بانجھ — علی حسن سونو

”آمنہ تو ہو نا؟ دل کش تو ہو نا ؟ تم جیسا چہرہ کوئی اور ہے ؟ تمہاری حیا ،تمہاری وضع داری ،تمہارا لہجہ ؟ کیا تمہارا کوئی ثانی ہے؟ تمہاری باتیں کرتے ہوئے میں دن رات گزار سکتا ہوں اور تم مجھے کہہ رہی ہو کہ تم… میں وہ کہنا بھی نہیں چاہتا۔” اعزاز اپنائیت سے لبریز لہجے میں آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ اب کی بار حیران ہونے کی باری آمنہ کی تھی۔ وہ آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہی تھی۔
”تم نے کیا سمجھا تھا کہ تم مجھے اپنی طلاق اور بانجھ پن کا بتا کر خود سے محبت کرنے سے روک لو گی ؟ آمنہ مجھے تم سے محبت ہے ،صرف تم سے اور محبت خوبیاں اور خامیاں دیکھ کر نہیں کی جاتی ۔ آمنہ تم میرے لیے صرف آمنہ ہو اور میرے لیے آمنہ اس دنیا کی ایک ہی لڑکی ہے جو میرے سامنے بیٹھی ہے۔” اعزاز نہ جانے اتنی محبت کہاں سے لے آیا تھا۔
”آمنہ تم میری محبت ہو۔ میری زندگی، میرا سرمایہ۔تمہارا بانجھ پن میرے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ میں تو آج تک اس ایک لمحے کے حصار میں ہوں جب میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تھا۔ تمہارے چہرے پر جو خاندانی نجابت ہے وہ مجھے لے اُڑی تھی۔ تمہارے وصف تمہارے بانجھ پن سے بہت زیادہ ہیں اور ہاں! آیندہ ایسی بات کی یا اس بات کو دہرایا تو مجھے دکھ ہوگا۔ مجھے میری آمنہ مل گئی ہے۔ مجھے اور کچھ نہیں چاہیے۔” اعزاز کے لہجے میں اطمینان صاف ظاہر تھا۔
”لیکن اعزاز ایسا نہیں ہوتا۔” آمنہ بے بسی کے انداز میں بولی۔
”ایسے ہی ہوتا ہے اور ایسے ہی ہو گا۔” اعزاز اٹل لہجے میں بولا۔
”تم اپنی امی سے بات کرو۔ میں بھی آج اماں ابا سے بات کروں گا۔ سمیسٹر بریک ہے دو ماہ تمہارے بغیر گزارنے ہیں۔ مجھے حوصلہ دینے کے بجائے تم مجھے درس دے رہی ہو۔ چپ چاپ گھر جاؤ اور ہاں! میں تمہیں فون کروں گا تو کاٹ مت دینا۔” اعزاز اپنی حسِ مزاح کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے بولا۔
آمنہ اعزاز کی محبت کے سامنے بے بس ہو چکی تھی۔ ایک مطمئن مسکراہٹ اس کے لبوں پر رقصاں تھی اور وہ خوشی اور شرم سے سُرخ ہوئے جارہی تھی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

اس لیے تمہیں یونیورسٹی بھیجا تھا کہ وہاں آنکھیں چار کرتے پھرو۔ تمہیں تو ہماری خاندانی روایات کا بہ خوبی علم ہے تو پھر بھی ایسی حرکت۔ اپنی ماں سے پوچھ لو! مجھ سے اجازت کی کوئی ضرورت نہیں۔” اعزاز نے جب اپنے اماں ابا سے آمنہ کے متعلق بات کی تو سنتے ہی مختار شیرازی آپے سے باہر ہوگیا اور اس نے معاملے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا اور کمرے سے باہر چلا گیا۔
اعزاز کی ماں نے بیٹے کو چپ رہنے کا اشارہ کیا ۔ مختار شیرازی کے جانے کے بعد اسے چپکے سے دوسرے کمرے میں لے گئیں اور پاس بٹھا کر کہنے لگیں:
بیٹا! سچ پوچھو تو تیرے باپ کا غصہ گھڑی پل کا ہے، اتر جائے گا۔ تو مجھے میری ہونے والی بہو کی تصویر دکھا۔ مجھے تو ایمان سے خوشی ہی بہت ہے کہ میرے بیٹے کا سہرے سجانے کا وقت آگیا ہے۔ماں کی رضامندی دیکھ کر اعزاز کو تھوڑا حوصلہ ہوا۔
مگرمختار شیرازی کی برہمی کم نہ ہوئی۔ اعزاز کی ماں ماروی کے تدبر سے شادی طے پاگئی۔ اُدھر آمنہ کے ماں باپ بھی اعزاز سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ ان کے انداز میں ایک تشکر سا تھا کہ ہماری بیٹی کو بانجھ جانتے ہوئے بھی اعزاز اسے قبول کرنے پر آمادہ ہے۔ شیرازی خاندان کی مخصوص روایات اور تیاریوں کے ساتھ اعزاز اور آمنہ کی شادی طے پائی اور اس سارے مرحلے کے دوران اعزاز نے آمنہ کے بانجھ پن کی خبر سب سے چھپائے رکھی کیوں کہ اس کے لیے اس بات کی کوئی اہمیت ہی نہیں تھی۔
شادی کی تقریبات دھوم دھام سے مکمل ہوئیں۔ آمنہ اور اعزاز ایک دوسرے کی محبت میں گندھے ہوئے جذبات سے مزین تھے ۔ ان کے چہرے ان کی خوشی کا احاطہ کرنے سے قاصر تھے۔ وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے تو آنکھیں خوشی اور محبت سے بھر جاتیں اور کبھی کبھی تو یوں ٹکٹکی باندھ کر ایک دوسرے کو دیکھتے کہ کسی اور کی توجہ دلانے پر خود کو جھٹک کر ایک دوسرے کے سحر سے نکلتے ۔
٭…٭…٭
وقت گزرتا گیا اور پھر وہی ہوا جس کے لیے شیرازی خاندان میں شادی کی اہمیت بہت زیادہ تھی۔ رشتہ دار آکر مختار شیرازی اور ماروی سے چھوٹے اعزاز کے بارے میں پوچھنے لگے۔
وہ دونوں ایک دوسرے کی طرف بے خبری سے دیکھتے اور کہتے کہ یہ تو اللہ سائیں کے کام ہیں۔ ابھی تو نئی نئی شادی ہے اعزاز اور آمنہ کو کچھ وقت تو گزارنے دو، چھوٹا اعزاز بھی آجائے گا۔ سوال تو اہم تھا مگر مختار اور ماروی کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
ایک دن ماروی آمنہ کے پاس بیٹھی تو باتوں باتوں میں پوچھنے لگی:
”بیٹا! لوگ پوچھ رہے ہیں کہ خوش خبری کب سناؤ گے؟ چھوٹے اعزاز کی آمد کب ہو گی مگر بیٹا ہمار ے پاس کوئی جواب نہیں ہے، تم بتاؤ تو کہ اعزاز اور تم نے کیا سوچا ہے؟” ماروی نے آمنہ کو اپنی بیٹی سمجھتے ہوئے پوچھا۔
آمنہ کے پیروں تلے تو جیسے زمینسرک گئی۔وہ سمجھ نہیں پارہی تھی کہ کیا جواب دے۔ ایک طرف اعزاز کی محبت اور دوسری طرف گھر والوں کی توقعات اور پھر آج اس سوال سے وہ بجھ سی گئی۔ وہ کشمکش کی کیفیت میں ہاتھوں کو سہلا رہی تھی، اس کے علاوہ وہ کچھ کر بھی نہیں سکتی تھی۔
”بیٹا سب ٹھیک تو ہے نا؟ کوئی فکر والی بات تو نہیں۔” ماروی کی آواز میں تشویش تھی۔ آمنہ خود کو سنبھالتے ہوئیبولی۔
”نہیں نہیں امی! کوئی فکر والی بات نہیں۔ میں اعزاز سے بات کروں گی اور آپ کو جلد ہی بتاؤں گی۔”آمنہ معاملہ فہمی جانتی تھی، اس کے بانجھ پن نے اسے معاملہ فہمی خود ہی سکھا دی تھی۔ ماروی غیر مطمئن انداز میں اثبات میں سرہلا کر اٹھ گئی۔
”ٹھیک ہے بیٹا! کھانا دھیان سے کھا لینا۔” ماروی نے فکرمندانہ لہجے میںکہا۔
” جی ٹھیک ہے امی!” آمنہ نے مُسکراکرجواب دیا۔
آمنہ کی ذہنی کشمکش اور بڑھ گئی۔ وہ شدت سے اعزاز کا انتظار کرتی رہی کہ کب وہ آئے اور وہ اسے ساری صورتِ حال بتائے۔
اعزاز جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا تو آمنہ بچوں کی طرح لپک کر بولی:
”کہاں رہ گئے تھے اعزاز آج اتنی دیر؟”اس کی آواز میں عجیب اضطراب تھا جسے سن کر اعزاز نے بازوؤں سے پکڑ کر اسے بیڈ پر بٹھایا اور نرم لہجے میں پوچھا۔
”آمنہ کیا بات ہے؟ تمہارے چہرے پر اتنی تشویش کیوں ہے سب خیریت توہے نا؟”
آمنہ آنکھیں پھیرتے اور ہونٹوں کو زبان سے ترکرتے ہوئے بولی۔
”اعزاز! امی آج کمرے میں آئی تھیں۔”
”اچھا! تو پھر؟” اعزازبے پروائی سے بولا۔
”وہ پوچھ رہی تھیں کہ لوگ روز آکر ہمارے بچے سے متعلق سوالات کر رہے ہیں کہ چھوٹا اعزاز کب آئے گا۔سائیں اعزاز اور آمنہ بیٹی کا کیا کہنا ہے ؟”
وہ یہ بات کرتے بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اعزاز نے خاموشی سے بات سنی اور اس کے پھول جیسے چہرے کو ہاتھوں میں سمیٹتے ہوئے انتہائی محبت بھرے لہجے میں گویا ہوا:
”بس اتنی سی بات؟” اعزاز نہ جانے آمنہ کو پریشان دیکھ کر پلک جھپکتے اتنا خلوص کہاں سے لے آتا تھا۔
”یہ اتنی سی بات ہے اعزاز؟ آمنہ کے لہجے میں بے بسی تھی۔
”اعزاز اگر یہ بات انہیں پتا چل گئی کہ میں وہ نہیں کر سکتی جو وہ چاہتے ہیں تو وہ مجھے تم سے الگ کر دیں گے اور میں ایسا سوچوں بھی تو مر جاؤں گی۔” وہمسلسل رو رہی تھی۔
”آمنہ تم محبت ہو میری ، محبت …”اعزاز نے پُریقین لہجے میں کہا ۔
”کل بھی میں یہی کہتا تھا اور آج بھی ،بلکہ ہمیشہ یہی کہوں گا کہ تم میری زندگی ہو، مجھے ان باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور ہاں مجھے پتا ہے تمہیں یہ باتیںپریشان کررہی ہیں تم فکر نہ کرو میں امی سے بات کروں گا۔” اعزاز کے حوصلہ دینے پر آمنہ کو ذرا تسلی ہوئی، اعزاز کی قربت ہمیشہ اسے اسی طرح حوصلہ دیتی تھی۔
٭…٭…٭
آمنہ کا سگھڑ پن اور گھر کی عمدہ تربیت کے باعث وہ اپنے سارے خاندان کے لوگوں کی محبت دونوں ہاتھوں سے سمیٹ رہی تھی ۔مختار شیرازی بھی روز بہ روز اپنی بہو کے اخلاق اور اس کا خیال رکھنے کی عادت سے متاثر ہو رہا تھا۔ جب بھی مختار شیرازی کی طبیعت ناساز ہوتی ،آمنہ اپنی ڈاکٹری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فوراًاس کی تیمارداری میں جُت جاتی جس سے مختار اسی وقت بھلا چنگا ہو جاتا۔
مختار شیرازی اور آمنہ کے درمیان برف پگھلنے سے گھر میں ایک اطمینان کا ماحول تو ضرو ر تھا مگر سوال وہیں کا وہیں ۔
”کیا بات کرو گے تم اعزاز؟” آمنہ کی آواز ذرا بلند ہوئی۔
”تم فکر مت کرو i’ll take care of it ” اعزاز کے لہجے میں ایک ثبات تھا۔
”ارے یہ آنسو پونچھو اور give me a sweet smile like you always do come on.” اعزاز کی آنکھوں میں بھی نمی تھی۔ آمنہ روتے روتے مسکرائی اور اعزاز کو دیکھ کر ہنس دی۔
آمنہ کی مسکراہٹ میں اس کے اندر کی شفافیت واضح طور پر دیکھی جاسکتی تھی۔
”thanks my girl.” اعزاز بھی بھیگی آنکھوں سے مسکراتے ہوئے بولا۔
”اور میرے ہوتے ہوئے تمہیں کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔” اعزاز نے معاملے کی مکمل ذمہ داری لیتے ہوئے کہاتو آمنہ مسکرا کر صرف سر ہلا کر رہ گئی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

پہچان — ماہ وش طالب

Read Next

محرومی — کوثر ناز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!