف بھاگی۔ اس کا دروازہ کھلا تھا۔ وہ لوگ شاید ابھی ہی آئے تھے۔
”جوزف!” نور سے اور کچھ نہ بولا گیا۔
”ہاں وہ آگیا ہے شاید، تمہارے گھر کے باہر گاڑی کھڑی ہوئی میں نے دیکھی ابھی۔” جوزف سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا۔
”تم نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا جوزف؟ میں نے تو ابھی جینا سیکھا تھا۔” نور شکست خور وہ لہجے میں پوچھ رہی تھی۔
”تم جی نہیں رہی تھیں۔ تم اس کے بغیر پل پل مر رہی تھیں۔” جوزف کی آواز کہیں اندر سے آرہی تھی۔
”جوزف کیا تمہیں واقعی مجھ سے محبت ہوگئی ہے؟” نور اس پر نگاہیں ٹکائے پوچھ رہی تھی۔
”اسی شام جب تم دو سوٹ کیس رکھے گھر کا دروازہ کھول رہی تھیں۔” جوزف اب سنجیدہ نظر آرہی تھی۔
”جب کہ تمہیں پتا تھا کہ میں کسی اور…”
”مجھے خود پر اختیار نہیں رہا تھا۔”
”اور کیا تمہیں معلوم تھا کہ میں اُس کے پاس لوٹ جاؤں گی؟” نور کسی ہارے ہوئے کھلاڑی کی طرح اس سے پوچھ رہی تھی۔
”تمہارے دیس کی لڑکیاں ہمیشہ لوٹ ہی جاتی ہیں۔” اس کے لہجے سے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے وہ صدیوں کا تھکا ہوا ہو۔
”مت کرو ایسا ورنہ ساری عمر اذیت میں رہو گے۔” نور اب خود ہار جانا چاہتی تھی۔
”ارے نہیں! اب تو ان حسین یادوں کے سہارے زندگی گزارنا آسان ہو جائے گا۔” اس نے مسکرانے کی ناکام کوشش کی۔
”مگر میں…”
”جاؤ تم۔ میں الوداع نہیں کہوں گا۔ بچوں کو لے جاؤ۔ میں نہیں چاہتا کہ یہ سب روتے ہوئے ایک دوسرے سے الگ ہوں۔” اب جوزف کی آنکھوں میں بھی ننھے قطرے چمکنے لگے تھے۔
”میں تم سے کوئی ناطہ نہیں رکھوں گی۔ ہاں البتہ نئے سال پر کارڈ بھجواؤں گی تاکہ تمہیں میری خیریت معلوم ہوتی رہے۔” نور کی آنکھوں سے بھی آنسوؤں کی لڑی بہہ نکلی تھی۔
اور پھر وہ چلی گئی اس گھر سے، اس شہر سے، اس ملک سے، اس کی زندگی سے… سب سے دور
جنوری کی پانچ تاریخ کو جوزف کو ڈاک کے ذریعے کارڈ ملا تھا۔ سادہ سا کارڈ جس پر سفید پھولوں سے ”ہیپی نیو ایئر” لکھا ہوا تھا۔ اور اندر چار نام درج تھے۔
ازطرف
نور
ابراہیم
آمنہ
یوسف
اور جوزف کی آنکھیں چھلک پڑیں۔ نور نے اُسے اپنی زندگی میں پھر سے شامل کرلیا تھا۔

ختم شد

٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

زندگی تو باقی ہے — مائرہ قیصر

Read Next

دیکھ تیرا کیا رنگ کردیا ہے —- فہمیدہ غوری

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!