بلوچستان کی لوک کہانی
سُنہری برتن
ساجدہ غلام محمد
جنوبی پنجاب کے ضلع لیہ میں پیدا ہونے والی ساجدہ غلام محمد آج کل مانچسٹر (انگلینڈ) میں اپنی فیملی کے ساتھ مقیم ہیں۔ اس صدی کے اوائل سے انہوں نے لکھنے کا آغاز بچوں کے رسائل سے کیا۔ ماہنامہ پھول میں ایک عرصہ تک اپنی بہن ڈاکٹر زاہدہ پروین کے کے ساتھ قلم کے جوہر دکھاتی رہیں۔ بڑوں کے لیے بھی خوب لکھا۔ فکشن ان کا پسندیدہ میدان ہے۔ ”زندگی اک تشنگی” ان کا مقبول ناول جس کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں، تقریباً سو کے قریب کہانیاں بچوں کے مختلف رسائل میں چھپ چکی ہیں۔ الف نگر اور الف کتاب کے لیے مستقل لکھنے والوں میں ان کا نام شامل ہے۔
صدیوں پرانی بات ہے، بلوچستان میں دریائے بولان کے کنارے ایک بہت بڑا شہر آباد تھا۔ اُس شہر کا اصل نام تو نہ جانے کیا ہوگا، لیکن آج کے زمانے میں اسے ‘مہر گڑھ’ کہا جاتا ہے۔
مہر گڑھ میں ایک نو سال کا بچہ فنامہ اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کے والدبہت مہارت سے لوہے کے اوزار بناتے اور لوگ اُن سے یہ اوزار خریدتے تھے۔ انہوں نے فنامہ کو بھی مٹی کا ایک خوب صورت سا بیل بنا کر دیا جس سے وہ سارا دن کھیلتا رہتا۔
ایک دن اچانک فنامہ کے والد بیمار ہوئے اور کچھ ہی روز بعد دنیا سے رخصت ہوگئے۔ فنامہ تو ابھی چھوٹا تھا اور اس کی والدہ کو بھی علم نہ تھا کہ اوزار کیسے بنائے جاتے ہیں۔ رفتہ رفتہ گھر میں کھانے پینے کا سامان ختم ہونے لگا۔ نوبت یہاں تک آپہنچی کہ اُن کے پاس کھانے کو کچھ بھی نہ بچا۔
”ہمیں بھوک لگی ہے لیکن کھانے کو کچھ نہیں، میں ایسا کرتا ہوں کہ اپنا یہ کھلونا بیل بیچ دیتا ہوں۔” فنامہ نے اداسی سے سوچا اور چپکے سے کھلونا بیل اپنے کپڑوں میں چھپا کر گھر سے نکل گیا۔ اس کی ماں کو اس بات کا علم نہ ہوا۔
”میرا بیل خریدلو، بہت خوب صورت ہے۔” فنامہ نے بازار میں کھڑے ہو کر آواز لگائی لیکن کسی نے توجہ نہ دی۔
”یہ میرے والد نے خاص طور پر میرے لیے بنایا تھا، پکی مٹی کا ہے۔ مجھے پیسوں کی ضرورت ہے، یہ بیل خرید لو!” وہ آواز لگاتا رہا۔
”یہ ہمارے کس کام کا؟” لوگ اس کے پاس رک کر کچھ دیر کھلونے کو دیکھتے پھر آگے بڑھ جاتے۔ صبح سے شام ہوگئی لیکن کسی نے بھی کھلونا بیل نہ خریدا۔ فنامہ نے بہت دکھی دل سے اپنا کھلونا اٹھایا اور اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔
”اے لڑکے! بات سنو۔” اچانک کسی نے اُسے بلایا۔ فنامہ نے سر اُٹھا کر دیکھا تو ایک بڑھیا درخت کے نیچے کھڑی تھی۔
”جی امّاں جی!” فنامہ نے بڑھیا کے قریب جاکرنرمی سے پوچھا۔
”میں نے اپنی نواسی کے لیے موٹی سیپیوںوالا بہت پیارا سا ہار بنایا تھا۔ اب اُسے دینے جا رہی تھی کہ راستے میں وہ ٹوٹ گیا۔ میری نظر کمزور ہے، مجھے تو تھوڑی سی سیپیاں نظر آئیں جو میں نے اُٹھا لیں۔ اگر تم میری مدد کر سکو تو بہت مہربانی ہوگی۔” فنامہ کا دل چاہا کہ بڑھیا کو انکار کر دے۔
”میں بھی تو صبح سے بازار میں کھڑا رہا، کسی نے میری مدد نہیں کی، میں کیوں اس کی مدد کروں؟” اس کے دل میںخیال آیا، لیکن پھر فوراََ ہی اُسے اپنے والد کا جملہ یاد آگیا: ”ہمیشہ دوسروں کی مدد کرنا، کبھی کسی کو انکار مت کرنا۔” فنامہ نے دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ بڑھیا کو دیکھا۔
”ٹھیک ہے، باقی کے سیپ میں آپ کو ڈھونڈ دیتا ہوں۔” فنامہ درخت کے آس پاس زمین پر سیپیاں چننے لگا۔ کچھ ہی دیر میں اس نے سیپیاں چُن کر بڑھیا کی طرف بڑھائیں۔
”یہ لیں، میں نے ساری سیپیاں اُٹھا لی ہیں۔” فنامہ نے بڑھیا سے کہا۔
”بیٹا! تمہارا بہت بہت شکریہ! تم بہت اچھے بچے ہو۔ تم نے میری مدد کی، اس کے بدلے میں تمہیں ایک تحفہ دیتی ہوں۔” بڑھیا نے سیپیاںتھام کر کالے رنگ کی تھیلی سے سنہری رنگ کا ایک گول سا برتن نکال کرفنامہ کی جانب بڑھایا جس پر نقش و نگار کے ساتھ اُونٹ کی تصویر بنی ہوئی تھی۔
”امّاں جی! میرے گھر میں کھانے کو کچھ نہیں، تو اِس برتن کا میں کیا کروں گا؟” فنامہ نے حیرت سے کہا۔
”اسی لیے تو میں یہ برتن دے رہی ہوں، یہ ایک جادُوئی برتن ہے۔ جب بھی تمہیں بھوک لگے، تم برتن کو اپنے دونوں ہاتھوں سے ڈھانپ کرچار بار گہری سانس لینا، اس برتن میں تمہارا من پسند کھانا آ جائے گا۔” فنامہ کو بڑھیا کی بات سن کر بڑی حیرت ہوئی۔
”کیا واقعی؟ ایسا ہو سکتا ہے؟” اُس نے پوچھا۔
”بالکل ایسا ہی ہو گا، بس شرط یہ ہے کہ اس دوران جو بھی ضرورت مند تمہارے گھر آئے، تم اُسے بھی کھانا۔ اب یہ برتن پکڑو، مجھے دیر ہورہی ہے۔” اتنا کہہ کر بڑھیا لاٹھی ٹیکتی ہوئی ایک جانب چل دی۔
فنامہ ایک ہاتھ میں برتن اور دوسرے ہاتھ میں اپنا کھلونا بیل تھامے گھر پہنچا تو ماں کو اپنا منتظر پایا۔ وہ بہت پریشان تھی، فنامہ نے آگے بڑھ کر فوراً ساری بات ماں کو بتادی۔
”چلو! تجربہ کر کے دیکھتے ہیں، اگر برتن میںکھانا نہ آیا تو اِسے پھینک دیں گے یا بیچ دیں گے۔” ماں نے کہا تو فنامہ نے برتن کو فرش پر رکھ کر اپنے دونوں ہاتھوں سے اُس کے منہ کو ڈھانپا اور چار بار گہری سانس لی۔ یکایک کمرے میں مزے دار سی خوش بو پھیل گئی۔ فنامہ نے جلدی سے ہاتھ ہٹائے تو برتن کے اندر اس کا من پسند کھانا آچکا تھا۔ ماں بیٹے نے حیرت اور خوشی سے کھانا کھایا اور تھوڑا سا کھانا چڑیا کو ڈال دیا جس نے ان کے گھر درخت پر گھونسلا بنا رکھا تھا۔
اب اُن کے دن آرام سے گزرنے لگے۔ کھانے کی کوئی فکر نہیں تھی۔ جب بھی بھوک لگتی، فنامہ برتن کو ہاتھوں سے ڈھانپ کر چار بار گہری سانس لیتا تو فوراََ ہی برتن میں کھانا آجاتا۔ یہ اتفاق تھا یا کچھ اور جب بھی ایسا کچھ ہوتا تو اُن کے گھر کوئی نہ کوئی پرندہ یا جانور ضرور آ جاتا اور فنامہ اسے بھی کھانا ڈال دیتا۔ وہ بڑھیا کی بات کو بھولا نہیں تھا۔ لوگ حیران ہوتے کہ فنامہ یا اُس کی ماں کچھ کام تو کرتے نہیں، لیکن ان کا گزارا کیسے ہو رہا ہے؟
دن یوں ہی گزرتے گئے۔ اب فنامہ نے بھی اوزار بنانا سیکھ لیے تھے۔ اگرچہ ابھی زیادہ مہارت نہ تھی لیکن وہ محنت سے کام کرتا تھا۔
ایک دن فنامہ کام سے واپس آیا تو بہت تھکا ہوا تھا۔ بھوک بھی بہت زیادہ تھی۔ اُس نے سنہری برتن نکالا اور ہاتھوں سے ڈھانپ کر چار بار گہری سانس لی۔ برتن میں کھانا تیار تھا۔ فنامہ مسکراتے ہوئے ابھی کھانے ہی لگا تھا کہ ایک بلی آگئی۔
”میاؤں!” بلی نے اپنی آمد کی اطلاع دی۔
”آ جاؤ آجاؤ، بہت کھانا پڑا ہے۔” فنامہ نے اس کی طرف دیکھا تو بلی تیزی سے چھلانگ لگا کر اُس کے پاس آنے لگی لیکن وہ دیوار پر توازن برقرار نہ رکھ پائی اور جب اِدھر اُدھر پاؤں مارے تو اس کی دُم فنامہ کے کھلونے سے ٹکرا گئی۔ کھلونا بیل اونچائی سے گرا اور ٹکڑوں میں بکھر گیا۔ فنامہ نے غصے سے اپنے پسندیدہ کھلونے کے ٹکڑوں کو دیکھا۔
”اوہ! یہ کیا کر دیا تم نے؟” وہ غصے سے چِلّایا پھر اُس نے بلی کو کھانا دینے کے بجائے ایک پتھر زور سے اس کی طرف پھینکا جو بلی کے سر پر لگا۔ وہ بے چاری ”چیاؤں” کرتی ہوئی وہاں سے بھاگ نکلی۔
”میرا پسندیدہ کھلونا توڑ دیا!” فنامہ نے افسوس اور غصے سے کھلونے کے ٹکڑے اُٹھائے اور برتن کے قریب لا کر زمین پر رکھ دیے۔ اُس کا ارادہ تھا کہ کھانا کھانے کے بعد انہیں دوبارہ جوڑنے کی کوشش کرے گا۔ اب کھانا لینے کے لیے اُس نے برتن میں ہاتھ ڈالا لیکن یہ کیا! برتن تو خالی تھا! فنامہ نے گھبرا کر دونوں ہاتھ برتن کے منہ پر رکھ کر چار بار گہری سانس لی اور دوبارہ برتن میں جھانکا۔ وہ ابھی بھی خالی تھا۔ فنامہ کا غصہ پریشانی میں بدل گیا۔ اس نے بلی کو کھانا دینے کے بجائے اسے پتھر مار کر بھگایا تھا، اس لیے برتن کا جادُو بھی ختم ہو گیا تھا۔
فنامہ اور اُس کی ماں کچھ دن تو کوشش کرتے رہے کہ کسی طرح برتن کا جادُوئی اثر واپس آ جائے لیکن بے سود۔انہوں نے اِسے بیچنے کی بھی کوشش کی لیکن کسی نے نہ خریدا۔ آخر تنگ آ کر انہوں نے اسے دریا کے کنارے پھینک دیا اور خود محنت کر کے گزر بسر کرنے لگے۔
قارئین! صدیوں تک وہ جادوئی برتن وہیں دریا کنارے پڑا رہا۔ رفتہ رفتہ اسے ریت اور مٹی نے ڈھانپ لیا۔ کچھ سال بعد آنے والے سیلاب نے اسے دنیا کی نظروں سے اوجھل کر دیا۔ کئی صدیاں گزر گئیں۔ آج سے کچھ عرصہ قبل ماہرینِ آثارِقدیمہ نے مہر گڑھ کی باقیات کو دریافت کیا تو انہیں یہ برتن بھی ملا جو اس وقت صوبہ بلوچستان کے ضلع کچھی میں ”مہر گڑھ میوزیم” میںمہر گڑھ کی باقیات کے ساتھ رکھا ہوا ہے۔کیا خبر کسی دن اُس میں جادُوئی طاقت لوٹ آئے۔
٭…٭…٭