تائی ایسری — کرشن چندر

’’ہائے میں مر گئی۔‘‘ تائی ایسری ایک دم گھبرا کر بولی، ان کی سانس پھول گئی۔ ’’ہائے اب تو مجھے نہانا پڑے گا، میں نے اس کا منہ بھی چوم لیا ہے۔ اب کیا کروں۔‘‘ تائی ایسری نے اپنی بڑی بڑی حیران نگاہوں سے مہری کی بیٹی سوتری کی طرف دیکھا، جو اب اس طرح دھتکارے جانے پر سسکنے لگی تھی۔ یکایک تائی کو اس پر رحم آ گیا۔ انہوں نے پھر اسے بانہہ سے پکڑ کر چمٹا لیا، ’’ناں ! ناں ! تو کیوں روتی ہے، تو تو انجان ہے، تو تو دیوی ہے، تو تو کنواری ہے، تیرے من میں تو پرمیشور بستے ہیں۔ تو کیوں روتی ہے، مجھے تو اپنے دھرم کے کارن نہانا ہی پڑے گا۔ پر تو کیوں روتی ہے۔ ایک چونی اور لے۔‘‘
تائی ایسری سے دوسری چونی پا کر مہری کی بیٹی سوتری اپنے آنسو پونچھ کر مسکرانے لگی۔ تائی ایسری نے ایک بازو اٹھا کر پرے دالان میں گزرتی ہوئی ہیرومہری کو دیکھ کر بلند آواز میں کہا، ’’نی ہیرو۔ میرے اشنان کے لئے بھی پانی رکھ دے۔ تجھے بھی ایک چونی دوں گی۔‘‘ اس پر ساری محفل لوٹ پوٹ ہو گئی۔
تائی ایسری کو کئی لوگ چونی والی تائی کہتے تھے۔ کئی لوگ کنواری تائی کہتے تھے۔ کیونکہ یہ بھی مشہور تھا کہ جس دن سے تایا یودھ راج نے تائی ایسری سے شادی کی تھی۔ اس دن سے آج تک وہ کنواری کی کنواری چلی آرہی تھیں، کیوں کہ سنانے والے تو یہ بھی سناتے ہیں کہ تایا یودھ راج نے اپنی شادی سے پہلے جوانی میں اتنی خوبصورت عورتیں دیکھ ڈالی تھیں کہ جب ان کی شادی گاؤں کی اس سیدھی سادی لڑکی سے ہوئی تو شادی کے پہلے روز ہی وہ انہیں بالکل پسند نہ آئی۔ جب سے انہوں نے شادی کر کے انہیں بالکل اکیلا چھوڑ دیا تھا۔ مگر کسی طرح کی سختی نہیں کرتے تھے۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

تایا یودھ راج ہر ماہ پچھتر روپے اسے بھیجتے تھے۔ وہ گاؤں میں رہتی تھیں، اپنے سسرال کے ہاں۔۔۔ اور سب کی خدمت کرتی تھیں اور تایا یودھ راج جالندھر میں لوہے کا بیوپار کرتے تھے اور کئی کئی سال اپنے گاؤں میں نہیں جاتے تھے۔ میکے والوں نے کئی بار آ کر تائی کو لے جانا چاہا مگر انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ میکے والوں نے یہ بھی چاہا کہ ان کی شادی پھر سے کر دی جائے۔ مگر تائی اس کے لئے بھی راضی نہ ہوئیں۔ وہ ایسے انہماک سے اپنے سسرال کے لوگوں کی خدمت کرتی رہیں کہ سسرال والے خود انہیں اپنی بیٹی اور بہو سے زیادہ چاہنے لگے۔ تایا یودھ راج کے باپ مانک چند نے تو اپنے گھر کی ساری چابیاں تائی ایسری کے سپرد کر دی تھیں اور ساس بھی اس حد تک چاہنے لگی تھی کہ انہوں نے اپنے سارے گہنے پاتے نکال کر تائی ایسری کی تحویل میں دے دیئے تھے۔ ویسے بہت سی عورتوں کو دیکھ کر یہ خیال بھی آتا ہے کہ جوانی میں کیسی رہی ہوں گی۔ مگر تائی ایسری کو دیکھ کر کبھی یہ خیال بھی نہ آیا۔ ہمیشہ یہی خیال آتا ہے کہ تائی ایسری شاید بچپن سے بلکہ جنم ہی سے ایسی پیدا ہوئی ہوں گی۔ پیدا ہوتے ہی انہوں نے اپنی ماں کو ہاتھ پھیلا کر آشیرواد دی ہو گی اور شاید بڑے میٹھے مہربان لہجے میں یہ بھی کہا ہو گا۔ تجھے میرے لئے بہت دکھ اٹھانے پڑے۔ اس لئے یہ لو ایک چونی!
شاید اسی لئے اپنے شوہر سے بھی ان کے تعلقات بے حد خوشگوار تھے۔ تایا یودھ راج ہمارے رشتہ داروں کی نظر میں شرابی، کبابی اور رنڈی باز تھے۔ وہ لوہے کے بڑے بیوپاری تھے تو کیا ہوا، انہیں اس طرح سے تائی ایسری کی زندگی برباد نہ کرنا چاہئے۔ مگر جانے کیا بات تھی، تائی ایسری کو قطعاً اپنی زندگی برباد ہونے کا کوئی غم نہ تھا۔ ان کے طرز عمل سے معلوم ہوتا تھا۔ جیسے انہیں اس بات کا بھی علم نہیں ہے کہ کسی نے ان کی زندگی برباد کی ہے۔ ہر وقت ہنستی کھیلتیں باتیں کرتیں، ہر ایک کے سکھ اور دکھ میں شامل ہونے اور خدمت کرنے کے لئے تیار نظر آتیں۔ یہ تو بالکل ناممکن تھا کہ پڑوس میں کسی کے ہاں خوشی ہو اور وہ اس میں شریک نہ ہوں، کسی کے ہاں کوئی غم ہو اور وہ اس میں حصہ نہ بٹائیں۔ تائی ایسری کے شوہر امیر تھے، مگر وہ خود تو امیر نہ تھیں۔ پچھتر روپے جو انہیں ماہوار ملتے تھے وہ انہیں ہمیشہ دوسروں پر خرچ کر دیتی تھیں۔ مگر وہ سستے زمانے کے پچھتر روپے تھے۔ اسی لئے بہت سے لوگوں کے دکھ درد، دور ہو جاتے تھے۔ مگر لوگ ان سے ان کی وقت بے وقت کی مدد کی وجہ سے پیار نہیں کرتے تھے۔ ایسے ہی بہت سے موقع آتے تھے، جب تائی ایسری کی جیب میں ایک چھدام تک نہ ہوتا تھا۔ اس وقت بھی لوگ بے مزہ نہ ہوئے بلکہ یہی کہتے سنے گئے کہ تائی ایسری کے چرن چھو لینے ہی سے دل کو شانتی مل جاتی ہے۔
مگر جتنی اچھی تائی ایسری تھیں، تایا یودھ راج اتنے ہی برے تھے۔ تیس برس تک تو انہوں نے تائی ایسری کو اپنے ماں باپ کے گھر گاؤں ہی میں رکھا اور جب ان کے ماں باپ دونوں ہی مر گئے اور گھر خالی ہو گیا، گھر کے دوسرے افراد بڑے ہو گئے اور شادیاں کر کے اور اپنے گھر بسا کے دوسری جگہوں پر چلے گئے تو انہیں بادل نخواستہ تائی ایسری کو بھی جالندھر بلوانا پڑا۔ مگر یہاں تائی ایسری چند دنوں سے زیادہ نہ رہ سکیں۔ کیونکہ پکا باغ کے معزز پٹھانوں کی ایک لڑکی سے تایا یودھ نے یارانہ گانٹھنے کی کوشش کی تھی۔ نتیجہ میں انہیں جالندھر سے بھاگ کر لاہور آنا پڑا، کیوں کہ پکا باغ کے پٹھانوں نے آ کر تائی ایسری سے کہہ دیا تھا کہ صرف تمہاری وجہ سے ہم نے اسے زندہ چھوڑ دیا ہے۔ اب بہتر یہی ہے کہ تم اپنے گھر والے کو لے کر کہیں چلی جاؤ ورنہ ہم اسے زندہ نہ چھوڑیں گے اور تائی ایسری اس واقعہ کے چند روز بعد ہی تایا کو لے کر لاہور آ گئیں۔
محلہ ونجاراں میں انہوں نے ایک چھوٹا سا مکان لے لیا تھا۔ خوش قسمتی سے یا بدقسمتی سے یہاں بھی تایا یودھ راج کا بیوپار چند مہینوں میں چمک گیا۔ اسی اثناء میں انہوں نے شاہی محلے کی ایک طوائف لچھمی سے دوستی کر لی اور ہوتے ہوتے یہ قصہ یہاں تک بڑھا کہ اب انہوں نے مستقل طور پر اسی لچھمی کے گھر رہنا شروع کر دیا تھا اور محلہ ونجاراں میں قدم تک نہ دھرتے تھے۔ لیکن تائی ایسری کو دیکھ کر کبھی کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ انہیں اس امر کا اتّا سا بھی ملال ہوا ہو گا۔
یہ وہ زمانہ تھا، جب تایا یودھ راج اور لچھمی طوائف کا قصہ زوروں پر تھا۔ انہی دنوں ہمارے بڑے بھائی کی شادی ہوئی۔ شادی میں تایا یودھ راج تو شریک نہ ہوئے، لیکن تائی نے رشتہ داروں، مہمانوں اور برات کی خدمت گزاری میں دن رات ایک کر دیا۔ ان کی خوش مزاجی سے پیچیدہ سے پیچیدہ گتھیاں بھی سلجھ گئیں۔ چہرے پر چڑھی ہوئی تیوریاں اتر گئیں اور جبینیں شکنوں سے صاف اور منور ہوتی گئیں۔ اس میں تائی کی کاوش کو کوئی دخل نہ تھا۔ سکون کی شعاعیں گویا خودبخود ان کے جسم سے پھوٹتی تھیں۔ انہیں دیکھتے ہی ہر ایک کا غصہ اتر جاتا۔ پیچیدہ سے پیچیدہ الجھنیں خودبخود سلجھ جاتیں۔ گھر بھر میں بشاشت بکھر جاتی، ایسی تھیں تائی ایسری۔
میں نے تائی ایسری کو کبھی کسی کی برائی کرتے نہیں دیکھا۔ کبھی قسمت کا گلہ کرتے نہیں دیکھا۔ ہاں ایک بار ان کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک دیکھی تھی اور وہ واقعہ اسی شادی سے متعلق ہے۔
بڑے بھائی صاحب تو رات بھر شادی کی بیری پر بیٹھے رہے۔ صبح کے پانچ بجے شادی کے بعد لڑکی والوں نے اپنے گھر کے ہال کو جہیز کا سامان دکھانے کے لئے سجا دیا۔ پرانے زمانے تھے۔ اس زمانے میں صوفوں کی بجائے رنگین پیڑھیاں دی جاتی تھیں اور منقش پایوں والے پلنگ دیئے جاتے تھے۔ اس زمانے میں ڈرائنگ روم کو بیٹھک یا دیوان خانہ کہا جاتا۔ میرے بڑے بھائی کے سسر ملٹری میں ایگزیکٹو آفیسر تھے۔ چونکہ وہ پہلے ہندوستانی ایگزیکٹو آفیسر تھے۔ اس لئے انہوں نے جہیز میں بہت کچھ دیا تھا اور ساری ہی نئے فیشن کی چیزیں دی تھیں۔ ہماری برادری میں پہلی بار جہیز میں صوفہ سیٹ دیا گیا۔ ساری برادری میں اس صوفہ سیٹ کی دھوم مچ گئی۔ دور دور کے محلوں سے بھی عورتیں ’’انگریجی پیڑھیوں‘‘ کو دیکھنے کے لئے آنے لگیں۔ تائی ایسری کے لئے بھی صوفہ سیٹ دیکھنے کا پہلا موقعہ تھا۔ پہلے تو بڑی حیرانی سے اسے دیکھتی رہیں۔ اس پر ہاتھ پھیر کر من ہی من میں کچھ بڑبڑاتی رہیں۔ آخر ان سے رہا نہ گیا تو انہوں نے مجھ سے پوچھ ہی لیا، ’’وے کاکا۔ اس کو صوفہ سیٹ کیوں بولتے ہیں؟‘‘
اب میں اس کا جواب کیا دیتا۔ سر ہلا کر کہنے لگا، ’’مجھے نہیں معلوم تائی!‘‘
’’اچھا تو اس کی دو کرسیاں چھوٹی کیوں ہیں اور وہ تیسری کرسی لمبی کیوں ہے؟‘‘
میں پھر لاجواب ہو گیا۔ خاموشی سے انکار میں سر ہلا دیا۔
تائی دیر تک سوچتی رہیں۔ پھر یکایک جیسے ان کی سمجھ میں کچھ آ گیا۔ ان کا چہرہ، ان کی معصوم سی مسکراہٹ سے روشن ہو اٹھا۔ بولیں، ’’میں بتاؤں؟‘‘
’’میں نے کہا، ’’بتاؤ تائی!‘‘

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اشکِ وفا — ماریہ نصیر (تیسرا اور آخری حصّہ)

Read Next

معطّر فضاؤں کے راہی — فرزانہ روحی اسلم (پہلا حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!