وہ ناک کی سیدھ میں چلتی گئی، تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے اپنے گھر کی طرف۔ اپنی جائے پناہ کی طرف۔ جہاں پر وہ دنیا کی نظروں سے چھپ کر بیٹھ سکتی تھی۔ وہ پیدل گھر پہنچی اور میکانکی انداز میں دروازہ کھولا۔ چابیاں اور پرس کچن ٹیبل پر رکھیں۔ اسکارف اتارا، کافی بنانے کے لیے کیتلی میں پانی رکھا اور واش روم چلی گئی۔ شیشے کے سامنے اسکارف اتارتے ہوئے اُس نے اپنے آپ کو دیکھا اور ایک دم دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔
اس پندرہ سیکنڈ کے واقعے کے دو گھنٹے بعد وہ اب روئی تھی۔ اتنے میں دروازے پر بیل ہوئی۔ اُس نے دروازہ کھولا تو سامنے بچے کھڑے تھے۔ شاپنگ بیگز اُن کے ہاتھوں میں تھے۔
”ممی کہاں چلی گئی تھیں آپ؟ جوزف لینے آیا تھا ہمیں۔ اُس کی شرٹ پھٹی ہوئی تھی اور ناک سے خون بھی بہہ رہا تھا۔ وہ ہمیں گاڑی میںبٹھا کر آپ کو مختلف سڑکوں پرتلاش کرتا رہا ۔ بار بار فون بھی کررہا تھا۔” آمنہ نے گھبراہٹ کے عالم میں جلدی جلدی اپنی ماں سے پوچھا۔
”کہیں نہیں، میں گھر جلدی آگئی تھی۔ تھوڑی طبیعت خراب ہوگئی تھی بس۔ آجاؤ تم لوگ۔ اس نے بچوں سے اپنی حالت چھپانے کی کوشش کی جس میں وہ کسی حد تک کام یاب بھی رہی تھی۔
اور پھر اتوار کی صبح ہوگئی۔ دن چڑھا، گھر کے کام، بچوں کا ہوم ورک، استری، پورے ہفتے کا کھانے کا مینیو بناتے شام ہوگئی۔ کتنی عجیب بات ہے کہ قدرت کا قانون چلتا ہی رہتا ہے چاہے کسی پر قیامت ہی گزر جائے مگر وہ کسی کی پرواہ ہی نہیں کرتا۔ روشن دن کے بعد رات ہوتی ہے، ایک نئی روشن صبح کا استقبال کرنے کے لیے۔ سیاہی سے روشنی کو جنم دینے کے لیے۔
پیر کے دن صبح ہی صبح جوزف بچوں کو جلدی جلدی سکول کے لیے تیار کر رہا تھا کہ دروازے پر ابراہیم اور آمنہ کی آوازیں آنے لگیں۔ ہر صبح یہی معمول تھا۔ نور چاروں بچوں کو سکول لے کر جاتی تھی جب کہ چھٹی کے ٹائم جوزف کی ڈیوٹی ہوتی تھی کیوں کہ نور کو سکول میں ٹیچرز کے ساتھ رُکنا پڑتا تھا۔
جوزف کو اس بات کی توقع نہیں تھی۔ اُس کے بچے اپنے بیگ اور لنچ باکس سنبھالتے ہوئے باہر نکل گئے۔ وہ بھی پیچھے پیچھے ہولیا۔ اُس کا دل بے ترتیب انداز میں دھڑک رہا تھا۔ نور کا سامنا کرتے ہوئے اس نے پہلے کبھی بھی خود کو اتنا کم زور محسوس نہیں کیا تھا۔ وہ سامنے کھڑی تھی۔ سفید شرٹ کے ساتھ لمبی بلیک سکرٹ، اور بلیک اینڈ وائٹ لکیروں والا اسکارف پہنے۔ چھوٹا سا ہینڈ بیگ ہاتھ میں اٹھائے وہ جوزف کے بچوں کو بڑی خوش دلی سے ”گڈ مارننگ” کہہ رہی تھی۔ جب بچے فٹ پاتھ پر آگے بڑھے تو پہلی دفعہ اُس نے نظر اُٹھا کر جوزف کی طرف دیکھا اور زندگی سے بھرپور مسکراہٹ اُس کے چہرے پر بکھر گئی۔ اس نے ہوا میں ہاتھ لہرایا اور بلند آواز میں کہا ”شکریہ میرے ہیرو۔” اور جلدی جلدی سے بچوںکے پیچھے ہولی۔
جوزف حیران پریشان کھڑا رہ گیا۔ پھر دروازے پر پڑا اخبار اٹھا کر اندر چلا گیا۔ پہلے صفحے پر ہی اُسے نور کی مسکراہٹ کا جواب مل گیا۔ یہ مقامی اخبار تھا جو ہر پیر کو شائع ہوتا تھا۔ ہفتہ وار اخبار میں اس چھوٹے سے قصبے کی تمام خبریں شائع ہوتی تھیں اور اگلے ہفتے ہونے والے ایگزی بیشن کوئی سپورٹس ڈے، کسی چرچ میں خاص سروسز وغیرہ کے بارے میں بھی شائع ہوتا تھا۔
ایک خبر میں جوزف کو ہیرو کے نام سے بلایا گیا تھا۔ جس نے ایک مسلمان لڑکی کو ہراساں کرنے والے تین لڑکوں کی ٹھکائی کی تھی۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
زندگی پھر معمول پر آگئی تھی۔ زندگی ہمیشہ معمول پر آجاتی ہے۔ چاہے کسی پر کچھ بھی گزر جائے لیکن زندگی معمول پر آجاتی ہے۔ کبھی دوسرے ہی دن، کبھی دو تین مہینے بعد یا پھر کچھ سالوں بعد، مگر ایک بات طے ہے، زندگی آپ کو معمول پر لے آتی ہے۔ جوزف نے ایک دو دفعہ اس موضوع پر بات کرنے کی کوشش کی مگر نور نے صاف منع کردیا۔ البتہ اُس نے جوزف کو بتایا کہ وہ اب کتنا بے خوف محسوس کرتی ہے۔ وہ ان دیکھا ڈر، وہ خوف اس واقعے کے بعد بالکل ختم ہوگیا ہے اور جوزف نے بھی محسوس کیا کہ وہ اب ڈر ڈر کر یا جھجھک جھجھک کر بچوں کے ساتھ باہر نہیں جاتی تھی، بلکہ اس کے اندر اب ایک اعتماد آگیا تھا۔
اس واقعے کو ابھی ہفتہ بھی نہ ہوا تھا کہ ایک شام بڑی سی کالی گاڑی اُس کے گھر کے سامنے آکر رکی۔ دو مرد فارمل بلیک سوٹ میں گاڑی سے اُترے، اس کا دروازہ کھٹکھٹایا اور نور کے کھولنے پر بے حد سرد انداز میں اپنے کارڈ دکھائے۔ وہ اندر آئے اور نور سے پوچھ گچھ کرنے لگے۔ نور بے حد گھبرا گئی اور ایکسکیوز کرکے لاؤنج سے اوپر چلی آئی اور جوزف کو فون کیا۔ کچھ لمحوں میں جوزف بھی لاؤنج میں اُن کے ساتھ لاؤنج میں بیٹھا تھا، جب کہ نور نے بچوں کو جوزف کے گھر بھیج دیا تھا۔
”مسز نور خان زد گئی! ہم جاننا چاہتے ہیں کہ مسٹر جوزف گڈ وِل کے ساتھ آپ کا کیا تعلق ہے؟” ان مردوں میں سے ایک نے سرد اور سپاٹ لہجے میں پوچھا۔
”ہم پڑوسی ہیں اور ہمارے بچے ایک ہی سکول میں پڑھتے ہیں تو ہم بڑے اچھے ”تعلقات” رکھنے والے پڑوسی ہیں۔” نور نے بے حد پُرسکون انداز میں کہا۔ وہ شاید جوزف کے ہونے سے خود کو بہت محفوظ محسوس کررہی تھی۔
”ہم نے آپ کے بارے میں معلومات کرائی ہیں اور ہمیں پتا چلا ہے کہ آپ پاکستان میں ایک بہت اثر و رسوخ والے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ تو پھر یہاں اس دور دراز قصبے میں گم نام زندگی بسر کرنے کی وجہ؟” دونوں مردوں میں سے جو تھوڑا فربہ اور بڑی عمر کا لگ رہا تھا، نے پوچھا۔
”جب آپ کو سب پتا ہے تو مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہیں؟” نور نے سرد مہری سے جواب دیا۔
”جو وجہ آپ نے پناہ لینے کے لیے بیان کی ہے، اُس کے مطابق آپ کا شوہر، سسرال اور آپ کے اپنے گھر والے سب آپ کی جان لینے کے در پر ہیں۔ ایسا کیا کیا ہے آپ نے کہ نہ آپ کے والدین اور نہ ہی آپ کا شوہر آپ کو قبول کرنے پر راضی ہیں؟” اسی شخص نے اسی سرد مہری سے اگلا سوال کیا۔
”میں وجہ بیان کرنے کی مجاز نہیں۔ مجھے لگا کہ انہیں میری کوئی ضرورت نہیں۔ میں محض ایک شوپیس ہوں جس کو وہ اپنے گھروں میں اپنی مرضی کے مطابق سجا کر رکھیں اور ایسے رکھیں کہ جو بھی آئے وہ ان کو داد دے۔ میرا نہیں خیال کہ میرا بتانا ضروری ہے۔” نور کے لہجے میں اب تلخی آگئی تھی۔
”او کے ڈیئر! اب ہم چلتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ہمیں دوبارہ آنا پڑے۔آپ سمجھ رہی ہیں نا؟ ایک جبراً ریٹائرڈ برٹش آفیسر اور ایک دہشت گردوں کی آماج گاہ ملک کی پشتون خاتون ایک ساتھ نظر آئیں تو……” اب کی بار نسبتاً جوان نظر آنے والے آفیسر نے بات کی تھی۔
”چلیے میں آپ کو باہرتک چھوڑ آتا ہوں۔ جوزف نے سرد لہجے میں اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا اور انہیں باہر کے دروازے کی طرف ہاتھ پھیلا کر اشارہ کرنے لگا۔ جیسے ہی وہ تینوں گھر سے نکلے، نور نے جلدی سے دروازہ لاک کیا۔ اس کے پسینے چھوٹ رہے تھے۔ دوپٹے سے اس نے چہرہ خشک کیا اور بھاگ کر اوپر بیڈروم کی کھڑکی میں پردے کی اوٹ میں کھڑی ہوکر باہر کا منظر دیکھنے لگی۔ وہ دونوں کالے سوٹ والے مرد گاڑی کے قریب کھڑے تھے اور جوزف اُن سے بات کررہا تھا۔ اُس کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ سخت غصے میں بات کررہا تھا۔ نور کو بڑا عجیب لگا کہ وہ کالے سوٹ والے مرد اُس کے لاؤنج میں جتنے کرخت چہروں کے ساتھ بیٹھے تھے، باہر جوزف کے سامنے اُن کے چہروں پر کچھ پریشانی کے تاثرات نظر آرہے تھے۔ جوزف دونوں ہاتھ ہوا میں ہلاتے ہوئے اُن سے کچھ کہہ رہا تھا۔ اُن دونوں کے چلے جانے کے بعد جوزف سیدھا اپنے گھر چلا گیا۔
نور کچھ دیر کھڑکی کے پاس کھڑی رہی۔ دماغ نے ابھی ابھی کام کرنا شروع کیا تھا۔ یہ انٹیلی جنس کے بندے تھے جو اُس کے ماضی اور اُس کے خاندان کے بارے میں سب جانتے تھے۔ اُسے یہ فکر نہیں تھی کہ جوزف کے ساتھ اُس کو زبردستی نتھی کیا جارہا تھا بلکہ اسے یہ فکر لاحق ہوگئی تھی کہ کہیں وہ لوگ پشاور میں اُس کے والدین یا شوہر سے رابطہ نہ کریں۔وہ تقریباً ایک سال سے اس چھوٹے سے قصبے میں رہ رہی تھی اور خود کو بہت محفوظ سمجھ رہی تھی۔ مگر اب اُسے معلوم ہوگیا تھا کہ اِن انٹیلی جنس والوں سے کوئی روپوش نہیں ہے۔ یہ سب کے بارے میں پوری خبر رکھتے ہیں اور جب ان کو کوئی شبہ ہونے لگتا ہے تو صحیح ٹائم پر بندے کو آ گھیرتے ہیں۔
وہ جلدی سے نیچے اتری اور جوزف کے گھر پہنچی۔ اوپر کے کمرے سے بچوں کے کھیلنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ جوزف لاؤنج میں بیٹھا وہ اپنے لیپ ٹاپ پر جلدی جلدی کچھ ٹائپ کررہا تھا۔ نور اس کے گھر میں داخل ہوئی تو اس کی طرف دیکھے بنا ہی وہ کہنے لگا۔
”آؤ! آؤ! میں سوچ ہی رہا تھا کہ تم ابھی تک مجھ سے تفتیش کرنے کیوں نہیں آئی۔”
”کون تھے وہ لوگ؟ مجھ سے کیا چاہتے تھے؟”نور نے سیدھا مدعا پر آئی۔
”جاسوس تھے، اس ملک کے خیر خواہ! میرے اور تمہارے بیچ کی نزدیکی سے انہیں ڈر لگنے لگا تھا۔” جوزف قدرے پرسکون لہجے میں بولا۔
”مگر ہمارا کسی تنظیم سے، کسی شدت پسند گروپ سے تو کوئی تعلق نہیں۔” نور کے لہجے سے فکرمندی کے آثار جھلک رہے تھے۔
”مجھے نہیں معلوم نور! یہاں ہزاروں کی تعداد میں گورے لڑکے لڑکیوں نے کسی پاکستانی، انڈین یا کسی اور ملک کے لڑکے لڑکی سے تعلقات رکھے ہوئے ہیں یا پھر شادیاں کی ہوئی ہیں۔ مگر شاید ہم جیسا دل چسپ کیس اُن کے سامنے پہلی بار آیا ہے۔” جوزف کے چہرے پر مسکراہٹ صاف نظر آرہی تھی۔
”جوزف مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔ دیکھو ہمارے درمیان تو کچھ نہیں ہے، مگر مجھے لگتا ہے وہ میرے خاندان والوں سے رابطہ نہ کرلیں۔ میں واپس نہیں جانا چاہتی۔” نور روہانسی ہوکر بولی۔
”نہیں کریں گے وہ ایسا۔” جوزف نے اطمینان سے کہا۔
”کیا مطلب نہیں کریں گے؟ اور تم انہیں غصے میں کیا کہہ رہے تھے؟” دفعتاً نور کو یاد آیا۔
”میں اُن سے یہی کہہ رہا تھا کہ دوبارہ اگر انہوں نے تمہیں تنگ کیا تو میں میڈیا پر وہ سب کچھ بتا دوں گا جو کچھ تم لوگ افغانستان، عراق اور فلسطین جیسے ممالک میں کررہے ہو۔ عینی گواہ ہوں اور میری طرح اور بھی بہت سارے بندے ملٹری میں ہیں جو انسانیت کا جذبہ رکھتے ہیں اور ان چیزوں کے خلاف ہیں جو اُن کے نام نہاد ترقی یافتہ ممالک کررہے ہیں۔” جوزف بڑے سکون سے بولا۔
”کیا؟ جوزف یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ تمہیں پتا ہے اب تمہاری جان کو بھی خطرہ ہے؟ وہ تم جیسے لوگوں کو راستے سے ہٹانے میں دیر نہیں کریں گے۔” نورکی آنکھوں سے خوف جھلک رہا تھا۔
”نہیں! ایسی غلطی وہ نہیں کریں گے۔ کیوں کہ میں نے وہ شواہد اکٹھے کیے ہیں اور کئی جگہوں پر چھپا کر رکھے ہیں جو صرف ایک بٹن دبانے سے دنیا کے کئی بڑے نیوز چینلز کے پاس پہنچ سکتے ہیں۔ بلکہ اپنے جیسے کچھ اور فوجیوں کو بھی بھیج رکھے ہیں۔” جوزف کے لہجے سے اب بھی سکون عیاں تھا۔
”پھر انہوں نے کیا کہا۔ کوئی دھمکی دی ہوگی یقینا۔” نور اب بھی پریشان تھی۔
”ہونہہ! دھمکی نہیں آفر کی ہے کہ کچھ بھی مانگ لو ہم سے۔ میرے چُپ رہنے کی قیمت دینے کو تیار ہیں وہ۔” جوزف بولا۔
”پھر تم نے کیا کہا؟”
”میں نے اُن سے کہا کہ مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ ہاں میرے چپ رہنے کی قیمت میں یہی چاہتا ہوں کہ نور اور اُس کے بچوں کو دوبارہ کوئی تنگ نہ کرے اور اگر ایسا ہوا تو پھر نتائج کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے۔” جوزف نے اسے بتایا۔
”نہیں جوزف! تم ایسا نہیں کرسکتے۔” نور ایک دم سے بول پڑی۔
” تم ان سے بہت کچھ حاصل کرسکتے ہو۔ یہی تو موقع ہے اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی سنوارنے کا۔” نور حیرت سے اس لالچ اور طمع سے پاک بندے کو دیکھتے ہوئے بولی۔
”میرا بہت کچھ ”تم” ہو نور۔” جوزف اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا اور نور اُسے دیکھتی ہی رہ گئی۔
”میں بچوں کو دیکھ لوں۔” نور نے جوزف سے آنکھیں چراتے ہوئے کہا اور اوپر سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی۔
”تمہیں کوئی کچھ کہے مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔ میں تمہیں خوش دیکھنے کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہوں۔ ساری دنیا سے لڑ سکتا ہوں۔” جوزف اب قدرے اونچی آواز میں بولا تھا اور نور پہلی سیڑھی پر ہی جم کر رہ گئی اور دوسرے ہی لمحے اُس کے منہ سے ایک سسکی نکلی اور وہ منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے جوزف کے گھر سے بھاگ کر نکل آئی۔
جوزف نے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا اور صوفے پر ڈھے گیا۔
”آہ میرے خدا! یہ میں نے کیا کردیا۔ کیا کہہ دیا اُسے۔” جوزف نے آنکھیں بند کرلیں۔
تقریباً آدھے گھنٹے بعد وہ نور کے دروازے پر کھڑا دستک دے رہا تھا۔نور نے دروازہ کھولا تو اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔
”میں بچوں کو پارک لے کر جارہا ہوں۔ تم بھی چلو۔” جوزف نظریں چراتا ہوا بولا۔
”ہاں آتی ہوں۔” نور سکارف ٹھیک کرتے ہوئے بولی۔
جوزف نے کچھ ہی دن پہلے قسطوں پر ایک سکینڈ ہینڈ لینڈ کروز لی تھی اور سب کو اس میں بٹھا کر لانگ ڈرائیو پر لے کر گیا تھا اور سب کو ٹریٹ بھی دی تھی۔
”نور! آئی ایم سوری مجھے اس طرح بات نہیں”… جوزف نے جھکے ہوئے سر اور دھیمی آواز میں نور سے کہا۔
”اِٹس اوکے!” نور نے جلدی سے اُسے پوری بات ختم کیے بنا ٹوک دیا۔
”نہیں میں نے بہت غلط کیا۔” وہ اب بھی شرمندہ تھا۔
”ٹھیک ہے بابا! کہہ دیا نا اِٹس اوکے۔ اب چلیں! بچے گاڑی میں انتظار کررہے ہیں۔” نور کا لہجہ ایسا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
”تم نے واقعی برا نہیں منایا؟” جوزف حیرانی کے عالم میں اسے دیکھتے ہوئے بولا۔
”تمہاری بات کا میں کبھی بُرا نہیں مناتی کیوں کہ تم ایک سر پھرے اور جذباتی مرد ہو اور اب تو میں بھی عادی ہوگئی ہوں تمہاری الٹی سیدھی باتیں سننے کی۔” نور نے ہلکا سا مسکراتے ہوئے کہا۔
”تھینک گاڈ! ایک بڑا بوجھ سر سے اُترا میرے۔ رئیلی پھر کبھی اتنا جذباتی سین نہیں کروں گا۔” جوزف کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بولا۔
”پرامس؟” نور نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”پرامس، پکا پرامس!” جوزف نے جیسے ہی حامی بھری، دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا دیتے۔
٭…٭…٭
گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہوگئی تھیں۔ کچھ دن تو بچے کافی خوش رہے لیکن پھر بوریت نے انہیں گھیر لیا۔ نور کبھی انہیں پارک لے جاتی، کبھی لائبریری۔ جوزف دن میں اب اپنی جاب پر ہوتا تھا تو میری اور ڈیوڈ اُسی کے پاس ہوتے تھے۔ جوزف کے گھر کی چابی نور کے پاس ہی ہوتی تھی۔ بچے دونوں گھروں کے درمیان سارا دن بھاگ دوڑ میں مصروف رہتے۔ گلی میں رہنے والے کچھ بوڑھے لوگ بھی باہر سائے میں بیٹھنے لگے تھے۔ ان چاروں بچوں نے کا فی رونق لگا دی تھی محلے میں۔
پھر ایک دن ابراہیم ضد کرنے لگا کہ ڈیوڈ اُس کے گھر رات گزارے۔ نور نے منع کیا تو وہ معصومیت سے بولا کہ اس کے سکول میں سب بچے اپنی نانی دادی کے گھر رات گزارنے جاتے ہیں یا پھر اُن کے کزنز ان کے گھر آجاتے ہیں۔ لیکن ہمارا ایسا کوئی نہیں ہے یہاں پر۔ نور اس کی بات سن کر کافی رنجیدہ ہوگئی اور اس نے جوزف سے اس سلسلے میں باتی کی۔
”زبردست! ہم تینوں آئیں گے تمہارے گھر ابراہیم۔” جوزف نے کہا۔
”بولو کب آنا ہے؟ اور ہاں ہم کیمپنگ ٹینٹ بھی لائیں گے۔ تمہارے گھر کے پیچھے والے صحن میں رات کو لگائیں گے۔ رات دیر تک اُس میں مزے کریں گے اور ہاں بون فائر بھی کریں گے۔” جوزف پُر جوش انداز میں اپنا پلان بتا رہا تھا۔
”ہائے! جوزف انکل دی گریٹ” ابراہیم اُس سے لپٹ کر بولا۔
”ممی آپ ہاٹ چاکلیٹ بنانا اور میری ٹارچ کہاں ہے وہ بھی ہم کیمپ میں رکھیں گے۔” اس لیے ابراہیم خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا وہ دوسرے بچوں کو بتانے کے لیے دوڑا۔
”جوزف کیا کررہے ہو؟ بچے نے ایسے ہی بات کردی اور تم اِن سے بھی چھوٹے بچے بن گئے ہو۔” نور نے جوزف کے ڈانٹنے والے انداز میں کہا۔
”میرے پاس بہت زیادہ پیسہ نہیں ہے۔ میں مہنگی چیزیں نہیں خرید سکتا مگر ان کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو پوری طرح سے منانے کا حق میں رکھتا ہوں۔” جوزف جتنا چوڑا چکلا اور لمبا تھا اتنا ہی دل کا نرم اور بچوں کے معاملے میں سب سے بڑا بچہ تھا۔
”جو جی میں آئے تم لوگ کرو، میری بات کہاں سنو گے۔” نور نے کہا اور منہ بناتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔
اگلے جمعے کو جوزف کام سے آیا تو اُس کے بچے ابراہیم اور آمنہ کے ساتھ باہر کھیل رہے تھے۔ جوزف نے ان کو اکٹھا کیا اور اپنے گھر سے نور کے گھر میں چیزیں منتقل کرنے لگا۔ ایک بڑا سا ٹینٹ، چھوٹا سا اسٹو، رسیاں، واٹر پروف کارپٹ کا ٹکڑا وغیرہ وغیرہ…
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});