”کیا مطلب؟” اُ س نے مجھے گھورا۔
”یار! ویسے دیکھا جائے تو وہ بھی غلط نہیں ہیں۔ ایک ماں ہونے کی حیثیت سے ان کے کنسرنز بالکل جائز ہیں۔” میں نے تھوک نگلتے ہوئے کہا۔
”تو؟میں غلط ہوں؟ میں نے کوئی گناہ کر لیا ہے کسی کے بارے میں سوچ کر؟” اس کے لہجے اور سوال سے جیسے میرے دل پر دھکا لگا تھا۔ میںنے خاموشی سے اُسے دیکھا، وہ اپنے آنسو قابو کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
”نہیں تم غلط نہیں ہو ثمرہ، غلط آنٹی بھی نہیں ہیں۔ غلط یہ معاشرہ ہے، غلط ہماری رسمیں اور عورتوں کے بارے میں ہماری سوچ اور ہماری حدود و قیودہیں۔ لڑکا پسند کی شادی کرنا چاہے تو ایک دھمکی دیتا ہے اور اُس کے گھر والے بھاگے بھاگے رشتہ لے کر جاتے ہیں، خوشی سے شادی کرتے ہیں اور شاید کبھی ہی جتاتے ہوں لیکن جب ایک لڑکی کسی کو پسند کر بیٹھتی ہے تو یہاں اُس کو سیریس ہی نہیں لیا جاتا۔ سب کو یہی لگتا ہے کہ دو دن کا ابال ہے، آج ہی کسی اور سے شادی کر دو تو چار دن میں اس کو اپنی پسند یاد بھی نہیں رہے گی۔ غلط وہ لوگ ہیں جن کو لگتا ہے عورت عورت نہیں، کوئی گائے بھینس ہے۔ ڈھور ڈنگر ہے کسی بھی کھونٹے سے باندھ دو وہیں کی ہو کر رہ جائے گی۔غلطی پر وہ لوگ ہیں جو لڑکی کی محبت کو ایک الزام، ایک داغ بنا دیتے ہیں۔ وہ غلط ہیں جو ہم سے ہماری پسند کا حق چھین لیتے ہیں۔بہت کچھ غلط ہے یہاں ثمرہ۔” میں اس کے ہاتھ تھام کر بولتی چلی گئی۔
”زینب میں نے اُس سے گھر کی بات کی تھی اور اُس نے مجھے بتایا کہ وہ لوگ کافی عرصے سے گھر کے لیے سیونگ کر رہے تھے اور جلد ہی گھر خرید لیں گے۔ امی ایک دفعہ اُن لوگوں سے ملیں تو سہی بات تو کر لیں۔” اُ س نے روتے ہوئے کہا۔
”ثمرہ پلیز تم رونا بند کرو۔ہم کچھ نہ کچھ کر لیں گے انشاء اللہ میں آنٹی سے پھر بات کروں گی۔” اُس کے آنسو میرے دل پر گر رہے تھے۔
”وہ میری بات سن بھی نہیں رہیں یار، وہ اپنی ہی مرضی کریں گی تم دیکھ لینا۔” ثمرہ نے ہچکیاں بھرتے ہوئے کہا۔
”ایسا کچھ نہیں ہوگا، تم حوصلہ رکھو۔” میں نے اُس کو اپنے ساتھ لگا لیا۔اُس کی بے بسی میرا دل چیرے دے رہی تھی۔ میں نے آنٹی سے دوبارہ بات کرنے کی ٹھانی۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”یہ کیا؟ ایسا ہوتا ہے ایپل ؟ یہ تو کوئی فٹ بال لگ رہا ہے۔ ” میں اور سفیر ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ وہ مجھے اپنی ڈرائنگز بنا بنا کر دکھا رہا تھا۔ سفیر میرا سب سے چھوٹا بھائی ہے۔
”کیا آپی اتنا اچھا تو بنایا ہے۔” اُس نے منہ بسورا۔
”کوئی اچھا نہیں دوبارہ بناؤ۔” میں نے اُس کے سر پر چیت لگائی۔
” زینب!” امی کچن سے لاؤنج میں آ رہی تھیں۔
” جی امی۔”
” اب منگنی پر نیا سوٹ مت بنوانے بیٹھ جانا۔ شادی بھی جلدی ہی ہے اور شادی پر تو ظاہر ہے تم پرانے پہنو گی نہیں، تو ابھی پچھلے سوٹوں میں سے ہی دیکھ لو۔” انہوں نے فرائز کی پلیٹ میرے اور سفیر کے سامنے ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
”جی… منگنی ؟ کیا مطلب ؟ ” مجھے ان کی بات ذرا جو سمجھ آئی ہو۔
”کیوں تمہیں نہیں پتا بھلا؟ ” انہوں نے بھنویں اچکائیں۔
”کیا ؟” میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔
” ثمرہ کی منگنی ہے اس اتوار کو۔ اس کی امی آئی تھیں صبح انوی ٹیشن دینے۔ ویسے تو وہ لوگ شادی بھی جلد کرنے والے ہیں تو منگنی کی رسم نہیں کرنا چاہ رہے تھے لیکن لڑکے والے رسم کرنا چاہتے ہیں۔ گاؤں کی طرف کے ہیں نا، تو کچھ رشتے دار لے کر آئیں گے۔ اب ظاہر ہے پھر ایسی فرمائشیں تو ماننی پڑتی ہیں لڑکے والوں کی۔” امی نے گویا کوئی دھماکا کیا تھا۔ میرے کان سائیں سائیں کرنے لگے۔ میں فوراً کھڑی ہوگئی۔
”تمہیں کیا ہوا؟” انہوں نے اچنبھے سے مجھے دیکھا۔ سفیر میرا دھیان ہٹنے پر دھڑادھڑ فرائز کھا رہا تھا۔
”کک … کچھ نہیں۔ مجھے یاد آیا میں نے اُس کی طرف جانا تھا۔” میں نے تھوک نگلا۔
”لو،یہ کوئی وقت ہے بھلا کسی کے گھر جانے کا۔ ”انہوں نے گھڑ ی کی طرف دیکھ کر ناگواری سے کہا۔
”آپ نے کیا کہا گاؤں میں ہورہا ہے رشتہ؟ ” میں نے عام سے انداز میں پوچھنے کی کوشش کی۔
”ہاں! وہ جو ان کی کسی رشتے دار نے بتایا تھا۔ لڑکے کی نوکری تو دوبئی میں ہے لیکن فیملی اُس کی گاؤں میں رہتی ہے۔ بتا رہی تھیں باجی کہ شادی کے بعد ثمرہ کو ساتھ ہی لے جائے گا۔” انہوں نے سفیر کو گھورتے ہوئے مجھے جواب دیا۔
آنسووؑں کا ایک ریلا آیا تھا۔ میرے حلق میں گولے بھر گئے۔ مجھے اپنی بے پروائی اور لاعلمی پر غصہ آنے لگا۔
میرے پچھلے دودن کافی مصروف گزرے تھے۔ ثمرہ سے بھی ٹھیک سے بات ہو پائی تھی نہ ہی میں اُن کے گھر جاسکی۔ آج مجھے کچھ فرصت تھی اور آج ہی میں نے اُس کی طرف جانے کا سوچا تھا۔ میں نے وال کلاک پر ٹائم دیکھا، گھڑی شام کے سات بجا رہی تھی۔
”امی میں جارہی ہوں اُس کی طرف ۔ پلیز اُس نے مجھے بلایا تھا کچھ تیاریاں بھی تو کرنی ہیں، اس کو میری ہیلپ چاہئے۔” میں نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا۔
”لیکن بیٹا! ” امی نے پھر سے گھڑی دیکھی۔
”چلو میں بھی چلتی ہوں تمہارے ساتھ، تمہارے ابو نے تو آج لیٹ آنا ہے میں بھی ذرا بیٹھ جاؤں گی۔” وہ فورا اُٹھ کھڑی ہوئیں۔
”چلو سفیر اُٹھو ہاتھ دھولو، چلیں۔” انہوں نے سفیر کو مخاطب کیا۔ میں نے دونوں کو دیکھے بغیر لاوؑنج سے نکل کر گیٹ کی جانب دوڑ لگائی۔
”ارے رکو تو۔” امی کی آواز نے میرا پیچھا کیا تھا لیکن میں تیزی سے چلتی ہوئی گلی میں آ چکی تھی۔
٭…٭…٭
ثمرہ… تم نے مجھے بتایا بھی نہیں اس سب کے بارے میں؟ اتنی جلدی ہاں کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ ہم بات کررہے تھے نا آنٹی سے۔” میں ثمرہ کے کمرے میں بیٹھی اُس کے ہاتھ ہاتھوں میں لے کر بے بسی سے پوچھا۔
”کوئی فائدہ نہیں ہوتا زینب۔امی نے نہیں ماننا تھا۔ ” اُس کے آنسو پھر سے گرنے لگے۔ اُس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں، شاید وہ روتی رہی تھی۔
”مجھے بہت غصہ آرہا ہے خود پر ، لعنت ہے ۔ میں نے کیسے تمہیں اکیلا چھوڑ دیا۔ میں نے اُس دن تم سے کہا کہ آنٹی سے بات کروں گی اور آج امی مجھے تمہاری منگنی کی خبر سنا رہی ہیں۔ ” میں نے خود کو ملامت کرتے ہوئے کہا۔
”تمہارا اس میں کیا قصور ہے بھلا زینب، یہ سب ایسے ہی ہونا تھا۔ میری قسمت میں سہیل نہیں تھا۔ امی ٹھیک کہتی ہیں دو چار دن کا اُبال ہے دیکھنا سب بھول بھال جاؤں گی۔” وہ زبردستی مسکرائی تو میری آنکھیں پانیوں سے بھر گئیں۔
”لیکن کیوں ؟ تم نے ہار کیوں مانی ثمرہ؟ تم کچھ غلط نہیں کر رہی تھیں۔ آنٹی آج نہیں تو کل مان ہی جاتیں۔” میں نے ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔
”وہ کبھی ہاں نہیں کہنے والی تھیں زینب، اُلٹا انہوں نے مجھے کہا کہ وہ ابو کو سب بتا دیں گی کہ میں کسی اور کو پسند کرتی ہوں اور یہ کہ میں نے اُن کی دی گئی نرمی اور آزادی کا غلط استعمال کیا۔ زینب میں امی کی آنکھوں میں تضحیک دیکھ چکی ہوں ابو کے سامنے خود کو ذلیل ہوتا نہیں دیکھ سکتی تھی۔میں زیادہ دیر تک اس محاذ پر نہیں لڑ سکتی تھی۔ مجھے ہار ماننا ہی تھی، آج نہیں تو کل۔امی نے کہا کہ وہ خالہ کو منع نہیں کریں گی جنہوں نے یہ رشتہ بھجوایا۔ یہ پسندوں والے کام ہمارے ہاں نہیں ہوتے ۔اور ٹھیک ہی تو کہا چار دن کی محبت بھلا آپ کے خون کے رشتوں پر تو بھاری نہیں ہوجاتی ۔۔ تم بتاؤ۔۔” اُس کی آنکھوں میں آنسو اور لبوں پر زخمی مسکراہٹ تھی۔ میرے آنسو اب تواتر بہہ رہے تھے۔
”پاگل ! تم کیو ں رو رہی ہو؟” اُس نے میرے آنسو پونچھے۔
”سب ٹھیک ہو جائے گا۔ تم میری فکر نہ کرو۔میں ٹھیک ہوں۔”اُس نے مجھے تسلی دی۔ میں نے اُس کے ہاتھ سے اپنے ہاتھ چھڑا لیے اور کمرے سے باہر نکل آئی۔
”زینب۔” ثمرہ نے مجھے آواز دی جسے میں نے ان سنا کر دیا اور دھیرے دھیرے چلتی ہوئی باہر گلی میں آگئی۔ امی اور سفیر آنٹی کے پاس تھے، انہیں میرے آنے کا پتا نہیں چل سکا تھا۔ گلی میںخاموشی تھی۔ کہیں دور کسی آتی جاتی موٹر سائیکل کی کبھی کبھی ہلکی سی آواز آ جاتی۔
گلی میں گھپ اندھیرا تھا لیکن مجھے ڈر نہیں لگ رہا تھا کیوں کہ اس وقت اس سے زیادہ اندھیرا میرے اندر تھا۔ شاید آپ کو لگ رہا ہو کہ یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں تھی اور شاید یہ بھی لگ رہا ہو کہ میں اوور ری ایکٹ کر رہی ہوں۔ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ ثمرہ کی وابستگی اتنی شدید نہ ہو اور اس کی امی کے مطابق وہ واقعی چار دن میں سب بھول بھال جائے، بلکہ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔
لیکن میرا سوال صرف یہ ہے کہ آخر اُس کی پسند کو ناپسند کیوں کیا گیا؟ اُس کی مرضی کو اَنا کا مسئلہ کیوں بنا لیا گیا؟کیا یہ حق اُس کو اُس کادین نہیں دیتا؟ کیا معاشرہ دین سے بڑا ہو گیا ؟ کیا ہمارے لیے ہماری گھسی پٹی روایات اور سوکالڈ اسٹیٹس اور عزت ہی سب کچھ ہے؟ عورت کا دل، اس کے ارمان، اس کی خواہشات اور مرضی کوئی معنی نہیں رکھتی؟ آخر یہ معاشرہ کب تک عورت کے ساتھ زیادتی کرتا رہے گا؟ اُس کی مرضی کو دباتا رہے گا۔۔اُس کے بہلاوؤں کے جھولے میں جھولتا رہے گا۔۔کب تک؟
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});