بانجھ — علی حسن سونو

یونیورسٹی میں دو سال کیسے گزرے پتا ہی نہ چلا۔ تعلیمی، غیرنصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں میں مشغول اعزاز اور اس کے ساتھی اپنی زندگی کے حسین ترین لمحات کو اپنی یادداشت میں محفوظ کر رہے تھے۔ ساتھی طلبا سے محبت کا جذبہ سب کے دلوں میں گھر کر چکا تھا ۔ اس دوران اعزاز کے دل میں آمنہ کے لیے محبت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی تھی۔ آمنہ کی نفاست اور کم گوئی اعزاز کے اندر مسلسل بولتی رہتی تھی۔ وہ خود سے باتیں کرتا اور آمنہ کے تصور میں گھنٹوں بیٹھا آسمان کو تکتا رہتا۔ ایسے میں اسے یہ خیال ہی نہ رہا کہ وہ ایک ایسے قبیلے سے تعلق رکھتا ہے کہ جہاں محبت نہیں صرف حکومت ہے۔ وہاں شاید اسے اپنی محبت کو تکمیل تک پہنچانے کی مہلت ہی نہ دی جائے مگر آمنہ تھی کہ اعزاز کے رگ و پے میں سرایت کر چکی تھی اور وہ اس کی محبت میں کسی بھی صورتِ حال کا سامنا کر نے کے لیے مکمل طور پر تیار تھا۔
٭…٭…٭
آمنہ روز بہ روز مزید پرکشش اور وضع دار ہوتی جار ہی تھی اور اعزاز کا دل بے قابو ہوتا جا رہا تھا۔
کنوارے جذبے بہت شفاف ہوا کرتے ہیں، ہر مقصدیت سے پاک۔ فقط دیدار ہی کل حیات کا اثاثہ ہوتا ہے۔
اعزاز نے ایک دن فیصلہ کیا کہ آمنہ سے اپنے دل کی بات کہہ ڈالے گا۔
وہ سمیسٹر کا آخری دن تھا اور سب طلبا اپنے گھروں کو جا رہے تھے۔ اعزاز نے موقع پاتے ہی آمنہ کو جالیا۔ وہ اپنے کسی کام میں مصروف تھی جب اسے اعزاز کی آواز آئی۔ ”آمنہ اگر آپ کو بُرا نہ لگے تو ہم کچھ دیر بات کر سکتے ہیں؟”آمنہ اس کی اچانک آمد پر ذرا چونک گئی۔ پھر یہ سوچ کر مطمئن ہوگئی کہ دو سال کی شناسائی کے بعد کچھ دیر بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ اس نے لمبا سانس لیتے ہوئے کہا۔
”جی کیوں نہیں؟”
شاید وہ جانتی تھی کہ اعزاز کیا کہنے والا ہے۔ آمنہ بھی اعزاز کے حوالے سے خوش گمان تھی اور شاید اعزاز سے زیادہ سوچتی تھی مگر کچھ تو تھاجو اُسے روکے ہوئے تھا۔
کیفے ٹیریا میں بیٹھے اعزاز اور آمنہ نے بات کا آغاز کیا تو اعزاز نے خود کو ہمت دلائی اور گویا ہوا، وہ سیدھا مدعا پر آیا:
”دیکھو آمنہ !ہم زندگی کے جس حصے میں ہیں، ہمیں ناسمجھ نہیں کہا جا سکتا اور شاید اسی لیے میں اور تم آج اپنے اپنے شہر سے باہر پڑھنے آئے ہیں۔ اگرچہ اس تمہیدی گفت گو سے آمنہ کا دم گھٹ رہا تھا مگر اعزاز کی باتیں اس کے ذہن میں امکانات اور نا ممکنات کے تمام دروا کر رہی تھی۔ اچانک آمنہ اعزاز کی بات کاٹتے ہوئے بولی :
” اعزاز آپ جو کہنا چاہتے ہیں صاف صاف کہیے، میرا خیال ہے کہ اب ہم ایک دوسرے کو اتنا جانتے ہیں کہ آپ تمہید کے بغیر بھی بات کر سکیں۔” آمنہ کی اس بات سے اعزاز کو ذرا تسلی ہوئی تو وہ گلا صاف کرتے ہوئے بولا:
”آمنہ… میں تم سے محبت کرتا ہوں۔چاہتا ہوں کہ ساری عمر تمہارے ساتھ بسر کروں۔”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

اگرچہ آمنہ کو اس بات کا اندازہ تھا مگر اچانک اس بات پر وہ ہوا میں معلق سی ہوگئی۔ یا یوں کہہ لیں کہ وہ زندگی اور موت کے درمیان معلق ہو گئی۔ اعزاز کے اظہار نے اسے دشت سے گلشن میں لاکھڑا کیا۔ وہ اندر سے تو رو رہی تھی مگر چہرے پر صرف اطمینان واضح تھا۔ اعزاز اپنا اظہار کر کے کافی ہلکا محسوس کر رہا تھا اور اب سوالیہ نظروں سے آمنہ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ خاموشی کا یہ دورانیہ جب زیادہ بڑھ گیا تو اعزاز کی بے چینی بڑھنے لگی۔
”کچھ بولو آمنہ! کیا میرا سوال اتنا مشکل ہے کہ تمہاری کم گوئی، خاموشی میں بدل گئی ہے۔ میں تم سے محبت کرتا ہوں اور خود کو تمہارے نام کر چکا ہوں۔ تمہارا جو بھی فیصلہ ہے سر آنکھوں پر۔”اس کے انداز میں بے چارگی کا عنصر موجود تھا۔
آمنہ کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلِ رواں جاری ہوا۔ اعزاز کو محسوس ہوا روتی ہوئی وہ اور حسین لگتی ہے۔ بھیگی آنکھیں، بھینچے ہوئے ہونٹ اور گورے ہاتھوں سے اپنے آنسوؤں کو پونچھنا، اعزاز کے لیے جنت نظیر منظر تھا مگر اپنی محبت کو بے بسی کے عالم میں دیکھ کر وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولا:
آمنہ! میں تم سے محبت کرتا ہوں مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم بھی مجھ سے محبت کرتی ہو۔ اگر تمہیں برا لگا ہے تو I’m Sorry لیکن پلیز رو مت، چُپ ہو جاؤ۔ ہم کسی اور دن بات کر لیں گے۔” اعزاز یوں بات کر رہا تھا جیسے آمنہ کو کھونے کے ڈر میں مبتلا ہے۔اچانک آمنہ نے اعزاز کا ہاتھ تھاما اورآنکھیں اٹھاکر اعزاز کی طرف دیکھنے لگی ۔ اعزاز کے چہرے پر پوری کائنات کی حیرانی سمٹ آئی اور وہ اپنے ہاتھ کو آمنہ کے ہاتھ میں سمٹا دیکھ کر دوبارہ کرسی پہ بیٹھا جیسے اس کا ہاتھ قدرت کے ہاتھ میں آگیا ہو۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کا ہاتھ آمنہ کے ہاتھ میں ہے۔ آمنہ نے آنسو پونچھ کر اپنی بات کا آغاز کیا۔
”اعزازاگر میں تم سے یہ کہوں کہ میں پہلے دن سے تمہاری محبت میں گرفتار ہوں تو کیا کہو گے؟”
اعزاز جو ہر وقت بولتا رہتا تھاجس کے پاس الفاظ کا ذخیرہ بہت وسیع تھاْ اور جو فقرہ بازی میں طاق تھا اس لمحے بے زبان، ششدر اور پوری طرح سے حیرت کا مجسمہ بنا ہوا تھا۔
”بولو!” آمنہنے اعزاز کا ہاتھ جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔ آمنہ کے چہرے پر ایک عجیب سا اعتماد تھا۔جیسے اعزاز کو حکم دے رہی ہو۔
میں! میں… میں… آمنہ کیا یہ سچ ہے؟ اعزاز ابھی تک بے یقینی کی کیفیت میں تھا۔
”ہاں! سوفیصد سچ ہے۔” وہ پُر اعتماد لہجے میں بولی۔
اعزاز کی آنکھوں میں فرحت کی تمام کرنیں در آئیں وہ خوشی کے مارے اُچھلنے ہی والا تھا کہ آمنہ نے اُسے روکا۔ ”اعزاز ہم کیفے میں ہیں۔ Control Yourself
اس کی بات سن کر اعزاز ذرا جھینپ سا گیا، لیکن اس کا دل ابھی بھی بلیوں اچھل رہا تھا۔
”تو کیا میں گھر جا کر اماں ابا سے بات کروں؟ تم بھی کرو گی نا کہ ڈگری ختم ہوتے ہی ہم ایک دوسرے کے ہو جائیں گے۔”
”اعزاز !میری بات سنو۔” آمنہ یک لخت سنجیدہ ہوگئی۔
”شادی کرنا چاہتے ہو مجھ سے؟”
”تو اور کیا؟ تم میری شریکِ حیات ہو گی تو میں دنیا کا سب سے خوش قسمت انسان ہوں گا۔” اس کے اس سوال پر اعزاز حیران ہوئے بنا نہ رہ سکا۔
” کیوں کرنا چاہتے ہو مجھ سے شادی؟ اپنا بیک گراؤنڈ جانتے ہو نا؟” آمنہ کے لہجے میں کسی جہان دیدہ کا سا تاثر تھا۔
”اچھی طرح جانتا ہوںآمنہ مگر سچ کہوں توتمہاری محبت میں مجھے کسی کی پروا نہیں ہے۔ میرے ماں باپ میرے لیے سب کچھ ہیں اوروہ میری بات کبھی نہیں ٹالیں گے۔ اعزاز کے لہجے میں ایک ٹھوس پن تھا۔
”تمہارے ابا کو تو وارث چاہیے،ہے نا۔”
٭…٭…٭
”ہاں! وہ تو ظاہر ہے مگر یہ ساری تفصیل کیا آج ہی پوچھو گی۔ مجھے میری محبت ملی ہے۔ مجھے جشن تو منا لینے دو۔” اعزاز اس قسم کے سوالات پر حیران ہوئے بنا نہ رہ سکا۔
”نہیں اعزاز یہ باتیں آج ہی ہو جائیں تو اچھا ہے۔ شاید تم بھی مجھ سے اتنی محبت نہیں کرتے جتنی محبت میں تم سے کرتی ہوں۔ تم سے الگ ہونا میرے لیے ناقابلِ تصور ہے۔ تم میری زندگی ہو، مگر اعزاز جب خاندانوں کا ملاپ ہوتا ہے تو بہت سے معاملات کو دیکھنا پڑتا ہے۔ ” آمنہ کے لہجے میں ایک عجیب سا خلا تھا۔
”کون سے معاملات؟ کیا کمی ہے ہم دونوں میں جو ہمارے خاندانوں کو کوئی Issue ہو گا؟ اعزاز زِچ ہوکر بولا۔
”اعزاز تمہارے خاندان کو وارث چاہیے۔ تمہیں اپنی محبت اور میں…”وہ تیز لہجے میں کہتے کہتے رکی۔
”کیا میں …”اعزاز نے زور دے کر پوچھا ۔
”میںطلاق یافتہ ہوں اعزاز اور اس طلاق کی وجہ یہ تھی کہ میں…”وہ کہتے کہتے رکی۔ اعزاز پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔
”کیا میں؟” اعزاز نے پتھرائی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا:
”میں… قدرتی بانجھ ہوں ،میں کسی کے گھر کی زینت تو بن سکتی ہوں مگر کسی کے بچے کی ماں نہیںاور اعزاز یہ معاشرہ کسی بانجھ کو قبول نہیں کرتا۔”آمنہ کے لہجے میں ایک کرب تھا۔ ایک عورت کے لیے اپنی سب سے بڑی خامی بتانے کا دکھ اس وقت اس کے لہجے میں صاف دیکھا جاسکتا تھا۔
اعزاز جوکہ یہ سب خاموشی سے سن رہا تھا، آمنہ کے چپ ہونے پر ہلکا سا مُسکرایا اور پھر گویا ہوا:
” بس؟”طلاق یافتہ ہو،بانجھ ہو، تو…” آمنہ اس کی بات سن کر یوں حیران ہوئی جیسے اس کے لیے یہ سب کوئی معنی نہ رکھتا ہو۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

پہچان — ماہ وش طالب

Read Next

محرومی — کوثر ناز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!