تائی ایسری — کرشن چندر

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

دراصل میں ان دنوں بہت ہی تلخ مزاج ہو چلا تھا۔ کالج کے دنوں میں، میں اکثر انقلاب کی باتیں کیا کرتا تھا۔ پھر جب زندگی نے مجھے کامرانی بخشی اور میری پریکٹس چل نکلی تو انقلاب کا جوش سرد پڑ گیا اور ہوتے ہوتے یہ لفظ میرے ذہن سے محو ہو گیا۔ اب جالندھر آ کر جو یہ افتاد پڑی تو میرے دل میں پھر سے انقلاب کے خیال نے کروٹ لی اور میں اپنی طرح کے چند جوشیلے اور لٹے پٹے لوگوں کی صحبت میں بیٹھ کر پھر سے اسی تلخی، تیزی اور تندی سے انقلاب کی باتیں کرنے لگا۔
یہ سب لوگ اکثر تائی ایسری کی دوسری منزل میں میرے کمرے میں ملتے۔ چائے کا دور چلتا اور دنیا جہان کی باتیں ہوتیں اور میں جوش میں اپنا مکا ہوا میں لہرا کر کہتا۔ ہم سے انصاف نہیں ہو رہا ہے اور ان لوگوں سے انصاف کی توقع بھی نہیں ہے۔ یقیناً اس ملک میں پھر ایک انقلاب آئے گا اور ضرور آ کے رہے گا وہ انقلاب۔
ایک دن تائی ایسری نے ہماری باتیں سن لیں تو گھبرائی گھبرائی اندر آئیں۔ بولیں، ’’بیٹا! کیا مسلمان یہاں پھر آئیں گے؟‘‘
’’نہیں تائی، تم سے کس نے کہا؟‘‘
’’تو تم یہاں کس انقلاب کا ذکر کر رہے ہو جو یہاں آئے گا؟‘‘
تائی نے انقلاب کو مسلمان سمجھا تھا، جب یہ بات ہماری سمجھ میں آئی تو ہم سب ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو گئے۔
’’کتنی بھولی ہے ہماری تائی۔ اری تائی، ہم تو اس انقلاب کا ذکر کر رہے ہیں جو نہ ہندو ہے نہ مسلمان ہے، جو سب کا انقلاب ہے۔ ہم تو اس انقلاب کو لانا چاہتے ہیں۔‘‘
مگر تائی کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ وہ ہولے سے سر ہلا کر بولیں، ’’اچھا تم لوگ باتیں کرو۔ میں تمہارے لئے چائے بنا کے لاتی ہوں۔‘‘
تائی نے میری مدد کرنے کے لئے اپنا سولہ تولے کا ایک گوکھرو بیچ دیا۔ اس رقم کو لے کر میں اپنی فیملی کے ساتھ دہلی آ گیا۔ کیونکہ جالندھر میں افراتفری تھی اور غیریقینی سی حالت ہر وقت چھائی رہتی تھی۔ دہلی آ کر میں نے پھر سے پریکٹس شروع کر دی۔ چند سالوں ہی میں میری پریکٹس پھر چمک اٹھی۔ میں قرول باغ میں پریکٹس کرتا تھا اور قرول باغ لاہور کے بہت سے ریفیوجیوں سے بھرا پڑا تھا جو مجھے جانتے تھے۔ ہولے ہولے میں نے اپنا اڈہ ٹھیک سے جما لیا۔ پریکٹس چمک اٹھی، دس سال میں میں نے قرول باغ میں اپنی کوٹھی کھڑی کر لی۔ گاڑی بھی خرید لی۔ اب قرول باغ کے سر کر دہ افراد میں میرا شمار ہوتا تھا۔ اب میں انقلاب کی باتیں بھول بھال گیا۔ میری خونی بواسیر بھی ٹھیک ہو گئی اور تلخی کے بجائے مزاج میں شگفتگی عود کر آئی جو ایک ڈاکٹر کے مزاج کے لئے از حد ضروری ہے۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

تیرہ سال کے بعد گزشتہ مارچ میں مجھے ایک عزیز کی شادی میں جالندھر جانا پڑا۔ اس تیرہ سال کے عرصہ میں، میں تائی ایسری کو بھول بھال گیا تھا۔ رشتہ دار تو اس وقت یاد آتے ہیں، جب مریض نہ ہوں۔ لیکن جالندھر پہنچتے ہی مجھے تائی ایسری کی یاد آئی۔ ان کے احسانات یاد آئے۔ وہ سونے کا گوکھرو یاد آیا، جسے بیچ کر میری پریکٹس چلانے کی رقم بہم پہنچائی گئی تھی اور وہ رقم میں نے آج تک تائی ایسری کو ادا نہیں کی تھی۔ جالندھر اسٹیشن پر اترتے ہی میں سیدھا تائی ایسری کے گھر چلا گیا۔
شام کا جھٹپٹا تھا، ہوا ایندھن کے دھوئیں، تیل کی بو اور گھر واپس آتے ہوئے بچوں کی آوازوں سے معمور تھی۔ جب میں تائی ایسری کے مکان کی نچلی منزل میں داخل ہوا۔ گھر میں اس وقت تائی کے سوا کوئی نہیں تھا۔ وہ اپنے گھر میں بھگوان کی مورتی کے سامنے گھی کا دیا جلائے پھول چڑھا کر ہاتھ جوڑ کر واپس گھوم رہی تھی، جب کہ انہوں نے میری آہٹ پاکر پوچھا، ’’کون ہے؟‘‘
’’میں ہوں!‘‘میں نے کمرہ میں قدم آگے بڑھا کر مسکراتے ہوئے کہا۔
تائی دو قدم آگے بڑھیں، مگر مجھے پہچان نہ سکیں۔ تیرہ برس کا عرصہ بھی ایک عرصہ ہوتا ہے۔ اس عرصہ میں وہ بے حد نحیف و نزار ہو گئی تھیں۔ ان کا چہرہ بھی دبلا ہو گیا تھا اور وہ ہولے ہولے قدم اٹھاتی تھیں۔
’’میں رادھا کشن ہوں۔‘‘
’’جے کشن دا کاکا؟‘‘تائی کی آواز بھرا گئی۔ ممکن تھا وہ جلدی سے آگے بڑھنے کی کوشش میں گر پڑتیں۔ مگر میں نے انہیں جلدی سے تھام لیا اور وہ میرے بازو سے لگ کر رونے لگیں۔ انہوں نے میری بلائیں لیں، میرا منہ چوما، میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولیں، ’’اتنے دن کہاں رہے بیٹا؟ اپنی تائی کو بھی بھول گئے؟‘‘
انتہائی شرمندگی سے میرا سر جھک گیا۔ میں نے کچھ کہنا چاہا۔ مگر کچھ کہہ نہ سکا۔ تائی نے میری پریشانی کو فوراً بھانپ لیا۔ جلدی سے پھولے پھولے سانسوں میں اکھڑے اکھڑے لہجہ میں بولیں، ’’سروج راضی خوشی ہے نا؟‘‘
’’ہاں تائی۔‘‘
’’اور وڈا کاکا۔‘‘
’’ڈاکٹری میں پڑھتا ہے۔‘‘
’’اور نکا؟‘‘
’’کالج میں پڑھتا ہے۔‘‘
’’اور شانو اور بٹو؟‘‘
’’وہ دونوں بھی کالج میں پڑھتی ہیں۔ کملا کی میں نے شادی کر دی ہے!‘‘
’’میں نے بھی ساوتری کی شادی کر دی ہے۔ پورن اب رڑکی میں پڑھتا ہے۔ نمی اور بنی کے ماں باپ مل گئے تھے وہ آ کر ان کو چھ سال کے بعد لے گئے تھے۔ کبھی کبھی ان کی چٹھی پتری آ جاتی ہے۔ میرے پاس اب صرف گوپی رہ گیا ہے۔ اگلے سال وہ بھی ریلوے ورکشاپ میں کام سیکھنے کے لئے چلا جائے گا۔‘‘
یہ تائی کے ان یتیم بچوں کی داستان تھی جو انہوں نے فساد میں لے کر پالے تھے۔
میں نے ناخن سے اپنی ٹھوڑی کھجاتے کھجاتے کہا، ’’تائی وہ تیرا قرضہ مجھ پر باقی ہے، کیسے بتاؤں کتنا شرمندہ ہوں، اب تک نہ بھیج سکا۔ اب دلی جاتے ہی بھیج دوں گا۔‘‘
’’کیسا قرضہ بیٹا؟‘‘تائی نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’وہی گوکھرو والا!‘‘
’’اچھا وہ؟‘‘یکایک تائی کو یاد آیا اور وہ بڑے میٹھے انداز میں مسکرانے لگیں۔ پھر میرے سر پر ہاتھ پھیر کر بولیں، ’’وہ تو تیرا قرضہ تھا بیٹا، جو میں نے چکا دیا!‘‘
’’میرا قرضہ کیسا تھا تائی؟‘‘میں نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’یہ زندگی دوسروں کا قرضہ ہے بیٹا۔‘‘ تائی سنجیدہ رو ہو کر بولیں، ’’اسے چکاتے رہنا چاہئے۔ تو کیا اس سنسار میں خود پیدا ہوا تھا؟ نہیں، تجھے تیرے ماں باپ نے زندگی دی تھی تو پھر تیری زندگی کسی دوسرے کا قرضہ ہوئی کہ نہیں؟ پھر یہ قرضہ ہم نہیں چکائیں گے تو یہ دنیا آگے کیسے چلے گی۔ ایک دن پرلے (قیامت) آ جائے گی۔۔۔ بیٹا۔ اسی لئے تو کہتی ہوں، میں نے تیرا قرضہ چکایا ہے تو کسی دوسرے کا قرضہ چکا دے۔۔۔ ہر دم چکاتے رہنا، جیون کا دھرم ہے۔‘‘ تائی اتنی لمبی بات کر کے ہانپنے لگیں۔
میں کیا کہتا، روشنی سے سایہ کہہ بھی کیا سکتا ہے؟ اسی لئے میں سب کچھ سن کر چپ ہو گیا۔ وہ بھی چپ ہو گئیں۔ پھر آہستہ سے بولیں، ’’اب میرے ہاتھ پاؤں کام نہیں کرتے، ورنہ تیرے لئے کھانا پکاتی۔ اب گوپی آئے گا تو کھانا بنائے گا تیرے لئے۔ کھانا کھا کر جانا۔۔۔ میں‘‘
’’نہیں تائی اس کی کیا ضرورت ہے۔ وہاں بھی تیرا ہی دیا کھاتے ہیں۔‘‘ میں نے آہستہ سے کہا، ’’میں یہاں تیج پال کی شادی پر آیا تھا۔ اسٹیشن سے سیدھا تمہارے گھر آ رہا ہوں۔ اب شادی والے گھر جاؤں گا۔‘‘
’’بلاوا تو مجھے بھی آیا ہے۔ مگر دو دن سے میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، اس لئے میں نہیں جا سکتی۔ شگن میں نے بھیج دیا تھا، تم میری طرف سے تیج پال کے سر پر پیار دینا!‘‘
’’بہت اچھا تائی‘‘ کہہ کر میں تائی کے چرنوں میں جھکا۔ انہوں نے مجھے بڑے پیار سے اپنے گلے لگا لیا۔ میرے سر پر ہاتھ پھیر کر سو سو دعائیں دے کر بولیں، ’’بیٹا! میرا ایک کام کرو گے؟‘‘
’’حکم کرو تائی۔‘‘
’’کیا کل تم صبح آ سکتے ہو؟‘‘
’’کیا بات ہے تائی، اب میں تمہیں مل کے تو جا رہا ہوں۔‘‘
تائی جھجکتے جھجکتے بولیں، ’’میری آنکھیں کمزور ہو چکی ہیں۔ رات میں مجھے کچھ نظر نہیں آتا۔ ایسا جنم جلا اندھیرا چھایا ہے کہ کچھ نظر نہیں آتا۔ اگر تم صبح کسی وقت دن میں آ جاؤ تو میں تمہیں اچھی طرح دیکھ لوں گی۔ تیرہ سال سے تجھے نہیں دیکھا ہے کاکا!‘‘
میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں نے گلو گیر لہجے میں کہا، ’’آ جاؤں گا تائی!‘‘
دوسرے دن بارات کے لوگ کچھ آنے والے تھے۔ صبح ہی ہم لوگوں کو پیشوائی کے لئے اسٹیشن پر جانا تھا۔ وہاں سے لوٹتے وقت مجھے یاد آیا۔ میں ان لوگوں سے معذرت کر کے تائی ایسری کے گھر کی طرف ہو لیا۔ گلی کے موڑ پر مجھے دو دو چار چار کی ٹولیوں میں لوگ سر جھکائے ملے۔ مگر میں جلدی جلدی سے قدم بڑھاتا ہوا آگے چلا گیا۔ مکان کی نچلی منزل پر مجھے اور بہت سے لوگ روتے ہوئے ملے۔ معلوم ہوا آج صبح تائی ایسری کی موت واقع ہو گئی اور جب ہم اسٹیشن گئے ہوئے تھے وہ چل بسی
اندر کمرے میں ان کی لاش پڑی تھی۔ ایک سفید چادر میں ملبوس، چہرہ کھلا رہنے دیا تھا۔ کمرہ میں کافور اور لوبان کی خوشبو تھی اور ایک پنڈت ہولے ہولے وید منتر پڑھ رہا تھا۔
تائی ایسری کی آنکھیں بند تھیں اور ان کا معصوم بھورا بھورا چہرہ، پرسکون خاموش اور گہرے خوابوں میں کھویا ہوا ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ تائی ایسری کا چہرہ نہ ہو، دھرتی کا پھیلا ہوا لا متناہی چہرہ ہو۔ جس کی آنکھوں سے ندیاں بہتی ہیں۔ جس کی ہر شکن میں لاکھوں وادیاں انسانی بستیوں کو اپنی آغوش میں لئے مسکراتی ہیں۔ جس کے انگ انگ سے بے غرض پیار کی مہک پھوٹتی ہے، جس کی معصومیت میں تخلیق کی پاکیزگی جھلکتی ہے، جس کے دل میں دوسروں کے لئے وہ بے پناہ مامتا جاگتی ہے جس کا مزہ کوئی کوکھ رکھنے والی ہستی ہی پہچان سکتی ہے۔
میں ان کے پاؤں کے قریب کھڑا ان کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ یکایک کسی نے آہستہ سے میرے شانے پر ہاتھ رکھا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو میرے سامنے ایک بائیس تیئس برس کا نوجوان کھڑا تھا۔ اس کی بڑی بڑی آنکھوں کو دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ ابھی روئی ہیں، ابھی پھر رو دیں گی۔
اس نے آہستہ سے کہا، ’’میں گوپی ناتھ ہوں۔‘‘
میں سمجھ تو گیا، مگر خاموش رہا۔ کچھ سمجھ بھی نہیں آتا تھا کیا کہوں کیا نہ کہوں۔
’’میں تیج پال کے گھر آپ کو ڈھونڈنے گیا تھا۔ مگر آپ اسٹیشن پر گئے ہوئے تھے۔‘‘ وہ پھر بولا۔
میں پھر بھی چپ رہا۔
گوپی ناتھ دھیرے سے بولا، ’’صبح تائی نے آپ کو بہت یاد کیا۔ انہیں معلوم تھا کہ آپ آنے والے ہیں۔ اس لئے وہ مرتے مرتے بھی آپ کا انتظار کرتی رہیں۔ آخر جب انہیں یقین ہو گیا کہ مرنے کا وقت آن پہنچا ہے اور آپ نہیں آئیں گے تو انہوں نے مجھ سے کہا، ’’جب میرا بیٹا رادھا کشن آئے تو اسے یہ دے دینا۔‘‘ یہ کہہ کر گوپی نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور میری ہتھیلی پر ایک چونی رکھ دی۔
چونی دیکھ کر میں رونے لگا۔
مجھے نہیں معلوم۔ آج تائی ایسری کہاں ہیں، لیکن اگر وہ سورگ میں ہیں تو وہ اس وقت بھی یقیناً ایک رنگین پیڑھی پر بیٹھی اپنی پچھی سامنے کھول کر بڑے اطمینان سے دیوتاؤں کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے انہیں چونیاں ہی بانٹ رہی ہوں گی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اشکِ وفا — ماریہ نصیر (تیسرا اور آخری حصّہ)

Read Next

معطّر فضاؤں کے راہی — فرزانہ روحی اسلم (پہلا حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!