تائی ایسری — کرشن چندر

میں گرانٹ میڈیکل کالج کلکتہ میں ڈاکٹری کا فائنل کورس کر رہا تھا اور اپنے بڑے بھائی کی شادی پر چند روز کے لئے لاہور آ گیا تھا۔ یہیں شاہی محلے کے قریب کوچہ ٹھاکر داس میں ہمارا جہاں آبائی گھر تھا، میری ملاقات پہلی بار تائی ایسری سے ہوئی۔
تائی ایسری ہماری سگی تائی تو نہ تھی، لیکن ایسی تھیں کہ انہیں دیکھ کر ہر ایک کا جی انہیں تائی کہنے کے لئے بے قرار ہو جاتا تھا۔ محلے کے باہر جب ان کا تانگہ آ کے رکا اور کسی نے کہا، ’’لو تائی ایسری آ گئیں‘‘ تو بہت سے بوڑھے، جوان، مرد اور عورتیں انہیں لینے کے لئے دوڑے۔ دو تین نے سہارا دے کر تائی ایسری کو تانگے سے نیچے اتارا، کیونکہ تائی ایسری فربہ انداز تھیں اور چلنے سے یا باتیں کرنے سے یا محض کسی کو دیکھنے ہی سے ان کی سانس پھولنے لگتی تھی۔ دو تین رشتہ داروں نے یک بارگی اپنی جیب سے تانگہ کے کرائے کے پیسے نکالے۔ مگر تائی ایسری نے اپنی پھولی ہوئی سانسوں میں ہنس کر سب سے کہہ دیا کہ وہ تو پہلے ہی تانگہ والے کو کرایہ کے پیسے دے چکی ہیں اور جب وہ یوں اپنی پھولی سانسوں کے درمیان باتیں کرتی کرتی ہنسیں تو مجھے بہت اچھی معلوم ہوئیں۔ دو تین رشتہ داروں کا چہرہ اتر گیا اور انہوں نے پیسے جیب میں ڈالتے ہوئے کہا، ’’یہ تم نے کیا کیا تائی؟ ہمیں اتنی سی خدمت کا موقع بھی نہیں دیتی ہو!‘‘اس پر تائی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ انہوں نے اپنے قریب کھڑی ہوئی ایک نوجوان عورت سے پنکھی لے لی اور اسے جھلتے ہوئے مسکراتی ہوئی آگے بڑھ گئیں۔
تائی ایسری کی عمر ساٹھ سال سے کم نہ ہو گی، ان کے سر کے بال کھچڑی ہو چکے تھے اور ان کے بھرے بھرے گول مٹول چہرے پر بہت اچھے لگتے تھے۔ ان کا پھولی پھولی سانسوں میں معصوم باتیں کرنا تو سب کو ہی اچھا لگتا تھا۔ لیکن مجھے ان کے چہرے میں ان کی آنکھیں بڑی غیر معمولی نظر آئیں۔ ان آنکھوں کو دیکھ کر مجھے ہمیشہ دھرتی کا خیال آیا ہے۔ میلوں دور تک پھیلے ہوئے کھیتوں کا خیال آیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ خیال بھی آیا ہے کہ ان آنکھوں کے اندر جو محبت ہے، اس کا کوئی کنارہ نہیں، جو معصومیت ہے اس کی کوئی ا تھاہ نہیں، جو درد ہے اس کا کوئی درماں نہیں۔
میں نے آج تک ایسی آنکھیں کسی عورت کے چہرے پر نہیں دیکھیں جو اس قدر وسیع اور بے کنار ہوں کہ زندگی کا بڑے سے بڑا اور تلخ سے تلخ تجربہ بھی ان کے لئے ایک تنکے سے زیادہ حیثیت نہ رکھے۔ ایسی آنکھیں جو اپنی پنہائیوں میں سب کچھ بہا لے جائیں، ایسی انوکھی، معاف کر دینے والی، درگزر کر دینے والی آنکھیں میں نے آج تک نہیں دیکھیں۔ تائی ایسری نے کاسنی شاہی کا گھاگھرا پہن رکھا تھا۔ جس پر سنہری گوٹے کا لہریہ یا چمک رہا تھا۔ ان کی قمیض بسنتی ریشم کی تھی، جس پر زری کے پھول کڑھے ہوئے تھے۔ سر پر دوہرے ململ کا قرمزی دوپٹہ تھا۔ ہاتھوں میں سونے کے گوکھرو تھے۔ جب وہ گھر کے دالان میں داخل ہوئیں تو چاروں طرف شور مچ گیا۔ بہوئیں اور خالائیں اور نندیں اور بھاوجیں، موسیاں اور چچیاں سب تائی ایسری کے پاؤں چھونے کو دوڑیں۔ ایک عورت نے جلدی سے ایک رنگین پیڑھی کھینچ کر تائی ایسری کے لئے رکھ دی اور تائی ایسری ہنستے ہوئے اس پر بیٹھ گئیں اور باری باری سب کو گلے لگا کر سب کے سر پر ہاتھ پھیر کر سب کو دعا دینے لگیں۔
اور ان کے قریب ہیرو مہری کی بیٹی سوتری خوشی سے اپنی باچھیں کھلائے زور زور سے پنکھا جھل رہی تھی۔ تائی ایسری گھر سے رنگین کھپچی کی ایک ٹوکری لے کر آئی تھیں جو ان کے قدموں میں ان کی پیڑھی کے پاس ہی پڑی تھی۔ وہ باری باری سے سب کو دعائیں دیتی جاتیں اور کھپچی والی ٹوکری کھول کر اس میں سے ایک چونی نکال کر دیتی جاتیں۔ کوئی ایک سو چونیاں انہوں نے اگلے بیس منٹ میں بانٹ دی ہوں گی، جب سب عورتیں اور مرد، لڑکے اور بچے بالے ان کے پاؤں چھو کر اپنی اپنی چونی لے چکے تو انہوں نے اپنی ٹھوڑی اونچی کر کے پنکھا جھلنے والی لڑکی کی طرف دیکھا اور اس سے پوچھا، ’’تو کون ہے؟‘‘
’’میں سوتری ہوں۔‘‘ بچی نے شرماتے ہوئے جواب دیا۔
’’آئے ہائے، تو جے کشن کی لڑکی ہے؟ میں تو بھول ہی گئی تھی تجھے۔ آ جا گلے سے لگ جا۔‘‘
تائی ایسری نے اس کو گلے سے لگا لیا، بلکہ اس کا منہ بھی چوم لیا اور جب انہوں نے اسے اپنی کھپچی والی ٹوکری سے نکال کر چونی دی تو گھر کی ساری عورتیں قہقہہ مار کر ہنس پڑیں اور موسی کرتارو اپنی نیلم کی انگوٹھی والی انگلی نچا کر بولی، ’’تائی، یہ تو جے کشن کی بیٹی سوتری نہیں ہے، یہ تو ہیرو مہری کی بیٹی ہے۔‘‘

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اشکِ وفا — ماریہ نصیر (تیسرا اور آخری حصّہ)

Read Next

معطّر فضاؤں کے راہی — فرزانہ روحی اسلم (پہلا حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!