”بھئی میں تو افغانی پلاؤ اور کڑاہی گوشت کا دیوانہ ہوں، اور ہاں! ”ثوبت” کا بھی۔”جوزف دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے بولا۔
”مگر”! نور کے لیے یہ سب مشکل نہ تھا۔ کیوں کہ یہ سب تو اُس کے گھر میں بنتا ہی تھا۔ گاؤں اُن کا جنوبی وزیرستان کے خشک پہاڑوں میں تھا مگر وہ پیدا اور پلی بڑھی پشاور میں تھی۔ دادا ابا کاروبار کرنے پشاور آئے تھے اور بچے اُن کے پڑھ لکھ کر سرکاری نوکریوں پر لگ گئے تھے۔ مگر عید، شادی، یہاں تک کے گرمیوں، سردیوں کی چھٹیوں میں بھی گاؤں جانا لازمی ہوتا تھا۔ تو یہ سب ڈشز اسے بہترین بنانی آتی تھیں۔
”مگر!”
نور نے ایک دم کہا۔
”اب کیا؟” جوزف نے کہا۔
”مجھے حلال گوشت کہاں ملے گا یہاں؟” وہ واقعی مایوس ہوگئی تھی۔
”اس کا بھی بندوبست میں کرچکا ہوں۔” جوزف مسکرا رہا تھا۔ جب کہ نور ناسمجھی سے اُسے دیکھ رہی تھی۔
”یہاں نزدیک ہی ایک بڑا شہر ہے جس میں کافی مسلمان رہتے ہیں۔ زیادہ تر عربی کمیونٹی ہے۔ وہاں ایک دو حلال گوشت کی دکانیں ہیں۔ بھئی حلال گوشت کا تو اپنا ہی مزہ ہے۔ افغانستان سے واپس آنے کے بعد تو میں نے ایک دفعہ بھی اپنی دکانوں سے مرغی، مٹن وغیرہ نہیں لیا۔ بجلی کا شاک دے کر جان داروں کا گوشت بغیر خون بہائے بیچتے ہیں۔ میں اُن دکانوں سے تین چار ہفتوں کا گوشت اکٹھے لے آتا ہوں اور فریز کرلیتا ہوں۔ اگلی دفعہ تمہیں بھی لے کر جاؤں گا۔”
”نہیں نہیں!” بس میں لسٹ دے دوں گی، تم لے آنا۔ نور بے اختیار بولی۔
”اچھا!” ”برا مت ماننا مگر کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ تم وہاں جانا کیوں نہیں چاہتی؟” جوزف حیرت سے بولا۔
”بس ایسے ہی، بچوں کو سبزی گوشت وغیرہ کی شاپنگ سے چِڑ ہے۔ اس لیے ویسے ہی اُن دونوں کا موڈ خراب ہو جائے گا۔” نور نے گول مول سا جواب دیا تو جوزف خاموش ہوگیا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
جوزف کا پلاسٹر اُتر چکا تھا۔ وہ اب بھی تھوڑا سا لنگڑا کر چلتا تھا مگر چھڑی کی ضرورت اتنی نہیں پڑتی تھی۔ پتا نہیں دونوں کے درمیان ایک خاموش معاہدہ غیرمحسوس طریقے سے ہوگیا تھا کہ وہ ایک دوسرے کے ماضی کو نہیں کریدیں گے۔ سارے جہاں کی باتیں وہ کرلیتے تھے۔سیاست کی سپورٹس کی بچوں کی تعلیم کے بارے میں، سکول کے فنکشن وغیرہ کی لیکن دونوں میں سے کسی نے بھی ایک دوسرے کی ذاتی زندگی کے بارے میں کبھی سوال نہیں اٹھایا تھا۔
جوزف کے بچے میری اور ڈیوڈ تھے اور نور کے بچے ابراہیم اور آمنہ۔ وہ ایک ہی سکول میں آگے پیچھے کی کلاسوں میں پڑھتے تھے۔ چوں کہ نور بھی اسی سکول میں کام کرتی تھی تو صبح چاروں بچے اُس کے ساتھ آ جاتے تھے جب کہ چھٹی کے ٹائم جوزف بچوں کو لینے آتا تھا کیوں کہ سکول کا تمام سٹاف ہیڈ مسٹریس کے ساتھ بیٹھ کر سکول میں ہونے والے تمام دن کی رپورٹس دیتا اور دوسرے دن کے لیے ایکٹی ویٹیز ترتیب دیتے۔ جس کی وجہ سے وہ کچھ دیر بعد سکول سے نکلتی۔ بچوں کی طرف سے اُسے تسلی رہتی۔ جوزف کے ہاں وہ کھانا کھا کر میری اور ڈیوڈ کے ساتھ کھیلتے تھے۔
سکول سے نکل کر وہ پہلے جوزف کے گھر جاتی اور بچوں کو لے کر اپنے گھر آجاتی۔ پھر گھر کے کام شام کا کھانا بنانا اور ساتھ میں بچوں کو ہوم ورک کروانا اور قرآن ناظرہ پڑھانا، ان سب باتوں میں ایسے وقت گزر جاتا کہ وہ رات کو عشا پڑھتے ہی بے خبر سو جاتی۔ صبح پھر ناشتہ، بچوں کو تیار کرانا، ساتھ ہی ساتھ اپنے لیے اور بچوں کے لیے لنچ باکس تیار کرنا وہ ذرا جلدی بھی نکلتے تھے کیوں کہ جوزف کے بچوں کو بھی ساتھ لے کر جانا ہوتا تھا۔
ابراہیم تھوڑا قد نکال رہا تھا۔ وہ اگلے مہینے دس سال کا ہونے والا تھا۔ اُس کی جینز اور جوتے وغیرہ اُسے چھوٹے ہو رہے تھے۔ نور بازار جانا چاہ رہی تھی مگر ٹائم ہی نہیں مل رہا تھا۔ جمعے کو سکول سے آکر جب وہ جوزف کی طرف بچوں کو لینے گئی تو جوزف سے بھی یہی بات کی۔
چوڑے چکلے جوزف نے سفید اور نیلا دھاری دار اَپرن پہناہوا تھا۔ وہ شاید کچن میں کام کررہا تھا مگراپنی وضع قطع سے بے خبر وہ نور کی بات ایسے سُن رہا تھا جیسا کہ نور کوئی بہت ہی اہم معاملہ اُس کے ساتھ ڈسکس کررہی ہو۔
”ارے بھئی نو پرابلم! کل ہفتہ ہے۔ تمہاری سکول سے چھٹی ہے اور بچوں کی بھی۔ میں تو ویسے ہی گھر پر ہی رہتا ہوں، میرا تو کوئی مسئلہ نہیں۔ تو اِن کو بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ مجھے بھی کچھ گھر کے لیے چیزیں لینی ہیں۔ وہاں بچوں کو شاپنگ کرواکر پاس ہی میں ایک نئی جگہ کھلی ہے” فن ٹاؤن وہاں لے جائیں گے۔ سنا ہے ٹکٹ خرید کر وہ بچوں کا ایک گھنٹہ تک خیال رکھتے ہیں اور کچھ گیمز وغیرہ میں بچوں کو مصروف رکھتے ہیں۔ ذرا ہم دونوں کو بھی بچوں کے بغیر ٹائم گزارنے کا موقع مل جائے گا۔ ”جوزف شرارت سے مسکراتے ہوئے بولا۔
نور کو ہنسی آگئی۔ یہ بھی ایک چیز تھی جو دونوں میں یکساں تھی۔ وہ بچوں کو کسی بھی قیمت پر گھر پر اکیلا نہیں چھوڑتے تھے۔ چاہے کتنی بھی بور جگہ جانا ہو، بچے کتنا ہی چیخیں چلائیں مگر وہ اُن کو اپنے ساتھ ہی رکھتے تھے۔ نور بچوں کو گھر لے آئی اور جوزف سے صبح بات کرنے کا سوچی۔
صبح کے آٹھ بج چکے تھے۔ پورے ہفتے بھاگ دوڑ کر گزارنے کے بعد وہ ہفتے کے دن کا بڑی بے تابی سے انتظار کرتی۔ آرام سے اُٹھتی اور ناشتے پر اہتمام کرتی۔ باقی دنوں میں تو بس ٹوسٹ جام یا پھر کارن فلیکس سے ناشتہ ہوتا مگر ویک اینڈ پر بچوں کی فرمائش پر کبھی آلو کے پراٹھے بنتے تو کبھی حلوہ پوری۔ آج بھی یہی ہوا۔ ابراہیم کو پراٹھا آملیٹ کے ساتھ چاہیے تھا جب کہ آمنہ نے میٹھے پراٹھے کی فرمائش کی۔ وہ کچن میں ناشتہ بناتے بناتے بچوں سے بات بھی کررہی تھی۔
اُس کی عادت تھی کہ صبح سویرے نیوز چینل لگا کر خاص خاص خبریں ضرور دیکھتی۔ آملیٹ پلیٹ میں ڈالتے ہوئے اُس نے نیوز کاسٹر کی آواز سُنی۔ وہ پھر کسی دہشت گردی کے واقعے کو زور و شور سے بیان کررہا تھا۔ وہ جلدی سے بچوں کو ٹیبل پر ناشتے کے لیے بٹھا کر ٹی وی کے سامنے آکھڑی ہوئی۔ پچھلی رات لندن کے کچھ معروف نائٹ کلبوں کے سامنے چھوٹے موٹے دھماکے ہوئے تھے۔ کوئی مرا تو نہیں تھا مگر بار بار ٹی وی پر لوگوں کو خوف زدہ حالت میں بھاگتے ہوئے دکھایا جارہا تھا۔ ہائی الرٹ بھی جاری کردیا گیا تھا۔
”ہونہہ!” ہمارے ہاں تو دھماکوں میں ڈیڑھ دو سو مارے جائیں تب بھی ”رات گئی بات گئی” والی بات ہوتی ہے اور یہاں اب ہفتوں یہ معاملہ میڈیا میں اچھالا جائے گا۔” اُس کا دل بالکل اُچاٹ ہوگیا تھا۔ اس طرح کے واقعات سے نور کے جیسے لاکھوں مسلمانوں کا تاثر باہر کے ملکوں میں خراب ہو جاتا ہے۔ بے چارے روزی روٹی کمانے کے لیے اپنے ملکوں کو چھوڑ کر پردیس میں بستے ہیں۔ تنگی ترشی سے گزر بسر کرتے ہیں تاکہ پیچھے چھوڑ کر آئے ہوئے اپنے پیاروں کی زندگیاں سنوار سکیں۔ مگر ان واقعات کی وجہ سے اِن کے لیے اور بھی مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ پوچھ گچھ زیادہ ہونے لگتی ہے۔ کام مشکل سے ملتا ہے۔ کام والی جگہ پر بھی تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
نور کو بھی فکر ہونے لگی۔ وہ جس سکول میں کام کرتی تھی وہاں پر بھی ایک دو سٹاف ممبرز کے روئیے سے اُسے معلوم ہوچکا تھا کہ وہ نور کو ناپسند کرتے ہیں۔ اب تو اُن کو موقع مل جائے گا کھلم کھلا سٹاف روم میں اُس کے سامنے مسلمانوں کے خلاف بولنے کا۔
اُس نے فون اٹھایا تاکہ جوزف کو کوئی بہانہ کرسکے۔ وہ آج بازار نہیں جانا چاہتی تھی۔ اگر کسی نے اُسے ”پاکی” کہہ دیا یا مسلمان کے خلاف کوئی غلیظ لفظ اُس پر کسا تو وہ کیا کرے گی۔ اُسے اپنے آپ سے زیادہ اپنے بچوں کی فکر تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اُس کے بچے اتنی سی عمر میں دنیا کے اس بھیانک روپ کو دیکھیں جس میں لوگ رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر ایک دوسرے سے میل جول رکھتے ہیں اور دوسروں کو کم تر سمجھتے ہیں۔ وہ نمبر ملانے ہی لگی تھی کہ دروازے پر زور زور سے دستک ہونے لگی۔ دروازے تک پہنچتے پہنچتے اُسے اندازہ ہوگیا تھا کہ کون ہے۔ جوزف اور اس کے بچوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ اُس نے دروازہ کھولا تو جوزف کا بیٹا اپنے باپ کے کندھوں پر سوار تھا اور ساتھ میں بیٹی کھڑی تھی۔ دروازہ کھول کر وہ پلٹ آئی۔ بچے چیختے ہوئے کچن میں چلے گئے جہاں نور کے بچے ناشتہ کرنے میں مصروف تھے۔ جوزف دروازہ بند کرکے نور کے پیچھے پیچھے ٹی وی لاؤنج میں آگیا۔ سامنے نیوز چینل ابھی بھی لگا ہوا تھا۔
”میں اسی لیے آگیا تاکہ تم نیوز دیکھ کر ارادہ بدل نہ دو۔” جوزف نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔
”ہاں! میں فون کرنے ہی والی تھی تمہیں۔” نور نے مرجھائے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔
”بچے رات سے بے حد خوش تھے۔ تمہیں یاد ہے آخری دفعہ ہم تقریباً چار ہفتے پہلے بچوں کو سمندر پر لے کر گئے تھے۔ میں ان کی خوشی برباد نہیں کرنا چاہتا تھا۔” جوزف نے اسے منانے والے انداز میں کہا۔
”اگلے ہفتے چلے چلیں گے۔ اُس وقت تک یہ نیوز تھوڑی پرانی ہوچکی ہوگی۔” نور نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا۔
”اور اگلے ہفتے تک کوئی اور واقعہ ہو گیا تو؟” جوزف اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا۔
جواب دیئے بغیر وہ ریموٹ اُٹھا کر ٹی وی بند کرنے لگی۔
”تم شتر مرغ کی طرح گردن زمین میں دے کر یہ نہیں کہہ سکتیں کہ سب ٹھیک ہے۔ ٹی وی یا ریڈیو نہیں سنوگی، باہر نہیں جاؤ گی، لوگوں کا سامنا نہیں کروگی، تمہارے خیال میں اس طرح تم اس ملک میں زندگی گزار سکتی ہو؟” جوزف کی آواز میں دبا دبا غصہ تھا۔ جس کی وجہ سے بات کرتے ہوئے اس کے لہجے میں سرزنش تھی۔
”تو کیا کروں؟ آج یہ واقعہ ہوا ہے اور آج ہی تمہارے ملک کے بازاروں میں سکارف باندھ کر پھروں تو یہاں کے لوگوں کو برا نہیں لگے گا؟ اپنے ملک میں مجھے خطرہ تھا اور یہاں میں آرام سے آزادی سے پھر سکتی ہوں مگر میرے ہی لوگ اِن کو بھی چین سے جینے نہیں دے رہے۔” نور جیسے پھٹ ہی پڑیاور آنسو اس کی آنکھوں سے رواں ہوگئے۔
”تمہیں نہیں پتا جوزف، کیا جذبات ہوتے ہیں، وہ ڈر ڈر کر باہر نکلنا اور نظریں جھکائے رکھنا تاکہ کسی گورے کی شکل پر نفرت اور بے زاری نہ دیکھ لوں جو مجھے دیکھتے ہی ان کے چہروں پر آجاتی ہے۔ لوگ آپس میں بات کررہے ہوں تو میرے کان مسلسل الرٹ رہتے ہیں کہ شاید مجھ پر آوازیں کس رہے ہیں۔ میں ذہنی مریض بنتی جارہی ہوں جوزف۔” نور یہ سب کہتے ہوئے چہرے کو ہاتھوں سے چھپائے ہوئے بولی آنسو مسلسل اس کی آنکھوں سے رواں تھے۔
جوزف کچھ لمحے خاموش رہا۔ پھر بولا:
”مگر ہم تو جارہے ہیں۔ ہمارا پروگرام کوئی کینسل نہیں کرا سکتا۔”
جوزف بہت بلند آواز میں بولا تاکہ کچن میں بچے بھی سن لیں۔ نور کا منہ حیرت سے کھل گیا۔ وہ ایک دم سمجھ گئی کہ جوزف نے کیا کردیا۔
اور دوسرے ہی لمحے چاروں بچے چیختے ہوئے لاؤنج میں آگئے۔انہوں نے ”پروگرام کینسل” کا لفظ صاف صاف سن لیا تھا اور ایک دوسرے سے بڑھ بڑھ کر اپنے ماں اور باپ سے پوچھ رہے تھے کہ کیوں کینسل ہوگیا ہے۔
”وہ مجھے کچھ ضروری کام کرنا ہے سکول کا۔” نور نے کم زور سے لہجے میں بچوں کو توجیہہ پیش کی۔
”کل اتوار ہے آپ کل کر لیں نا اپنا کام۔” آمنہ ضد کرتے ہوئے بولی۔
”چلیں آنٹی۔ بہت دن ہوگئے ہم ابراہیم اور آمنہ کے ساتھ آؤٹنگ پر نہیں گئے۔” ڈیوڈ اور میری نے بھی ضد کی۔
”اوکے! جیسے تم لوگوں کی مرضی بھئی۔” میں اپنا بیگ لے کر آتی ہوں۔ تم لوگ جوتے پہن لو۔ اُس نے جوزف کو خشمگیں نظروں سے دیکھتے ہوئے بچوں سے کہا اور اوپر اپنا سکارف اور بیگ لینے چلی گئی۔
مارکیٹ پہنچ کر سب سے پہلے نور نے ابراہیم کے لیے جوتے اور دو تین جینز اور شرٹیں خریدیں۔ آمنہ نے بھی ایک دو جیولری اور ایک لمبی ٹی شرٹ لی۔ شروع میں وہ تھوڑا جھجکی مگر اُسے لگا کہ سب روزمرہ کی روٹین کی طرح ہی بازار میں کام کررہے ہیں۔
”چلو بھئی! تم لوگ بے حد شریف بنے رہے جب تک ہم نے شاپنگ کی، اب تم لوگوں کو ٹریٹ دینے کی باری ہے۔” جوزف شاپنگ بیگز سنبھالتے ہوئے بولا۔
بچے فن ٹاؤن کے ٹکٹ لے کر تو خوشی سے پاگل ہوگئے تھے۔ نور نے تھوڑا سکھ کا سانس لیا جب اُس نے ایک انڈین فیملی کو وہاں پر اپنے دو بچوں کو ٹکٹ لیتے ہوئے دیکھا۔ واقعی پردیس میں آپ کو اپنے جیسے جو بھی ملے اچھا لگتا ہے۔ چاہے وہ انڈین ہوں جن سے آپ کی زبان اور کلچر ملتا ہے، یا پھر عربی جو مسلمان ہیں۔
بچوں کو چھوڑ کر وہ دونوں پھر بازار کی طرف نکل آئے۔ جوزف اُسے زبردستی ایک کافی شاپ لے گیا۔ کافی کے ساتھ اس نے کافی والنٹ کیک کے دو سلائس آرڈر کیے۔ نور کو یہ کیک بے حد پسند تھا ورنہ جوزف اخروٹ کو دیکھتا ہی نہیں تھا۔
جب ویٹر نے کافی ٹیبل پر رکھی تو نور نے کیک کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”مجھے معلوم ہے کہ دوسرا سلائس میں نے کیوں منگوایا۔ یہی پوچھنا چارہی ہو نا تم؟” جوزف مسکراتے ہوئے بولا۔
”بھئی میں ایک خوش خبری شیئر کرنا چاہتا ہوں تمہارے ساتھ، ابھی بچوں کو بھی نہیں بتایا۔ اس خوشی میں میں نے سوچا کہ اگر نور یہ کیک شوق سے کھا لیتی ہے تو میں کیوں نخرے کروں۔” جوزف مزے سے بولا۔
”وہ تو ٹھیک ہے مگر تم اپنی پسند کا کیک منگوا لو اور یہ واپس کردو، اور ہاں خوش خبری کیا ہے؟” نور کو شاید یہ بات اچھی نہیں لگی تھی۔ کیک کا ٹکڑا اس نے کانٹے کی مدد سے منہ میں رکھا اور کافی کے گھونٹ کے ذریعے اُسے جلدی سے حلق سے اتارا۔ نور کو یہ سب اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ دوسرا ٹکڑا اُس نے آرام سے کھا لیا۔
”بھئی زبردست ہے۔ ایسے ہی تو نہیں تمہیں یہ کیک پسند۔” جوزف اس دفعہ آرام سے کافی کا گھونٹ لے کر بولا۔
نور کی جان میں جان آئی ورنہ وہ بہت خفت محسوس کررہی تھی۔
”مجھے نوکری مل گئی ہے۔” جوزف نے اچانک کہا۔
”واقعی؟” نور واقعی بے حد خوش ہوئی۔ اُسے معلوم تھا کہ فوج میں پانچ چھ سال سخت زندگی اور اس کے بعد افغانستان میں دو سال گزارنے کے بعد جس طرح ایک دم سے وہ دو کمروں کے چھوٹے سے گھر میں اپنی معذوری کے ساتھ پچھلے ایک سال سے رہ رہا تھا، وہ کسی بھی شخص کو شدید ڈپریشن میں ڈال سکتی تھی۔ مگر وہ جوزف تھا۔
”اپنے کمیونٹی سنٹر میں منیجر کی پوسٹ خالی ہوئی تھی۔ انٹرویو میں ہی انہوں نے کہہ دیا کہ انہیں فوجیوں جیسا نظم و ضبط اور ڈسپلن والا بندہ چاہئے۔ بس اگلی یکم سے کام شروع کردوں گا۔ تقریباً آدھا گھنٹہ بعد وہ بچوں کو لینے کافی شاپ سے نکلے تو نور بہت پرسکون محسوس کررہی تھی۔ واقعی جوزف کی بات صحیح تھی۔ بچے، گھر، جاب ان سب میں گھِر کر وہ خودکے لیے وقت نکالنا بھول گئی تھی۔
موسم خوش گوار تھا اور پھر چھٹی کا دن تو لوگوں کا رش کچھ بڑھ گیا تھا۔ وہ جوزف کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ ابھی وہ کافی شاپ سے کچھ ہی قدم آگے چلے تھے۔ کہ اچانک چیخنے کی آواز آئی اور ساتھ ہی نور کے سر پر کوئی وزنی چیز گری۔ دو تین نوجوان جو سولہ، سترہ سال سے زیادہ کے نہیں لگ رہے تھے وہ بھرے بازار میں نور کی طرف دیکھتے ہوئے انگریزی میں اُسے ”دہشت گرد دہشت گرد” پکار رہے تھے۔
"Just leave our country…. You Paki Terrorist.”
یہ کہتے ساتھ ہی ایک نے زور سے نور کا اسکارف کھینچ لیا۔ نور کو لگا وہ بھرے بازار میں برہنہ ہوگئی ہے۔ اُس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ وہ بے عزتی، خفت، شرمندگی، تذلیل جیسے سب احساسات کو پوری زور کے ساتھ محسوس کرتے ہوئے زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔ اسے اپنے کانوں سے دھواں اٹھتا ہوا محسوس ہوا اور چہرہ اتنا سرخ کہ تپش سے اُسے اپنی روح تک جلتی محسوس ہوئی۔
لوگ اردگرد اپنی جگہ پر سُن ہوکر رہ گئے جیسے کسی نے وقت کو روک دیا ہو۔ جوزف کہیں نہیں تھا۔ اُسے اپنا آپ سنبھالنے میں دو منٹ ہی لگے۔ نظریں جھکائے جھکائے اُس نے سکارف واپس باندھا اور کپڑے ٹھیک کیے اور بس سٹیشن کی طرف چل دی۔ اُسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ بس چلتی جارہی تھی۔ بازار سے نکل کر، بس سٹیشن سے گزر کر وہ بس چلتی ہی جارہی تھی۔ اُسے نہ جوزف یاد رہا نہ بچے۔ وہ ایک ڈر جو اُس کے اندر چھپا تھا آج ایک عفریت کی طرح حقیقت کا روپ دھار کر اُس کے سامنے آگیا تھا۔ اور اس پر ایسے وار کر گیا تھا جیسے کہ وہ موقع کے انتظار میں تھا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});