”آنٹی وہ اچھا لڑکا ہے اور ساری ریکوائرمینٹس بھی تو پوری کر رہا ہے۔ میرا مطلب ہے پڑھا لکھا ہے، جاب بھی اچھی ہے اُس کی ، فیملی بھی چھوٹی سی ہی ہے۔ یہی سب تو چاہتی تھیں آپ۔” میں نے آہستہ لیکن مضبوط آواز میں اپنی بات مکمل کی۔
”دیکھو زینب! تم لوگ ابھی بچے ہو، تمہیں نہیں پتا کیا صحیح ہے کیا غلط۔ یہ سب پیار محبت پسند ناپسند بس ایویں کی باتیں ہیں۔آ ج میں اس کی کہیں اور شادی کردوں تو کل کو اسے کو ئی سہیل یاد بھی نہیں رہے گا۔” انہوں نے بیپروائی سے کہا۔
”ایسا نہیں ہوتا آنٹی ، پسند ناپسند ایویں کی بات نہیں ہوتی، یہ میٹر کرتی ہے۔اور پھر ثمرہ کو پورا حق ہے کہ اگر وہ کسی کو پسند کرتی ہے اور وہ رشتہ بھی مناسب ہے تو وہ اُس سے شادی کیوں نہیں کر سکتی۔” میں نے جی کڑا کر اُن سے اختلاف کرتے ہوئے کہا۔
”ارے رہنے دو، ماں باپ جو فیصلہ کرتے ہیں بہتر کرتے ہیں۔ پسند کی شادی تو چار دن نہیں چلتی۔” انہوں نے پوری لگن سے پالک کاٹتے ہوئے کہا۔
”ضروری نہیں کہ ہر کسی کے ساتھ ایسا ہی ہو۔ اگر چار پسند کی شادیاں ناکام ہوتی ہیں تو کوئی ایک کام یاب بھی ہو ہی جاتی ہوگی۔ہم ابھی اس بارے میں اتنے وثوق سے کیسے کہہ سکتے ہیں۔” میں نے ہار نا مانتے ہوئے کہا۔
”میں نے دھوپ میں یہ بال سفید نہیں کیے، آخر کو ایک عمر گزاری ہے۔ ایک دوسرا بہت اچھا رشتہ ہے میرے پاس اور میں اُس کو اس کی بے وقو فی کی وجہ سے گنوانا نہیں چاہتی اس لئے تم بھی اسے سمجھاؤ کہ اُس کا خیال بھلا کر ماں کی بات مانے” انہوں نے حتمی لہجے میں کہا۔
”آنٹی آپ نے اُس سے خود کہا تھا کہ اگر وہ پسند کی شادی کرنا چاہے تو بے شک بتا دے، آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔بلکہ یہ بات آپ مجھ سے بھی کئی دفعہ کہہ چکی ہیں۔” مجھے اب غصہ آنے لگا تھا۔
”ہاں کہا تھا تو؟ اس کا کیا مطلب تھا کہ پسند کر ہی لے؟ ارے ہمارے خان دان میں ایسی چیزیں نہیں ہوتیں، کسی کو بھنک بھی لگ گئی تو جانتی ہو کتنی تھو تھو ہوگی۔” وہ بھی تپ گئی تھیں۔
”آنٹی۔” میں ان کے لہجے پر ششدر رہ گئی۔
” یہ ایسی کوئی غلط بات یا غلط مطالبہ تو نہیں ہے۔۔اُسے کوئی پسند ہے اور اُس نے آپ کو بتا دیا۔ آپ اُس کی ماں ہیں، آپ کو نہ بتاتی تو کس کو بتاتی اور آپ نے ہمیشہ اُسے شہ دی کہ وہ پسند کی شادی کر سکتی ہے اور آج آپ ایسے بات کر رہی ہیں جیسے پسند کی شادی نہیں کوئی اچھوت ہو۔” میں نے اپنے لہجے پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
”ہاں کہہ دیا تھا میں نے۔ اُن دنوں کوئی خاص اچھا رشتہ مل نہیں رہا تھا اور میں بے حد پریشان تھی۔مجھے لگا اگر اس کو کوئی پسند ہو گا اور اگر یہ شادی کرنا چاہتی ہے تو ٹھیک ہے مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کو پسند آیا بھی تو کون ؟ ارے اُس سے لاکھ گنا اچھا ہے یہ لڑکا جو مجھے میری کزن نے بتا یا ہے۔ لڑکا دوبئی میں ہوتا ہے اتنی تنخواہ ہے اُس کی، سادہ سے لوگ ہیں۔اس کو پسند بھی کر کے جا چکے ہیں اب بس ہمیں ہی جانا ہے اور جانا تو بس رسماً ہی ہے میں اُس لڑکے سے مل چکی ہوں اور وہ بہت اچھا لڑکا ہے۔۔” انہوں نے جذبات میں آکر اپنا منصوبہ آشکار کیا۔
”آنٹی۔” مجھ سے دکھ سے بولا بھی نہیں جارہا تھا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”دیکھو بیٹا! میں تمہیں غلط نہیں کر رہی بس تم آج کل کے بچوں کی اپنی ہی منطق ہے، لیکن صرف پسند کرنا یا محبت ہی کافی نہیں ہوتی۔ اور بھی بہت ساری چیزیں دیکھنی پڑتی ہیں۔ اس لڑکے کیا نام بتایا، ہاں سہیل۔ ان لوگوں کا تو اپنا گھر تک نہیں ہے۔ کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔ سب سے بڑا ہے لڑکا اور ہے بھی ثمرہ سے چھوٹا۔ وہ کہتا ہے ابھی دوتین سال تک شادی نہیں کرے گا۔ تومیں کیا اپنی لڑکی کو بٹھائے رکھوں گی اُس کے لئے تین سال…؟ چھبیس کی ہوگئی اب تین سال اُس کے انتظا ر میں بٹھا دوں اور اس کو سال بعد کوئی اور پسند آ جائے اور ہم کہاں گئے؟بتاؤ پھر کیا نئے سرے سے اس کے لیے رشتے ڈھونڈنے لگیں گے؟ جو دکھ تب ہونا ہے وہ اب ہی ہو لے تو ہی اچھا ہے۔” انہوں نے تفصیلاً بات کرتے ہوئے کہا۔
”یہ سب توآپ سوچ رہی ہیں کہ ایسا ہو نہ جائے ۔ ایسا ہو ہی جائے گا اس بات کی تو کوئی گارنٹی نہیں ہے نا۔ آنٹی خدانخواستہ غلط ہونا ہو تو وہ کسی دوسرے رشتے میں بھی ہو سکتا ہے۔ جہاں تک گھر کی بات ہے گھر کا کیا ہے جو چیز قسمت میں لکھی ہو مل ہی جاتی ہے اور جن سے چھننیہو وہ بعد میں بھی چھن جاتی ہے۔ ہم زندگی میں کسی چیز کی گارنٹی لے کر نہیں چل سکتے۔ شادی بیاہ،خوشی غم یہ گارنٹی کے ساتھ نہیں آتے اور یہ ہمارے ہی حق میں بہتر ہے۔ یہ ہمیں امید دلاتی ہے کہ یہ حالات ہمیشہ ایسے نہیں رہیں گے۔ اگر خوشی کے ہیں تو ہمیں خوشیوں سے نکل کرکیسے غم کا مقابلہ کرنا ہے اور اگر دکھ کے ہیں تو آنے والے وقت کی خوشی کا سوچ کر دکھ کم لگنے لگتا ہے۔جب بات دل کی ہو تو یہ سب باتیں تو کوئی معنی بھی نہیں رکھتیں۔” میں اٹک اٹک کر بولتی گئی کیوں کہ میں دیکھ رہی تھی کہ وہ اب غصہ قابو کر رہی ہیں۔
”زینب! تم بہت اچھی اور سیانی بچی ہو، میں نے ہمیشہ تمہاری رائے کو بہت اہمیت دی ہے لیکن بیٹی یہ زندگیوں کے معاملے ہیں، ذرا سی بھی غلطی ہو جائے تو ساری زندگی بھگتنا پڑتی ہے اور پھر جب بیٹی سکھی نہ ہو تو ماں باپ کو کہاں چین پڑتا ہے۔ہماری اکلوتی بیٹی ہے، ہم نہیں چاہتے کہ اُسے غلط ہاتھوں میں سونپ دیں۔” ان کا لہجہ اب قدرے نرم تھا۔
”آنٹی میں بھی تو یہی کہہ رہی ہوں، یہ زندگیوں کے معاملے ہیں۔ دیکھیے گا کہیں کسی کو پرکھنے میں کوئی بھول نہ ہوجائے۔” میں نے ہٹ دھرمی سے کہا۔
”باجی یہ چائے۔ ” اسی اثنا طیبہ چائے کی ٹرے اُٹھائے ہوئے لے آ ئی جس میں چائے کے ساتھ اسنیکس بھی تھے۔
”ارے ان سب کی کیا ضرورت تھی ابھی تو آنٹی نے مجھے کھانا بھی کھلانا ہے۔” میں نے بھری ہوئی ٹرے دیکھ کر کہا۔
”لو بھلا اتنا زیادہ کچھ نہیں ہے، کھانے میں ابھی وقت ہے تم آرام سے چائے پیو۔” آنٹی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”طیبہ یہ لے جاؤ دھو کر رکھو اور جو میں نے گوشت کے پیکٹس نکالے تھے انہیں صاف کرکے ککر میں ڈالو، میں آرہی ہوں۔” آنٹی نے اُ سے ٹوکری پکڑاتے ہوئے کہا۔
”جی اچھا خالہ جی۔” وہ باسکٹ لے کر چلی گئی۔
”بس بیٹا تم ثمرہ کو سمجھاوؑ کہ وہ غلط کر رہی ہے اور اُس لڑکے کی ضد چھوڑ دے۔میں نہیں چاہتی کہ یہ رشتہ ہمارے ہاتھ سے نکلے ۔ بس ایک دو دن میں ہم جائیں گے لڑکے کی طرف۔” انہوں نے مجھے دیکھ کر حتمی لہجے میں کہا اور ٹیبل صاف کرتے ہوئے اُٹھ کر کچن کی طرف چلی گئیں۔
”میں کیسے کہہ دوں کہ وہ غلط کر رہی ہے جب کہ وہ غلط نہیں کر رہی۔ اُس نے اپنا ایک معمولی سا بنیادی حق استعمال کیا ہے تو میں کیسے اُ س سے یہ حق چھیں لوں؟ اُسے کیسے کہوں کہ تمہیں کسی کو پسند کرنے کا حق یہ معاشرہ دے رہا ہے نہ تمہارا خان دان اور نہ تمہاری ماں۔” میں نے انہیں جاتے دیکھ کر بے دلی سے چائے کے کپ اور کبابوں کو دیکھا جن سے میرا دل اُٹھ چکا تھا۔
٭…٭…٭
زینب ، زینب۔ ” میں نے ادھ کھلی آنکھوں سے دروازے کی جانب دیکھا اور آواز کو پہچاننے کی کوشش کی۔
”کہاں مری ہو؟” اوہ ،ثمرہ کو دیکھ کر میں نے سر واپس پٹخا۔
”حد ہے یار ! سو سو کر جی نہیں بھرتا تمہارا؟” اُس نے کھڑکیوں سے پردے ہٹائے۔
”میری ماں! ابھی سوئی تھی۔” میں نے آنکھیں ملیں۔
”ابھی؟ عشاء کی اذان ہو چکی ہے اور آنٹی نے مجھے بتا یا ہے کہ تم عصر کے بعد سے سورہی ہو۔ چھٹی کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ آپ سوتے ہی رہیں۔”اُ س نے لڑاکا عورتوں کی طرح کمر پر ہاتھ رکھے اور مجھے گھورا۔
”اچھا بہن۔ ” میں نے اُٹھ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔
”اور بتاؤ، چلی گئی تمہاری کزن؟” میں نے اُ س کی آنکھوں میں ابھرتے ہوئے سوالوں سے نظریں چراتے ہوئے پوچھا۔ کل رات میں نہایت بد دل ہو کر گھر واپس آئی تھی اور ثمرہ بھی بازار سے کافی دیر سے لوٹی تھی اس لیے ہماری آپس میں کسی قسم کی کوئی بات نہیں ہوپائی تھی۔
”ہاں وہ تو صبح صبح ہی چلی گئی تھیں، اچھا بتاؤ تمہاری امی سے کیا بات ہوئی؟ ہمیں کل مارکیٹ میں اتنی دیر ہو گئی اور تم نے مجھے بتایا بھی نہیں کہ تم گھر آئی ہوئی ہو، میں جلدی ہی آجاتی۔” اُ س نے بیڈ پر بیٹھ کر میرے کندھے پر دھپ لگاتے ہوئے کہا۔
”کوئی بات نہیں، اچھا ہے نا گھر پر کوئی نہیں تھا۔ میں آرام سے بات کر سکتی تھی۔” میں نے چہرے پر مسکراہٹ سجائی۔
”ہاں! میں نے بھی یہی سوچا ورنہ آپ ہماری کزن صاحبہ کو تو جانتی ہی ہیں، اکیلا بیٹھنے ہی نہیں دیتیں۔ گھر آتیں تو تمہارے ہی سر پر سوار رہتیں۔” ثمرہ نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”ہاں کتنی چپکو ہے۔” میں نے سائیڈ ٹیبل سے موبائل اُٹھاتے ہوئے کہا۔
”زینب! چھوڑو اس کو میں تمہارے ساتھ اپنی کزن کو ڈسکس کرنے یا تمہارے موبائل کے دیدار کے لیے نہیں آئی۔” اُس نے میرے ہاتھ سے موبائل چھینتے ہوئے تپ کر کہا۔
”کیا ہے جنگلی قوم۔” میں نے اپنا ہاتھ سہلاتے ہوئے کہا۔
”تمہاری امی سے کیا بات ہوئی؟” اُس نے بے صبر ی سے پوچھا۔
”تمہیں آنٹی نے کچھ نہیں بتایا؟” میں نے اُسے کن اکھیوں سے دیکھا۔
”نہیں! وہ تو مجھے اکیلی ملی ہی نہیں، نا انہوں نے مجھے خود سے بلایا۔” اُس نے مایوسی سے کہا۔
”اوہ! ” میں نے گہراسانس بھرا۔
” بات خیر کچھ خاص نہیں ہوئی۔” میں نے غائب دماغی سے کہا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});