تم میرا نصیب نہ تھے — سلمیٰ خٹک

نور کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ جوزف کی مدد کیسے کرے۔ یہ اس کے لیے بہت آسان تھا۔ صرف ایک فون کرکے ہی اُس کے خاندان والے اُن بچوں کو ڈھونڈ سکتے تھے، مگر مشکل یہی تھی کہ وہ کسی کو بھی فون نہیں کرسکتی تھی۔ بہت سوچنے کے بعد ایک ہی حل اُسے نظر آیا۔
”معلوم نہیں کام یابی ملے گی یا نہیں مگر کوشش کرتی ہوں۔”نور نے سوچا۔
اُس نے سکول کے زمانے میں اُس کے ساتھ پڑھنے والے دو تین افغان لڑکے لڑکیوں کے نام فیس بک پر نکالے اور جس جس اسے کوئی اشارہ ملا ہوا، ان کو میسج کردیئے۔ ارغوان، دویا، مژگان، شاہ پور یہ کچھ نام تھے جو اس کے ذہن میں آئے تھے اور کسی زمانے میں اس کے ساتھ پڑھتے تھے۔ میسج کے بعد وہ بڑی بے تابی سے جواب کا انتظار کرنے لگی اور ہر پندرہ بیس منٹ بعد اپنا فیس بک کھولتی۔ دو تین دنوں میں اسے کافی میسجز آئے۔ جن میں زیادہ تر معذرت کے تھے۔ وہ بڑی مایوس ہوئی مگر رات گئے ایک میسج نے امید کا راستہ دکھایا۔ ”مژدہ لطیف” کے نام سے کسی نے اسے ٹیکسٹ کیا تھا اور بتایا کہ اُس کی کسی افغان سہیلی نے نور کا میسج اُسے فارورڈ کیا تھا۔ مژدہ افغانی پناہ گزینوں کی فلاح و بہبود کے لیے بنائی گئی ایک بین الاقوامی این جی او سے منسلک تھی۔ چند میسجز کے تبادلوں میں نور نے اسے جوزف اور اس کی ساری کہانی سنائی۔ چوں کہ وہ پشاور میں پلی بڑھی تھی اور مژدہ بھی ان علاقوں کو جانتی تھی جہاں پر کثیرتعداد میں افغانی کمیونٹی رہتی تھی تو نور کو لگا کہ جلد ہی اُن بچوں کا پتا مل جائے گا۔ اُسے اب صبح کا انتظار تھا تاکہ جوزف کو خوش خبری سنا سکے۔ مژدہ واقعی ہی ان کے لیے میں خوش خبری کا باعث بنی تھی۔
صبح بچوں کو سکول کے لیے لے جاتے وقت نور نے جلدی جلدی جوزف کو ساری بات بتائی اور مژدہ کا نمبر دیا تاکہ جوزف تفصیل سے اس سے بات کرے۔
مژدہ نے جوزف سے ان بچوں کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ جوزف کے پاس کچھ تصویریں تھیں جن میں وہ زمین پر فوجیوں کے لباس میں بیٹھا ہوا تھا اور دو بچے اس کے آس پاس کھڑے تھے۔ اس نے وہ تمام تصویریں بھی مژدہ کو ای میل کردیں۔ ساتھ میں اُن کے پھوپھا کا ایڈریس بھی۔
اب جوزف ہر روز مژدہ کے فون یا ای میل کا انتظار کرنے لگا۔ بار بار فون پر ای میل چیک کرتا، بار بار نور سے پوچھتا کہ وہ اتنا ٹائم کیوں لے رہی ہے۔ آخر کار خدا خدا کرکے تقریباً دو ہفتے بعد مژدہ کی ایک ای میل آئی۔ جوزف ہانپتا کانپتا نور کے گھر پہنچا تھا۔
”میری سمجھ میں نہیں آتا میں کیسے پڑھوں۔ معلوم نہیں کیا لکھا ہوگا۔ تم پڑھ کر سناؤ نور۔” جوزف نے فون کپکپائے ہاتھوں سے نور کی طرف بڑھایا۔
”ارے اچھی خبر ہوگی۔ چلو خود ہی کھولو۔” نور نے اس کا حوصلہ بڑھایا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

جوزف نے لرزتے ہاتھوں سے ای میل پڑھنی شروع کی۔
”ڈیئر جوزف!
دیر سے رابطہ کرنے پر معذرت خواہ ہوں۔ ہم اپنے طریقے سے ان بچوں کو اپنی تحویل میں لینا چاہتے تھے۔ ہم نے تمہارے ارسال کردہ پتے کی جانچ کرائی تو وہی شخص نکلا۔ پھر ہم نے خاموشی سے اُس کی نگرانی شروع کی۔ صبح پہلے وہ اپنے بچوں کو سکول چھوڑنے جاتا اور پھر گھر آکر اُن دونوں بچوں کو کسی مصروف شاہ راہ یا چوک پر چھوڑ جاتا ہے اور پھر رات گئے ان کو لینے آجاتا۔ ہم نے کئی دنوں تک اس کے اِس معمول کی ویڈیو ریکارڈنگ کی۔ اور پھر ایک ہفتہ پہلے اُسے گھیر لیا۔ پہلے پہل تو وہ نہ مانا اور دھمکیاں دینے لگا کہ وہ پاکستانی پولیس یا کورٹ وغیرہ جائے گا، مگر ثبوت دیکھ کر وہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ تمہارے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ بچے ہماری تحویل میں ہیں اور ہمارے شیلٹر ہوم (shelter home) میں دوسرے بچوں کے ساتھ ہیں۔ ایڈاپشن کے کاغذات، جو میں آج آپ کو بھجوا دیتی ہوں اس پر دستخط کردیں تو آگے کارروائی شروع کردی جائے گی۔ شکریہ
نوٹ: بچوں کو جب میں نے تصویریں دکھائیں تو انہوں نے فوراً تمہیں پہچان لیا اور خوشی سے چھلانگیں لگانے لگے۔ ہر وقت تمہارا پوچھتے ہیں کہ کب ہمیں لینے آئے گا۔ بچے تمہارا انتظار کررہے ہیں۔”
ای میل ختم کرتے ہی جوزف پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تو نور بے ساختہ ہنس پڑی۔
”جوزف کیا کررہے ہو؟ ساڑھے چھے فٹ سے نکلتے قد کے ساتھ یہ تم کیا بھاں بھاں کرکے رونے لگتے ہو۔ بچے نہیں تھے تو بھی رو رہے تھے۔ اب مل گئے تو بھی رو رہے ہو۔ ذرا کنٹرول کرو۔ گھر میں ڈیوڈ تم سے کیا سیکھے گا؟ میری تو چلو لڑکی ہے روتے ہوئے بری نہیں لگتی۔” نور اپنی ہنسی قابو کرتے ہوئے بولی۔
”میں میری اور ڈیوڈ سے یہی کہوں گا کہ پہلے اپنے حق کے لیے لڑو اور جب کام یابی ملے تو اُسے دل کھول کر اپنے سٹائل میں مناؤ۔” جوزف نے اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
”اچھا بابا ٹھیک ہے! اب یہ بتاؤ کہ بچوں کے لیے وہ لوگ تمہیں پاکستان بلائیں گے یا پھر بچے ادھر ہی بھیج دیں گے۔” نور نے پوچھا۔
”بس اب مژدہ سے بات کروں گا کہ جلد از جلد بچے پہنچ جائیں۔ خواہ مجھے جانا پڑے یا کوئی اور طریقہ اپنانا پڑے۔” جوزف نے جواب دیا۔
٭…٭…٭
اور پھر وہ دن آگیا جب بچوں نے جوزف کے گھر پہنچنا تھا۔ جوزف کو بس لندن میں اس این جی او کے دفتر کچھ ضروری ڈاکومنٹس کے ساتھ ایک دو چکر لگانا پڑے۔ مگر اسے پاکستان نہیں جانا پڑا تھا۔ ہاں البتہ اس این جی اونے بچوں کو ڈھونڈنے اور اب ٹکٹ کے خرچے کی مد میں ٹھیک ٹھاک پیسے لیے جوزف سے مگر جوزف کو کوئی پرواہ نہیں تھی۔ اس نے اپنا بیڈ روم لڑکیوں کے لیے سیٹ کیا اور دوسرا لڑکوں کے لیے، خود اپنے لیے اس نے نیچے لاؤنج میں بیڈ ڈال لیا۔ گھر کو اس نے غباروں سے سجایا اور فریج بچوں کی کھانے پینے کی چیزوں سے بھر دیا۔ نور نے بچوں کے لیے اپنی ڈشز یعنی کابلی پلاؤ اور چکن کا سالن بنایا۔
جب گاڑی محلے میں داخل ہوئی تو سب دم بہ خود اسے دیکھنے لگے۔ گاڑی میں سے پہلے ایک مرد نکلا اور پھر اس نے دروازہ کھول کر دو بچوں کو نکالا۔ وہ بچے تیز تیز نظریں گھما گھما اِدھر اُدھر کر دیکھ رہے تھے اور جوزف کو دیکھتے ہی وہ چیخ پڑے۔ وہ دونوں ہاتھ پھیلائے انہیں مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ اس لمحے تو سب کی آنکھوں میں آنسو آگئے جب وہ دونوں جوزف سے لپٹ گئے۔ کچھ کاغذات پر دستخط کرنے کے بعد وہ مرد چلا گیا اور جوزف، نور اور اُن کے بچے سب گھر کے اندر چلے گئے ان کے آنے پر کافی ہلا گلا کیا گیا اور سب نے ان بچوں کو گفٹس وغیرہ بھی دیئے وہ بچے بے حد خوش لگ رہے تھے۔
٭…٭…٭
نور سکول سے ابھی ابھی گھر آئی تھی۔ بچوں کا کوئی سالانہ فنکشن قریب تھا تو اسے تھوڑا لیٹ گھر جانا پڑتا تھا۔ وہ ابھی کپڑے تبدیل کرکے کچن میں آئی ہی تھی دروازے پر کہ دستک ہوئی۔ اس نے دروازہ کھولا تو جوزف آدھے درجن بچوں کے گھیرے میں کھڑا تھا۔
”بھئی راستہ دو۔ ان بچوں نے تو پاگل کرکے رکھ دیا ہے۔” چیختے چلاتے بچے بھی اندر داخل ہوئے اور پھر نور کو پتا چلا کہ جوزف کی حالت واقعی خراب تھی۔
”ڈیوڈ! تم میز سے ہٹ کر چھلانگیں لگاؤ، وہ گل دان ٹوٹ جائے گا۔”
”آمنہ! آمنہ کیا کررہی ہو۔ جاؤ ہاتھ پہلے دھوؤ۔ ابھی گارڈن میں مٹی میں کھیل رہی تھی۔”
”اور تم ابراہیم… نہیں، نہیں عزیزہ اُترو صوفے سے۔ یہ کوئی پارک تو نہیں۔
ان سب باتوں کے درمیان ببرک اس کے کندھوں پر چڑھا ہوا تھا اور اس کے سر پر ڈھول بجا رہا تھا۔
نور کا ہنس ہنس کر برا حال ہوگیا۔ جوزف نے مصنوعی غصے سے اُس کی طرف دیکھا۔ نور کو پتہ تھا کہ وہ اس ایک لمحے کو کتنا انجوائے کرتا تھا۔ وہ ان بچوں کے ساتھ ایک ایک پل کو بھرپور طریقے سے جینا چاہتا تھا۔ وہ بچے اُس کی کل کائنات تھے۔ خود اس نے کہا تھا کہ ایسے ٹائم گزر جائے گا اوریہ سب شادی، جاب، سٹڈیز کے سلسلے میں ایسے مصروف ہو جائیں گے اور پھر اس ٹائم کو اچھی یادوں کی شکل میں وہ یاد کیا کرے گا۔
”اچھا بس بس بہت ہوگیا، سب جاؤ اور اچھی طرح سے ہاتھ دھوکر آؤ۔ میں کھانا لگاتی ہوں۔ آج سب یہاں کھانا کھائیں گے۔” نور نے اعلان کیا۔ تو سب بچے خوشی سے شور مچاتے ہوئے ہاتھ منہ دھونے کے لاؤنج سے چلے گئے۔
جیسے ہی بچے نکلے، لاؤنج میں ایک دم سناٹا ہوگیا اور جوزف نے سکون کا سانس لیا۔
”پھر کہہ رہا ہوں شادی کرلو مجھ سے۔ یہ شیطان مجھ سے اکیلے نہیں سنبھالے جاتے۔” جوزف نے نور کو چھیڑتے ہوئے کہا۔
”شادی کی کیا ضرورت ہے، ابھی بھی تو سنبھال رہی ہوں نا۔ ایسے ہی چلتے رہنے دو۔ کچھ سالوں کی بات ہے پھر اپنی اپنی زندگیوں میں یہ لوگ مگن ہو جائیں گے۔” نور بھی آج موڈ میں تھی۔
”چلو ٹھیک ہے، مگر ان کے جانے کے بعد کیا خیال ہے؟ پھر تو ہم دونوں اپنے اپنے گھروں میں بوڑھے اکیلے اور بیمار پڑے ہوں گے۔ کیا پھر شادی کرو گی مجھ سے؟” جوزف نے مذاق مذاق میں ایک تلخ حقیقت سامنے رکھی تھی۔ نور خاموش رہی۔ اس سے کوئی جواب نہیں بن پایا تھا۔
٭…٭…٭
نور نے آج بریانی بنائی تھی۔ اس نے بریانی ایک ڈش میں نکالی اور اوپر ڈھکن رکھ دیا۔
”آج مجھے جوزف سے صاف صاف بات کرلینی چاہیے۔” نور نے گندے برتن سنک میں رکھتے ہوئے سوچا۔ وہ کئی دنوں سے جوزف سے بات کرنے کا سوچ رہی تھی مگر اس کی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ جوزف سے اس بارے میں کیسے بات کرے۔ اب اس کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی۔ لہٰذا آج اس نے جوزف سے دوٹوک بات کرنے کی ٹھانی۔
آج ہفتے کا دن تھا۔ گلی میں ایک اور نوجوان جوڑا کچھ ہفتے پہلے شفٹ ہوکر آیا تھا۔ ان کے دو بچے بھی تھے۔ بہت ملن سار کی فیملی تھی۔ آج ان کے چھوٹے بچے کی سالگرہ تھی تو نور اور جوزف کے بچوں سمیت انہوں نے گلی میں رہنے والے تمام بچوں کو دعوت دی تھی۔ سو بچوں کی غیر موجودگی میں جوزف سے بات کرنے کا نور کے پاس یہ اچھا موقع تھا۔
وہ بریانی کی ڈش لے کر باہر نکلی اور گھر کا لاک لگا کر جوزف کے گھر کی طرف چل دی۔ اسے پانچ چھ گھر چھوڑ کر اسی نوجوان اور نئے آنے والے پڑوسیوں کے گھر سے بچوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ اس گھر کے دروازے پر رنگ برنگے غبارے لگے ہوئے تھے اور "happy birthday” کا بڑا سا بینر بھی چسپاں تھا۔ پیچھے گارڈن میں انہوں نے بچوں کے لیے کافی گیمز انتظام کیا ہوا تھا۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہی ان کی نئی پڑوسن کیرن نے فون کرکے اس سے بچوں کی خوراک کے بارے میں پوچھا تھا۔ حالاں کہ نور نے بہت بتا دیا تھا کہ اس کے بچے صرف سبزی والا پیزا، چپس اور مچھلی کھا سکتے ہیں، مگر وہ بہت احتیاط پسند تھی اور نور کو فون کرکے ایک آئس کریم کا نام لے کر پوچھا کہ اس کے بچوں کو وہ کھانے کے بعد دے سکتی ہے یا نہیں؟ نور کو معلوم تھا کہ اس آئس کریم میں کوئی حرام چیز یا الکحل کی آمیزش نہیں ہوگی اس لیے اس نے کیرن کو اجازت دے دی کہ بچوں کو کھلا سکتی ہے۔ نور اب جوزف کے گھر کے سامنے پہنچ چکی تھی۔
اس نے جوزف کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ جوزف دروازے پر ایک دم جن کی طرح نمودار ہوا۔ وہ شاید کہیں جارہا تھا کیوں کہ اس نے کوٹ پہنا ہوا تھا۔ ”زبردست خوشبو ہے۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ ویک اینڈ پر تم ضرور کچھ نہ کچھ بنا کر بھیجتی ہو اور آج تو میں انتظار کرتے کرتے تھک گیا تھا۔” اس نے پلیٹ نور سے لی اور گھر کے اندر چلا گیا۔ نور کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ بات کہاں سے شروع کرے؟ کیسے شروع کرے؟ جوزف ایک بار پھر دروازے پر حاضر ہوگیا۔
”کوئی کام نہ ہو اور فارغ ہو تو ذرا واک کرنے چلیں؟ بچوں کے آنے میں ابھی گھنٹہ باقی ہے۔” جوزف نے اس سے پوچھا تو نور نے ہاں میں سر ہلایا۔ وہ فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے اپنی گلی سے نکل کر بڑی سڑک پر آگئے۔ سڑک کراس کرکے ایک چھوٹا سا پارک تھا جو صرف سبزے اور ایک واکنگ ٹریک پر مشتمل تھا۔
”تو پھر تم نے کیا سوچا ہے جوزف؟” نور نے اچانک پوچھا۔
”میرے خیال سے مارچ ٹھیک رہے گا۔ موسم کافی اچھا ہوتا ہے اور بچوں کی بھی سکول میں ایک ہفتے کی چھٹیاں ہوں گی۔” جوزف نے جواب دیا۔
”مارچ…؟ کس لیے…؟ میرا مطلب مارچ میں کیا کرنا ہے تم نے؟”نور نے حیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”بھئی ہماری شادی کے لیے مارچ ٹھیک رہے گا۔ ہاں تمہاری کوئی اور پلاننگ ہو تو بتاؤ۔” جوزف ویسے ہی سیریس چہرہ بنائے اس سے پوچھ رہا تھا۔
”اوہ میرے خدایا!” نور نے سر کو دائیں بائیں جھٹکتے ہوئے کہا۔
”میں بچوں کے بارے میں پوچھ رہی ہوں۔ اب تم نے انہیں ایڈاپٹ کرلیا ہے مگر کیا تم نے کبھی سوچا ہے کہ…” نور کو پھر سمجھ نہیں آئی کہ وہ کیا کہے۔
”کہ وہ مسلمان رہیں گے یا عیسائی بنیں گے۔ یہی پوچھنا چاہ رہی ہو تم؟” جوزف نے ایک دم سے اس کی مشکل آسان کردی تھی۔
”ہاں!” نور اور کچھ نہیں بولی۔
”نور ایک بات بتاؤ مجھے، تمہارے سکول میں ایک بچہ ہے ولیم۔ جس کا باپ نشئی ہے اور جو ہر دوسرے مہینے چھوٹی موٹی چوریوں کے الزام میں جیل چلا جاتا ہے۔ اس کی ماں ہے کسی بار میں کام کرتی ہے اور چوں کہ ساری رات کام کرکے گھر آتی ہے اور دن چڑھنے تک سوتی رہتی ہے تو اس بچے کا خیال کون رکھتا ہے؟” جوزف نے یک دم بات بدلتے ہوئے پوچھا۔
”جوزف! بچے تو بچے ہوتے ہیں مگر ولیم کا ذکر یہاں کہاں سے آگیا؟” نور کندھے اچکاتے ہوئے بولی۔ جوزف رک گیا اور نور کی طرف دیکھتے ہوئے بولا:
”ولیم کو دوپہر کو لنچ سکول میں مل جاتا ہے جس طرح دوسرے بچوں کو ملتا ہے، مگر ہر روز بلاناغہ بغیر کچھ بتائے اس کے بیگ میں چھٹی کے وقت کھانے کا ڈبہ کون رکھتا ہے؟” نور کو جھٹکا لگا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ یہ کام وہ بڑی راز داری سے کررہی ہے کیوں کہ آج تک نہ تو کسی سٹاف ممبر نے پوچھ گچھ کی اور نہ ہی ولیم کے گھر سے کسی نے اس ڈبے کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تھی۔
”تمہیں کس نے بتایا ہے یہ سب کچھ؟” نور نے نظریں چراتے ہوئے پوچھا۔
”بچوں نے، ولیم میری کے ساتھ پڑھتا ہے اور میری نے کئی بار تمہیں اس کے بیگ میں کچھ ڈالتے ہوئے دیکھا ہے۔ جب اس نے ولیم سے پوچھا تو اس نے سب کچھ بتا دیا مگر ساتھ میں سختی سے منع کردیا تھا کہ وہ کسی اور کو نہ بتائے کیوں کہ ہوسکتا ہے یہ کھانے کا ڈبہ اس سے چھین لیا جائے اور پھر وہ دوبارہ اسی طرح بھوکا رہنے لگے گا جس طرح کچھ مہینوں پہلے تھا۔” جوزف اسے تفصیلات سنا رہا تھا۔
نور کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ نور کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
”جوزف وہ بچہ ہے۔ اس کا حق ہے اچھا کھانا، اچھا پہننا، ایک اچھی زندگی گزارنا۔ مجھ سے اس کی حالت نہیں دیکھی جاتی۔ وہ ڈرا سہما سا بچہ منہ سے ایک لفظ نہیں بولتا مگر مجھے دیکھتے ہی اس کی آنکھیں چمک اٹھتی ہیں۔”
تو مت کھاؤ اس پر ترس۔ وہ تو عیسائی ہے کوئی مسلمان تھوڑی ہے۔ تم اتنا اس کا خیال رکھتی ہو۔” جوزف نے اب کی بار سخت لہجے میں اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
نور پہلے تو سمجھی نہیں۔ وہ یک ٹک جوزف کو دیکھے گئی مگر چند لمحوں بعد جیسے اسے ہوش آنے لگا۔ مگر وہ بھی اتنی آسانی سے ہار ماننے والی نہیں تھی۔ ”نہیں جوزف! تم بات کو کوئی اور رنگ دے رہے ہو۔ وہ انسانیت ہے جس کے ناطے ہم سب انسان ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔ انسانیت کو مذہب کے ساتھ مکس نہ کرو۔” اس نے جوزف کو سمجھانے والے انداز میں کہا۔
”فرض کرو ولیم تمہارے ساتھ رہنے لگے تو تم کیا کرو گی؟” وہ ایک دم اس کی طرف منہ کرکے بیٹھ گیا۔
”میں اسے ایک اچھی زندگی دینے کی کوشش کروں گی۔” نور اس اچانک سوال پر ایک دم گھبرا گئی۔
”اچھی زندگی سے تمہارا مطلب کیا ہے؟”
”وہی جو ایک عام انسان کی زندگی ہوتی ہے یعنی اچھا پہننا، اچھی خوراک، اچھی تعلیم، اچھائی اور برائی کا فرق وغیرہ۔”
”اور مذہب اچھی زندگی میں کہاں پر ہے۔” جوزف نے اس کے چہرے پر نگاہیں ٹکائے سوال کیا۔
”میں اس پر پابندی نہیں لگاؤں گی، اس کو اپنے مذہب کی پوری آزادی ہوگی۔ ہاں میرے ساتھ رہتے ہوئے وہ اسلام میں دل چسپی لینے لگے تو میں پوری دیانت داری کے ساتھ اس کا ساتھ دوں گی۔” نور نے ایک اعتماد کے ساتھ جوزف کو جواب دیا۔
”کمال ہے ہمارے خیالات کتنے ملتے جلتے ہیں۔” جوزف مسکرا دیا۔ اس نے اپنے کوٹ کی جیب میں سے ایک لفافہ نکالا اور نور کی طرف بڑھا دیا۔
”کیا ہے یہ؟” نور نے اس سے سوال کیا۔
”خود ہی دیکھ لو۔” جوزف نے کندھے اچکا کرکہا۔
سرسری سی نظر ان صفحات پر دوڑاتے ہوئے نور کو ایک اور خوش گوار حیرت کا جھٹکا لگا۔ یہ انگلینڈ کے بڑے بڑے شہروں میں موجود ”اسلامک سکولز” کے وہ خطوط تھے جنہیں جوزف نے ای میل یا ڈاک کے ذریعے رابطہ کیا تھا۔ انہوں نے جوابی خطوط میں اپنے سکول میں بچوں کے داخلے کے فارم اور انٹری ٹیسٹ کے بارے میں معلومات فراہم کی تھیں۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

زندگی تو باقی ہے — مائرہ قیصر

Read Next

دیکھ تیرا کیا رنگ کردیا ہے —- فہمیدہ غوری

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!