تم میرا نصیب نہ تھے — سلمیٰ خٹک

بچے تو دیوانے ہوئے جارہے تھے۔ جوزف اُن کو کیلیں لگانے اور رسیوں کی مدد سے ٹینٹ لگانے میں جتا ہوا تھا۔ نور نے کچن میں پاستہ بنایا۔ تقریباً دو گھنٹے کی مشقت کے بعد ٹینٹ لگ گیا تھا۔ کارپٹ ڈالنے کے بعد سب اپنا اپنا سیپلنگ بیگ لے آئے۔ کچھ کتابیں اور اپنے اپنے ٹارچ بھی انہوں نے اندر رکھ لئے۔ نور نے سب کو الگ الگ پلیٹس میں پاستہ دیا اور بچے خوشی خوشی کھانا کھانے لگے۔ اُس کے بعد جوزف نے باہر اسٹو پر کیتلی میں پانی گرم کرکے سب کے لیے ہاٹ چاکلیٹ بنائی۔ باہر موسم میں خنکی زیادہ ہوگئی تھی تو نور بچوں کے لیے کمبل لے آئی۔ ٹینٹ کے اندر بیٹھ کر سب نے اپنے اپنے چاکلیٹ کے مگ پکڑے ہوئے تھے اور زور و شور سے صبح ہونے والے فٹ بال میچ کا حال جوزف سے بیان کررہے تھے۔
رات گئے جب سب بچے تھک گئے اور نیند سے بے حال ہونے لگے تو نور نے انہیں ٹارچ بند کرکے سونے کے لیے کہا مگر اُسے یہ دیکھ کر ہنسی آگئی کہ کوئی بھی وہاں رات گزارنے کو تیار نہیں تھا۔ سب بیڈ روم میں سونے کی فرمائش کرنے لگے۔ نور نے بچوں کو اپنے اپنے کشن اور کمبل وغیرہ اوپر بیڈ روم میں لے جانے کی ہدایت کی۔ ابراہیم اور ڈیوڈ ایک کمرے میں جب کہ میری اور آمنہ نور کے کمرے میں ڈبل بیڈ پر سو گئے۔ اب نور نے جوزف کی طرف دیکھا۔
”میں یہیں نیچے لاؤنج میں صوفے پر سو جاؤں گا۔ تم میری فکر مت کرو۔” جوزف نے اس کی بات بھانپتے ہوئے کہا تو نور اسے گھورنے لگی۔
”اچھا بھئی دیکھو۔ میں بچوں کے بغیر نہیں سو سکتا اور اب اپنے گھر میں اکیلا تو بالکل نہیں۔ بس چپ چاپ یہاں صوفے پر سو جاؤں گا۔”
نور کو یہ بات بالکل پسند نہیں آئی، مگر کیا وہ کرتی؟ جوزف کے بچے سونے چلے گئے تھے ورنہ وہ ان کو جوزف کے ساتھ گھر ہی روانہ کردیتی۔
”اچھا ٹھیک ہے۔” نور نے بے دلی سے کہا اور اوپر چلی گئی۔
رات کا نہ جانے کون سا پہر تھا جب نور کی آنکھ کھلی۔ اُسے لگا جیسے قریب میں کوئی رو رہا ہو۔ اُس نے بیڈ پر لیٹی لڑکیوں کو دیکھا تو وہ آرام سے سو رہی تھیں۔ دوبارہ اُس نے سسکی کی آواز سُنی تو وہ ٹھٹھک گئی۔ دوسرے کمرے میں لڑکے بھی بے خود سوئے ہوئے تھے۔ وہ بے آواز چلتی ہوئی نیچے اُتر آئی۔ اُس کے ہاتھ پاؤں لرز رہے تھے اور دل کنپٹی میں زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اُس کے ہاتھ میں چھری تھی جو وہ رات کو اپنے کمرے میں رکھتی تھی۔ وہ لاؤنج کی طرف آئی تو دروازہ کھلا تھا۔ اُسے جوزف کی آواز سنائی دی جیسے کہ وہ بہت تکلیف میں ہو۔ وہ لاؤنج میں ڈرتے ڈرتے داخل ہوئی اور چھری پر اپنی گرفت مضبوط کرلی۔
سامنے صوفے پر جوزف آنکھیں بند کیے لیٹا ہوا تھا۔ وہ پسینے میں شرابور تھا اور چہرے پر تکلیف کے اثرات تھے۔ وہ کچھ بڑ بڑا رہا تھا مگر نور کو سمجھ نہیں آرہی تھی۔
”شاید کوئی برا خواب دیکھ رہا ہے جوزف۔” نور نے اس کی یہ حالت دیکھی تو اسے لگا وہ کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ رہا ہے۔
”جوزف! جوزف!” نور نے وہیں سے کھڑے کھڑے اُسے آواز دی مگر وہ بے خبر تیز تیز آواز میں کچھ کہنے لگا۔
”میں نے کیا ہے، میں قصور وار ہوں۔ مجھے معاف کردو۔ بچے، بچے کہاں ہیں؟ وہ بچے کہاں ہیں؟” جوزف اب باقاعدہ رو رہا تھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

نور نے جلدی سے میز پر پڑی پانی کی بوتل سے اُس پر کچھ چھینٹے مارے تو جوزف ایک دم سے ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔ وہ تیز تیز سانسیں لے رہا تھا۔پھر اس نے نور کو دیکھا اور ہاتھوںمیں منہ چھپا کر رونے لگا۔ نور گھبرا گئی۔ اسے کچھ نہ سوجھا وہ تو جوزف کے قریب دوسرے صوفے پر بیٹھ گئی۔ اس نے پانی کا گلاس اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
”جوزف، کچھ نہیں ہے۔ صرف خواب تھا۔ تم برا سپنا دیکھ رہے تھے۔ لو پانی پی لو۔” نور جو خود بھی ڈری ہوئی تھی، جوزف کو حوصلہ دیتے ہوئی بولی۔
جوزف نے ایک ہی سانس میں سارا گلاس ختم کردیا۔ اُس کے اوسان بحال ہو رہے تھے، وہ خواب کی کیفیت سے نکل رہا تھا۔ ارد گرد نظر دوڑانے کے بعد اس نے نور کی طرف دیکھا۔
”کل رات بچوں نے باہر کیمپنگ کی فرمائش کی تھی اور اب سارے آرام سے اوپر سو رہے ہیں۔ ” نور نے سکون سے جوزف کو بتایا جو بڑی تیزی سے اپنی حالت کو کنٹرول کرنے کی کوشش کررہا تھا۔
”تم کافی پیو گے؟ میں اپنے لیے بنانے جارہی ہوں۔” نور نے کہا اور اُٹھ کر کچن کی طرف چل دی۔ اُس نے دو مگ لیے اور پانی گرم کرنے کے لیے رکھ دیا۔ وہ الماری سے کافی اور چینی نکال رہی تھی کہ پیچھے سے جوزف کے کھنکھارنے کی آواز آئی، وہ کرسی پر بیٹھ گیا اور ڈائیننگ ٹیبل پر دونوں ہاتھ ٹکا کر سر جھکائے اپنی انگلیوں کو مروڑنے لگا۔ نور نے کافی کا مگ اُس کے سامنے رکھا اور اپنا مگ لے کر اس کے سامنے والی کرسی پر براجمان ہوگئی۔
”کیا تم مجھے اپنا خواب بتانا چاہو گے؟” نور نے جوزف سے پوچھا جس کے جواب میں وہ خاموش رہا۔
”کوئی ایسی بات جو تم سمجھتے ہو کہ مجھ سے شیئر کرسکتے ہو؟” نور نے ہمت نہ ہاری۔ اُسے جوزف ایک چھوٹے بچے کی طرح لگا جس کے دل میں کوئی خوف ہوتا ہے اور جو اُس ڈر کی وجہ سے بے حد پریشان ہوتا ہے۔ وہ چاہتی تھی کہ جوزف کھل کر اپنا ڈر بیان کرے یا پھر وہ بات جو وہ دل میں دبائے بیٹھا ہے تاکہ اُس کے دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے۔
جوزف نے کافی کا ایک چھوٹا سا گھونٹ لیا اور پھر بات شروع کی۔
٭…٭…٭
میں کابل سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ایک گاؤں میں اپنے ٹینٹ میں بیٹھا ہوا تھا۔ ہمیں اطلاع ملی تھی کہ ایک دہشت گرد آج رات اپنے گھر والوں سے ملنے چوری چھپے آئے گا۔ میں نے اپنے ساتھ تقریباً دس بارہ آدمیوں کو تیاری کا حکم دیا۔ میرا ترجمان جس کا نام حلیم جان تھا میرے ساتھ تھا۔ وہ ہر پٹرولنگ پر میرے ساتھ ہوتا تھا۔ وہ دن کے وقت ہمارے ساتھ منہ ڈھانپ کر چلتا تھا تاکہ کوئی اُسے پہچان نہ لے۔ وہ بہت شریف انسان تھا۔ رات کے تقریباً سوا ایک بجے ہم اپنی جیپ میں نکلے اور مخبر کے بتائے ہوئے گھر سے تھوڑی دور اُتر گئے۔ رات کی تاریکی میں بے آواز چلتے ہوئے ہم نے مذکورہ گھر کا گھیراؤ کیا۔ اندر سے تیز تیز باتوں کی آواز آرہی تھی۔ کوئی عورت تھی جو روتے ہوئے کچھ کہہ رہی تھی۔ حلیم جان کو جتنی سمجھ آرہی تھی وہ مجھے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں ترجمہ کرکے بتائے جارہا تھا۔ وہ عورت شاید اُس شخص کو منع کررہی تھی کہ معذوروں جیسی زندگی چھوڑ دے۔ اپنے بچوں اور بوڑھی ماں کا خیال کرے جو ہر روز جیتے ہیں اور مرتے ہیں۔ ہر وقت یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اُس کے مرنے کی خبر اب آئی کہ اب آئی۔
”نیک بختِ! موت نہیں شہادت کہو شہادت۔” اچانک ایک مرد کی بھاری بھرکم آواز آئی۔
مگر وہ عورت کچھ نہیں سن رہی تھی۔ میں نے اپنے ساتھی کو اشارہ کیا کہ دروازہ توڑ کر اندر داخل ہو جائے۔ ہم جیسے ہی اندر داخل ہوئے تو سامنے کمرے بنے ہوئے تھے، جس میں ایک کمرے کے دروازے پر وہ مرد ہاتھ میں ایک پوٹلی لیے جانے کے لیے تیار کھڑا تھا جب کہ اُس کی بیوی اُسے بچوں اور بوڑھی ماں کا واسطہ دے کر اسے وہیں رُکنے پر اصرار کررہی تھی۔
”ہمارا کیا ہوگا کبھی سوچا ہے تم نے میں کیا کروں گی؟ بچوں کی طرف دیکھو اور نہیں تو کم از کم اس عمر میں اپنی ماں کا ہی خیال کرلو۔ سنو دونوں کام کریں گے اور جو بھی تھوڑا بہت محنت سے کمائیں گے اس میں چین و سکون سے زندگی گزاریں گے۔” حلیم جان مجھے مسلسل ترجمہ کرکے بتا رہا تھا۔
”ہمارے اندر داخل ہوتے ہی وہ دوڑ کر دیوار پھلانگنے کی کوشش کرنے لگا اور اسی اثناء میں میرے ایک سپاہی نے فائر کھول دیا جس سے وہ شخص اور اس کی بیوی موقع پر ہی ہلاک ہوگئے۔ ساتھ ہی میں نے ایک دل دوز چیخ سنی، پیچھے دیکھا تو دوسرے کمرے کے دروازے پر ایک کمزور سی بوڑھی عورت دو بچوں کو لے کر کھڑی تھی۔ بچے شاید سو کر اٹھے تھے اس لیے آنکھیں مسلنے کے ساتھ ساتھ رو رہے تھے۔ وہ بوڑھی عورت بچوں کو چھوڑ کر اس سپاہی پر چڑھ دوڑی جس کی فائرنگ سے اس کا بیٹا اور بہو مارے جاچکے تھے۔۔ وہ ناتواں عورت تھی، فوجی نے اپنے مضبوط جوتے سے اسے پرے دھکیل دیا۔ وہ درد سے کراہ اٹھی اور پھر اپنے بیٹے اور بہو کی لاش پر بین کرنے لگی۔ وہ چھوٹے بچے بھی اب اس سے لگ کر رو رہے تھے۔ نور میں اس جگہ پر بت کی طرح ساکت ہوگیا تھا۔ سارے فوجی ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہوئے جیپ کی طرف چل دیئے۔ جب کہ میرے پیروں سے جان نکل چکی تھی۔”
حلیم جان مجھے کھینچنے لگا مگر میں گھٹنوں کے بل گر گیا۔ وہ بوڑھی عورت اب بالکل خاموش تھی مگر اس کی آنکھوں سے چنگاریاں برس رہی تھیں۔ وہ اٹھی میرے قریب آئی اور مجھ پر تھوکا۔
”حلیم جان یہ کیا کہہ رہی ہے؟” میں نے حلیم جان سے پوچھا مگر وہ مجھے زبردستی اٹھا کرباہر لے جانے لگا۔
”کچھ نہیں سر! کچھ نہیں کہہ رہی۔” وہ منہ میں پشتو میں کچھ بڑبڑا رہا تھا۔حلیم جان مجھے اٹھاکر باہر لے جانے لگا۔ میری ٹانگوں نے بالکل جواب دے دیا تھا۔ میں مڑ کر نہیں دیکھنا چاہتا تھا جہاں دو لاشیں پڑی تھیں اور ان کے سامنے دو معصوم بچے۔ ایک بزرگ خاتون کو میری وجہ سے اس عمر میں اپنے جوان بیٹے کی لاش دیکھنا پڑی۔ وہ بچے جن کو کھلونوں، پھولوں، کتابوں اور تتلیوں سے کھیل کر بڑا ہونا تھا وہ میری وجہ سے ایک اندوہ ناک بچپن کے تجربے سے گزرنے لگے۔ بندوق، خون، خوف جیسی چیزوں سے روش ناس ہونے لگے۔ اپنے کیمپ تک آتے آتے میری بری حالت ہوگئی تھی۔ تین چار دن میں بخار میں تپتا رہا۔ کچھ ہوش نہ رہا مگر سکون بھی نہ تھا۔جب تھوڑی حالت سنبھلی تو حلیم جان کی منت کی کہ مجھے ان بچوں کے گھر لے چلے۔ کچھ پس و پیش کے بعد وہ مجھے جیپ میں بٹھا کر لے گیا۔ اس گھر کے سامنے پہنچ کر اس رات ہونے والے خوف ناک حادثے نے مجھے پھر سے بری طرح سے گھیر لیا۔ میں نے دل کو مضبوط کیا اور اندر داخل ہوا۔ میرے ہاتھ لرز رہے تھے۔ میں ایک فٹ بال، ایک گڑیا اور کچھ کھانے کا سامان لے کر اندر داخل ہوا۔ گھر ویسے کا ویسا ہی تھا۔ ہاں صحن کے ایک کونے میں دیوار کے سائے میںچارپائی ڈالے وہ عورت لیٹی ہوئی تھی اور دونوں بچے اس کے پاؤں کی طرف سہمے ہوئے اس سے چپک کر بیٹھے ہوئے تھے۔ میرا دل ایک دم سے بند ہونے لگا۔ میں مر جانا چاہتا تھا۔ کہیں دور بھاگ جانا چاہتا تھا۔
میں آہستہ آہستہ ان کی طرف بڑھا۔ بچے اور بھی اپنی دادی سے لپٹ گئے تھے۔ وہ آج چیخ نہیں رہی تھی۔ بس مجھے خالی خالی آنکھوں سے دیکھے جارہی تھی۔ میں گھٹنوں کے بل چارپائی کے قریب بیٹھ گیا۔
”سوویت لڑائی نے مجھ سے میرا شوہر اور بھائی چھین لیے تھے۔ تم لوگوں نے میرا بیٹا اور بہو چھین لیے۔ ابھی سے بتا دو میرے پوتے پوتی کو چھیننے کون سا ملک انتظار کررہا ہے اپنی باری کا۔” اس نے لیٹے لیٹے ہی پوچھا۔ اس کی آواز میں کسی قسم کا کوئی جذبہ نہیں تھا۔ نہ شکوہ، نہ شکایت نہ طنز نہ ڈر۔ شاید جنگوں کے درمیان پلتے ہوئے وہ ان سب احساسات سے عاری ہوگئی تھی۔ میں سر جھکائے بیٹھا رہا، کچھ کہہ نہ سکا۔ ہاں بچوں کی دبی دبی آوازیں آرہی تھی۔ میں نے ان کی طرف دیکھا تو وہ میرے ہاتھ میں پکڑے ہوئے کھلونوں کو دیکھ رہے تھے۔ میں نے جیسے ہی وہ چیزیں ان کی طرف بڑھائیں، ان کی دادی ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی اور چیزوں کو دور پھینک دیا۔
”چلے جاؤ یہاں سے! اب ان چیزوں سے بہلاؤ گے؟ ماں باپ چھین کر اب بے جان چیزوں سے مداوا کرو گے؟ تم کیا جانو۔ اے گوروں کے پالتو کتوں! لے جاؤ اس صاحب کو۔” اس نے حلیم جان کی طرف دیکھ کر کہا۔
نور بے حد خاموشی سے اسے سنتی رہی۔ درمیان میں اس نے اسے کہیں نہیں ٹوکا، کوئی چھوٹا سا لفظ تک نہیں کہا۔ اُسے معلوم تھا کہ اصلی جوزف جو ابھی اُس کے سامنے بیٹھا ہے اس کی ایک چھوٹی سے جنبش سے واپس اپنے لا ابالی، لاپروا جوزف کے خول میں چلا جائے گا۔ مگر وہ خود ہی بولتا رہا جیسے اُسے ڈر ہو کہ نور کہیں اُسے ٹوک نہ دے۔
”مگر میں نے ہمت نہ ہاری۔ میں دوسرے دن اپنے کام نپٹا کر دوبارہ ان کے پاس گیا۔ اب کی بار میں ٹافیاں اوربچوں کے لیے ٹوپیاں لے کر گیا۔ ان کی دادی نے پھر مجھے سنائیں۔ مگر مجھے سکون ملتا تھا جب وہ مجھے بُرا بھلا کہتیں۔ پھر وہاں جانا میرا معمول بن گیا۔ ہر تین چار دن بعد میں اُن کی طرف چکر لگاتا تھا۔ گھر کی چھوٹی موٹی چیزیں لے جاتا۔ ڈبل روٹی، پنیر، خشک فروٹ۔ اب ان کو بھی میری عادت ہوگئی تھی۔ اب وہ لوگ بھی میرا انتظار کرتے۔ پھر ایک دن میں ان کے ہاں گیا تو اس کی بیٹی اور داماد آئے ہوئے تھے۔ وہ اپنے بھائی اور بھابھی کی موت کا سن کرپشاور سے آئے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی وہمنہ پھیر کر کمرے کے اندر چلے گئے۔ حلیم جان سے مجھے پتا چلا کہ وہ دونوں پشاور میں رہتے ہیں اور اب ان تینوں کو لے جانے آئے ہیں۔ دادی نہیں جانا چاہتی تھی، وہ بیٹے کے قریب دفن ہونا چاہتی تھی مگر بچوں کو اس کے ساتھ بھیجنے پر راضی ہوگئی تھی کہ اس کے بعد بچوں کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔”
”مجھے اس کا داماد ٹھیک آدمی نہیں لگا تھا مگر میں کیا کرتا، وہ ان بچوں کا رشتہ دار تھا۔ اُس کا حق زیادہ تھا۔ اور پھر میں کون تھا؟ ایک غیر مذہب کا بندہ جو زبردستی ان کے ملک میں بیٹھا ہوا تھا۔ میں وہاں سے واپس آگیا مگر دل کو قرار نہیں آیا۔ حلیم جان کی زبانی مجھے پتا چلا کہ وہ بچے چلے گئے ہیں۔ میں ان کی دادی کی طرف جانا چاہتا تھا مگر اچانک ایک بڑے آپریشن کے لیے ہمارے یونٹ کو بلا لیا گیا اور میں ان سے مل نہ سکا۔
اُسی آپریشن کے دوران مجھے تین گولیاں ٹانگ پر لگیں اور لڑکھڑا کر گرنے سے ایک جگہ سے ہڈی ٹوٹ گئی۔ مجھے اپنے کیمپ میں ابتدائی طبی امداد دے کر پشاور بہ ذریعہ ہیلی کاپٹر روانہ کردیا گیا۔ جہاں دو دن ہسپتال میں رہ کر میرے انگلینڈ جانے کا انتظام کیا گیا۔ یہاں میرا علاج ہوا اور ہسپتال سے فارغ ہونے کے ساتھ ساتھ جاب سے بھی فارغ کردیا گیا۔
لندن کے ایک خوب صورت اور مہنگے علاقے میں میرا گھر تھا مگر میرا گھر ایک جہنم بن گیا۔ میں پلاسٹر لگے ٹانگ کے ساتھ اپنے بیڈ پر چت پڑا رہتا اور نیچے میری بیوی برتن پٹختی رہتی اور زور زور سے دل جلانے والی باتیں کرتی۔ اُسے اب میں ایک بوجھ لگنے لگا تھا۔ کیوں کہ اب صرف اس کی جاب سے ہی گھر چل رہا تھا۔ بچے بھی خوف زدہ سے رہتے۔ اُسے فکر ہونے لگی کہ شاید اب ساری زندگی ایک بیڈ پر بڑے معذور شوہر کی خدمت کرتے ہوئے گزر جائے گی۔ بچوں پر چیخنا چلانا، مجھ سے بدتمیزی سے بات کرنا اس کا ایک معمول بن گیا تھا۔ بچوں کے سکول سے آنے کے بعد شام کو میری بیوی کے گھر میں داخل ہونے تک کا ٹائم میرے اور میرے بچوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ جس میں ہم جی بھر کر باتیں کرتے اور اچھا وقت گزارتے، مگر پھر اُس نے حد کردی۔ وہ کسی اور کو گھر لانے لگی اور راتیں بھی باہر گزارنے لگی۔ بچوں پر اس کا بے حد برا اثر پڑ رہا تھا۔ اس نے مجھے صاف کہہ دیا تھا کہ وہ مجھ جیسے معذور اور بے کار شخص کے ساتھ اپنی زندگی برباد نہیں کرسکتی۔
میری فزیو تھراپی جاری تھی جس کی وجہ سے میں مجبور تھا اور اس گھر میں رکا ہوا تھا۔ وہ چند مہینے میں نے بڑے عذاب میں گزارے، مگر جیسے ہی میں تھوڑا چلنے پھرنے کے قابل ہوا تو میں نے بھی تمہاری طرح کونسل کے گھر کے لیے اپلائی کردیا۔ چوں کہ میں ایکس آرمی (Ex-Army) بندہ تھا تو کونسل والوں نے بھی تھوڑی خاطر کی اور جب دو تین مختلف علاقوں میں گھر کی آفر کی تو میں نے یہ والا منتخب کرلیا۔ بچوں سے وہ خود جان چھڑانا چاہتی تھی تو پھر میں بچوں کے ساتھ یہاں آگیا۔ اس سارے عرصے میں وہ دو بچے بالکل میرے ذہن سے نکلے ہوئے تھے۔ مگر جب زندگی معمول پر آئی تو اُن دو بچوں کا خیال کسی آسیب کی طرح مجھ سے چمٹ کر رہ گیا۔ میں جو سارا سارا دن اپنے آپ کو بے حد مصروف رکھتا ہوں وہ اسی لیے تاکہ بے خبر سو سکوں اور وہ بچے مجھے یاد نہ آئیں۔”
”ہو سکتا ہے وہ پشاور میں اچھی زندگی گزار رہے ہوں۔” نور پہلی دفعہ بولی۔
”نہیں! بالکل نہیں۔ میں نے یہاں آکر ایک دفعہ حلیم جان سے فون پر بات کی تھی۔ اس نے مجھے بتایا کہ جو لوگ پشاور سے آتے جاتے ہیں ان میں سے کسی کی زبانی اسے معلوم ہوا کہ ان بچوں کا پھوپھا ان سے پشاور کی معروف شاہ راہوں پر بھیک منگواتا ہے۔” جوزف کی آواز میں درد تھا۔
”یا اللہ!” نور منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔
دونوں کچھ لمحے اسی طرح خاموشی سے اپنی اپنی سوچوں میں ڈوبے رہے۔
”اب تم کیا چاہتے ہو؟” آخر کار نور نے اس سے پوچھا۔
”میں ان بچوں کو ڈھونڈ کر یہاں لانا چاہتا ہوں، ایڈاپٹ کرنا چاہتا ہوں انہیں۔” جوزف نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر نور کو بتایا۔
”مگر کیسے؟” نور نے حیرانی سے پوچھا۔
”حلیم جان بتا رہا تھا کہ پشاور میں کوئی افغان کالونی کے نام سے جگہ ہے جہاں پر اُس شخص کا گھر اور کرائے پر لیا گیا ایک جنرل سٹور۔ بس اب کوئی ایسا مل جائے جو وہاں جا کر ان سے بات کرے۔ وہ لالچی شخص ہے اور مجھے معلوم ہے کچھ پیسوں کا لالچ دے کر وہ بچے اس کے حوالے کردے گا۔” جوزف نے اسے تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا۔
”تو اب رکاوٹ کیا ہے؟” نور نے قدرے دھیمے لہجے میں اس سے پوچھا۔
”ہماری گورنمنٹ! شاید وہ مجھے افغانی بچے ایڈاپٹ کرنے نہ دیں۔ مبادا ہر دوسرا فوجی ہی کام نہ کرنے لگے۔” جوزف نے تلخ لہجے میں کہا۔
”تم فکر نہ کرو۔ ہم کوئی راستہ ڈھونڈ لیں گے۔” نور نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ مگر اُسے خود معلوم نہ تھا کہ وہ کیسے جوزف کی مدد کرے گی۔
”کافی کے لیے شکریہ!” جوزف اب کچھ ہلکا محسوس کررہا تھا۔
کمرے میں صبح کی روشنی آہستہ آہستہ ابھرتی چلی جارہی تھی۔ وہ دونوں اپنی اپنی سوچوں میں غلطاں بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک نے اپنا دکھ درد بیان کردیا تھا مگر دوسرے نے ابھی تک اپنے آپ کو خول میں چھپا کر رکھا ہوا تھا۔ شاید وہ چوٹ زیادہ کھائے ہوئے تھا یا پھر واقعی ایک پرانی کہاوت کے مطابق عورت ایک سمندر کی مانند ہوتی ہے جس میں کتنے ہی رازد فن ہوتے ہیں، مگر اوپر سے وہ پرسکون لہروں کی طرح دکھائی دیتی ہے۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

زندگی تو باقی ہے — مائرہ قیصر

Read Next

دیکھ تیرا کیا رنگ کردیا ہے —- فہمیدہ غوری

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!