”جلدی کوئی نوکری مل جائے گی۔”
”تم کام کرنا ہی نہیں چاہتے ورنہ کب کی نوکری مل جاتی۔” نسرین نے مورچہ نہیں چھوڑا تھا۔
”بتایا تو ہے نوکریاں آسانی سے نہیں ملتیں۔”ناصر نے باورچی خانے کی بیرونی دیوار سے ٹیک لگا کر اپنا بوجھ کم کرنے کی کوشش کی۔
”تو پھر مجھے کیسے ملی؟” نسرین نے آنکھیں پھاڑتے، ناک پھلاتے اور ہاتھ نچاتے ہوئے پوچھا تو ناصر کی بس ہو گئی۔
”پتا نہیں تم نے کیا لچھن دکھائے جو نوکری مل گئی۔” ناصر کے الفاظ اتنے ہی خوف ناک ثابت ہوئے جتنے وزیرستان میں ڈرون حملے ہوتے ہیں۔ نسرین کے ہاتھ سے چھری گر گئی۔ وہ ایک جھٹکے سے کھڑی ہوئی اور پوری قوت سے ناصر کے دائیں گال پر طمانچہ رسید کردیا۔ ناصر نے فوری جواب دیتے ہوئے دایاں ہاتھ نسرین کے چہرے پر جما دیا جس پر وہ لڑکھڑا کر گر گئی۔ ناصر کو فریحہ چیخ سنائی دی جو رمیض کے ساتھ اپنے کمرے کے باہر کھڑی سب دیکھ رہی تھی۔ ناصر نے بچوں کی طرف دیکھا تو وہ اپنے کمرے میں چلے گئے۔ نسرین خود کو سنبھالتی ہوئی اٹھی۔ سارا کرب آنکھوں سے کسیلے پانی کی صورت بہنے لگا ، اس نے پونچھنے کی ضرورت نہ سمجھی اور جستی چادر سے بنے ٹرنک سے آٹا نکال کر چھاننے لگی۔ اس کی ٹھوڑی سے چند قطرے غم اور غصے سے کشید شراب بن کر آٹے میں جا گرے جیسے جاڑے میں پتوں سے اوس گرتی ہے۔
ناصر سیدھے ہاتھ کی انگلیوں کے پپوٹے ہتھیلی پر رگڑتا ،چپ چاپ نسرین کا جھکا ہوا چہرہ دیکھتا رہا۔ اس نے تین چار بار بچوں کے کمرے کی طرف بھی دیکھاجس کا دروازہ بند تھا۔ وہ نسرین کا بھیگا چہرہ زیادہ دیر نہ دیکھ سکا اور غسل خانے چلا گیا۔ غسل خانے میں فلش پر اکڑوں بیٹھا معدے سے دماغ میں منتقل ہوئی تیزابیت پر قابو پانے کی کوشش کرتا رہا۔ وہ عجب کشمکش میں تھا۔
نسرین کے چہرے پر لگے تھپڑ کی آواز کانوں میں گونج رہی تھی۔ مردانگی کا سوال بھی سر اٹھاتا۔ نسرین نے اسے کئی بار بتایا تھا کہ پلنگ توڑ مشق یا مارپیٹ ہی مردانگی نہیں اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے ۔ وہ کبھی غسل خانے کی دیوار پر مکا مار کر غصہ نکالتا تو کبھی ماتھے کو زور سے پکڑ کر دباتا کہ سب کچھ نچڑ کر نکل جائے۔ غلط اور صحیح کی پرکھ میں سگریٹ پر سگریٹ سلگاتا۔ کبھی خود کو قصور وار مانتا اور کبھی نسرین پر سارا ملبا ڈال دیتا۔ سر پر پانی ڈالتا کہ دماغ ٹھنڈا ہو کر کالا دھواں چھوڑنے والے انجن کی طرح چل جائے۔ یہ حربہ بھی زیادہ کارگر نہ ہوا تو غسل خانے سے نکل کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ پھر بچوں کے کمرے میں گیا۔ بچے سہمے ہوئے تھے۔ ناصر نے بچوں کو پیار کیا، کچھ پیسے دیے اور گھر سے نکل پڑا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ناصر کو گھر سے نکلے تین گھنٹے اور چالیس منٹ ہوئے تو بس نے اسے شیر شاہ سوری کی بنائی شاہراہ کے ایک چوراہے پر اتار دیا۔ اس نے چوراہے پر کھڑے ہو کر چاروں طرف دیکھا۔ گاڑیاں روشنی کی سی تیزی سے آ جا رہی تھیں۔ اس نے بھی تیزی سے سڑک پار کی اور آبائی گائوں کو جانے والی ذیلی سڑک پر چلنا شروع کر دیا۔ ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ موٹر سائیکل گزرتی تو کچھ دیر کے لیے روشنی ہو جاتی۔ پیچھے سے آتی کار گزرتی اور دھول چھوڑ جاتی۔ سامنے سے آنے والی روشنی آنکھیں چندھیا دیتی۔ ایک موٹرسائیکل رکشا آیا اور ناصر کے ہاتھ دینے سے پہلے ہی موٹی باریک آوازیں نکالتا گزر گیا۔
ناصر رکشے کو جاتا دیکھ کر رک گیا۔ جب رکشا نظروں سے اوجھل ہو گیا تو سڑک کے ساتھ کچے پر چلنے لگا۔ اب اس کا دماغ بھی چلنا شروع ہو گیا تھا۔ اسے سارا واقعہ گھوم پھر کر تنگ کرنے لگا۔ بچوں کے چہروں پر ڈر نظر آ رہا تھا اور نسرین کا تر چہرہ بھی ساتھ ساتھ تھا جو اسے اندھیرے میں روشن محسوس ہوا۔ وہ اسی روشنی کے پیچھے آدھے گھنٹے کی پیدل مسافت کے بعد گھر کے دروازے پر پہنچ گیا۔ بجلی گئی ہوئی تھی، گھنٹی بج نہیں سکتی تھی۔اس نے تین چار بار دروازہ زور زور سے پیٹا تو چھوٹے بھائی نے دروازہ کھول دیا اور جھٹ سے گلے لگ گیا۔ اس کے پیچھے کچھ فاصلے پر ناصر کا ابا بندوق پکڑے کھڑا اپنی آنکھوں پر زور دے کر دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
ناصر کو دیکھ ابا کی دو نالی کا منہ زمین کی طرف ہو گیا۔ اس کے ابا نے جا کر کمرے میں بندوق رکھی اور صحن میں سوئی ناصر کی اماں کو اٹھایا۔ اس کی اماں نے بیٹری سے چلنے والی ٹارچ کی روشنی میں روٹیاں بنا کر دیںجو ناصر صدیوں سے بھوکے کی طرح کھانے لگا۔ وہ کھاتا رہا اور اماں بلائیں لیتی رہی۔ چھوٹا بھائی صبح ملنے کا کہہ کر دوبارہ سو گیا۔ ابا چارپائی پر بیٹھا ناصر کی اچانک آمد کا راز اپنی سفید ڈاڑھی میں انگلیوں سے ڈھونڈنے کی کوشش کرتا رہا۔
ناصر کھانا کھا کر فارغ ہوا تو ابا نے اِدھر اُدھر کی باتیں چھیڑ دیں۔ اماں بھی کچھ دیر ہوں ہاں کرتی رہی۔ پھر اس کے خراٹے سنائی دینے لگے جس کے بعد ابا نے سرگوشیوں میں سوال شروع کر دیے۔ ناصر کے جوابات سے اچانک آمد کا سبب معلوم ہوا تو ابا نے نصیحتوں کا پٹارا کھول دیا۔ ناصر چپ چاپ سنتا رہا جب تک ابا مشورے دیتے دیتے سونہ گیا۔
ناصر کو نیند نہیں آ رہی تھی۔ ہر طرف خاموشی تھی، سوائے جھینگر کی آواز کے جو بار بار کسی دیوار کی درز سے اپنی موجودگی سے آگاہ کرتا۔ ناصر جھینگر کی آواز کو نظر انداز کرکے خالی آنکھوں سے تاروں بھرا آسمان تکتا رہا جہاں کئی تارے تھے لیکن اس کے ستارے گائوں سے دور شہر میں سو رہے تھے۔ گائوں میں چاند بڑا چمک دار معلوم ہو رہا تھا۔ اس کی چاندنی گائوں سے دور جس چاند کو تک رہی تھی، وہ اتنا چمک دار نہیں تھا۔ اس کے چاند کو گرہن لگ گیا تھا۔ آدھی رات ہو چکی تھی اور طرح طرح کے وسوسے گھیرائو کیے ہوئے تھے۔
مولوی کے اذان دینے سے پہلے مرغ نے بانگیں دینا شروع کر دیں اور ناصر کی آنکھ کھل گئی۔ اس کی اماں اور ابا پہلے ہی اٹھ چکے تھے۔ بھائی ابھی نیند سے لطف اٹھا رہا تھا۔ ناصر چت لیٹا نیلگوں آسمان تکنے لگا جو اس وقت سیاہی مائل ہو رہا تھا۔ آہستہ آہستہ سیاہی چھٹنے لگی۔ گلی سے ہلکے اور بھاری قدموں کی چاپ سنائی دینے لگی۔ چڑیاں بھی چہچہانے لگیں۔ ایک عرصہ ہو گیا تھا اس نے چڑیوں کی آواز نہیں سنی تھی۔اس کے بکھرے خیالات کے ساتھ سارا سماں عجب رنگ لیے ہوئے تھا۔
ناصر کو زیادہ دیر سوچوں میں گم نہیں رہنا پڑا ۔ اماں نے کھانا تیار ہونے کی آواز دے دی۔ اس نے بڑے دنوں بعد دیسی گھی سے چپڑی روٹی کھائی۔ لسی کا بڑا گلاس پینے کے بعد بڑی سی ڈکار لی اور اماں کی طرف دیکھا جو سب کو کھانا کھلا کر خود کھانے لگی تھی۔چھوٹا بھائی مرغیوں کو دانہ ڈال رہا تھا۔ ناصر کی نگاہوں نے اپنے ابا کو ڈھونڈا جو حقہ تیار کر رہا تھا۔ اس کے یوں دیکھنے پر ابا پاس آکر چارپائی پر بیٹھ گیا۔ ناصر کوبات بات پر ٹھکائی کرنے اور گالیاں دینے والے ابا کے ساتھ یوں بیٹھنا کبھی اچھا نہیں لگا تھا لیکن آج سکون مل رہا تھا۔
وہ بچوں کی طرح تجسس سے مرغیوں کو دیکھنے لگا۔ مرغیوں کی دانہ چگتے ہوئے نکلنے والی آوازیں کانوں میں رس گھول رہی تھیں لیکن مرغے کے منہ سے نکلنے والی آواز پکے راگ ایسی تھی۔ وہ مرغے کو دیکھ کر حیران ہو رہا تھا۔ مرغیاں دانہ دنکا پوری ایمان داری سے چگ رہی تھیں اور مرغا پاس کھڑا چُک چُک کیے جا رہا تھا۔ جہاں دانہ نظر آتا، دو چار سُر لگاکر مرغیوں کو بلالیتا۔ مرغیاں آکر چگ لیتیں۔ وہ کھڑا دیکھتا رہتا۔ خود نہ چگتا۔
ناصر نے ڈبے سے مٹھی بھر کر دانے نکالے۔ مرغے کے قریب جا کر مٹھی کھول دی۔ مرغے نے چونچ سے دانے زمین پر گرا ئے اور مرغیوں کو بلالیا۔ ناصر نے مرغیوں کو ہاتھ ہلا ہلا کر ڈرایا، تو مرغا ناصر پرجھپٹ پڑا۔ناصر پیچھے ہٹ گیا لیکن مرغے نے شور مچائے رکھا۔ ناصر مرغے کی دلیری سے خوش ہو کر واپس چارپائی پر آگیا۔ اس نے اپنے ابا سے پوچھا۔
”مرغا کیوں نہیں کھا رہا؟”
”مرغیاں کھا کر فارغ ہوں گی تو مرغا بھی کھا لے گا۔” ابا نے حقے کی نَے ہونٹوں میں دبانے سے پہلے کہا۔
”اچھا؟ ایسا کیوں؟” ناصر نے حیرانی سے پوچھا۔
”کیوں کہ وہ مرغا ہے اور یہ اس کے اصلی نر ہونے کی نشانی ہے۔” ابا نے ہنستے ہوئے گلے میں جما ریشہ دھوئیں سے نکالنے کی کوشش کی جس پر اسے کھانسی کا دورہ پڑ گیا۔ ناصر ابا کو پیچھے سے تھپکیاں دینے لگا۔ ناصر تھپکیاں دیتے ہوئے ابا کے کندھے دیکھنے لگا جو اب تک اس کے کندھوں سے چوڑے تھے۔ حقے نے ان کا کچھ خاص نہیں بگاڑا تھا لیکن اماں نے حقے کو صلواتیں سنانی شروع کر دیں۔ ابا کی کھانسی رکی تو ناصر پھر مرغے کو دیکھنے لگا جس نے اس کے اندر اتھل پتھل مچائی تھی۔
ناصرکبھی ابا اور کبھی اماں کے پاس بیٹھ کر باتیں کرتا رہا۔ دوپہر ہونے کو آئی تو واپسی کی اجازت لی۔ اماں نے جی بھر کر پیار کیا۔ ناصر سر جھکا کر ابا سے ملا۔ دروازے سے نکلتے ہوئے چھوٹے بھائی کو دعوت دی۔
”تو میرے پاس شہر آ جا، پکا پکا۔”
”میرا کھیت کون سنبھالے گا؟ ” چھوٹے نے مسکراتے ہوئے جواب دیا اور اسے شیرشاہ سوری کی سڑک تک چھوڑنے کے لیے ساتھ چل پڑا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});