بانجھ — علی حسن سونو

صبح باہر جانے سے پہلے اعزازنے ماروی کے کمرے پر دستک دی اور اندر آنے کی اجازت چاہی۔
”امی کچھ وقت ہے آپ کے پاس؟ کچھ بات کرنی ہے۔” اعزاز نے نیاز مندانہ لہجے میں پوچھا۔
”بیٹا کیسی باتیں کررہا ہے۔ پہلے تو کبھی اجازت نہیںلی۔ آجا آجا، بیٹھ بول کیا بات ہے۔” ماروی کے لہجے میں مامتا واضح تھی ۔
”امی وہ آمنہ بتا رہی تھی کہ آپ لوگ فکر مند ہیں کہ ابھی تک اولاد کی کوئی خیر خبر نہیںآئی۔” اعزاز سر جھکائے ہوئے بولا۔
”ہاں بیٹا! سارا خاندان تمہارے ابا اور مجھ سے پوچھ رہا ہے۔” ماروی نے فکر مندانہ لہجے میں کہا۔
”امی! بات یہ ہے کہ شاید یہ موقع کبھی نہ آسکے۔” اعزاز نے لچک بھرے لہجے میں گویا بات ہی تمام کردی۔
ماروی کے چہرے پر جیسے کل کائنات کی پریشانی امڈ آئی ہو اور وہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی:
”کیا؟ بیٹا یہ تم کیا کہہ رہے ہو! اللہ خیر کرے! کیوں نہیں آسکتا یہ وقت؟ کیا بات ہے؟” ماروی دبے ہوئے لہجے میں بولی:
”امی کیوں کہ آپ کا بیٹا قدرت کے اس تحفے سے محروم ہے۔ آمنہ بے چاری تو میری محبت کے سامنے بے بس ہے مگر سچ یہ ہے کہ میں آپ کی اس خواہش کو پورا نہیں کرسکتا۔” اعزاز بول رہا تھا لیکن ماروی پر ایک ایک حرف ہتھوڑا بن کر برس رہا تھا۔
”میرا خیال ہے آپ سمجھ گئی ہیں میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں۔ آمنہ بہت پریشان ہے اور اس کی طرف دیکھیں کہ وہ یہ بات جانتے ہوئے بھی مجھ سے اتنی محبت کرتی ہے۔” اعزاز کا چہرہ جذبات اور فکر میں رچا ہوا تھا۔ ماروی کا چہرہ زرد اور منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔
”آپ پلیز آمنہ سے دوبارہ نہ پوچھیے گا، وہ پریشان ہو جائے گی، کیوں کہ اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہے جو اصل بات تھی وہ میں نے آپ کو بتا دی ہے۔” اعزاز نے صوفے سے اُٹھ کر ماں کے قدموں میں بیٹھ کر انتہائی ادب سے ماں کے ہاتھوں کو سہلاتے ہوئے کہا۔
”امی میں جانتا ہوں کہ آپ کیا سوچ رہی ہیں مگر یہ قدرت کے کھیل ہیں۔ زیادہ سوچیں مت اور ہاں ابو کو بھی سمجھانے کی کوشش کریں۔ اگر آپ کہیں تو میں…”
”نہیں نہیں اعزاز! تم رہنے دو ابو سے کچھ نہ کہنا۔ ماروی جیسے یک دم اپنے حواس میں واپس آئی تھی۔
”تو جا! زیادہ فکر نہ کر۔ اللہ خیر کرے گا۔” ماروی مامتا بھرے لہجے میں بولی۔
”ٹھیک ہے امی! ”اعزاز ماروی کے کمرے سے نکل کر راہ داری سے ہوتا ہوا صدر دروازے کی طرف بڑھا تو آمنہ پیچھے سے آتی ہوئی تشویش بھرے لہجے میں بولی:
مل لیے امی سے؟
”ہاں ہوگئی بات! اب وہ تمہیں نہیں پوچھیں گی۔” وہ آمنہ کو کچھ کہنے کی مہلت دیے بغیر چلا گیا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

آمنہ اس عرصے میں مختار شیرازی کا دل جیتنے کا عزم لیے کام یابی سے آگے بڑھ رہی تھی ۔ مختار شیرازی اور اس کے درمیان محبت کا ایک جذبہ پیدا ہوتا جارہا تھا۔ اس کا بیٹی کی طرح کھانے کا پوچھنا ، صحت کے بارے میں دریافت کرنااوردیگر معاملات پر تبادلہ خیال کرنا مختار شیرازی کو بہت بھاتا۔ دھیرے دھیرے مختار شیرازی کے گرد انا کا خول ٹوٹتا جا رہا تھا۔
ماروی اپنے اندر کی کشمکش کومختار کے ساتھ بانٹنا چاہتی تھی ۔سو ایک دن موقع پا کر اس نے مختار شیرازی سے کہا :
” دیکھیے! میری بات ذرا دھیان اور ہمت سے سنیے گا۔”ماروی کی آواز میں لرزش تھی ۔
”کیا بات ہے؟ خیر تو ہے؟ جلدی بولو مجھے فکر ہورہی ہے۔” مختار کی آواز میں معمول کی گرج تھی ۔
”وہ…وہ… وہ…”ماروی کے لیے یہ سب کہنا اتنا آسان نہیں تھا۔
”کیا وہ وہ ماروی… بتاؤ کیا بات ہے؟” مختار شیرازی بھڑک کر بولا۔
”وہ میں نے اعزاز اور آمنہ سے بات کی تھی اولاد کے حوالے سے مگر بات یہ ہے کہ…”
”ماروی پہیلیاں مت بجھاؤ۔”صاف صاف کہو کیا کہا انہوں نے؟” مختار بہ دستور غصے میں تھا۔ اس کے لہجے میں غصے سے زیادہ تشویش تھی۔
”ہمارا بیٹا ہمیں پوتا نہیں دے سکتا۔ قدرت اس معاملے میں ہم پر مہربان نہیں ہوئی۔” ماروی نے ہمت کر کے سارا معاملہ مختار کے گوش گزار کردیا۔
مختار شیرازی کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ یہ بات اس نے کیسے ضبط کرلی، یہ وہی جانتا تھا۔ اگر یہ زمینی معاملہ ہوتا تو مختار شیرازی زمین و آسمان کے قلابے ملا کر بھی اس ناممکن کو ممکن کردیتا، مگر معاملہ اس کے ہاتھ میں نہ تھا۔ وہ غصے کے عالم میں کمرے سے باہر نکل گیا۔
ماروی اور مختار کے کمرے کے ساتھ کھڑی آمنہ نے یہ ساری گفت گو سُن لی تھی۔ مختار کے باہر نکلتے ہی آمنہ اور مختار کا سامنا ہوا تو مختار نے آمنہ کو چونکتے ہوئے کہا۔
”ارے بیٹا! تم باہر کیوں کھڑی ہو؟ اندر بیٹھو ۔میں ابھی آتا ہوں۔”
مختار اندر ہونے والی ساری گفت گو سے آمنہ کو بے خبر رکھنا چاہتا تھا اور آمنہ بھی یہی محسوس کروانے کی کوشش میں تھی کہ اس نے کچھ نہیں سُنا۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ اعزاز اور مختار میں کھچاؤ پیدا ہوتا جارہا تھا اور آمنہ اپنے سسر کو تسخیر کرنے کے قریب پہنچ چکی تھی۔
٭…٭…٭
آمنہ کو اب یہ بات کھائے جارہی تھی کہ اعزاز نے وہ کیا جو کوئی بھی نہیں کرسکتا کہ صرف اسے طعنوں سے بچانے کے لیے اس کا بانجھ پن اپنے اوپر لے لیا۔ وہ اس سوچ میں تھی کہ اس صورتِ حال سے کیسے نمٹا جائے۔ اُدھر اعزاز اور مختار ایک دوسرے سے کھچے کھچے رہ رہے تھے مگر آمنہ خود کو اس کا قصور وار سمجھ رہی تھی۔
ایک دن مختار اورآ منہ بیٹھے چائے پی رہے تھے اور ماروی بھی ساتھ ہی بیٹھی تھی ۔ آمنہ ہمت کرتے ہوئے بولی:
ابا جان آپ جانتے ہیں میں بہت فکر مند تھی کہ اعزاز سے شادی کے بعد اپنے ماں باپ کے بغیر کیسے رہوں گی؟ مگر آپ کی اور امی کی محبت نے مجھے احساس ہی نہیں ہونے دیا کہ میں اپنے ماں باپ سے دور ہوں۔” آمنہ کے چہرے اور آنکھوں میں اخلاص بھرا ہوا تھا۔
آمنہ بیٹا تمہیں نہیں پتا تمہارے آنے سے میں ذاتی طور پر کتنا خوش ہوں۔ میری بہت خواہش تھی کہ میرے گھر بیٹی ہو۔ وہ تو نہ ہوسکا لیکن اللہ سائیں نے تمہاری صورت میں مجھے بیٹی عطا کردی۔” مختار آمنہ کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔ مختار شیرازی کی بھاری بھر کم آواز میں بھی خلوص صاف محسوس کیا جاسکتا تھا۔
ان دونوں کی آنکھیں نم تھیں ،پاس بیٹھی ماروی بھی اپنے آنسو پونچھنے لگی۔
”صحیح کہہ رہے ہیں یہ! مجھے بھی بیٹی کی کمی بہت محسوس ہوتی تھی مگر تو اتنی بھاگوں والی ہے کہ تو نے ہماری یہ کمی اتنے اچھے طریقے سے پوری کردی۔” ماحول جیسے جذبات سے آراستہ ہو گیا تھا ۔ آمنہ نے دل میں سوچا کہ شاید یہی وقت ہے کہ اسے اپنی بات کردینی چاہیے۔
وہ کچھ تردد کے بعد بولی:
”ابا اگر میں آپ سے کچھ کہوں تو آپ دھیان سے سنیں گے؟” آمنہ نے بچوں کی طرح سوال کیا۔
”بیٹا میں تمہاری نہیں سنوں گا تو کس کی سنوں گا۔ بولو بیٹا!” مختار کے چہرے پر پدرانہ شفقت اور لہجے میں خلوص تھا۔
”ابا! مجھے پتا ہے آپ اور امی، میری اور اعزاز کی اولاد کے بارے میں بہت پریشان ہیں۔” مختار کے چہرے پر اچانک غصہ درآیا ۔ وہ خیالات میں اعزاز کو لعن طعن کرنیلگا۔
رکو بیٹا! مختار اس کی بات ٹوکتے ہوئے بولا،ماروی اور آمنہ دونوں سہم گئیں ۔
”مجھے ساری بات کا پتا ہے بیٹا، بلکہ مجھے تو تم سے معافی مانگنی چاہیے کہ اتنی پیاری اور سگھڑ بچی کس نالائق کے ہاتھوں پریشان ہورہی ہے۔ تم کچھ نہ کہو! میں سب جانتا ہوں۔” وہ چہرہ پھیرتے ہوئے بولا۔
”نہیں ابا! آپ کچھ نہیں جانتے۔” آمنہ نے مختار کی تردید کرتے ہوئے کہا۔ماروی اور مختار آمنہ کی اس بات پر چونک سے گئے۔
”کیا مطلب؟” وہ دونوں یک آواز ہوکر بولے۔
”بیٹی ہوں نا میں آپ کی۔ تو بیٹی آپ سے کچھ چھپائے ایسا نہیں ہو سکتا۔”ماروی اور مختار کے چہرے پر سوالات کا مجمع لگا ہوا تھا۔
”اصل بات یہ ہے کہ اعزاز اور میں ایک دوسرے کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اعزاز مجھ سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔” وہ مسلسل بول رہی تھی ۔
” اعزاز نے صرف مجھے لوگوں کی تنقید سے بچانے کے لیے میرا عیب اپنے سر لے لیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ بانجھ اعزاز نہیں ،میں ہوں۔”
مختار اور ماروی حیرت سے منہ کھولے آمنہ کی باتیں سن رہے تھے اور چپ سادھے سر جھکائے کچھ سمجھ نہ آنے کی کیفیت میں اسے دیکھ رہے تھے۔ وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولی:
”اعزاز جیسا شخص اس دنیا میں کوئی دوسرا نہیں ہے۔ اس نے میرا یہ عیب جانتے ہوئے بھی مجھ سے شادی کی اور مجھے آپ دونوں جیسے شفیق ماں باپ دیے اور یہی نہیں! میرا گرہن بھی اپنے سر لے لیا۔ پتا نہیں میں اعزاز کے اتنے احسانات کیسے چکاؤں گی۔” آمنہ تواتر سے روتے ہوئے بولے جارہی تھی۔ اس کی آواز اس کی شخصیت کی طرح نہایت دل آویز تھی۔
مختار، ماروی اور آمنہ جذبات کی رو میں بہ رہے تھے اور ماحول آنسوؤں سے تر تھا۔ آخر کار مختار چپ توڑتے ہوئے بولا۔
”بیٹا آمنہ! آیندہ سے تم یہ بات نہیں کرو گی کہ تم بانجھ ہو۔بانجھ تم نہیں بلکہ میری ذہنیت تھی جس نے اپنے بیٹے کو غلط سمجھا اور اپنی خاندانی رسموں کے تسلسل کے لیے اولاد اولاد کا راگ الاپتا رہا۔” مختار شیرازی کا یہ روپ پہلی بار کسی نے دیکھا تھا۔ وہ شاید زندگی میں پہلی بار کسی کے سامنے رو رہا تھا۔
”تم میری بیٹی ہو اور ہمیشہ بیٹی رہو گی۔ کتنا کم ظرف ہوں میں کہ اپنے اتنے لائق اور فرماں بردار بیٹے کو سمجھے بغیر اس سے بات چیت کرنا چھوڑ دی۔ میں کیسے اتنا کم ظرف ہوسکتا ہوں۔ ” وہ جذباتی ہو کر اپنے منہ پر طمانچے مارنے لگا کہ ماروی اور آمنہ نے فوراًآگے بڑھ کر اس کے ہاتھ پکڑلیے۔ آمنہ یک لخت بھرائی آواز میں بولی:
”ابو آپ نے کہا نا کہ میں آپ کی بیٹی ہوں تو آپ کو آپ کی بیٹی کی قسم مت کیجیے ایسا۔” آمنہ اسے پکڑتے ہوئے بولی:
آپ نہیں بلکہ کم ظرف میں ہوں جس نے اعزاز کی محبت میں یہ بھی نہیں سوچا کہ اسے میری وجہ سے کیا کیا برداشت کرنا پڑے گا۔”آنسو اس کی آنکھوں سے رواں تھے۔
”نہیں بیٹا! وعدہ کرو کہ آج کے بعد ہم اس موضوع پر بات نہیں کریں گے۔ میرے ساتھ جو ہونا تھا وہ ہوگیا۔ کتنا نا شکراہوں میں، اتنی فرماں بردار اولاد پر بھی میں خوش نہیں۔ اے اللہ مجھے معاف کردے۔” مختار کی آواز اس کے اختیار میںنہیں تھی۔
”آمنہ بیٹا! میں نے اللہ سے پوتا مانگا تھا مگر اللہ نے مجھے بیٹی عطا کی ہے۔ یا اللہ تیرا شکر ہے۔” مختار اچانک روتے روتے مسکرانے لگا۔اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی ایک اور لڑی جاری ہوگئی۔
اعزاز کب وہاں آیا، کسی کو پتا ہی نہ چلا۔ دروازے پر کھڑا سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ مختارنے حسرت بھری نگاہوں سے اعزاز کی طرف دیکھا اور سسکتے ہوئے اپنے بازو پھیلادیے۔ اعزاز بچوں کی طرح باپ کی بانہوں میں سمٹ گیا۔ آمنہ اور ماروی بھی ساتھ کھڑی جذبات میں مسلسل بہ رہی تھیں۔
”مجھے معاف کردینا اعزاز! میں بہت شرمندہ ہوں تجھ سے۔”مختار بھرائے ہوئے لہجے میں بولا۔
” ابا! کیوں مجھے گناہ گار کررہے ہیں۔” اعزاز نے مختار شیرازی کو اپنے بازوؤں کی مضبوط گرفت میں لیتے ہوئے کہا۔
”آمنہ بیٹا! ادھر آؤ۔” مختار نے پیار سے آمنہ کو اپنی آغوش میں لیا۔ پھر اعزاز اور آمنہ کو اپنی بازوؤں میں سمیٹتے ہوئے بولا:
”آج میرا خاندان مکمل ہوگیا۔” اشک اب بھی اس کی آنکھوں سے رواں تھے، مگر اب وہ گرم نہیں، ان میں اطمینان کی ٹھنڈک تھی۔ ساتھ کھڑی ماروی کو دیکھ کر پر تفنن لہجے میں بولا:
”ہاں ہاں تو بھی ہے اس میں، تیرے بغیر تو میں مکمل نہیں ہوسکتا تو خاندان کیسے ہوسکتا ہے۔” آمنہ ماروی کو پکڑ کر بغل گیرہوئی تو مختار فرطِ جذبات لیکن ٹھوس لہجے میں بولا:
”دیکھ لوں گا ساروں کو۔ آج سے میری جائیداد اور سرداری کی وارث میری بیٹی آمنہ ہے۔”
آنسوؤں کا ریلا اب رک چکا تھا۔ شیرازی خاندان کے لیے یہ ایک نئے دور کا آغاز تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

پہچان — ماہ وش طالب

Read Next

محرومی — کوثر ناز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!