تائی ایسری — کرشن چندر

وہ ہم سب کو بچوں کی طرح سمجھاتے ہوئے بولیں، ’’دیکھو، میرا خیال ہے کہ یہ لمبا صوفہ تو اس لئے بنا ہے کہ جب دونوں میاں بیوی میں صلح ہو تو وہ دونوں اس لمبے صوفے پر بیٹھیں اور جب ان دونوں میں لڑائی ہو تو الگ الگ ان دو چھوٹے چھوٹے صوفوں پر بیٹھیں۔ سچ مچ یہ انگریز بڑے عقل مند ہوتے ہیں جبھی تو ہم پر حکومت کرتے ہیں۔‘‘
تائی کی دلیل سن کر محفل میں ایک زوردار قہقہہ پڑا۔ مگر میں نے دیکھا کہ تائی یہ سوچ کر اور بات کہہ کر چپ سی ہو گئیں۔ کیا اس وقت انہیں اپنا اور اپنے خاوند کا جھگڑا یاد آیا تھا۔ یہ تو میں نہیں کہہ سکتا۔
میں نے جب غور سے ان کی آنکھوں میں دیکھا تو ایک پل کے لئے مجھے ان کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک نظر آئی۔ پھر مجھے محسوس ہوا، جیسے دریا کا پاٹ بہت چوڑا ہو گیا ہو۔
کلکتہ سے ایم۔ بی۔ بی۔ ایس کرنے کے بعد میں نے وہیں ایک بنگالی لڑکی سے شادی کر لی اور دھرم تلے میں پریکٹس کرنے لگا۔ کئی سال کوشش کرتا رہا مگر پریکٹس نہ چلی۔ چنانچہ اپنے بڑے بھائی کے اصرار پر لاہور چلا آیا۔ بھائی صاحب نے کوچہ ٹھاکر داس کے نکڑ پر مجھے دوکان کھول دی اور میں اپنے گھر میں یعنی اپنے محلے میں اپنی برادری ہی کے سہارے پریکٹس چلانے لگا۔ کلکتہ میں، میں بالکل اناڑی تھا اور زندگی کا تجربہ بھی نہ تھا۔ یہاں آ کر جب آٹھ دس برسوں میں گاہک کو پھانسنے کی ترکیب سمجھ میں آئی تو پریکٹس خود بخود چل نکلی۔ اب دن رات مصروف رہتا تھا۔ بچے بھی ہو گئے تھے۔ اس لئے زندگی سوت کی انٹی کی طرح ایک ہی مدار پر چکر کھانے لگی۔ ادھر ادھر جانے کا موقع کم ملتا تھا۔ اب تو کئی برس سے تائی ایسری کا منہ نہ دیکھا تھا مگر اتنا سن رکھا تھا کہ تائی ایسری اس مکان میں محلہ ونجاراں میں رہتی ہیں اور تایا یودھ راج شاہی محلے میں اسی لچھمی کے مکان میں رہتے ہیں اور کبھی کبھی دوسرے تیسرے مہینے تائی ایسری کی خبر لینے آ جاتے ہیں۔
ایک روز میں صبح کے وقت مریضوں کی بھیڑ میں بیٹھا نسخے تجویز کر رہا تھا کہ محلہ ونجاراں کے ایک آدمی نے آ کر کہا، ’’جلدی چلئے ڈاکٹر صاحب، تائی ایسری مر رہی ہیں!‘‘
میں اسی وقت سب کام چھوڑ چھاڑ کر اس آدمی کے ساتھ ہو لیا۔ محلہ ونجاراں کے بالکل اس آخری سرے پر تائی ایسری کا مکان تھا۔ پہلی منزل کی سیڑھیاں چڑھ کر جب میں آہنی سلاخوں والے موکھے سے گزر کر ان کے نیم تاریک کمرہ میں داخل ہوا تو وہ بڑے بڑے تکیوں کا سہارا لئے پلنگ سے لگی بیٹھی تھی۔ ان کی سانس زور زور سے چل رہی تھی اور انہوں نے بڑے زور سے اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں طرف گویا اپنے دل کو پکڑ رکھا تھا۔ مجھے دیکھ کر ہی وہ پھولے پھولے سانسوں میں مسکرانے لگیں۔ بولیں، ’’تو آ گیا پتر۔ اب میں بچ جاؤں گی۔‘‘
’’کیا تکلیف ہو گئی ہے تائی؟‘‘
’’ہوتا کیا، موت کا بلاوا آ گیا تھا۔ دو دن مجھے سخت کس (بخار) رہی۔ پھر ایکا ایکی جسم ٹھنڈا ہونے لگا۔ (بیان کرتے کرتے تائی کی آنکھوں کی پتلیاں پھیلنے لگیں) پہلے ٹانگوں سے جان گئی۔ ٹانگوں کو ہاتھ لگاؤ تو ٹھنڈی یخ، چٹکی بھروبہرو تو کچھ محسوس نہ ہو، پھر دھیرے دھیرے میری جان کمر سے نکل گئی اور جب میری جان اوپر سے بھی نکلنے لگی تو میں نے زور سے اپنے کلیجہ کو پکڑ لیا۔‘‘ تائی اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں طرف اپنے دل والے حصے کو اور زور سے پکڑ کر بولیں، ’’تو میں نے زور سے اپنے کلیجہ کو پکڑ لیا اور چلائی، ارے کوئی ہے، کوئی ہے تو جائے اور جے کشن کے بیٹے رادھا کشن کو بلا کے لائے، وہی مجھے ٹھیک کر سکتا ہے۔۔۔ اب تم آ گئے ہو، اب۔۔۔ اب میں بچ جاؤں گی۔‘‘ تائی ایسری نے مکمل طمانیت سے کہا۔
میں نے اپنا ہاتھ تائی کے دائیں ہاتھ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا، ’’تائی ذرا اپنا یہ ہاتھ ادھر کرو، تمہاری نبض تو دیکھوں۔‘‘
ایک دم تائی دوسرے ہاتھ سے میرا ہاتھ جھٹک کر بولیں، ’’ہائے وے تم کیسے ڈاکٹر ہو، تجھے اتنا نہیں معلوم کہ اس ہاتھ سے تو میں نے اپنی جان پکڑ رکھی ہے، اس ہاتھ کی نبض تجھے کیسے دکھا سکتی ہوں۔‘‘
تائی چند ہفتوں میں اچھی ہو گئیں۔ انہیں بلڈ پریشر کی شکایت تھی۔ جب وہ جاتی رہی تو پھر اٹھ کر گھومنے لگیں اور اپنے پرائے سب کے سکھ دکھ میں بدستور شریک ہونے لگیں۔ لیکن جب وہ اچھی ہوئیں تو اس کے چند ماہ بعد ہمارے تایا یودھ راج کا انتقال ہو گیا۔ وہیں لچھمی کے گھر شاہی محلے میں ان کا انتقال ہوا۔ وہیں سے ان کی ارتھی اٹھی کیوں کہ تائی نے ان کی لاش کو گھر لانے کی اجازت نہیں دی تھی۔ تائی نہ ارتھی کے ساتھ گئیں نہ انہوں نے شمشان گھاٹ کا رخ کیا نہ ان کی آنکھوں سے آنسو کا ایک قطرہ تک نکلا تھا۔ انہوں نے خاموشی سے اپنے سہاگ کی چوڑیاں توڑ ڈالیں۔ رنگین کپڑے اتار کر سپید دھوتی پہن لی اور ماتھے کی سیندور پونچھ کر چولہے کی راکھ اپنے ماتھے پر لگا لی۔ مگر ان کے دھرم کرم میں اور کسی طرح کا فرق نہ آیا بلکہ اپنے سفید بالوں سے وہ اب اس سفید دھوتی میں اور بھی اچھی لگ رہی تھیں۔ تائی کی اس حرکت پر برادری میں چہ میگوئیاں ہوئیں، سب کو اچنبھا ہوا۔ کچھ لوگوں نے برا بھی مانا۔ مگر تائی کی عزت اس قدر تھی کہ ان کے سامنے زبان کھولنے کی کسی کو ہمت نہ پڑی!
چند برس اور گزر گئے۔ اب میری پریکٹس اس قدر چمک اٹھی تھی کہ میں نے محلہ ٹھاکر داس کے شاہ عالمی گیٹ کے اندر کوچہ کرماں اور وچھو والی کے چوک میں بھی پریکٹس شروع کر دی تھی۔ صبح میں محلہ ٹھاکر داس میں بیٹھتا تھا، شام کو وچھو والی میں۔ زندگی کچھ اس نہج سے گزر رہی تھی کہ تائی ایسری کو دیکھے ہوئے ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو برس گزر جاتے تھے مگر گھر کی عورتوں سے تائی ایسری کی خبر ملتی رہتی تھی۔ تایا یودھ راج نے اپنے بینک کا روپیہ بھی لچھمی کو سونپ دیا تھا۔ مگر جالندھر کی دکان اور مکان تائی ایسری کے نام لکھ گئے تھے۔ ان سے ہر ماہ تائی ایسری کو ڈیڑھ سو روپیہ کرایہ آ جاتا تھا۔ وہ بدستور اسی طرح محلہ ونجاراں میں رہتی تھیں اور دن رات اپنے دھرم کرم میں ڈوبی رہتی تھیں۔
ایک روز اتفاق سے جب میں شاہی محلے میں ایک مریض کو دیکھ کر لوٹ رہا تھا تو مجھے تایا یودھ راج کی یاد آ گئی اور ان کی یاد سے لچھمی کی یاد آ گئی۔ کیونکہ لچھمی بھی تو اسی شاہی محلہ میں کہیں رہتی تھی اور جب لچھمی کی یاد آئی تو میرا ذہن فوراً تائی ایسری کی طرف منتقل ہو گیا اور میرا ضمیر مجھے ملامت کرنے لگا۔ غالباً بارہ پندرہ مہینوں سے میں تائی ایسری کو دیکھنے نہ گیا تھا۔ میں نے سوچا میں کل یا پرسوں پہلی فرصت ہی میں تائی ایسری کو دیکھنے جاؤں گا۔
ابھی میں یہی سوچ رہا تھا کہ شاہی محلے کی ایک گلی سے میں نے تائی ایسری کو نکلتے دیکھا۔ قرمزی شاہی کے بجائے اب وہ سیاہ شاہی کا گھاگھرا پہنے تھیں جس پر نہ گوٹہ تھا نہ لچکا۔ قمیض بھی سفید رنگ کی تھی اور سر پر انہوں نے سفید ململ کا دوہرا دوپٹہ لے رکھا تھا۔ جس میں ان کا گول مٹول چہرہ بالکل میڈونا کی طرح معصوم اور پراسرار نظر آ رہا تھا۔
جس لمحہ میں نے انہیں دیکھا اسی لمحہ انہوں نے بھی مجھے دیکھا اور مجھے دیکھتے ہی وہ شرما سی گئیں اور فوراً مجھ سے کترا کر واپس گلی میں جانے لگیں کہ میں نے انہیں فوراً آواز دے دی۔ میری آواز میں ایک ایسی حیرت تھی جو ایک چیخ سے مشابہ تھی۔ یہ تائی ایسری یہاں طوائفوں کے محلے میں کیا کر رہی تھیں؟
’’تائی ایسری!‘‘ میں نے چلا کر کہا، ’’تائی ایسری!‘‘میں نے پھر آواز دی۔
میری آواز سن کر وہ پلٹ آئیں۔ سامنے آ کر ایک گنہگار مجرم کی طرح کھڑی ہو گئیں۔ ان کی نگاہیں اوپر نہ اٹھتی تھیں۔
’’تائی ایسری تم یہاں کیا کرنے آئی ہو؟‘‘میں نے کچھ حیرت سے کچھ غصے سے ان سے کہا۔
وہ اسی طرح سر نیچا کئے آہستہ آہستہ جھجکتے جھجکتے بولیں، ’’وے پتر! کیا بتاؤں وہ۔۔۔ وہ۔۔۔میں نے سنا تھا کہ لچھمی بیمار ہے، بہت سخت بیمار ہے۔ میں نے سوچا اسے دیکھ آؤں۔۔۔
’’تم یہاں لچھمی کو دیکھنے آئی تھیں؟‘‘میں نے غم اور غصے سے تقریباً چیخ کر کہا۔
’’لچھمی کو لچھمی کو۔۔۔ اس بد ذات چھنال کو۔۔۔؟ جس نے۔۔۔ جس نے۔۔۔‘‘
تائی ایسری نے آہستہ سے اپنا ہاتھ اوپر اٹھایا اور میں کہتے کہتے رک گیا۔۔۔ ’’نہ کاکا! اس کو کچھ نہ کہو۔ کچھ نہ کہو!‘‘ تائی ایسری نے اپنی ڈبڈباتی ہوئی آنکھیں اوپر اٹھائیں اور ایک ٹھنڈی سانس لے کر بولیں، ’’مرنے والے کی یہی ایک نشانی رہ گئی تھی۔ آج وہ بھی چل بسی!‘‘
سن 47ءکے فسادات میں ہم لوگ لاہور چھوڑ کر جالندھر میں پناہ گزین ہوئے۔ کیوں کہ یہاں پر تائی ایسری کا گھر تھا۔ خاصہ کھلا دو منزلہ گھر تھا۔ اوپر کی منزل انہوں نے اپنے رشتہ دار پناہ گزینوں کو دے ڈالی تھی۔ نچلی منزل میں وہ خود رہتی تھیں۔ ہر روز وہ ریفیوجی کیمپوں میں سیوا کرنے جاتیں اور کبھی کبھار دو ایک یتیم بچے اٹھا لاتیں۔ چار پانچ ماہ ہی میں انہوں نے چار لڑکے اور تین لڑکیاں اپنے پاس رکھ لیں۔ کیوں کہ ان کے ماں باپ کا کچھ پتہ نہیں چلتا تھا۔ پچھواڑے کے آنگن اور سامنے دالان میں انہوں نے مختلف پناہ گزینوں کو سونے اور کھانا پکانے کی اجازت دے دی تھی۔ ہوتے ہوتے ایک اچھا خاصا گھر سرائے میں تبدیل ہو گیا۔ مگر میں نے تائی ایسری کے ماتھے پر کبھی ایک شکن نہیں دیکھی۔
وہ اپنے گھر میں بھی باہر سے اس طرح آتی تھیں جیسے وہ گھر ان کا نہ ہو، ان پناہ گزینوں کا ہو جنہیں انہوں نے اپنے گھر میں رہنے کی خود اجازت دی تھی۔ عورتوں میں شخصی جائیداد کی حس بہت تیز ہوتی ہے۔ مگر میں نے عورتوں میں تو کیا مردوں میں بھی ایسا کوئی فرد مشکل ہی سے دیکھا ہو گا۔ جسے تائی ایسری کی طرح شخصی جائیداد کا اس قدر کم احساس ہو۔ قدرت نے ان کے دماغ میں شاید یہ خانہ ہی خالی رکھا تھا۔ ان کے پاس جو کچھ تھا دوسروں کے لئے وقف تھا۔ جالندھر آ کر وہ صرف ایک وقت کھانا کھانے لگی تھیں۔ میں ان کی ان حرکتوں سے بہت چڑتا تھا۔ کیونکہ میں نے اپنی قیمتی پریکٹس لاہور میں کھو دی تھی۔ میری ماڈل ٹاؤن والی کوٹھی بھی وہیں رہ گئی تھی اور اب میرے پاس سر چھپانے کو کہیں جگہ نہ تھی۔ میرے پاس نہ ڈھنگ کے کپڑے تھے نہ روپیہ پیسہ تھا، نہ کھانا پینا تک کا ہو سکتا تھا۔ جو ملا کھا لیا، جب ملا کھا لیا، نہ ملا تو بھوکے رہ گئے۔
انہی دنوں مجھے خونی بواسیر لاحق ہو گئی۔ دوائیں تو میں نے طرح طرح کی استعمال کیں کیونکہ میں خود ڈاکٹر تھا۔ مگر اس بے سر و سامانی میں علاج کے ساتھ پرہیز ضروری ہے، وہ کہاں سے ہوتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میں دن بدن کمزور ہوتا چلا گیا۔ کچھ روز تک تو میں نے تائی سے اپنی حالت کو چھپائے رکھا مگر ایک دن انہیں پتہ چل ہی گیا۔ فوراً گھبرائی گھبرائی میرے پاس پہنچیں اور مجھ سے کہنے لگیں، ’’کاکا!میں تم سے کہتی ہو یہ خونی بواسیر ہے۔ یہ ڈاکٹری علاج سے ٹھیک نہ ہو گی۔ تم ایسا کرو، کرایہ مجھ سے لو اور سیدھے گوجرانوالہ چلے جاؤ، وہاں محلہ سنیاراں میں چاچا کریم بخش جراح رہتا ہے۔ اس کے پاس ایک ایسی دوائی ہے جس سے خونی بواسیر ٹھیک ہو جاتی ہے۔ تیرے تایا کو بھی آج سے بیس سال پہلے یہ تکلیف ہو گئی تھی اور چاچا کریم بخش ہی نے ٹھیک کر دیا تھا۔ دس دن میں وہ ٹھیک ہو کر گوجرانوالہ سے جالندھر آ گئے تھے۔‘‘
یہ سن کر مجھے بے حد غصہ آیا۔ میں نے کہا، ’’تائی مجھے معلوم ہے۔ اب میں گوجرانوالہ نہیں جا سکتا۔‘‘
’’کیوں نہیں جا سکتا۔ ٹکٹ کے پیسے میں دیتی ہوں!‘‘
’’ٹکٹ کا سوال نہیں ہے، گوجرانوالہ اب پاکستان میں ہے۔‘‘
’’پاکستان میں ہے تو کیا ہوا، کیا ہم دوا دارو کے لئے وہاں نہیں جا سکتے! وہاں اپنا چاچا کریم بخش۔۔۔‘‘
میں نے تائی کی بات کاٹ کر کہا، ’’تائی تجھے کچھ معلوم تو ہے نہیں، خواہ مخواہ الٹی سیدھی باتیں کرتی ہو۔ مسلمانوں نے اب اپنا دیس الگ کر لیا ہے۔ اس کا نام پاکستان ہے۔ ہمارے دیس کا نام ہندوستان ہے۔ اب نہ ہندوستان والے پاکستان جا سکتے ہیں، نہ پاکستان والے یہاں آ سکتے ہیں۔ اس کے لئے پاسپورٹ کی ضرورت ہو گی!‘‘
تائی کے ماتھے پر شکنیں پڑ گئیں۔ بولیں، ’’پاس کورٹ؟ کیا اس کے لئے کچہری جانا پڑتا ہے؟‘‘
’’ہاں ہاں اس کے لئے کچہری جانا پڑتا ہے۔‘‘ میں نے جلدی سے ٹالنے کے لئے کہہ دیا۔ اب اس بڈھی کو کون سمجھائے۔
’’نہ بیٹا۔ کورٹ جانا تو اچھا نہیں ہے۔ شریفوں کے بیٹے کبھی کچہری نہیں جاتے مگر وہ چاچا کریم بخش۔۔۔!‘‘
’’بھاڑ میں جائے چاچا کریم بخش۔‘‘ میں نے چلا کر کہا۔
بیس سال پہلے کی بات کرتی ہو، جانے وہ تمہارا چاچا کریم بخش آج زندہ بھی ہے یا مر گیا ہے۔ مگر تم وہی اپنا چاچا کریم بخش رٹے جا رہی ہو۔‘‘
تائی روتی ہوئی وہاں سے چلی گئیں۔ ان کے جانے کے بعد مجھے اپنی تنک مزاجی پر بے حد افسوس ہوا۔ کیوں میں نے اس معصوم عورت کا دل دکھایا۔ اگر تائی آج کی زندگی کی بہت سی دشواریوں کو نہیں سمجھ سکتی ہیں تو اس میں ان کا کیا قصور ہے؟

Loading

Read Previous

اشکِ وفا — ماریہ نصیر (تیسرا اور آخری حصّہ)

Read Next

معطّر فضاؤں کے راہی — فرزانہ روحی اسلم (پہلا حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!