بلا عنوان — ثناء شبیر سندھو

”زینب تم پلیز امی سے بات کرو۔” ثمرہ نے منت بھرے انداز میں میرے ہاتھ پکڑے۔
”تم فکر مت کرو ثمرہ، میں اُن سے بات کروں گی۔ مجھے اُمید ہے وہ مان جائیں گی۔” میں نے اس کے ہاتھ تھپتھپاتے ہوئے تسلی دی۔
” میں بہت پریشان ہوں، مجھے لگتا ہے امی شاید نہ مانیں۔” ثمرہ نے پریشانی سے کہا۔
”کیو ں نہیں مانیں گی یار؟ آنٹی اتنی کنزرویٹو تو نہیں ہیں ۔ میں نے انہیں یہی کہتے سنا ہے کہ اگر تم اپنی پسند سے بھی شادی کرنا چاہو تو بھی ان کو اعتراض نہیں ہو گا اور اب جب تمہیں کوئی پسند آہی گیا ہے تو پھر وائے ناٹ… ” میں نے اپنا موبائل اُٹھاتے ہوئے تفصیلی جواب دیا۔
”ہاں میرے حساب سے تو سب ٹھیک ہے حتی کہ سہیل کی کاسٹ بھی سیم ہے تو مسئلہ ہونا تو نہیں چاہئے ” ثمرہ نے ناخن چباتے ہوئے کہا۔
”افوہ! تم کیا موبائل کو چمٹ گئی ہو؟ اُٹھو چائے بنا کر لاؤ۔ ” اُس نے مجھے موبائل کے ساتھ مصروف دیکھ کر چڑ کر کہا۔
”یا ر پلیز! آج تم خود بنا لو گھر پر کوئی بھی نہیں ہے اور میرا موڈ نہیں ہے۔” میں نے سستی سے کہا۔
”اوہ واؤ! بات تم ایسے کر رہی ہو جیسے ہمیشہ تم ہی بنا تی ہو۔ آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ پہلے بھی چائے ہمیشہ میں یا ردا ہی بناتے ہیں۔ تم نے کس دن بنا کر پلائی؟” اُ س نے میری بہن کا نام لیتے ہوئے مجھے گھورکر کہا۔
”تو جاؤ پھر آج بھی خود بناؤ مجھے کہا ہی کیوں؟” میں نے بیپروائی سے کہا۔
”تو بہ! سستی اور کاہلی کی بھی حد ہوتی ہے۔” وہ بڑبڑاتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔
میں نے اُس کی بڑبڑاہٹ پر اُسے منہ چڑایا اور اس کے جانے کے بعد سوچنے لگی کہ مجھے آنٹی سے کیا بات کرنی ہے۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”یہ ثمرہ کہاں رہ گئی؟” میں نے داخلی دروازے کی جانب دیکھا اور پھر اپنی کلائی پر بندھی گھڑی پر وقت دیکھا جو کہ نو بجا رہی تھی جب کہ ساڑھے سات فنکشن کا ٹائم تھا۔
”حد ہے، اگر نہیں آنا تھا تو بتا یا کیوں نہیں اس نے ۔ ” مجھے اُس پر تپ چڑھنے لگی۔
”زینب…زینی…” میں ابھی اندرونی حصے کی طرف جانے کا سوچ ہی رہی تھی کہ مجھے اپنے پیچھے اُس کی آواز سنائی دی۔ میں ٹھٹک کر رک گئی اور دانت پیستے ہوئے اُسے پلٹ کر دیکھا۔
”آئی ایم سوری یار! گھر میں اتنی پسوڑی پڑگئی کہ اتنا لیٹ ہے فنکشن، نہیں جانا اینڈ آل دیٹ۔ تمہیں پتا ہے جو ہمیشہ ہوتا ہے ہمارے گھر۔”اُس نے میرے پاس پہنچ کر میرا بازو پکڑتے ہوئے منت بھرے انداز میں صفائیاں دینی شروع کیں۔
”تو پھر تم گھر ہی کیوں نہیں رہ گئیں ثمرہ۔” میں نے دانت کچکچائے۔
”لو! پھر امی نے فہد کو ساتھ بھیج دیا، وہ باہر گاڑی میں ہے۔” اُس نے دانت دکھاتے ہوئے کہا۔
”تو پہلے ہی فہد کو بھیج دیتیں ساتھ۔” میں نے گہری سانس بھری اور قدم بڑھائے۔
”بارات آگئی کیا؟” ثمرہ نے میرے ہم قدم ہوتے ہوئے کہا۔
”نہیں، بارات انتظار کر رہی تھی کہ ہر ہائی نیس ثمرہ جب وینیو پر پہنچیں گی تو ہی وہ بھی تشریف لائے گی۔” میں نے اُسے گھورا۔
”ہا ہا … فنی ۔ ” ثمرہ منہ پھاڑ کر ہنسی۔
”لوگ کھانا کھا کر واپس جارہے ہیں۔” میں نے اُسے اطلاع دی۔
”ہائے کیا کہہ رہی ہو ؟ میں نے بھی کھانا کھانا ہے۔” اُس نے دہائی دے کر کہا۔
”موٹی پہلے تانیہ سے تو مل لو۔” میں نے اُسے گھورا۔
”ہائے یار تانیہ کتنی لکی ہے ، اُس کی شادی اس کی پسند سے ہورہی ہے حالاں کہ اُس کے گھر والے اس کی باتوں سے کتنے کنزرویٹو سے لگتے تھے۔” ثمرہ نے آہ بھر کر کہا۔ تانیہ ہماری اچھی دوست اور کلاس میٹ تھی اور آج اس کی بارات تھی۔ اُس کا شوہر ہمارا سینئر تھا اور ہم دونوں طرف سے ہی انوائیٹڈ تھے لیکن اس ثمرہ نے لیٹ آکر سارا مزہ خراب کر دیا تھا۔
”جس کی جہاں شادی ہونی لکھی ہوتی ہے ہو ہی جاتی ہے ثمرہ بے بی ۔ ڈونٹ وری انشاء اللہ تمہارے من کی مراد بھی ضرور پوری ہو گی۔جا بچہ بابا جی نے دعا دے دی۔” میں نے اُس کو آگے کی طرف دھکیلتے ہوئے کہا۔
”دعا دے رہی ہو کہ دھکا۔ ” ثمرہ نے مُڑ کر غصے سے مجھے دیکھا ۔ میں ہنستے ہوئے آگے بڑھ گئی جہاں ہمارے کلاس میٹس ہماری طرف دیکھ کر ہاتھ ہلا رہے تھے۔
٭…٭…٭
اُ ف کتنا رش ہو گیا ہے ہر جگہ …” میں نے بس میںبہ مشکل داخل ہوتے ہوئے لوگوں کے ہجوم کو دیکھ کوفت سے سوچا۔مجھے بس تک پہنچتے شام کے چھ بج چکے تھے۔
”اوہ شٹ! ثمرہ کی طرف جانا تھا آج تو۔”میں نے موبائل نکالا تو اُس پر ثمرہ کی مسڈ کالز دیکھ کر مجھے یاد آیا۔
”بیٹھی کوس رہی ہو گی مجھے ۔” میں نے سڑک پر بھاگتی دوڑتی گاڑیوں کو دیکھ کر سوچا۔ وہ چاہتی تھی کہ میں اُس کی امی کو اُسے پسند کی شادی کرنے کے لیے قائل کروں۔ میں نہیں جانتی تھی کہ وہ میری بات مانیں گی یا نہیں۔لیکن میں اُن سے ایک دفعہ بات ضرور کرنا چاہتی تھی۔ مجھے لگتا تھا ثمرہ سمیت ہر لڑکی کو حق ہے کہ وہ اپنی مرضی سے شادی کر سکے۔ ہاں البتہ رشتہ اور لڑکا اُس معیار کا بھی ہونا ضروری تھا جو کہ ثمرہ کے مطابق بالکل مناسب تھا۔ میں اپنی سوچوں میں گم اسٹاپ پر اُتری اور اپنی گلی سے آنے والی پہلی گلی میں مُڑ گئی جہاں ثمرہ کا گھر تھا۔
ثمرہ اور میں بچپن کی سہیلیاں ہیں۔ ہمارے گھر بھی آس پاس تھے۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں ہمارا بہت اچھا ساتھ رہا۔ البتہ اب میں ایک آفس میں جاب کر رہی ہوں جب کہ ثمرہ ایک اسکول میں ٹیچنگ کرتی ہے۔ وہ تین بھائیوں کی اکلوتی بہن ہے اور اُس کی گھر میں ضرورت بھی رہتی ہے اس لئے اُس نے قریبی اسکول شوقیہ جوائن کر لیا تھا۔پچھلے کچھ عرصے سے ثمرہ کی ایک لڑکے جس کا نام سہیل تھا اُس سے بات چیت ہونے لگی تھی جو کہ اُس کے اسکول میں پڑھنے والی کسی بچے کا ماموں تھا۔ ثمرہ کی اُس میں دل چسپی کافی بڑھ گئی تھی اور وہ اُسی سے شادی کرنا چاہتی تھا۔ وہ لڑکا بھی راضی تھا اور اپنا رشتہ بھیجنا چاہتا تھا لیکن انہی دنوں ثمرہ کے ایک دو اور بھی پروپوزل زیر ِ غور تھے جن میں ایک اُس کی امی کا دور پار کا رشتہ دار تھا اور جسے وہ ایک بہت اچھا رشتہ مان رہی تھیں۔ ثمرہ اپنی امی کو ڈھکے چھپے لفظوں میں اپنی پسند کا بتا چکی تھی لیکن اُس کی امی نے اُس کو سنجیدگی سے لیے بغیر دوسرے آنے والے رشتوں کی چھان بین جاری رکھی۔ یہ بات ثمرہ کو خاصی پریشان کر رہی تھی اور وہ چاہتی تھی کہ میں اُ ن سے بات کروں۔ایسا نہیں تھا کہ آنٹی میری بات فوراً مان لیتیں لیکن بہرحال سن کر ایک دفعہ غور ضرور کرتی تھیں۔
میں اپنی رو میں چلتی اُس کے گھر سے آگے نکل گئی اور پھر ٹھٹک کر رکی۔ پلٹ کر دیکھا تو اُس کے ابو گاڑی نکال رہے تھے۔ شاید وہ کہیں جارہے تھے۔ میں آہستگی سے چلتی ہوئی واپس آئی، اس دوران وہ گاڑی لے جا چکے تھے۔ میں نے اندر داخل ہو کر گیٹ بند کیا اور سیڑھیاں چڑھ گئی۔
”واہ آج تو زینب ہمارے گھر کا راستہ بھول آئی ہے۔” آنٹی جو ٹی وی لاؤنج میں ہی بیٹھی سبزی بنا رہی تھیں، مجھے دیکھتے ہی انہوں نے گرم جوشی سے کہا۔ یہ اُن کا ہمیشہ کا استقبالیہ جملہ تھا۔ میں روز بھی جاؤں تو بھی وہ یہی کہتی تھیں۔
”السلام علیکم آنٹی! آپ بھی نا۔ بس ہمیشہ یہی کہتی ہیں۔” میں نے جھینپ کر انہیں سلام کیا۔
”لو غلط کہتی ہوں کیا؟ مہینے بعد ہی شکل دکھاتی ہو۔”وہ اپنی بات پر قائم رہتے ہوئے بولیں۔
”ابھی تو میں پچھلے ہفتے آئی تھی آنٹی۔” میں نے بیگ سنٹرل ٹیبل پر رکھا اور چیخ کر کہا۔
”بس بس رہنے دو۔ اچھا بتاؤ کیا لو گی، چائے بنواؤں؟ ابھی چائے پیو میں کھانا بنا رہی ہوں۔ کھانا کھا کر جانا اب۔” انہوں نے محبت سے کہا تو میں نے سر ہلا دیا۔
”طیبہ جلدی سے باجی کے لئے چائے بنا کر لاؤ۔” آنٹی نے کچن کی طرف جا کر آواز لگائی۔ طیبہ نے ان کی آواز سنتے ہی باہر آ کر میری طرف دیکھتے ہوئے دانتوں کی نمائش کی اور پھر سر ہلا دیا۔ طیبہ اُن کی کل وقتی ملازمہ تھی۔
”اور بتاؤ بیٹا، کیا ہو رہا ہے؟” آنٹی نے واپس آکر چھری تھامی اور مزید بات شروع کی۔
”بس آنٹی آفس اور گھر اور کچھ خاص نہیں۔ یہ ثمرہ کہاں ہے؟” میں ان کو جواب دے کر ادھر ادھر جھانکتے ہوئے کہا۔
”میری بھتیجی آئی ہوئی ہے گاؤں سے۔اُسے بازار جانا تھا بس اُسی کو لے کر گئی ہے۔” انہوں نے مصروفیت بھرے انداز میں جواب دیا۔
”اوہ!” میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔میں نے سوچا اُن سے بات کرنے کا یہی اچھا مو قع ہے۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا اور گلا کھنکھارنے لگی۔
”آنٹی وہ،مجھے کچھ بات کرنی تھی۔” میں نے آہستگی سے کہا۔
”ہاں کہو نا، کیا بات ہے؟” انہوں نے سر اُٹھا کر مجھے دیکھا۔
” ثمرہ نے آپ کو سہیل کے بارے میں تو بتایا ہی ہوگا۔” میں نے غور سے ان کا چہرہ دیکھا جو رنگ بدل چکا تھا۔
”ہاں۔ ” انہوں نے سپاٹ سے لہجے میں کہا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

انوکھی محبت (انٹرنیٹ والا لو) — مہک شاہ

Read Next

خونی سایہ — عمارہ خان (پہلا حصہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!